امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل:
امام ابن تیمیہامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ۲۰۷)
’’اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں ۔‘‘
ثعلبی کہتے ہیں : جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو قرض اور امانتوں کی ادائیگی کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ میں ہی رہنے دیا۔ جس رات آپ غار کی جانب چلے اور کفار قریش نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ آپ کی سبز چادر اوڑھے آپ کے بستر پر سو رہیں ۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’یاعلی !میری سبز حضرمی چادراوڑھ کر میرے بستر پر لیٹ جاؤ کفار آپ کو کوئی تکلیف نہیں دے سکیں گے۔ان شاء اللہ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تعمیل ارشاد کردی۔ اللہتعالیٰ نے جبرئیل و میکائیل کی طرف وحی کی کہ میں نے تمہارے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا ہے؛ اور ایک کی عمر دوسرے سے طویل کردی ہے ۔ بتائیے تم میں سے کون اپنی زندگی کا حصہ دوسرے کو عطا کرتا ہے۔ دونوں نے جینے کو پسند کیا اور کوئی بھی ایثار نہ کر سکا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ تم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقلید نہ کی۔میں نے محمد و علی کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا ۔ علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سو گئے اور ان کے لیے یہ ایثار قبول کیا۔ چنانچہ اللہتعالیٰ نے دونوں کوزمین پر اترنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ جبرائیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر کے پاس کھڑے ہو گئے اور میکائیل پاؤں کے پاس۔ جبرائیل نے کہا: ’’ شاباش! اے علی! تیرے جیسا اور کون ہو گا۔ اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عازم مدینہ تھے کہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی:﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ۲۰۷)
’’اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی جب آپ مکہ سے غار ثور کی طرف جارہے تھے۔اس فضیلت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ منفرد ہیں ۔بنا بریں یہ واقعہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ کی فضیلت پرزبردست دلیل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ ہی امام ہیں ۔ (شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا۔)
جواب:اس کا جواب کئی طرح سے ہے :
پہلی بات: ....ہم شیعہ مصنف سے اس واقعہ کی صحت نقل کا مطالبہ کرتے ہیں ۔کسی روایت کو ثعلبی یا اس کے امثال کا نقل کر لینا حجت کے لیے کافی نہیں ؛ بلکہ ان کی طرف منسوب کرنے میں ہی اس کا جھوٹ ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ان کی روایت باتفاق شیعہ و اہل سنت حجت نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ بہت ہی متأخر مرسل ہے۔اور روایت کی اسناد ذکر نہیں کرتا۔اس کی روایات میں اسرائیلیات ؛اسلامیات اور ایسے امور پائے جاتے ہیں جن کا موضوع ہونا صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اگرچہ ثعلبی خود جان بوجھ کر جھوٹ نہ بھی بولتا ہو۔
دوسری بات:....یہ روایت باتفاق محدثین و مفسرین اور سیرت نگاروں کے جھوٹ ہے ۔[ اس لیے اسے بطور حجت پیش نہیں کیا جاسکتا ]۔اور حدیث کی صحت جاننے کے لیے ان ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
تیسری بات:....حقیقت یہ ہے کہ جب نبی کریم رضی اللہ عنہ نے ہجرت فرمائی۔ قریش مکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قطعی طور پر بے تعلق تھے۔ ان کا اصلی مطلوب نبی کریم رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ قریش مکہ نے انعام بھی انہی دو حضرات کو پکڑنے والے کے لیے مقر ر کیا تھا ۔ جیسا کہ روایات صحیحہ میں مذکور ہے؛ جن کی صحت میں کسی بھی عاقل کو ادنیٰ شک بھی نہیں ہوسکتا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ کے بستر پر سلانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ قریش اس وہم میں مبتلا رہیں کہ آپ گھر ہی میں ہیں اور آپ کی تلاش نہ کریں ۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہاں پر سوئے ہوئے پایا ؛ توقریش پر اپنی ناکامی کا راز فاش ہوا۔ تاہم انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ ایذاء نہ پہنچائی۔ ان سے صرف یہ دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔یہاں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کی بھی طرف سے ہر گز کوئی خوف ہی نہیں تھا۔خوف تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں تھا۔ اگر انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی پرخاش ہوتی تو وہ انھیں ضرور تکلیف پہنچاتے۔ کفار مکہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تعرض نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا۔توپھرکون سی جاں نثاری اور قربانی کا ذکر کیا جارہاہے ؟
جس شخص نے قصداً آپ کا دفاع کیا؛ اور اس کے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے؛وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ،خود آپ کو بھی خطرہ لاحق تھا ۔ مگر پھر بھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے نقطہ خیال سے دوران سفر کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوتے اور کبھی پیچھے۔[البخاری باب ھجرۃ النبی رضی اللّٰہ عنہم و اصحابہ (ح:۳۹۰۶)سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۲) مسند احمد(۱؍۳۴۸) ] جب آپ کو پیچھے تلاش کرنے والوں کا خیال آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیتے ؛ اور جب آگے گھات کا خیال آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوجاتے۔ اور آگر نکل کر خبر لیتے کہ کہیں کوئی انتظار میں یا گھات لگائے ہوئے تو نہیں ۔جب کوئی خوف محسوس ہوتا توآپ چاہتے کہ یہ پریشانی انہی پر آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ آئے ۔ [سیرۃ النبی لابن کثیر(۱؍۴۵۶) ، مستدرک حاکم(۳؍۶) دلائل النبوۃ(۲؍۴۷۶) عن محمد بن سیرین مرسلاً]
کئی صحابہ نے مختلف لڑائیوں میں اپنی جانیں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار کی تھیں ۔ بعض شہید ہوئے اور بعض کے اعضاء تک شل ہو گئے۔ مثلاً طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ کٹ گیا تھا۔[صحیح بخاری، کتاب المغازی باب ﴿ اِذْ ہَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْکُمْ....﴾ (حدیث:۴۰۶۳)۔]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ مکہ مکرمہ میں بستر پر لیٹنا جان نثاری تھی ؛ اور اس میں فضیلت کا پہلو موجود ہے تب بھی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہیں ؛ بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں آپ کے شریک ہیں ۔اس لیے کہ دوسرے کئی صحابہ کرام نے بھی کئی مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان نثاری کا حق اداکیا ہے ۔ تو پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی خطرہ ہی نہ تھاتو یہ کیسے خصوصیت ہوئی؟
سیرت ابن اسحاق میں ہے -حالانکہ ابن اسحاق کا شمار متولین علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جانب میلان رکھنے والوں میں ہوتا ہے - اس نے ہجرت کی رات مکہ مکرمہ میں اپنے گھرسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خروج اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر لیٹانے کا واقعہ لکھا ہے؛[وہ لکھتا ہے ] : جبرائیل امین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا آج رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں ۔ رات کے اندھیرے میں کفار آپ کے دروازے پر جمع ہو کر انتظار کرنے لگے کہ جب سو جائیں تو آپ پر حملہ کردیں ۔
ان کو کھڑے دیکھ کر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا:’’ میرے بستر پر میری سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سو جائیں کفار آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘ [سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۲) ، مسند احمد(۱؍۳۴۸)]
واقعہ ہجرت:
محمد بن کعب القرظی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
’’ جب کفار مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں جمع ہوئے تو ان میں ابوجہل بھی تھا۔ اس نے کہا: محمد کہتا ہے:’’ اگر تم ان کی پیروی کرو گے تو عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے اور موت کے بعد جب دوبارہ زندہ ہو گے توتمھیں ایسے باغات ملیں گے جیسے اردن کے باغات ہیں اور اگر تم نے ان کی پیروی نہ کی تو وہ تمھیں ہلاک کر ڈالیں گے اور بعد از موت جب اٹھائے جاؤ گے تو تمھیں آگ میں جلایا جائے گا۔‘‘
راوی کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور مٹھی بھر مٹی ان پر دے ماری، پھر فرمایا: ہاں میں یوں ہی کہتا ہوں ۔ابوجہل کو مخاطب کرکے فرمایا: تو بھی آگ میں جلنے والوں میں سے ایک ہے۔ اللہتعالیٰ نے کفار کی قوت بصارت سلب کرلی اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ یہ مٹی ان سب آدمیوں کے سر پر پڑی۔کوئی بھی ایسا نہیں بچا جس کے سر پر وہ مٹی نہ پڑی ہو ۔ اور وہ ادھر ادھر منتشر ہو گئے۔ پھر ایک شخص ان کے پاس آیا؛جوان کے ساتھ نہیں تھا؛ اس نے کہا :’’تم یہاں کس کا انتظار کر رہے ہو؟ ‘‘
انھوں نے کہا :’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا۔‘‘
وہ کہنے لگا: ’’ اللہ کی قسم! محمد جا چکے ہیں تم اپنے مقصد میں ناکام ہوئے۔ جاتے جاتے وہ تمہارے سروں پر خاک بھی جھونک گئے ہیں ۔‘‘کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے۔
چنانچہ کفارمیں سے ہر آدمی نے اپنا ہاتھ اپنے سر میں ڈالا تو دیکھا کہ ان کے سر پر مٹی پڑی ہے۔ پھر وہ گھر میں ادھر ادھر جھانکنے لگے کیا دیکھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ آپ کی چادر اوڑھے سوئے ہیں ۔ وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر تانے سو رہے ہیں ۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے؛ تو کفار نے کہا:’’ اس شخص نے سچی بات کہی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے چلے گئے ہیں ۔ تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾ [الأنفال:۳۰] [سیرۃ ابن ہشام‘ ص:۲۲۱]
’’اوریادکریں جب کافر آپ کے خلاف تدابیرکر رہے تھے کہ آپ کو قید کریں یا قتل کریں یا مکہ سے نکال دیں وہ تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیر کر رہاتھا اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
نیز یہ آیت بھی نازل ہوئی : ﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ﴾ [الطور ۳۰]
’’یا وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس پر ہم زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں ۔‘‘
اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی غرض نہیں تھی۔‘‘
مذکورہ صدر روایت سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا تھا کہ:
’’ میرے بستر پر میری سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سو جائیں کفار آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘
بنا بریں حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کی روشنی میں ہر طرح سے مسرور و مطمئن تھے۔
چوتھی بات:....خود اس روایت میں اس کے جھوٹ ہونے کے وہ دلائل موجود ہیں جو کسی پر بھی مخفی نہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ ملائکہ کے بارے میں ایسی باطل باتیں نہیں کہی جاسکتیں جو ان کی شایان شان نہ ہوں ۔ان میں سے کوئی ایک بھوکا نہیں تھا کہ دوسرے کو کھانے میں ترجیح دیتا۔اور نہ ہی ان کے لیے کوئی خوف تھا کہ امن والا خوف والے کوترجیح دیتا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف یہ بات کیسے منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا : تم میں سے کون ہے جو اپنے ساتھی کی زندگی کوترجیح دے؟ نیز فرشتوں کے مابین اصل میں کوئی مواخات نہیں ۔ بلکہ جبریل کی اپنی خاص ذمہ داری ہے ؛ میکائیل کی اپنی خاص ذمہ داری ہے جو جبریل کی نہیں ۔جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آتا ہے ؛کہ وحی لیکر آنا اور مدد لیکر نازل ہونا جبریل امین کی ذمہ داری ہے۔ اور روزی اور بارش پہنچانا میکائیل کی ذمہ داری ہے۔
پھر اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کرہی دیا تھا کہ ان میں سے ایک کی عمر دوسرے کی نسبت زیادہ ہوگی؛ توپھر ویسے ہی ہونا تھا جیسے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیاتھا۔پھر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فیصلہ بھی ہوگیا تھا؛ اور اب مشیت الٰہی یہ تھی کہ دونوں کا لمبی عمر پر اتفاق ہوجائے ؛ یا ایک اپنی عمر کا کچھ حصہ دوسرے کو دیدے اور دونوں اس پر راضی بھی ہوں توپھر اس میں کسی کلام کی کوئی گنجائش باقی نہیں ۔ اور اگر وہ اس پر راضی نہیں تھے ‘ بلکہ اس کوناپسند کرتے تھے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کے لیے کیسے یہ مناسب ہوسکتا ہے کہ وہ فرشتوں کے مابین بغض و عداوت ڈالے۔- یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اس بات کو سچ تسلیم کر لیا جائے ۔ مگر اللہ تعالیٰ ایسی بودی اوربیہودہ باتوں سے بہت بلند و بالا اور منزہ ومبرا ہے - ۔
پھر اگر اس بات کو - بطور مناظرہ - باطل ہونے کے باوجود صحیح بھی مان لیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کی تخلیق آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بہت پہلے ہوئی ہے ؛ اس وقت سے لیکر ہجرت کے بعد تک اس معاملہ میں تاخیر کیوں کی گئی ؟ اگر واقعی کچھ ایسا ہی تھا تو پھر ان فرشتوں کی پیدائش کے فوراً بعد اس کے بارے میں فیصلہ ہوجانا چاہیے تھا۔
پانچویں بات:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے مواخات کی روایت بھی صحیح نہیں اور نہ ہی آپ نے کسی دوسرے سے کوئی مواخات قائم کی۔اس بابت جوکچھ روایت کیا جاتا ہے ؛ وہ سب جھوٹ اور دروغ گوئی ہے۔ حدیث مواخات جو اس بارے میں روایت کی جاتی ہے ؛ اس میں ضعف و بطلان کے باوجود واضح ہے کہ مواخات مدینہ طیبہ میں ہوئی تھی۔ امام ترمذی نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ جبکہ مکہ میں مواخات کی روایت ہر دو لحاظ سے باطل ہے۔ لیکن یہ بھی اس روایت میں کہیں بھی جانثاری ؛ یا اپنی زندگی پر ترجیح دینے کا کوئی ذکر نہیں ۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔
چھٹی بات:....جبریل و میکائیل دو فرشتوں کا ایک انسان کی حفاظت کے لیے نازل ہوناسب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنی مخلوق میں سے کسی کی حفاظت اس کے بغیر بھی کرسکتا ہے ۔ ان فرشتوں کا بدر کے دن جنگ کرنے کے لیے اور اس طرح کے بڑے او راہم ترین امور میں نازل ہونا ثابت ہے۔ اگر انہوں نے کسی ایک آدمی کی حفاظت کے لیے نازل ہونا تھا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے نازل ہوتے ؛ جن کی تلاش میں ہر طرف سے کفار امڈ پڑے تھے اور ان دونوں حضرات یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر انہوں نے انعام بھی مقرر کر رکھے تھے۔اور یہی دو حضرات کفار پر سخت گراں بھی تھے۔
ساتویں بات: ....علاوہ ازیں یہ آیت ﴿مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہٗ﴾ سورۂ بقرہ میں ہے جو بالاتفاق مدنی سورت ہے۔سورت بقرہ ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی۔ہجرت تک اس کا نزول نہیں ہوا تھا۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی اور مشرکوں نے آپ کو پکڑنا چاہا تو آپ نے اپنا مال ان کو دے دیا اور خود مدینہ پہنچ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھ کر فرمایا:
’’ ابو یحییٰ! یہ سودا سود مند ہے۔‘‘ ( یہ واقعہ متعدد تفاسیر میں مذکور ہے) [تفسیر ابن جریر (۴؍۲۴۸)، مستدرک حاکم(۳؍۴۰۰،۴۹۸) امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔لیکن اس کو ذکر نہیں کیا۔ طبری نے اپنی تفسیر میں یہ کلام حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : یہ آیت صہیب کے بارے میں ناز ل ہوئی۔ اور ابن کثیر نے بھی اپنی (]
یہ ممکن ہے ؛ اس لیے کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مفسرین کرام کا اختلاف ہے کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ اور اس سے کون مرادہے ؟ بعض نے کہا ہے : یہ آیت مہاجرین اور انصار کے بارے میں نازل ہوئی؛ اور اس سے مراد مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں ۔اور پھر یہ قول سند کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔
حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے:’’یہ آیت بعض خاص لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔‘‘
امام قاسم رحمہ اللہ سے روایت ہے؛ وہ کہتے ہیں :ہم سے حسین نے حدیث بیان کی؛ ان سے حجاج نے ان سے ابن جریج نے ؛وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں ؛ عکرمہ کہتے ہیں :’’یہ آیت حضرت صہیب اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہما کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب بدر والوں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا مگر وہ ان سے چھوٹ کر بارگاہ نبوی میں پہنچ گئے۔ جب واپس لوٹے تو کفار پھر آڑے آئے؛ یہ واقعہ مرّ الظہران نامی جگہ پر پیش آیا۔آپ پھر ان سے چھوٹ گئے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔جب کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر والوں نے پکڑ لیا تھا۔ آپ نے فدیہ دے کر ان سے رہائی حاصل کرلی۔ پھر ہجرت کرتے ہوئے نکل پڑے کہ قنفذ بن نفیل بن جدعان نے آپ کو پکڑ لیا۔ آپ کے پاس جو مال رہ گیاتھا ؛ وہ اسے دیکر جان چھڑائی۔ علاوہ ازیں آیت کے الفاظ عام ہیں اور رضائے الٰہی؛اور اطاعت و جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنی جان کو فروخت کرنے والا ہر شخص اس میں داخل ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ بیعت الرضوان میں شمولیت کرنے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت کی بیعت کی تھی۔[تفسیر میں یہ کہا ہے۔تفسیر قرطبی میں ہے: کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرکے آئے تو قریش کے کچھ لوگوں نے ان کا پیچھا اور تعاقب کیا۔ تو وہ اپنی سواری سے نیچے اتر پڑے اور ترکش میں موجود تمام تیر نکال لیے، اور اپنی قوس تیرکمان پکڑ لی اور فرمایا : تم جانتے ہو میں تم سے زیادہ تیر چلانے میں ماہر ہوں ، اللہ تعالیٰ کی قسم !تم مجھ تک نہیں پہنچ سکو گے یہاں کہ میں اپنے ترکش کے سارے تیر پھینک دوں ۔ بعد ازاں میں اپنی تلوار سے لڑوں گا جب تک اس کی کوئی شے میرے ہاتھ میں باقی رہی پھر اس کے بعد تم جو چاہو کرو۔ تو انہوں نے کہا : ہم تجھے نہیں چھوڑ سکتے کہ تم غنا اور خوشحالی کی حالت میں ہم سے چلے جاؤ حالانکہ تم ہمارے پاس محتاج بن کرافلاس کی حالت میں آئے تھے۔ لیکن اگر تم مکہ میں موجود اپنے مال پر ہماری راہنمائی کرو تو ہم تمہارا راستہ چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے اسی مال کی شرط پر آپ سے معاہدہ کیا، تو آپ نے اسے پورا کردیا۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی : [ تفسیر طبری، ج ۳، ص۱۹۵] اور یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت اس کے بارے میں نازل ہوئی جو جنگ میں گھس جاتا ہے، ہشام بن عامر قسطنطینہ میں لشکر میں داخل ہوئے اور خوب قتال کیا، یہاں تک کہ شہید کردیے گئے توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ﴾ اور حضرت ابو ایوب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ [تفسیر طبری، جلد ۳، صفحہ ۳۹۵] اور یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت غزوہ رجیع کے شہدا کے بارے میں نازل ہوئی اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے : وہ مہاجرین وانصار ہیں ۔ بخاری ح:۴۱۶۹، مسلم، ح: ۱۸۶۰]
یہ قول ابن عباس اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ ان کا فرمان ہے کہ: اس آیت کے نزول کا سبب حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تھے ۔‘‘
آٹھویں بات:....اس آیت کے الفاظ مطلق ہیں ۔ اس میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ہر وہ انسان جو اپنے آپ کو اللہ کی رضامندی کے لیے بیچ ڈالے وہ اس آیت کے عموم میں داخل ہے۔ اور سب سے پہلے جو اس میں داخل ہونے کے بڑے حق دار ہیں وہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ انہوں نے اپنی جانوں کو اللہ کی راہ میں پیش کر دیا تھا؛ اور اس وقت میں ہجرت کی جب دشمن ہر طرف سے آپ کی تلاش میں تھا۔
نویں بات:....رافضی مصنف کا یہ قول کہ : ’’ یہ فضیلت کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکی ۔یہ آپ کی افضلیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘
جواب:....اس میں شبہ نہیں کہ غار میں جو فضیلت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئی اس میں وہ دیگر صحابہ سے منفرد ہیں ۔ کتاب و سنت اور اجماع اس پر دلالت کرتے ہیں ۔جو فضیلت آپ کے لیے ثابت ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اوردوسرے صحابہ کرام کے لیے بھی ثابت نہیں ۔پس اس بنا پر آپ ہی امام ہوئے۔ اسی طرح واقعہ ہجرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف بھی صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ برحق تھے۔ یہ وہ سچی دلیل ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ (التوبۃ:۴۰)
’’ اگر تم اس کی مدد نہیں کرتے تو اللہ نے اس کی مدد کی تھی جب کفار نے ان کو نکال دیا تھا وہ دو اشخاص کا دوسرا تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے اور اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
اس طرح کی فضیلت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے کبھی بھی ہرگزحاصل نہیں ہوسکی ۔ بخلاف اپنی جان نثار کرنے کے۔ اس لیے کہ کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جانثاری کا حق ادا کیا تھا۔ ہر مسلمان پر ایسا کرنا واجب ہے ۔ یہ صرف اکابر صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
فضیلت خصوصیات کی بنا پر ثابت ہوتی ہے ؛ مشترکہ امور کی بنا پر نہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی نے کوئی تکلیف نہیں دی۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں دیگر صحابہ کو جسمانی تکلیفیں پہنچی تھیں ۔
کبھی ان کو مارا گیا ؛ کبھی زخمی ہوئے ؛ اور کئی حضرات قتل کردیئے گئے۔ پس جو اپنی جان پیش کرے اور اسے اذیت بھی دی جائے وہ اس آدمی سے بڑھ کر ہے جو اپنی جان تو پیش کرے ؛ مگر اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں ؛ وہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشترک ہیں ۔ بخلاف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے؛ آپ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔ اور ان میں سے اکثر صرف آپ کے ساتھ ہی خاص ہیں ‘ ان میں کو ئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ہے۔ یہ مسئلہ کافی تفصیل طلب ہے؛ جسے دوسرے مواقع پر تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔