دور جاہلیت میں آپ رضی اللہ عنہ کا مقام
علی محمد الصلابیدور جاہلیت میں آپؓ کا مقام
دورِ جاہلیت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا شمار اپنی قوم کے افضل ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپ جاہ و حشمت کے مالک، شیریں کلام، شرم و حیا کے پیکر اور مال دار تھے۔ قوم کے لوگ آپ سے بڑی محبت کرتے اور توقیر و تعظیم کا برتاؤ کرتے۔ جاہلیت میں بھی کبھی کسی بت کو سجدہ نہ کیا اور نہ برائی کا ارتکاب کیا۔ اسلام سے قبل شراب نہ پی۔ آپ کہا کرتے تھے یہ عقل کو زائل کرتی ہے اور انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلند ترین عطیہ عقل ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اس کے ذریعہ سے بلندی حاصل کرے اس کو برباد کرنے کی کوشش نہ کرے۔ دورِ جاہلیت میں بھی لہو و لعب کی محفلیں اور گیت و سنگیت آپ کو اپنی طرف مائل نہ کر سکے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی ستر دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔
(موسوعۃ التاریخ الاسلامی: احمد شلبی: جلد، 1 صفحہ، 618)
اللہ تعالیٰ سیدنا عثمانؓ پر اپنی رحمتیں نچھاور فرمائے آپ نے اپنا تعارف ہمارے لیے آسان کر دیا ہے، آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے کبھی گیت نہیں گایا، نہ اس کی تمنا کی، اور جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوا، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں کبھی شراب نوش کی، اور جاہلیت و اسلام میں کبھی زنا کے قریب نہ گیا۔‘‘
(حلیۃ الأولیاء: جلد، 1 صفحہ، 60 ۔61 صحیح)
جاہلیت میں عرب کے علوم و معارف کا آپ کو بخوبی علم تھا، امثال، انساب اور تاریخ سے آپ بخوبی واقف تھے جو جاہلیت کے اہم ترین علوم میں سے تھے۔ آپ نے روئے زمین پر سیر و سیاحت بھی کی۔ شام اور حبشہ کا سفر کیا، غیر عرب اقوام سے ملے اور ان کے حالات و اطوار سے واقفیت حاصل کی جس کی معرفت اور لوگ حاصل نہ کر سکے۔
(عبقریۃ عثمان، العقاد: صفحہ، 72)
اپنی تجارت کو اچھی طرح سنبھالا جو آپ کو وراثت میں ملی تھی آپ کے سرمایہ میں برکت ہوئی اور بنو امیہ کے بڑے لوگوں میں آپ کا شمار ہونے لگا جنہیں پورے خاندانِ قریش میں مقام حاصل تھا۔ مکہ کا جس میں حضرت عثمانؓ پروان چڑھے، مال کی بنیاد پر لوگوں کی قدر کرتا تھا۔ بھائیوں اور اولاد افراد اور خاندان کی اساس پر لوگ مرعوب ہوتے تھے۔ اس طرح سیدنا عثمانؓ کو اپنی قوم میں انتہائی بلند مقام ملا اور لوگوں کی بے حد محبت حاصل ہوئی۔ لوگوں کو سیدنا عثمانؓ سے آپ کے صفات حمیدہ کی وجہ سے جو محبت تھی اس سلسلہ میں دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ آپ کے دور میں عربی خواتین اپنے بچوں کو لوریاں سناتے ہوئے کہتی تھیں:
احبک والرحمن حب قریش لعثمان
(موسوعۃ التاریخ الاسلامی: جلد: 1 صفحہ، 619)
ترجمہ: ’’رحمٰن کی قسم میں تجھ سے اس قدر محبت کرتی ہوں جیسے قریش کے لوگ عثمان سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
جس وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اسلام کی دعوت پیش کی اس وقت آپ کی عمر چونتیس (34) سال تھی۔ اس دعوت پر آپ نے کوئی لیت و لعل نہ کیا بلکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر فوراً لبیک کہا اور سابقین اولین کی سنہری فہرست میں داخل ہو گئے۔ چنانچہ ابو اسحاق کا بیان ہے: ابو بکر، علی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔
(السییرۃ النبویۃ، ابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 287۔ 289)
اس طرح مردوں میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے آپ تھے۔ شاید یہ سبقت اس واقعہ کا نتیجہ تھی جو شام سے لوٹتے ہوئے آپ کے ساتھ پیش آیا تھا، چنانچہ جس وقت آپ اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن کی تلاوت فرمائی، اسلامی حقوق سے آگاہ کیا اور اللہ کے انعام کا ان سے وعدہ کیا تو دونوں فوراً ایمان لے آئے اور آپ کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں ابھی تازہ تازہ شام سے آیا ہوں، جس وقت ہم معان اور زرقاء کے درمیان تھے نیند کی سی کیفیت تھی اتنے میں ایک منادی نے نداء دی: اے سونے والو! اٹھو! احمد مکہ میں نمودار ہو چکے ہیں۔ پھر ہم جب مکہ پہنچے تو آپ سے متعلق ہم نے سنا۔ (الطبقات، ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 55)
بلاشبہ یہ واقعہ انسان کے اندر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان جس وقت اپنے سامنے اس کا مشاہدہ کرے گا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کون ہو گا جو اس نبی کی دعوت قبول کرنے میں تردد کرے جس سے متعلق اپنے شہر پہنچنے سے قبل سنے، اور جب پہنچے تو حقائق اس کے سامنے ہوں اور جو کچھ سنا تھا اس کی تصدیق کر رہے ہوں؟ انسان کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو ایسی صورت میں حق کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ جس قدر بھی مخالفت کا اظہار کرے لیکن اس کا ضمیر برابر اس کے سینے میں اصرار کرتا رہے گا یہاں تک کہ ایمان لے آئے یا اسی حالت میں مر جائے اور ضمیر سرزنش اور ملامت سے نجات پائے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام میں جلدی کرنا وقتی جذبے یا حماقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یقین محکم اور تصدیقِ کامل سے تھا جس میں شک کا گزر نہیں تھا۔
(جولۃ تاریخیۃ فی عصر خلفاء الراشدین: صفحہ، 302)
آپ نے اس جدید دعوت سے متعلق اچھی طرح اور پورے سکون کے ساتھ غور و فکر کیا جو مسائل کے حل میں آپ کی عادت تھی آپ نے اپنے غور و فکر کے نتیجہ میں دیکھا کہ یہ رذائل سے نجات اور فضائل کے حصول کی دعوت ہے، توحید کی دعوت اور شرک سے انتباہ ہے، عبادت کی دعوت اور غفلت سے تنبیہ، اخلاق فاضلہ کی ترغیب اور اخلاق رزیلہ سے ترہیب ہے۔ پھر آپ نے اپنی قوم کو دیکھا وہ بتوں کی پوجا کرتے، مردار کھاتے، پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے، حرام چیزیں، خوں ریزی وغیرہ کو حلال سمجھتے تھے۔
[(مرویات العہد المکی، عادل عبدالغفور: جلد، 2 صفحہ، 805)
اس کے برعکس نبی کریمﷺ صادق و امین تھے، ہر چیز کے حامل اور ہر طرح کے شر سے دور تھے، کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی خیانت نہیں کی اور پھر آپ لوگوں کو اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی دعوت دے رہے ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور نماز، روزہ کے داعی ہیں اور اللہ کے ماسوا کی عبادت سے منع کر رہے ہیں۔
(فتنۃ مقتل عثمان، د۔ عبداللہ الغبان: جلد، 1 صفحہ، 37)
لہٰذا آپ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا، اور اپنے ایمان میں قوت و ہدایت، صبر و استقامت، عظمت و رضا، عفو و کرم، احسان و رحم، جود و سخا کے ساتھ آگے بڑھے، اہلِ ایمان کے ساتھ مواساۃ اور کمزوروں سے تعاون کرتے رہے یہاں تک کہ اسلام کی جڑیں مضبوط ہو گئیں۔
(عثمان بن عفان، صادق عرجون: صفحہ، 53)
آپ کی خالہ سعدیٰ بنتِ کریز نے آپ کے اسلام سے متعلق یہ اشعار کہے ہیں:
ھدی الله عثمانا بقول الی الھدی
وارشد والله یھدی الی الحق
ترجمہ: ’’میری ہدایت کی دعوت سے اللہ نے سیدنا عثمانؓ کو ہدایت دی اور انہیں خیر کی طرف رہنمائی کی، اور اللہ ہی حق کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘
فتابع بالرأی السدید محمدا
و کان برأی لا یصد عن الصدق
ترجمہ: ’’چنانچہ درست رائے کے ساتھ آپ نے محمدﷺ کی پیروی کی اور کسی بھی رائے میں سچ بات کہنے سے ہرگز گریز نہ کرتے تھے۔‘‘
وانکحہ المبعوث بالحق بنتہ
فکان کبدر مازج الشمس فی الافق
ترجمہ: ’’حق کے ساتھ مبعوث کردہ شخصیت (محمدﷺ) نے اپنی بیٹی کو آپ کے عقد نکاح میں دیا۔ اس طرح آپ کا وجود اس بدر کامل کی طرح ہو گیا جو سورج کے ساتھ گھل مل کر افق عالم پر نمودار ہوا ہو۔‘‘
فداؤک یا ابنِ الہاشمیین مہجتی
وانت امین اللّٰه ارسلت للخلق
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 210)
ترجمہ: ’’اے ہاشمیوں کے سپوت! تجھ پر میری جان قربان، تو اللہ کا امین تھا، اور مخلوق کی رہبری کے لیے بھیجا گیا تھا۔‘‘