ام المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
جعفر صادقام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
نام: خدیجہ
والد: خویلد بن اسد
والدہ: فاطمہ بنتِ زائدہ
سنِ پیدائش: 55 سال قبل از بعثت
قبیلہ: قریش شاخ بنو اسد
زوجیتِ رسولﷺ: 15 سال قبل از بعثت
سنِ وفات: 10 نبوی ہجرت سے تین برس قبل
مقامِ تدفین: جنت المعلیٰ مکہ مکرمہ
کل عمر: 65 سال تقریباً
نام و نسب:
آپ کا نام خدیجہؓ تھا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے خدیجہ بنتِ خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی بن کلاب آپؓ کا نسب چوتھی پشت میں آپﷺ کے ساتھ مل جاتاہے آپؓ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسد سے تھا، بنواسد اپنی شرافت، ایمانداری اور کاروباری معاملات کی وجہ سے میں لوگوں کی نگاہ میں قابل عزت و احترام تھا۔
بچپن:
آپؓ بچپن ہی سے نہایت نیک تھیں اور مزاجاً شریف الطبع خاتون تھیں، مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحم دلی، غریب پروری اور سخاوت آپؓ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں آپؓ طاہرہ یعنی پاک دامن کے لقب سے مشہور تھیں۔ مالدار گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے دولت و ثروت بھی خوب تھا علاوہ ازیں حسن صورت اور حسن سیرت میں بھی اپنی ہم عصر خواتین میں ممتاز تھیں۔
ازدواجی زندگی:
پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی، ابو ہالہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی، کچھ عرصہ بعد وہ بھی چل بسے تو دنیوی معاملات سے دل برداشتہ ہو کر زیادہ وقت حرمِ کعبہ میں گزارتیں۔ جس کے باعث آپؓ کے مزاج مبارک میں تقدس و شرافت مزید بڑھ گئی۔ قریش کے نامور صاحبِ ثروت سرداروں نے آپؓ کو پیغامِ نکاح بھجوایا لیکن سیدہ خدیجہؓ نے سب کو یکسر انکار کر دیا۔
تجارت میں دلچسپی:
آپؓ کے والد محترم خویلد بن اسد اعلیٰ درجے کے تاجر تھے، جب بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچے تو انہوں نے اپنا سارا کاروبار اپنی بیٹی سیدہ خدیجہؓ کے سپرد کردیا۔ تیس سال کی عمر میں آپؓ تجارت سے وابستہ ہوئیں۔ جس کی وجہ آپؓ حجازِ مقدس میں سب سے زیادہ مالدار خاتون شمار ہوتی تھیں آپؓ کی تجارت کا سامان عرب سے باہر ملکِ شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا۔ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اکیلا سیدہ خدیجہؓ کا سامان تجارت مکہ کے سارے تجارتی قافلوں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔
طریقہ تجارت:
خاتون ہونے کی وجہ سے تجارتی معاملات میں سفر کرنا دشوار بلکہ ناممکن تھا اس لیے کسی کو بطورِ نیابت سامان تجارت دے کر روانہ کرتیں۔ آپؓ کے تجارتی نمائندوں کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے اُن کی اُجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو اُنہیں دی جاتی نفع و نقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا۔ یا نفع میں اُن کا کوئی حصّہ، نصف، تہائی یا چوتھائی وغیرہ مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے جب کہ نقصان کی صورت میں ساری ذمہ داری سیّدہ خدیجہ الکبریٰؓ پر ہوتی۔
سیدہ خدیجہؓ کی درخواست:
تقریباً دس تک معاملات یونہی چلتے رہے یہاں تک کہ آپؓ کے کانوں تک نبی کریمﷺ کی امانت و صداقت کا چرچا پہنچا۔ آپؓ نے جناب نبی کریمﷺ سے سامان تجارت لے کرملکِ شام جانے کی درخواست کی جسے آپﷺ نے قبول فرما لیا۔ اس دوران آپؓ نے اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ وہ آپﷺ کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے۔
تجارت میں نفع اور میسرہ کا مشاہدہ:
اس تجارتی سفر میں اللہ تعالیٰ نے بے حد برکت دی اور نفع پہلے سے بھی دوگنا ہوا، چونکہ میسرہ دورانِ سفر قریب سے آپﷺ کے حُسنِ اخلاق، معصومانہ سیرت کا تجربہ اور معاملہ فہمی کا مشاہدہ کر چکا تھا اس لیے اس نے برملا اس کا اظہار کرتے ہوئے ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کوبتلایا کہ آپﷺ نہایت معاملہ فہم، تجربہ کار، خوش اخلاق، دیانت دار، ایماندار، شریف النفس اورمدبر شخص ہیں۔ آپﷺ نے واپس پہنچ کر تجارتی معاملات کا عمدہ حساب پیش کیا، جس سے ام المومنین سیدہ خدیجہؓ بہت متاثر ہوئیں۔
سیدہ خدیجہؓ ام المومنین بنتی ہیں:
ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کی طرف سے رسول اللہﷺ کی خدمت میں یعلیٰ بن اُمیہ کی بہن نفیسہ بنتِ امیہ پیغامِ نکاح لے کر گئیں۔ نفیسہ کا بیان ہے کہ میں آپﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ آپﷺ نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نادار اور خالی ہاتھ ہوں، کس طرح نکاح کر سکتا ہوں؟ میں نے کہا کہ اگر کوئی ایسی عورت آپ سے نکاح کرنے کی خواہش مند ہو جو ظاہری حسن و جمال اور طبعی شرافت کے علاوہ دولت مند بھی ہو اور آپ کی ضروریات کی کفالت کرنے پر بھی خوش دلی سے آمادہ ہو تو آپ اس سے نکاح کر لینا پسند کریں گے؟ آپﷺ نے دریافت کیا کہ ایسی کون خدا کی بندی ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا خدیجہ بنتِ خویلدؓ۔
مقامِ نکاح:
آپﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے ذکر کیا، انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تو آپﷺ نے نفیسہ کو جواب دے دیا کہ اگر وہ اس کے لیے آمادہ ہیں تو میں بھی راضی ہوں۔ نفیسہ نے آ کر سیدہ خدیجہؓ کو اس کی اطلاع دی، پھر باہمی مشاورت سے طے ہوگیا کہ آپ اپنے خاندان کے بزرگوں کو لے کر فلاں دن میرے یہاں آ جائیں،چنانچہ سیدنا حمزہؓ اور ابوطالب اور خاندان کے دیگر اہم شخصیات آپؓ کے مکان پر آئے۔ اُس وقت سیدہ خدیجہؓ کے والد زندہ نہ تھے وہ پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ اس لیےآپؓ کے چچا عمرو بن اَسد اور خاندان کے دیگر بزرگ شریک تھے۔
بوقتِ نکاح:
خطبہ نکاح خواجہ ابو طالب نے پڑھایا جس میں نبی کریمﷺ کے عمدہ اوصاف، جلالت شان اور عزت و مقام کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا:
ان ابن اخی محمد بن عبداللہ لا یوزن بہ رجل الا رجح بہ شرفا نبلا و فضلاً وعقلاً وان کان فی المال قل فان المال ظل زائل و امر حائل۔
ترجمہ: میرے بھتیجے محمدﷺ کی یہ شان ہے کہ کوئی بھی شخص شرافت، دانائی، فضیلت اور عقلمندی میں ان سے بڑھ کر نہیں۔ باقی رہا مال و دولت یہ سایے کی طرح ڈھلنے اور بدل جانے والی چیز ہے۔
ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کے چچا عمرو بن اَسد کے مشورہ سے 500 درہم مہر مقرر ہوا بوقتِ نکاح آپﷺ کی عمر مبارک 25 سال جب کہ سیدہ خدیجہؓ کی عمر چالیس برس تھی۔ آپﷺ کا یہ پہلا نکاح تھا جو اعلان نبوت سےتقریبًا 15 سال پہلے ہوا۔
برے ماحول میں نیک فطرت:
ذرا آپ تصور کریں عرب کے اس فحش معاشرے میں جہاں صدیوں سے شراب و کباب اور عورت کی آبرو سرِ عام بکتی ہو، ایسے میں 25 سال تک جوانی کی اُمنگوں اور جذبات کے ولولوں کو ضبطِ نفس کی پاکیزگی میں ڈھانپ کر کسی نوجوان دو شیزہ سے نہیں بلکہ 40 سالہ بیوہ عورت سے شادی کر کے پاکبازی کی ایسی مثال قائم کی جس کی مثال نہ پہلے ملتی ہے نہ بعد میں، دونوں کا کردار اتنا اجلا اور شفاف کہ دشمن تک کو اخلاقی پہلو پر منفی بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
سیدہ خدیجہؓ کی وجہ انتخاب:
ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کی رسول اللہﷺ سے گفتگو ان الفاظ میں موجود ہے:
انی رغبت فیک لحسن خلقک و صدق حدیثک
ترجمہ: میں نے آپ کو آپ کے حسن اخلاق اور زبان کی سچائی کی وجہ سے اپنے لیے منتخب کیا۔
فضائل و مناقب:
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، سیدہ خدیجہؓ خود بیان کرتی ہیں کہ جبرائیل امین رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ یہ خدیجہؓ آرہی ہیں ان کے ساتھ ایک برتن ہے اس میں سالن اور کھانا ہے، جب وہ آپں کے پاس آجائیں تو ان کو ان کے پروردگار کی طرف سے سلام پہنچایئے اور میری طرف سے بھی، اور ان کو خوشخبری سنایئے جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے ایک گھر کی، جس میں نہ شور و شغب ہوگا اور نہ کوئی زحمت و مشقت ہو گی۔
حافظ ابنِ حجرؒ نے لکھا ہے: ان ذالک کان وھو بحرا۔
ترجمہ: یعنی جبرائیل علیہ السلام کی یہ آمد اس وقت ہوئی تھی جب رسول اللہﷺ غارِ حرا میں تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ غارِ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی پہلی آمد کے بعد کا ہے۔
اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ مکہ کی سب سے زیادہ دولت مند اور بوڑھی خاتون ہونے کے باوجود حضورﷺ کے لئے کھانے پینے کا سامان گھر پر تیار کر کے مکہ سے اڑھائی تین میل پیدل سفر کرنا بلکہ غارِ حرا کی بلندی تک چڑھنا کس قدر دشوار معلوم ہوتا ہے؟ چونکہ یہ عمل خلوص دل سے تھا اس لیے پروردگارِ عالم اور جبرئیل امین علیہ السلام کے سلام پہنچتے ہیں۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر خدیجہ بنتِ خویلدؓ ہیں۔
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کی مجھے رسول اللہﷺ کی ازواج میں سے کسی پر ایسا رشک نہیں آیا جیسا کہ سیدہ خدیجہؓ پر آیا حالانکہ میں نے ان کو دیکھا نہیں، لیکن آپﷺ ان کو بہت یاد کرتے اور بکثرت ان کا ذکر فرماتے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ بکری ذبح فرماتے، پھر اس میں سے حصے بنا کر سیدہ خدیجہؓ سے میل جول اور محبت رکھنے والیوں کے ہاں بھیجتے۔
بسا اوقات میں کہہ دیتی دنیا میں بس سیدہ خدیجہؓ ہی ایک عورت تھیں، اس پر آپﷺ فرماتے کہ خدیجہ تو خدیجہ تھی اور ان سے میری اولاد ہوئی۔
نوٹ: آپﷺ کی ساری اولاد ام المومنین سیدہ خدیجہؓ سے ہے سوائے سیدنا ابراہیمؓ کے یہ سیدہ ماریہ قبطیہؓ کی بطن سے پیدا ہوئے۔ جن کا مستقل تذکرہ کتاب کے آخر میں آ رہا ہے۔
اولاد:
محدثین نے لکھا ہے کہ نبی کریمﷺ کی عمر مبارک جب 30 برس کی ہوئی یعنی رشتہ ازدواج کے تقریباً 5 سال بعد آپﷺ کے پہلے صاحب زادے قاسم پیدا ہوئے، انہیں کے نام پر رسول اللہﷺ نے اپنی کنیت ابو القاسم رکھی، ان کاچھوٹی عمر میں ہی انتقال ہوگیا، ان کے بعد آپؓ کی سب سے بڑی صاحب زادی سیدہ زینبؓ پیدا ہوئیں، ان دونوں کی پیدائش اعلانِ نبوت سے پہلے ہوئی، اس کے بعد صاحبزادے عبداللہ کی ولادت ہوئی، ان کی پیدائش دورِ نبوت میں ہوئی اسی لئے ان کو طیب اور طاہر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا انتقال بھی کم سنی میں ہوگیا، پھر ان کے بعد مسلسل تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام سیدہ رقیہؓ، سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ رکھے گئے۔
امتیازی خصوصیات:
نمبر1: کڑے حالات میں تسلی:
نکاح کے تقریباً 15برس بعد اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو شرف ختمِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپﷺ پر شدید حالات آئے تو اس کڑے وقت آپﷺ کو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و توفیق سے سیدہ خدیجہؓ ہی سے ملی۔
آپﷺ اعلانِ نبوت سے پہلے تنہائی میں عبادت کرنے کے لئے غارِ حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور سیدہ سیدہ خدیجہؓ آپﷺ کے لئے کھانے پینے کا سامان تیار کر کے دے دیا کرتی تھیں۔ آپﷺ حرا میں کئی کئی راتیں ٹھہرتے، اللہ کی یاد میں مصروف رہتے، کچھ دنوں بعد تشریف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے۔
ایک دن حسب معمول آپﷺ غارِ حرا میں مشغول عبادت تھے کہ جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمایا کہ اِقْرَأْ یعنی پڑھیئے! آپﷺ نے فرمایا: مَا اَنَا بِقَارِیْ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل امین نے آپﷺ کو پکڑ کر اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے بھینچ کر چھوڑا اور عرض کی اِقْرَأْ (پڑھیئے) آپ نے بھر وہی جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرائیل امین نے دوبارہ آپﷺ کو اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے دبا کر چھوڑا اور پھر پڑھنے کو کہا۔ آپﷺ نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں فرشتے نے پھر تیسری مرتبہ آپﷺ کو پکڑ کر اپنے سے چمٹایا اور خوب زور سے دبا کر آپﷺ کو چھوڑ دیا اور خود پڑھنے لگے:
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَ۞ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ۞ اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُ۞ الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ۞ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡ۞
(سورة العلق: آیت 1 2 3 4 5)
یہ آیات مبارکہ سن کر آپﷺ نے یاد فرما لیں اور ڈرتے ہوئے گھر تشریف لائے سیدہ خدیجہؓ سے فرمایا: زملونی زملونی مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو۔انہوں نے آپﷺ کو کپڑا اوڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی کیفیت ختم ہوئی، آپﷺ نے سیدہ خدیجہؓ کو واقعہ سنایا،فرمایا: لَقَدْ خَشِيْتُ عَلىٰ نَفْسِی۔
ترجمہ: مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہو رہا ہے
عموماً خواتین ایسے حالات میں گھبرا جاتی ہیں اورتسلی دینےکے بجائے پریشان کن باتیں شروع کر دیتی ہیں لیکن آپؓ ذرہ برابر بھی نہ گھبرائیں اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا، اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۔
ترجمہ: خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کس و ناتواں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال و اخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
نمبر 2: اسلام کی خاتونِ اوّل ہونے کا اعزاز:
سیدہ خدیجہؓ نزولِ وحی کے ابتدائی ایام میں آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مکہ کی پوری آبادی میں موحد صحیح العقیدہ نصرانی اور توریت و انجیل کے بڑے عالم و عامل تھے، انہوں نے آپﷺ سے غارِ حرا میں جبرائیل علیہ السلام اور نزولِ وحی کی سرگزشت سن کر پختہ یقین کے ساتھ آپﷺ کے نبی ہونے کی بات کہی تو آپؓ نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پوری امت میں سیدہ خدیجہؓ سب سے پہلے آپﷺ کے برحق نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
نمبر 3: اپنی دولت رسول اللہﷺ پر لٹا دی:
سیدہ خدیجہؓ کو اللہ کریم نے دولت مندی کی نعمت سے بھی خوب نوازا تھا، آپؓ نے اپنی پوری دولت اور اپنے غلام سیدنا زیدؓ کو آپﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور آپﷺ کو دین اسلام کی اشاعت کے مقدس مشن میں گھریلو معاشی افکار سے بے نیاز کر دیا۔
نمبر 4: بت پرستی سے بیزاری:
اہلِ مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے، لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دو چار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی، ان میں ایک ام المومنین سیدہ خدیجہؓ بھی تھیں۔
نمبر 5: شِعْبِ ابی طالب میں تین سالہ محصوری:
مشرکینِ مکہ نے نبی کریمﷺ کی دعوتِ اسلام کو روکنے کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے یہاں تک کہ انہوں نےآپﷺ کا اور آپﷺ کے خاندان بنو ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھی جنہوں نے اگرچہ آپﷺ کی دعوتِ اسلام کو قبول نہیں کیا تھا لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپﷺ کی کسی درجہ میں حمایت کرتے تھے سوشل بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور آپﷺ کے وہ قریبی رشتہ دار بھی شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے، کھانے پینے اور بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا اور یہ بائیکاٹ تین سال کے عرصہ تک محیط رہا، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑا۔ ایامِ محصوری کے اس تین سالہ دور میں سیدہ خدیجہؓ نبی کریمﷺ کے ہمراہ رہیں۔
نمبر6: آپؓ کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح نہیں کیا:
نبی کریمﷺ نے جب ام المومنین سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی اس کے بعد تقریباً 24 سال تک آپؓ زندہ رہیں، اس پورے 24 سالہ دور میں رسول اللہﷺ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔
وفات:
ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ 24 سال تک نبی کریمﷺ کی جانثار، اطاعت گزار اور وفا شعار بیوی بن کر زندہ رہیں اور ہجرت سے 3 برس قبل 64 سال کی عمر پا کر تقریباً ماہِ رمضان المبارک کی 10 تاریخ کو مکہ معظمہ میں وفات پا گئیں۔ حضورﷺ نے جحون (جنت المعلی) میں آپؓ کو اپنے ہاتھوں قبر مبارک میں اتارا۔ چونکہ اس وقت تک نمازِ جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لئے ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی۔