فصل:....اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت اور ان کے لیے استغفار کا حکم
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت اور ان کے لیے استغفار کا حکمجب سلف صالحین نے یہ بات کہی کہ اﷲتعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے تو شیعہ نے اس کے برعکس ان کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں فرمایا ہے:(( لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ)) ....’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔‘‘ [سبق تخریجہ]اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ صحابہ کو گالی دینا حرام ہے۔ استغفار کا حکم اور گالی دینے کی مخالفت یہ دونوں عام حکم ہیں ، کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’مسلم کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ [سبق تخریجہ] قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:﴿ یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَائٍ عَسٰی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْاِِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الظَّالِمُوْنَ﴾ (الحجرات:۱۱)
’’ اے ایمان والو!مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں ۔اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ‘‘یہاں پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مذاق اڑانے؛طعنہ زنی کرنے اور عیب جوئی کرنے اور نام بگاڑنے سے منع فرمایا ہے۔لمز: عیب اور طعنہ زنی کو کہتے ہیں ۔جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ ﴾ (التوبۃ:۵۸)’’اور بعض لوگ صدقات کے بارے میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں ۔‘‘یعنی آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں اور عیب لگاتے ہیں ۔نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ﴾ [التوبۃ ۷۹]’’جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :﴿وَلَا تَلْمِزُوا اَنفُسَکُمْ ﴾ [الحجرات ۱۱]’’ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ۔‘‘اورفرمان الٰہی ہے:﴿لَوْلَا اِِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاَنفُسِہِمْ خَیْرًا ﴾ [النور۱۲]’’اسے سنتے ہی مومن مردوں اورعورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿فَتُوْبُوْ آاِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ﴾ [البقرۃ ۵۴]’’ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ ﴾ [الہمزۃ ۱]’’بڑی ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے۔‘‘ھمز: کہتے ہیں : شدت کے ساتھ عیب جوئی اور طعنہ زنی کرنے۔ اسی سے ہے : ھمز الأرض بعقبہ: زمین کو اپنی ایڑی سے شدید ٹھوکر لگانا۔اسی سیھمزۃ : بھی ہے ؛ یعنی سینے میں ٹھوکر لگانا ۔ جب کہ عموماً مؤمنین کے لیے استغفار کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ [محمد۱۹]’’اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی ۔‘‘یقیناً اللہ تعالیٰ نے مردہ مؤمنین کے لیے نماز جنازہ پڑھنے[اوردعائے مغفرت و رحمت کرنے کا حکم دیا ہے]۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منافقین کے لیے بھی استغفار کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کو اس سے روک دیا گیا۔[1][1] فِی البخارِیِ2؍96 ؛ کتاب الجنائِزِ باب ما یکرِہ مِن الصلاۃِ علی المنافِقِین، وہو فِی سنن الترمذی النسائِیِ وأحمد وانظر کلام الألبانِیِ علیہِ فِی سِلسِلۃِ الأحادِیثِ الصحِیحِ 3؍123پر ہر وہ مسلمان جس کے بارے میں منافق ہونے کا علم نہ ہو‘اس پر نماز جنازہ پڑھنا اوراس کے لیے استغفار کرنا جائز ہے۔ بھلے ان میں کوئی بدعات اور فسق و فجور کے کام بھی پائے جاتے ہوں ۔ لیکن ہر ایک پر واجب نہیں ہے کہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں ۔اس لیے کہ بدعت کی طرف دعوت دینے والے یاکھلے عام گناہ کا کام کرنے والی کی نماز جنازہ نہ پڑھنے میں باقی لوگوں کے لیے تنبیہ اور ڈراوا ہے۔پس نماز جنازہ پڑھنا ترک کرنا ان لوگوں کے لیے جائز ہے جن کا جنازہ چھوڑنا لوگوں کے لیے عبرت اور ڈر کا باعث ہوسکتا ہو۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرلینے والے کے بارے میں فرمایا:’’اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ [2] [2] فِی سنن الترمذی2؍265، ِکتاب الجنائِزِ باب ما جاء فِیمن یقتل نفسہ لم یصلِ علیہِ، فِی سننِ النسائِیِ4؍53 ِ؛ کتاب الجنائِزِ باب ترکِ الصلاِ ۃ علی من قتل نفسہ۔ اور ایسے ہی ایک مال ِ غنیمت میں خیانت کر نے والے کے بارے میں فرمایا:’’اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ [3] [3] فِی سننِ أبِی داود3؍91 ؛ کِتاب الجِہادِ باب فِی تعظِیمِ الغلولِ، سنن النسائِیِ 4؍52 ِکتاب الجنائِزِ، باب الصلاِۃ علی من غل، سنن ابنِ ماجہ2؍950 ِ؛ کتاب الجِہادِ باب الغلولِ، والحدِیث فِی المسندِ ط۔ الحلبِیِ5؍192 ؛ المستدرِک2؍127 ؛ وقال الحاِکم: صحِیح علی شرطِ الشیخینِ، وضعف الألبانِی الحدِیث فِی ِإرواِ الغلِیلِ 3؍174 ؛ وتکلم علیہِ۔ایسے ہی جب حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : آپ کا بیٹا ساری رات نہیں سویا ؛ توآپ نے پوچھا : ’’ کیا بدہضمی سے ؟ انہوں نے کہا: ہاں بدہضمی کی وجہ سے ۔‘‘ آپ نے فرمایا: اگروہ مرجاتا تو میں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتا ؛ کیونکہ ایسا کرنا خود کشی ہے ۔‘‘ [یعنی اتنازیادہ کھالینا جس سے بد ہضمی ہو]۔علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ کیا ایسے لوگوں پر صرف امام عام جنازہ پڑھنا ترک کرے گا؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ یا پھر یہ نماز کا ترک کرنا صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا؟یا ان کے حق میں بھی مشروع ہے جن سے نماز جنازہ پڑھانے کا کہا جائے۔ اورپھر یہ اختلاف بھی ہے کہ یہ حکم امام بمعنی حاکم کے لیے ہے ؛ یا پھر امام بمعنی فرض نمازیں پڑھانے والے امام کے ہے۔ اور پھر کیا یہ حکم صرف ان دو قسم کے لوگوں کے ساتھ خاص ہے یا ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے۔ یہ مسائل اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں ۔بہر کیف اسلام کا اظہار کرنے والے مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں :یا تووہ سچا مؤمن ہوگایا پھر منافق ہوگا۔ جس کے منافق ہونے کا پتہ چل جائے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اس کے لیے استغفار کیا جائے۔ اور جس کے نفاق کا علم نہ ہو اس کی نمازجنازہ بھی پڑھی جائے اور اس کے لیے استغفار بھی کیا جائے۔جب کسی ایک آدمی کو کسی کے منافق ہونے کا علم ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھے اس کی نماز جنازہ وہ پڑھے جسے اس کے نفاق کاعلم نہ ہو۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس انسان کی نماز جنازہ نہیں پڑھا کرتے تھے جس کی نماز جنازہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نہ پڑھیں ۔اس لیے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کوان منافقین کے بارے میں بتایا تھا جو آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔یہ بھی جان لیناچاہیے کہ گناہ کی وجہ سے دنیا میں انسان کو ملنے والی عقوبت اور اس کی نماز جنازہ اور اس کے لیے استغفار کے مابین کو ئی منافات نہیں ہے۔ اس لیے کہ چور ؛ زانی؛ اور شرابی پر حد قائم کی جاتی ہے؛ مگر اس کے باوجود ان کے لیے دین و دنیا کی بھلائی کی دعا کی جاتی ہے؛ اور ان کے ساتھ احسان کیا جاتاہے ۔اس لیے کہ سزائیں مجرمین کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں ۔یہ ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارادہ رحمت و احسان سے صادر ہوئی ہیں ۔اس لیے ایسے جرائم پر لوگوں کو سزا دینے والے کو چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ رحمت اور احسان کا قصد کرے۔ جس طرح کہ باپ اپنے بچے کو ادب کی نیت سے سزا دیتا ہے ۔ اور طبیب کا مقصد مریض کا علاج ہوتا ہے ۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں تمہارے لیے والد کی منزلت پر ہوں ۔‘‘ [1][1] فِی سننِ أبِی داود1 کِتاب الطہارۃِ باب کراہِیۃِ استِقبالِ القِبلۃِ عِند قضائِ الحاجۃِ، و فِی: سننِ النسائِیِ1؍36؛ کتاب الطہارِۃ، باب النہیِ عنِ الِاستِطابِۃ بِالروثِ، وفِی سنن ابنِ ماجہ1؍114 ِ؛ کتاب الطہارۃِ، باب الِاستِنجاِء بِالحِجارۃِ، المسندِ ط۔ المعارِفِ 13؍100، 139 وصحح أحمد شاِکر الحدِیثینِاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُہُمْ ﴾ [الأحزاب ۶] ’’پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ۔‘‘حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے :﴿ھو اب لہم ﴾’’آپ ان کے والد کی طرح ہیں ۔‘‘ اس پر وہ مشہور قرأت بھی دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی تبع میں ہی اہل ایمان کی مائیں تھیں ۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باپ کی طرح نہ ہوتے تو آپ کی ازواج مطہرات ماؤں کی طرح نہ ہوتیں ۔ انبیائے کرام علیہم السلام دین کے طبیب ہیں ؛ اور قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے سینے کی بیماریوں کی شفا بنا کر نازل فرمایا ہے۔ پس جو کوئی لوگوں میں شرعی سزائیں نافذ کرے؛ وہ اس کا نائب یا خلیفہ ہوتا ہے۔ تو اسے چاہیے کہ سزادینے میں مجرم کے ساتھ ویسے ہی سلوک کرے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ﴾
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ۔‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ تم لوگوں میں سے ان کے لیے بہترین لوگ ہو‘ تم انہیں زنجیروں میں جکڑ کر لاتے ہو تاکہ انہیں جنت میں داخل کرسکو۔‘‘ [1]اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ یہ امت بنی آدم میں سے بہترین امت ہے ۔ اس لیے کہ یہ لوگوں کو سزا دیتے ہیں انہیں قتل کرتے ہیں اور قیدی بناتے ہیں ؛ اس سے مقصود ان کے ساتھ احسان کرنا ہوتا ہے ۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی کرامت اور اس کی رضامندی کی طرف نکالنا ہے تاکہ جنت میں داخل ہوسکیں ۔یہی حال اہل بدعت روافض اور دوسرے لوگوں پر رد کا ہے ۔ اگر اس سے مقصود ان کے لیے حق بیان کرنا ‘ اور خلق کی ہدایت اوران کے لیے رحمت اور ان کے ساتھ احسان نہ ہو تو پھر یہ عمل نیکی کا کام نہیں ہوسکتا۔ جب انسان بدعت یا گناہ کی مذمت میں سختی کرتا ہے تو اس سے مقصود اس گناہ یا بدعت میں موجود برائی کا بیان کرنا ہوتاہے تاکہ لوگ اس سے بچ سکیں ۔جیسا کہ نصوص کی وعید میں پایا جاتا ہے۔ کبھی کسی گناہ کی وجہ سے کسی انسان سے لاتعلقی اختیار کی جاتی ہے ‘ اس سے مقصود اس انسان کو خبردار کرنا اورگناہ و بدعت سے روکنا ہوتا ہے۔ یہ اس کے لیے رحمت اور احسان کا مظہر ہے تشفی اور انتقام کا مظہر نہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ سے قطع تعلقی کرلی تھی۔جب غزوہ سے پیچھے رہ جانے والے اپنا اپنا عذر پیش کرنے کے لیے آئے ؛ اور جھوٹی قسمیں اٹھاکر عذر پیش کرتے رہے ۔ مگر یہ تین حضرات آئے اور انہوں نے سچ بولا ؛ اور انہیں قطع تعلقی کی سزا سے دوچار ہونا پڑا۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی سچائی کی برکت سے ان کی توبہ قبولی فرمائی۔