صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقوش کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت
سہیل اختر قاسمیصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقوش کو مشعلِ راہ بنانے کی ضرورت
اشاعتِ اسلام، کار تبلیغ و دعوت، اسلامی تعلیمات کو وسیع و رائج کرنے اور تعلیمِ قرآن و حدیث میں عظیم ملی و شرعی فریضہ کی ادائیگی میں جدوجہد، تگ و دو اور سعی پیہم کرنے والوں میں سب سے اعلیٰ، ارفع اور قائدانہ مقامِ طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے، اسلام کا کل کائنات میں پھیلا ہوا موجودہ عالمی منظر نامہ، وسیع دائرہ اسلام اور لا محدود جغرافیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنہری کوششوں، مخلصانہ کاوشوں، بے پناہ جدوجہد اور مساعی جمیلہ کی رہین منت ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ، اشاعتِ اسلام کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بنیادی رول، اساسی کردار اور قائدانہ جدوجہد کے تذکرہ کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت خود اسلامی تاریخ اس وقت تک اسلامی نہیں جب تک کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لا فانی نقوش سے مملوء نہ ہو، اس بناء پر اشاعتِ اسلام کے حوالے سے تذکرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تاریخ اسلام کا ایک لازمی عنصر اور لازمی عنوان ہوتا ہے، اشاعتِ اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دعوتی مقام، تبلیغی کردار اور ان کی ذاتی و اجتماعی جدوجہد اور تگ و دو، تاریخ اسلام کا وہ اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر اسلامی تاریخ کی معنویت مبہم بلکہ موہوم ہو جاتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسلامی دعوت و تبلیغ کی راہ میں حائل موانع، سخت ترین دشواریوں، طبقاتی کشمکشوں اور ڈھیر سارے، بے شمار مسائل و مصائب کے باوجود، بھرپور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، اسلام کی تبلیغ اور اس کے نشر و اشاعت کی غرض سے تن من سب کی بازی لگا دی اور ایسی قربانیاں دیں کہ آج تک اقوامِ عالم ان کی سرفروشی، جان کاری، برد باری، تحمل مزاجی، مال و زر کی قربانی اور ان کے جذبہ فدا کاری کو فراموش نہیں کر سکی جب کسی ملک، کسی علاقے یا کسی شہر میں اسلام کے پسِ منظر اور مسلمانوں کے وجود کی بابت، کوئی واقعاتی پہلو قابلِ وضاحت ہوتا ہے یا کہیں اسلام کے حوالے سے اس کے مبلغین اور اشاعتِ اسلام کے نقباء کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تبلیغ دین اور اشاعتِ اسلام کی راہ میں لا متناہی اور بے شمار جدوجہد کی لکیریں درج اور زبردست مساعی و قربانیوں کی داستانِ عزیمت و دعوت ثبت ہوتی ہیں۔
ان تاریخی حقائق اور معروضی سچائیوں سے واقفیت کے بعد یہ سوال، کہ اشاعتِ اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام کیا ہے؟ ایک فاضل اور لا یعنی سوال ہو گا کیونکہ اس موقع پر اشاعتِ اسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام اور کردار کے امتیاز کے حوالے سے کسی با معنی عنوان کی تعیین اور اسلامی تبلیغ میں ان کی بے مثال شراکت و حصہ داری کی تحدید، کمالِ تحقیق و تدقیق اور تفتیش و مکمل احاطے کے باوجود ادھوری اور ناقص ہی رہے گی اور اس پر مزید تحقیق و بیان کا طالب رہے گی، وجہ ظاہر ہے آخر ہم ان کے عظیم اور لافانی مقام، تاریخ اسلام میں انمنٹ نقوش، تبلیغ و دعوت کے تئیں ان کی بے پناہ التفات و توجہ، جدوجہد، جذبہ فدا کاری و جاں نثاری اور بے نظیر و بے بدل مساعی جمیلہ پر تبصرہ کریں تو کس پہلو سے تبصرہ کریں؟ ہر پہلو اپنے باب میں اتنی وسعت، گہرائی اور گیرائی رکھتی ہے کہ اگر طویل ترین مقالات بھی رقم کئے جائیں تب بھی تشنگی اور عدمِ سیرابی باقی ہی رہے گی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت نگاری، ان کے حالات و واقعات اور زیست کے نقوش کی تاریخ طرازی، ایک لا فائدہ معروضہ ہو گی، بلکہ اس وضاحت کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیست، ان کی دینی و دعوتی سرگرمیوں، اعلیٰ اخلاقی اقدار، ملی و مذہبی خدمات، تبلیغی و اشاعتی کار کردگیوں اور ان کے احوال و واقعات پر اتنا کچھ کہے جانے کے بعد بھی یہ ضرورت ہے کہ ان پر خوب لکھا جائے، ان کی زندگی کے تمام گوشوں کو نئی نسل کے سامنے ہویدا کیا جائے اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خدمات، قربانیوں اور اسلام کے تئیں مکمل جاں نثاری کے جذبات سے آگاہ کرایا جائے اور اتنا لکھا جائے اور برتا جائے کہ ہم بھی اپنے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی عزیمتیں، ہمتیں اور حوصلے محسوس کریں اور انہی نقوش پر چلنے کی ابتداء کریں جن پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک طویل سفر طے کیا تھا۔
اسلام نے اپنی پیدائش کے بعد اپنی افزائش کی ذمہ داریاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر عائد کی اور انہیں ہی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی حقانیت و اجتماعیت کے اثبات کے لیے متعین و منتخب کیا اور یہ انتخاب صحیح معنوں میں موزوں اور بروقت تھا کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ صرف ذمہ داریاں قبول کیں بلکہ انہوں نے ان ذمہ داریوں، فرائض اور ان حقوق کی ادائیگی میں جو دعوت و تبلیغ کے ضمن میں آتے ہیں، کبھی بھی کوئی خامی نہیں رہنے دی، دعوت و تبلیغ کے تمام حقوق کی ادائیگی میں مکمل اخلاص اور اتمام کا مظاہرہ کیا اور اپنے ما بعد نسلوں کے لیے ایک نمونہ اور مشعلِ راہ چھوڑ دیا، حضور پُرنورﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ان کا سب سے قیمتی سرمایہ مدینة الرسولﷺ کی یادیں اور وہاں کی فضاء تھا، یثرب کا پیارا احساس ان کے لیے توشہ زیست تھا، مدینے کی گلیاں ان کے لیے حسین تر جنت کی بل کھاتی خوبصورت پگڈنڈیاں تھیں، اور پھر ان سب علائق کے ساتھ وہ حکایات جن کے تانے بانے شہر رسولﷺ کے ذرہ ذرہ سے مربوط تھے ان کی زندگی جینے کا جواز تھی ان تمام رنگینیوں کے باوجود دین محمدی کے اعلاء و فروغ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیگر شہر و ممالک کا قصد کیا اور تبلیغ اسلام کی بھرپور سعی کی، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ میں فروکش ہوئے اور تعلیمِ دین کا سلسلہ چل پڑا، مرکزیت کے حامل شہر کعبہ میں اقامت، ان کی خوش نصیبی بھی تھی اور ذمہ داری بھی، سیدنا عیاش بن ابی ربیعہ المخزومی، سیدنا عبداللہ بن ابی ربیعہ المخزومی، سیدنا عکرمہ بن ابی جہل، سیدنا عتاب بن اسید، سیدنا خالد بن اسید، سیدنا حکم بن ابی العاص، سیدنا صفوان بن امیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے درجنوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ میں درس و تدریس اور کارِ تبلیغ میں مصروف تھے۔
کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوفہ کو سدھار گئے، جو مسلم مجاہدین کا ہیڈ کوارٹر تھا بالخصوص حضرت علیؓ کی خلافت کی مرکزیت کی وجہ سے تشریف آوری زیادہ ہوئی مشاہیرِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سیدنا علی ابن ابی طالب، سیدنا سعد ابن ابی وقاص، سیدنا سعید بن زید بن عمر بن نفیل، سیدنا نعمان بن بشیر، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا جریر بن عبداللہ البجلی، سیدنا عدی بن حاتم الطائی، سیدنا اشعب بن قیس، سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ان میں سے اکثر حضرات آخری عمر تک کوفہ میں رہے اور وہیں مدفون ہوئے ان حضرات کے درس و تدریس اور مسند علم و فضل کا چرچہ کوفہ میں صدیوں تک رہا۔
کچھ نے بصرہ کی پُر بصیرت کوچوں میں علمِ حدیث اور معرفتِ قرآن کی بساطیں بچھائیں اور خوب خوب جواہر اور فن پارے لٹائے، سیدنا معقل بن یسار، سیدنا ابو زہرہ الاسلمی، سیدنا عبداللہ بن مغفل المزنی، سیدنا ابوبکرہ، سیدنا انس بن مالک، سیدنا ثابت بن زید، سیدنا اقرع بن حابس، سیدنا عثمان بن ابی العاص، سیدنا ابو العشراء الدارمی رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بصرہ میں تعلیمِ دین کی کمان سنبھال لی اور اپنی خدمات رسول اللہﷺ کے دین کی تبلیغ کے لیے وقف کر دی، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا خارجہ بن حذافہ، سیدنا ابوبصرہ الغفاری، سیدنا ابوفاطم الایادی ابوجمعہ الشموس البلوی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصر میں تعلیمِ دین کا ایک سلسلہ شروع کیا۔
فتوحاتِ مصر اور حضرت عمرو بن ابی العاص کی وہاں فروکشی کے بعد مرکزِ خلافت کی جانب سے تعلیم و تعلّم اور اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مختصر جمعیت مصر بھیجی گئی، اس جمعیت کے جلو میں بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تشریف لے آئے، مشہور سپہ سالار اسلام سیدنا عبید اللہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے جب شام پر یلغار کی اور اسے مملکتِ اسلامیہ میں داخل کر لیا، تو اشاعتِ دین کی غرض سے سیدنا بلالؓ بن رباع الموذن، سیدنا عبادہ بن الصامتؓ، سیدنا معاذ بن جبلؓ، سیدنا مسعود بن عبادہؓ، سیدنا شرجیل بن حسنہؓ، سیدنا خالد بن ولیدؓ، سیدنا عیاض بن غنمؓ، سیدنا فضل بن عباسؓ بن عبدالمطلب، سیدنا شداد بن اوسؓ، سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ، سیدنا بسر بن ابی ارطاةؓ وغیرہ تشریف لے گئے، جزیرے میں بھی بعض صحابہ کرام سیدنا عفان بن عمیرة الکندیؓ، سیدنا وابصہ بن معبد الاسدیؓ، سیدنا ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کی موجودگی اشاعتِ دین کی غرض سے ہی تھی اور خراسان جیسے اجنبی دیار میں سیدنا بریدہ بن حصیب الاسلمی (مدفون بمرو) سیدنا ابو برزہ الاسلمی، سیدنا حکم بن عمر الغفاری، سیدنا عبداللہ بن الخازم الاسلمی، سیدنا قم بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کا قیام اشاعتِ دین کے اغراض پر مبنی تھا۔
تبلیغ و دعوت کا کام ان کے لیے کوئی آسان لقمہ نہیں تھا کہ اس کو بسہولت نگل لیا جائے بلکہ یہ کام ان جانثار مجاہدوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوا تھا، اس راہ میں انہوں نے جتنی تکالیف اٹھائی ہیں جتنی مشقتیں برداشت کی ہیں اور جتنے مصائب کو خندہ پیشانی سے سہا ہے، وہ سب تاریخ کے صفحات میں درج ہے، قرآن کریم نے ان کی انہی خدمات اور جذبہ جانثاری کے وسیلے میں یہ اعلان کیا کہ ان ”اصحابِ نبی“ کو رضائے خداوندی اور خوشنودی ایزدی جیسی قیمتی نعمتیں مل گئیں ”رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سوانحات پر مشتمل دستاویزی کتب کے مطالعے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی اشاعت کی راہ میں ان کے کیا اور کیسے خدمات ہیں؟ حالات کے حد درجہ ناساز گاری کے باوجود اسلام کو عروج و استحکام بخشنے میں ان کا کردار کیا ہے؟ اسلامی شریعت کے عملی نفاذ میں خود ان کی جانب سے عملی اطاعت کس نوعیت اور کس درجے کی تھی؟ کفار کے تعاقب، مصائب کی گہما گہمی اسباب و وسائل کے یکسر فقدان اور دشمنوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسلام کو ایک مضبوط اور ٹھوس پلیٹ فارم بنانے میں ان کا کیا کردار رہا ہے؟ مزاحمت اور ردِ عمل کے کیا اسلوب تھے؟ دعوت و تبلیغ کے کیا مناہج تھے؟ خطرات کے ازدھام، دشمنوں کی شدت انگیزیوں اور بھرپور اقدامات کے باوجود مسلمان اور اسلام محفوظ کیوں کر رہا؟ ان سوالوں کے جوابات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہترین اور مثالی زندگی کے مطالعاتی غور و فکر کے بعد واضح ہو جاتی ہے، سچ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خدمات، جرأت اور ہمت، ان کی دانائی، دانش مندی اور لیاقت، اسلام سے محبت، غایت درجہ الفت اوراس کے تئیں جذبہ فداکاری اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ہمہ تن پیشی و انہماک؛ دعوت کی راہ میں حائل قوتوں سے جنگ و مزاحمت اور دشمن طاقتوں سے لوہا لینا اور ہر پہلو سے ایک فولادی، مستحکم اور ناقابلِ تسخیر پہاڑ ثابت ہونا اور ایسے ایسے کارنامے انجام دینا جن پر عقولِ انسانی آج تک دنگ ہیں ایسی روایتی یا عام سی افسانوی کہانی نہیں یا ایسا کوئی تصوراتی خاکہ نہیں کہ جس کی سچائی و صداقت پر سوالیہ نشان لگایا جا سکے۔
جن چودہ صدیوں میں جتنی تصانیف اسلام کی اشاعت اور اس کے بقاء و تحفظ کے عنوان سے معرضِ وجود میں آئیں وہ سب کی سب، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خدماتِ جلیلہ اور بہترین کار کردگیوں کا واضح اعتراف ہیں، واقعہ نگاروں نے ایسے بے شمار تذکرے کتابیں اور تصانیف تحریر کی ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار اور ان کے مقام کے تعیین و انتخاب میں بدیہی دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں دراصل معروضہ اور مقصد یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام تر خدماتِ جلیلہ کے باوجود، مسلم طبقے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تئیں اعتقادی حوالے سے وہ عملی استحکام نہیں جو ایک مسلم کے دل میں ہونی چاہیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ حضرات جن کی انتھک جدوجہد اور تعاون کے بعد اسلام کو ایک وسیع اور عالمگیر فضا ملی انہیں ہی فراموش کر دیا گیا اور ان کی خدمات کو ذہول و نسیان کے خانے میں ڈال دیا گیا جو مسلم قوم کے لیے کسی بدترین المیہ سے کم نہیں۔
آج کی تاریخ میں امتِ مسلمہ کا موجودہ بحران اور اس کی ناقابلِ تدارک پسماندگی کے جو بھی اسباب ہوں اور جیسے بھی محرکات و مضمرات ہوں وہ ایک المیہ ہے دراصل آئیڈیل ہدف کی تعیین ان تمام المناک مراحل کا سدِباب ہے آج اگر ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک زیست کے اصول اور حیات گذاری کے اسلوب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک لائحہ عمل تیار کریں گے اور اسے برتیں گے تو عین ممکن ہے کہ مسلم کمیونٹی کے لیے دن بدن پیدا ہونے والے مسائل کی شیطانی رفتار، تھم جائے اور امتِ مسلمہ کی پسماندگی چھٹتی نظر آئے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کی طرف ایک بار دوبارہ مڑ کر دیکھیں اور ان کی جدوجہد سے لبریز تاریخ کے انقلابی گوشوں کو مشعلِ راہ بنائیں، ہو سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ امید کے امکانات روشن ہوں گے، ہمیں اپنے مسائل سے چھٹکارا ملے گا اور کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ پھر دوبارہ ہمیں مل جائے گی۔