خدا عادل ہے دھوکا نہیں دیتا
مولانا مہرمحمد میانوالیسوال نمبر 21 تا 24 کا جواب
ہم عدل کو پسند کرتے ہیں، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل ہی کی تعلیم دی تھی تبھی تو ہم آپﷺ کے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور شاگردوں کو عدول، راستباز اور پاک کردار مانتے ہیں کہ معلم کی تعلیم اثر و پر (اثرات اور علامات) تو یقیناً شاگردوں پر پڑتا ہے، ہمارا خدا عادل ہے، ظالم نہیں، وہ تو ظلم سے لوگوں کو روکتا ہے تبھی تو ہم خدا کو ایسے ائمہ کا بھیجنے والا، اور ان کو خدا کا منصوص و نمائندہ نہیں مانتے جو اپنے مفاد دنیا کے تحت حق چھپاتے رہے، تقیہ کر کے عوام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے فریضے سے غافل رہے حتیٰ کہ غار میں جا چھپے اور دنیا ان کی راہنمائی سے محروم و گمراہ چلی آرہی ہے۔
سوال 25: مذہب امامیہ کی اصل عدل پر آپ کو کیا معقول اعتراض ہے؟
جواب: پہلا اعتراض تو یہی عقیدہ امامت ہے کہ خدا نے انبیاء و ہادی بھیجے تو ان کی پوری نصرت فرمائی:
1:اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا(سورۃ المؤمن: آیت 51)
ترجمہ: ہم یقیناً اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیا میں مدد کرتے ہیں۔
2: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (سورۃ المجادلہ: آیت21)
ترجمہ:اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر یقیناً غالب ہونگے۔
مگر بارہ اماموں سے خدا نے ان کا جائز تحت بھی چھنوا دیا، دشمنوں کے مقابل مدد نہ کی، وہ عمر بھر تقیہ میں خائف رہے اپنا مذہب بھی ظاہر نہ کر سکے۔ حتیٰ کہ خدا کی هُدًى لِّلنَّاسِ کتاب کو بھی چھپا کر اپنے ساتھ لے گئے، دنیا فیضِ امامت اور قرآن کی ہدایت سے یکسر محروم ہوگئی مع ہذا شیعہ کے اعتقاد میں وہ حجۃاللہ ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں ہر حجت پوری کردی ہے اور ان کی اتباع نہ کرنے پر سب بنی نوع انسان کو خدا دوزخ میں ڈالے گا کیا شیعہ عقیدہ کے مطابق معاذاللہ ہدایت کے بارے میں لوگوں سے اتنا بڑا فراڈ کرنے والا خدا عادل ہو سکتا ہے؟ یا خدا کو عادل مانیے یا عقیدہ امامت و تشیع سے توبہ کیجیے۔
سوال 26: خدا کو ابر سے زمین میں اترنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
جواب: آپ نام نہاد مسلمان کہلا کر خدا کے قرآن سے ٹھٹھا کر رہے ہیں کیونکہ یہ بات قرآن میں یوں ہے:
هَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيَهُمُ اللّٰهُ فِىۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَالۡمَلٰٓئِکَةُ وَقُضِىَ الۡاَمۡرُ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ (سورۃ البقرہ: آیت 210)
ترجمہ: یہ (کفار ایمان لانے کے لیے) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ خود بادل کے سائبانوں میں ان کے سامنے آ موجود ہو، اور فرشتے بھی (اس کے ساتھ ہوں) اور سارا معاملہ ابھی چکا دیا جائے؟ حالانکہ آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف تو لوٹ کر رہیں گے۔
ہر چند کہ یہ آیت متشابہات میں سے ہے، بادلوں میں خدا کے آنے اترنے سے اس کا عذاب مراد ہو سکتا ہے مگر اسے صرف اہلِ سنت کا عقیدہ مشہور کر کے ”ضرورت پوچھنا“ خدا کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔