Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سنیوں کے خلاف شیعوں کا دسیسہ کاری

  الشیخ ممدوح الحربی

سنیوں کے خلاف شیعوں کا دسیسہ کاری

شیعہ اپنا مذہب آزاد نہ بیان کرتے ہیں۔ بلکہ سنی لوگوں کے خلاف ان کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں انہوں نے بحث و تکرار کے لیے اور مذاکرات کے لیے ملازم مقرر کیے ہیں۔ جو چاہیں گفتگو کریں، مگر سنی خطیب ان کی مرضی کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔ اور انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ جمعہ کے دن شیعہ خطیب سنیوں کی مساجد میں جو چاہے سیاست پر اور عقائد پر بحث کرے، اور سنی خطیب عقائد کے بارے میں بات نہیں کر سکتا۔ اگر امام اس دائرہ سے باہر بات کرے گا تو اسے وہابی کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے، اسے قید کر دیا جاتا ہے، اور ایرانی جیل کی دوزخ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے فاضل علماء جو سنی علماء سے سربر آوردہ ہیں، انہوں نے انہیں پابہ زنجیر کر رکھا ہے۔ شیخ علامہ احمد مفتی زادہ جو کہ کردستان کے علاقے میں تھے۔ انہیں اس جرم کی پاداش میں قید کیا گیا ہے کہ یہ ایران میں غصب شدہ سنی علماء کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایک شیخ ڈاکٹر احمد میرین بلوچی کا یہ قصور تھا کہ یہ اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر ڈاکٹریٹ کی انتہائی اعلیٰ ڈگری تک پہنچ گئے تھے، انہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ انہیں وہابی کہا کہ یہ فکرِ وہابیت پھیلاتے ہیں۔ جب ان کی سرگرمی ماند نہ پڑی کہ یہ صحیح عقیدہ اور دعوتِ توحید سے باز نہ آئے تو انہیں شیعہ کی سخت ترین جیل میں بند کر دیا۔ اور کچھ وقفہ بعد انہیں عمر قید کی سزا سنائی بعدازاں انہیں قید ہی میں شہید کروا دیا گیا۔ حکومت ایران نے شیخ محی الدین جو کہ سنی ہیں خراسان کے دارالخلافہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں چند سال پہلے قید کر دیا گیا، نہ تو ان پر کوئی الزام تھا نہ ہی عدالت سے فیصلہ لیا، صرف یہ قصور تھا کہ یہ خراسان میں ایک مدرسہ کے سربراہ تھے، اور سنی عقائد پر غیرت مند تھے، ان پر وہابیت کی تہمت لگا کر اور یہ کہہ کر یہ سنی اور شیعوں کے درمیان فرقہ واریت پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے جیل بند کیے گئے ہیں۔ اصفہان میں شیعوں کی جیل میں رہے سات سال بعد پاکستان کے علاقہ بلوچستان میں ہجرت کر آئے۔ استاد ابراہیم صفی دادہ جو کہ محمد سعود یونیورسٹی ریاض سے فارغ تھے، شیعوں کے سامنے سرعام بازار میں انہیں ستر کوڑے لگائے گئے اور بعد میں قید میں ڈال دیا اور سات سال کے قید سنا دی۔

شیخ نصر محمد بلوچی جو کہ ایرانی پارلیمنٹ کے ایک رکن تھے ایرانی بلوچستان کے نمائندہ تھے انہیں خمینی کی قید میں سخت قسم کی تکالیف دی گئیں ان سے جبراً اعتراف کروایا گیا کہ یہ عراق اور اسرائیل کے جاسوس ہیں ان کے لئے کام کرتے ہیں حالانکہ یہ سب جھوٹ تھا انہیں سب لوگ جانتے تھے کہ سنیوں کے نمایاں عالمِ دین ہیں انکی سخت نگرانی ہوتی یہ دوست ملک نہیں جا سکتے تھے تا آخر وہ فوت ہو گئے شیخ مجاہد دوست محمد بلوچی یہ اسی برس سے زیادہ عمر کے تھے انہیں بھی گرفتار کیا گیا وجہ یہ تھی کہ انہوں نے متعدد رسالوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کیا تھا انہوں نے آیات کہلوانے والوں کی قید میں دو سال گزار دئیے انہیں سخت ترین اذیتیں دی گئیں پھر اصفہان جلا وطن کر دیئے گئے ایک سال بعد انہیں رہا کیا گیا اب وہ سخت پہرے میں زندگی گزار رہے ہیں اور بیرون ملک نہیں جا سکتے علاؤہ ازیں بے شمار علماءِ کرام اور سنی نوجوانان رعنا ہیں جو ان آیات کہلوانے والوں کی قید میں بند ہیں انکا کوئی قصور نہیں صرف یہ ایک قصور ھے کہ یہ سنی عقیدہ پر کار بند ہیں اور اس کے دفاع میں کمربستہ ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزتوں کا دفاع کرتے ہیں۔

سنیوں پر مساجد و مدارس تعمیر کرنے کی پابندی ھے:

یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ایران میں سنیوں کو مساجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں طہران جو کہ ایران کا دار الخلافہ ہے اصفہان ہے، یزد ہے، شیراز وغیرہ دیگر شہروں میں سنیوں کو مساجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں حالانکہ طہران میں تقریباً پانچ لاکھ سنی ہیں مگر ان کی اس میں ایک مسجد بھی نہیں جس میں یہ نماز ادا کرسکیں نہ کوئی مرکز ہے جس میں یہ اجتماع کر سکیں۔ عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں، سکھوں اور مجوسیوں کے عبادت خانے ہیں مگر مسلمانوں کی ایک مسجد نہیں ایران کا دارالخلافہ طہران روئے زمین پر واحد شہر ہے جہاں سنی مسلمانوں کی مسجد نہیں جبکہ یہ شیعہ اپنی امام بارگاہیں، مراکز حسینی، اور مدارس پورے ایران میں قائم کر رہے ہیں اور ان علاقوں میں کر رہےہیں جہاں سنی زیادہ ہیں۔

ایران میں سنی مساجد کا انہدام:

ایرانی شیعہ بعض شہروں میں صرف سنی مساجد گرا دیتے ہیں بلوچستان میں مسجد و مدرسہ تھا جو قادر بخش بلوچی چلا رہے تھے اسے گرا دیا گیا۔ سیتر میں گیلان کے علاقے میں سنی مسجد گرا دی ہے۔ گونارگ، چابہار پروچستان میں انہدام مسجد کیا ہے شیراز کے علاقے میں کئی مساجد گرائی ہیں بس بہانہ یہ ہے کہ فلاں مسجد ضرار ھے۔ یا حکومت کی اجازت کے بغیر بنائی گئی ہے یا فلاں مسجد کا امام وہابی عقیدہ رکھتا تھا۔ یا اس وجہ سے گرائی ہے کہ سڑک کی توسیع کرنا تھی گراتے صرف سنی مساجد ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیعوں نے کس قدر سنیوں کو بے بس کر دیا ہے اور اپنا رعب دبدبہ جما رکھا ہے ایران میں ذرائع ابلاغ سے بھی سنیوں کو محروم رکھا ہے جبکہ ہمہ وقت شیعہ ان سے مستفید ہو رہے ہیں بلوچستان میں سنیوں کو 24 گھنٹے میں ایک گھنٹہ پروگرام کرنے کی اجازت ہے اس میں بھی اپنے افکار اور عقائد نشر کرنے کی بجائے کچھ وقت حکومت اور اس کے لیڈروں اور اس کے ملاؤں کی مدح و ثنا میں گزر جاتا ہے۔

خراسان میں مسلمان سنیوں کا ایک پروگرام بھی نہیں ہوتا جبکہ ہزاری شیعوں کو وہاں دو گھنٹے وقت ملتا ہے فارسی اور پشتو میں وہ اپنی نشریات جاری رکھتے ہیں سنیوں کو بالکل محروم رکھا گیا ہے حکومتِ ایران پرائمری سے لے کر آخری تعلیمی مرحلے تک سنی بچوں کو شیعہ عقائد و افکار پر پروان چڑھاتے ہیں انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نفرت دلاتے ہیں شیعہ اساتذہ ایسی کتابیں دیتے ہیں جن میں ان کے مذہب کے مطابق ایسے واقعات بیان ہوتے ہیں جو سفید جھوٹ ہیں اور ان سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیض ہوتی ہے ایران میں سنی لوگوں کو ان کے اجتماعی اور ثقافتی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے علمی مراکز طبع خانے تجارتی لائبریریاں یہ سب شیعیت کے حوالے ہیں سنیوں کو اس بارے میں قطعاً اجازت نہیں یہی وجہ ہے کہ ایران میں صرف شیعی کتابیں چھپتی ہیں چند سنی کتابیں چھپتی ہیں وہ بھی بڑی مشکل کے بعد اور سنی کتابیں حکومت کے قبضے میں ہیں انہیں نشر کرنے اور تبع کرنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے مجبوراً بعض سنی لوگ اپنی کتابیں پاکستان میں چھاپ رہے ہیں ایران میں سنی نوجوان پڑھنے کے لیے سوائے شیعوں کی کتابوں کے اور کچھ پاتے ہی نہیں جن میں گمراہ کن عقائد مجوسیوں کی اولاد شیعوں کا یہی مقصد ہے کہ سنیوں کو یہ منحرف عقائد والی کتابیں ہی پڑھائیں:

سبق دیتے ہیں شاہیں بچوں کو خاکبازی کا وزارت ارشاد و تبلیغ ایران تو کام ہی صرف اس خاص نقطہ فکر کے مطابق کرتی ہے اور حکومتِ ایران اس کی پوری سپورٹ کرتی ہے یہ وزارت بہت ہی زیادہ جدوجہد کرتی ہے کہ شیعیت پوری دنیا میں پھیل جائے یہ موجود 40 زبانوں میں اپنا لٹریچر پھیلاچکی ہے جن کی تعداد تیس چالیس کتابوں تک پہنچ چکی ہے اور اپنی ثقافتی طرز پر یہ انہیں دنیا کے ہر کونے میں پہنچا رہی ہے عرب یورپ افریقہ ایشیاء وغیرہ ممالک میں پہنچا رہے ہیں اور شیعہ کتب ان کی وزارت جو نمائندے بھیجتی ہے ان کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے اہم شخصیات کے نام بذریعہ ڈارک ارسال کر دیتے ہیں یا یہ وزراۓ ثقافت دعوت کے لیے آدمی روانہ کرتی ہے ان کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے ان کتابوں میں وہ مضامین اور افکار ہوتے ہیں انہیں عام آدمی نہیں سمجھ سکتا دھوکے میں آ جاتا ہے ذہین آدمی حقیقت جانتا ہے یا وہ جانتا ہے جو شیعوں کے پسِ منظر سے واقف ہےجبکہ سنیوں کو اپنے نظریے اور عقائد کی کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں (والله المستعان) سنیوں کے ساتھ ایرانی شیعی تعلیمی سیاست کھیلتے ہیں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی سطح تک مردوں اور خواتین کے لیے کچھ کلاسوں کا انتظام کر رکھا ہے اس کا نام انہوں نے (نا خواندگی ختم کرنا رکھا ہے) یہاں بھی صرف اپنے دعوتی مطلوبہ مقاصد کی اجازت دیتے ہیں اس کی آڑ میں شیعیت عام کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نےنصاب ہی شیعہ کتاب سے بنا رکھا ہے سنیوں کے ہر شہر میں انہوں نے خاص مرکز اور لائبریریاں قائم کر رکھی ہیں جن میں مطالعے کے لیے وہی کتب ہیں جو ثقافت شیعہ پر روشنی ڈالتی ہے اور طلباء کو یہی پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے ان ملاؤں کی حکومت سے پہلے سنیوں کا ایک مستقل نہج تربیت اسلام کے نام سے موجود تھا مشہور سنی علماء اس کے مہتمم تھے انہوں نے اسے ترتیب دیا تھا جس کی وجہ سے حکومت کی سطح تک توحید کا منہج قائم تھا اب صرف شیعہ عقائد پڑھائے جاتے ہیں یا اب دیکھا کہ طلباء جو سنی نوجوان ہیں وہ ان عقائد پر توجہ نہیں دیتے تو انہوں نے نام سنیوں کا لے کر شیعہ علماء کی لکھی کتاب دوبارہ تعلیم میں لگا دی اس کا نام "سیرتِ اہلِ سنت" اوپر سرورق پر لکھ دیا: 

اطلع على الكتاب مولوي محمد اسحاق مدني مستشار وزير التربيه لشؤن اهل السنه والجماعة۔

اس کی نظرِ ثانی مولوی محمد اسحاق نے کی ہے جو سنی معاملات کی وزارت تربیت کا مشیر ہے۔

یہ وہم ڈالا ہے کہ یہ کتاب سنی عالم کی نظرِ ثانی شدہ ہے مگر خیانت یہ ہوئی ہے کہ اس میں اہلِ سنت کے طریقے پر سنیوں سے نفرت دلائی گئی ہے اور اس میں ایسی دعوت بھی ہے جو شیعوں کی دعوت سے میل نہیں کھاتی یہ ایسی چال چلے ہیں انہوں نے بعض سنی علماۓ سو خرید لیے ہیں انہیں اعلیٰ عہدوں پر بٹھا دیا رہائش گاہیں تعمیر کر دی ماہانہ تنخواہیں لگا دی اس قسم کے مولوی جو لیکچر یا خطاب کرتے ہیں تو یہ عنوان ہوتا ہے 

واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا۔

اور اس میں یہ بیان کرتا ہے کہ 

ان الخلاف بین السنة والشىعة خلاف سطحی 

"کہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان معمولی اور سطحی سا اختلاف ہے " پھر کہتا ہے کہ:

واننا نؤمن ان ما يقولونه يعنى الشيعة حق وان القول بولاية الفقيه قول حق يجب علينا اتباعه و ان الخلاف الوحيد بيننا و بين اخواننا الشيعة هو فى ارسال اليه وقبضه و هذا خلاف قد وقع بين اهل السنة كما هو رأى عند بعض المالكية۔

"ہمارا یقین ہے کہ ہمارے شیعہ بھائی سچے ہیں ان کا یہ عقیدہ جو ولایت فقیہہ کا ہے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اسے مانیں۔ ہمارے اور ہمارے شیعہ بھائیوں کا اختلاف ایک ہی ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا یا پکڑ کر پڑھنا یہ سنیوں میں بھی ہے جیسا کہ مالکیوں نے کہا۔ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی جائے"

جب شیعہ ملاؤں کی حکومت آئی ہے سنی اسلامی رنگ اس نے ملیا میٹ کر دیا ہے۔ مدارس کے نام اس نے تبدیل کر دئیے ہیں جن سے اسلامی مہر نظر آتی تھی ایک مدرسہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام پر تھا اب اس کا نام بدل کر مدرسہ آیت اللہ بہشتی رکھ دیا ہے ۔ایک مدرسہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام پر تھا اب اس کا نام قمبر رکھ دیا ہے انقلاب کے بعد سنیوں نے جتنے مدارس یا مساجد قائم کیے ہیں ان کے نام حکومت کی مرضی سے رکھے گئے ہیں آیت اللہ طالقانی، مدرسہ آیت اللہ خمینی، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام پر بھی مدارس کا نام رکھتے ہیں، ابو ذر، سلمان فارسی، علی بن ابی طالب، حسن، حسین رضی اللہ عنھم کے ناموں پر رکھتے ہیں دوسروں کے ناموں پر نہیں رکھتے۔

انہوں نے تو بہت سارے شہروں اور بستیوں کے نام شیعہ کے ناموں میں تبدیل کر دئیے ہیں اور ہر سنی مدرسہ کی دیوار پر انہوں نے اپنے اماموں کے نام لکھ دئیے ہیں۔ ان کے گھروں کی دیواروں پر اور محلوں پر اور حکومتی کاغذوں پر مثلاً برتھ سرٹیفکیٹ، زمینوں کے چیک، اور رسمی سندوں پر اماموں کے نام ہیں۔ اور ٹیلیفون کے بلوں پر بھی اماموں کے نام لکھتے ہیں، گرمیوں کی چھٹیوں میں سنی طلباء میں سے ذہین اور کامیاب طلباء کا ایک وفد تشکیل دیتے ہیں، مازندران کے وزٹ پر لے کر جاتے ہیں یا دیگر علاقوں میں جاتے ہیں، شیعہ علماء ان کی نگرانی کرتے ہیں اور اتنے دن وہی ان کی تربیت کرتے ہیں جب واپس آتے ہیں تو انہیں کتابیں اور دیگر تحائف دیتے ہیں اس حکومت نے کہا ہے کہ سنی اسلامی مدارس جو پرانے آ رہے ہیں انہیں باقی رکھا جائے مگر نئے سرے سے مدارس یا مساجد کی انہیں اجازت نہیں۔ ایک تنظیم کامیٹا کے نام سے نئی وجود میں آئی ہے۔ رفسنجانی اس کا بانی ہے، یہ ہمہ وقت سنی مدارس کا وزٹ کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے پڑھانے کے طریقہ کار پر اور احوال پر نظر رکھیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسلامی مدارس میں ان شیعہ کی کتب شامل کی جائیں ۔

ایک پاسداران اور سانداز کی تنظیم ہے یہ بھی بستیوں میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور ایک معین جگہ پر یہ سنی طلباء کو جمع کرتے ہیں اور ویڈیو کے زریعے انہیں فلمیں دکھاتے ہیں اور انہیں دینی لیکچر دیتے ہیں جو انہیں متاثر کرنے کے لیے تیر بہدف ہوتا ہے۔ اس لیکچر کے بعد بسکٹ اور حلوی حاضرین کو دیتے ہیں، اپنے مقررہ پروگرام کے مطابق یہ بستی بستی اس طرح چلتے ہیں۔

پیارے بھائیو! آپ نے کبھی یہ سنا ہے کہ ماہِ رمضان المبارک میں سنی مساجد میں چار سو لیکچر شیعہ علماء نے دئیے ہوں۔ ہزاروں شیعہ علماء ہیں جنہیں حکومتِ ایران بھاری تنخواہیں دیتی ہے، اس لیے کہ یہ سنی علاقوں میں لیکچر دیں اور لوگوں کی شیعہ مذہب کے لیے برین واشنگ کریں۔ اس کے برعکس سنی ایک داعی نہیں جو فارغ ہو کر اللہ کی طرف دعوت دے واہ اسفاہ! شیعہ علماء وقتی اور مذہبی مراسم سے فائدہ اٹھاتے ہیں کبھی ہفتہ وحدت کے نام سے، کبھی یومِ انقلاب کے نام سے، کبھی ایامِ عید کے نام پر اور کبھی دیگر مجالس کے نام سے یہ لوگوں کو شیعیت کی طرف مائل کرتے ہیں اور حکومت ان کی مکمل سرپرستی اور نگرانی کرتی ہے اور اہم شخصیات اور اندرونی اور بیرونی سربرآوردہ لوگوں کو ان میں شمولیت کی دعوت دیتی ہے اور ان کے ساتھ سنی علماء، طلباء اور ملازمین کو بھی ان میں شرکت پر مجبور کیا جاتا ہے اور دعویٰ یہی کرتے ہیں اور آڑ یہی بناتے ہیں شیعہ اور سنی برابر ہیں آپس میں تعاون کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہے کہ سنیوں کی کثرت زبردستی، مجبوراً اور دھمکی سے اور ہراساں کر کے یقینی بنائی جاتی ہے۔