Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مصنف عبدالرزاق مصنفہ عبدالرزاق

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

مصنف عبدالرزاق مصنفہ عبدالرزاق

 محدث عالم اور مصنف جناب عبدالرزاق اہلِ سنت میں سے ہیں لیکن ان کی کتاب سے بعض عبارات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان میں تشیع پائی جاتی تھی ہم نے ان کا تذکرہ بھی ضروری سمجھا تاکہ ان کی وہ عبارات جو شیعہ سنی کے مابین مختلف فیہ مسائل کے بارے میں اہلِ سنت کے بجائے اہلِ تشیع کے ترجمانی کرتی ہیں انہیں ہم اہلِ سنت پر حجت بنا کر پیش نہ کیے جا سکے ان کے ثبوت تشیع پر جانبین سے حوالہ جات پیش خدمت ہیں ملاحظہ فرمائیے۔

میزان الاعتدال:

وقال ابنِ عدی حدث باحادیث من الفضائل لم یوافقہ علیھا احد ومثالب لغیرھم مناکیر ونسبوہ الی التشیع سمعت مخلدا الشعیری یقول کنت عند عبد الرزاق فذکر رجل معاویۃؓ فقال لا تقذر مجلسۃ بذکر ولد ابی سفیانؓ۔

(میزان الاعتدال جلد 2صفحہ127)

 ترجمہ:

 ابنِ عدی نے کہا کہ عبدالرزاق فضائل میں ایسی حدیث لاتا ہے جن میں کسی نے اس کی موافقت نہ کی اور دوسروں کی عیب جوئی میں مناقیر وارد کیں علماء نے اسے تشیع کی طرف منسوب کیا ہے کہ میں نے مخلد شعیری سے سنا کہتا تھا عبدالرزاق کے پاس میں بیٹھتا تھا کہ ایک شخص نے سیدنا امیر معاویہؓ کا تذکرہ چھیڑا تو عبد الرزاق نے کہا کہ ہماری مجلس کو ابو سفیان کے بیٹے کے ذکر سے گندا نہ کرو ۔

تہذیب التہذیب:

وقال ابنِ عدی ولعبد الرزاق اصناف وحدیث کثیر وقد رحل الیہ ثقات المسلمین وامتھم وکتبوا عنہ الا انھم نسبوہ الی التشیع وذکرہ ابنِ حبان فی الثقات وقال کان ممن یخطئ اذا حدث من حفظہ علی تشیع فیہ 

(تہذیب التہذیب جلد 6 صفحہ 313 تا 314)

 ترجمہ:

 کے ابنِ عدی نے کہا کہ عبدالرزاق کی احادیث بہت ہیں اور کئی اصناف ہیں اور ان کی طرف مسلمان ثقہ لوگوں نے ان کے اماموں نے سفر کیا اور پھر اس سے احادیث و روایات لکھیں مگر انہوں نے اسے تشیع کی طرف منسوب کیا ہے ابنِ حبان نے انہیں ثقہ راویوں میں ذکر کیا اور کہا کہ جب اپنی یاداشت پر بھروسہ کرتے ہوئے حدیث بیان کرتا تو خطا کر جاتا اس میں تشیع پایا جاتا تھا۔

کامل ابنِ اثیر:

فیھا توفی عبد الرزاق بن ھمام نِ الصنعانی المحدث وھو من المشائخ احمد بن حنبل وکان یتشیع۔

(کامل ابن اثیر جلد 6 صفحہ 406 ذکر ثم دخلت سنۃ احدی عشرۃ ومائتین مطبوعہ بیروت ) 

ترجمہ:

 کے سن 211 ہجری میں عبدالرزاق محدث نے وفات پائی اور یہ امام احمد بن حنبل کے اساتذہ میں سے ہیں اور ان میں تشیع پائی جاتی تھی۔

تنقیح المقال:

 عبد الرزاق بن ھمام الیمانی الصنعانی من صنعاء الیمن عدہ الشیخ فی یجالہ من اصحاب الصادق وقال روی عنھما یعنی الباقر والصادق ویظھر من الروایة الطویلة الاتیة فی ترجمة محمد بن ابی بکر بن ھمام کونہ من علماء لشیعة بل کونہ فرید عصرہ فی العلم فلاحظھا البتة فھو من الحسان بلا شبھة وعن تقریب ابن حجر عبد الرزاق بن ھمام ابن نافع الحمیری مولاھم ابو بکر الصنعانی الحافظ مصنف شھیر عمی فی اخر عمر وفتغیر وکان یتشیع من التاسعة۔

(تنقیح المقال جلد 2صفحہ 150 من ابواب العین مطبوعہ نجف اشرف)

 ترجمہ:

عبدالرزاق بن ھمام الیمانی الصنعانی صنعانی یمن کا باشندہ تھا شیخ نے اسے اپنے رجال اصحاب صادق سے شمار کیا اور کہا کہ عبدالرزاق دونوں یعنی کہ سیدنا باقرؒ اور سیدناجعفر صادقؒ سے روایت کرتا ہے اور محمد بن ابی بکر بن ھمام کے ترجمہ میں ایک طوالت طویل روایت سے ظاہر ہوتا ہے عبدالرزاق شیعہ عالم تھا بلکہ اپنے دور کا علم یکتا تھا تو تجھے ملاحظہ کرنا چاہیے تو وہ واقعی نیک لوگوں میں سے تھا ابنِ حجر کی تصنیف تقریب کے حوالہ سے عبدالرزاق بن ھمام بن نافع الحمیری حافظ مشہور مصنف اپنی آخری عمر میں نابینا ہو گیا تھا اور اس کے حفظ میں کچھ تبدیلی ہوگئی اور اس میں نویں فرقے کی تشیع پائی جاتی تھی۔ 

الکنی والالقاب:

قال ابو محمد ھارون بن موسیٰ حدثنا محمد بن ھمام قال حدثنا احمد بن مابندار قال اسلم ابی اول من اسلم من اھلہ وخرج من المجوسیة فکان یدعوا اخاہ سھیلا الی مذھبہ فیقول لہ یا اخی اعلم انك لا تاتونی فصحا ولکن الناس مختلفون فکل یدعی ان الحق فیہ ولست اختار ان ادخل فی شیئ الا علی یقین فمضت لذالك مدۃ حج سھیل فلما صدر من الحج قال لاخیہ ان الذی کنت تدعو الیہ ھو الحق قال وکیف علمت ذالك قال لقیت فی حجی عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی وما رایت احد مثلہ فقلت لہ علی حلوۃ نحن قوم من اولاد الاعاجم وعھدنا بالدخول فی الاسلام قریب واری اھلہ مختلفین فی مذاھبھم وقد جعلك الله من العلم بمالانظیر لك فیہ فی عصرك مثل وارید ان اجعلك حجۃ فیما بینی وبین الله عزوجل فان رایت ان تبین لی ما ترضاہ لنفسك من الدین لاتبعك فیہ واقلدك فاظھرلی محبة آل رسول اللہ ﷺ وتعصیمھم والبراءۃ من عدوھم والقول بامامتھم

(الکنی والالقاب جلد2 صفحہ 427 مطبوعہ تہران)

 ترجمہ:

 کہ محمد بن ھمام بیان کرتا ھے احمد بن مابندار نے کہا کہ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے اسلام لانے والے میرے والد اور مجوسیت کو چھوڑ دیا تھا اور اپنے بھائی سہیل کو بھی اپنے مذہب کی طرف بلایا کرتے تھے کہتے تھے کہ بھائی تو میرے نصیحت قبول نہیں کرتا لیکن لوگ مختلف عقیدے رکھتے ہیں لہٰذا ہر ایک یہی بات کہتا ہے کہ حق میرے پاس ہی ہے اور میں بغیر یقین کسی چیز میں داخل نہیں ہوں گا اسی پر کافی عرصہ گزر گیا سہیل نے حج کیا پھر جب حج سے واپس آیا تو اپنے بھائی سے کہنے لگا کہ جس دین کی آپ دعوت دیتے تھے وہ حق ہے پوچھا کہ تجھے اب اس کا علم کیونکر ہوا کہنے لگا کہ دوران حج میری ملاقات عبدالرزاق بن ہمام الصنعائی سے ہوئی میں نے اس جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا میں نے اسے تنہائی میں کہا کہ ہم عجمیوں کے اولاد ہیں اور ہمارا اسلام قبول کرنے کا زمانہ بہت قریب ہے اور میں اپنے گھر والوں کو مختلف مذاہب والے دیکھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے تمہیں بے مثل علم عطا کر کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اور اللہ کے درمیان تجھے حجت بناوں اگر تو اپنا پسندیدہ دین مجھے بتا دے تو میں تیری اتباع کروں گا اور تیری تقلید کروں گا تو اس نے میرے سامنے رسولﷺ کی محبت ظاہر کی اور ان کی تعظیم کا اظہار کیا ان کے دشمنوں سے بیزاری جتائی اور ان کی امامت کا قول کیا۔

 لمحہ فکریہ:

 عبدالرزاق صاحب مصنف کے تشیع پر اہلِ سنت شیعہ دونوں کا اتفاق ہے بلکہ شیعہ نے تو اسے اپنا عالم کہتے ہیں اور مذکورہ حوالہ جات سے اپنی تشیع کا خود اقرار کر رہا ہے دشمنان آلِ رسولﷺ سے بے زاری دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا بازی کے مترادف ہے کیونکہ شیعہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آلِ رسولﷺ کا دشمن کہتے ہیں اور عبدالرزاق بھی آلِ رسولﷺ کے دشمنوں سے بیزاری کا عقیدہ ظاہر کر رہا ہے اس لیے ثابت ہوا ہے کےاس میں شیعت موجود ہے اور پھر امامت کو آلِ رسولﷺ میں ہی منحصر کر دینا دراصل سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا عمر فاروقؓ سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کی خلافت و امامت کا انکار کرنا ہے مسئلہ امامت اور تبر بازی دو معرکۃ الآرا مسئلے ہیں جن میں عبدالرزاق اہلِ تشیع کی ہمنوائی کر رہا ہے بہرحال عقائد کے بارے میں کسی شخص کے متعلق فیصلہ کرنا کہ وہ شیعہ یا سنی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف فی مسائل میں اس کا رویہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس کی طرفداری کرتا ہے پھر جب شیعہ اسے اپنا عالم کہیں تو وہ ہم میں سے اپنے آدمی کو زیادہ بہتر جانتے ہیں اور جاننے میں کس نے کب اور کہاں کہاں تقیہ کا سہارا لیا ہے اور ہمارے ہاں تقیہ سرے سے ہی ناجائز ہے اس لیے ہم اگر کسی شخص سے اہلِ سنت کے مسلک کے موافق کچھ پاتے ہیں تو ہم اسے سنی سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے عبدالرزاق صاحب مصنف کو ہمارے علماء نے سنی ہی شمار کی ہے لیکن جب اس کا تشیع متفق علیہ ہوا تو ایسی عبارات جو شیعیت کی ترجمانی کرتی ہوں وہ ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں ہو سکتی۔ 

خلاصہ یہ کے عبد الرزاق صاحب مصنف کی وہ عبارت جوشیعہ علماء پیش کرکے اہلِ سنت پر حجت قائم کرنا چاہتے ہیں ان سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔

 فاعتبروا یا اولی الابصار:

واقدی محمد ابنِ عمر کے حالات:

جن لوگوں کو اہلِ تشیع کے مصنفین نے اہلِ سنت کا عالم کہہ کر پیش کیا ان میں سے ایک واقدی محمد ابنِ عمر بھی ھے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضلیت خود واقدی کی عبارت سے پیش کر کے اسے شیعہ سنی کا متففہ عقیدہ بنایا جاتا ھے چنانچہ افضلیت سیدناعلی المرتضیٰؓ کے بارے میں واقدی کی روایت ملاحظہ ہو۔

 الکنی والالقاب:

وھوالذی روی ان علیا علیہ السلام کان من معجزات النبیﷺ کالعصا لموسیٰ علیہ السلام واحیاءالموتی لعیسیٰ بن مریم علیہ السلام وغیر ذالک من الاخبار۔

(الکنی والالقاب جلد سوم صفحہ 280 مطبوعہ تہران)

 ترجمہ:

   واقدی وہی شخص ہے جس نے یہ روایت کی کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نبی ﷺ کا معجزہ تھے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور عیسیٰ علیہ السلام کا مردے زندہ کرنا تھا اس کے علاوہ بھی واقدی نے بہت سی روایات ذکر کی روایت مذکورہ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ سیدنا علیؓ جب نبیﷺ کے معجزہ ہوئیے تو وہ آپ کی صفت ذاتی بن گئے اور دوسرے تینوں خلفاء میں یہ خوبی موجود نہیں ہے لہٰذا سیدنا علی المرتضیٰؓ کی موجودگی میں ان کی خلافت و امامت درست نہ ہوئی اور یہ تینوں غاصب ٹھہرے مختصر یہ کہ ہمیں تسلیم کے واقدی کو ہمارے اسماء الرجال کی کتابوں نے سنی کہا لیکن اس کی روایات اس لیے حجت نہیں ہیں کہ اسے سخت مجروح کہا گیا اور اسماء الرجال سے اس کا ثبوت ملاحظہ ہو ۔

 تہذیب التہذیب:

وقال البخاری الواقدی مدنی سکن بغداد متروک الحدیث ترکہ احمد وابن المبارک وابن نمیر واسماعیل بن ذکریا وقال فی موضع اخر کذبہ احمد وقال معاویہ بن صالح قال لی واحمدبن حنبل الواقدی کذاب وقال لی یحییٰ بن معین ضعیف وقال مرة لیس بشئی وقال مرة کان یقلب حدیث یونس بغیرہ عن معمر لیس بثقة وقال مرة لیس بشئی, قال الشافعی فیما اسندہ البیہقی کتب الواقدی کلھا کذاب وقال النسائی فی الضعفا الکذابون المعروفون بالکذب علی رسول اللہﷺ اربعة الواقدی بالمدینة وقال النووی فی شرح المھذب فی کتاب النسنل منہ الواقدی ضعیف باتفاقھم وقال الذھبی فی میزان استقرا الاجماع علی وھن الواقدی۔

(تہذیب التہذیب صفحہ 364 تا 365 مطبوعہ بیروت جدید)

 ترجمہ:

 کہ اِمام بخاری نے واقدی کو متروک الحدیث کہا اِمام احمد نے اسےترک کیا اور ابنِ المبارک، ابنِ نمیر اور اسماعیل بن زکریا نے بھی اسے ترک کیا ایک اور جگہ کہا اِمام احمد نے اسے جھوٹا کہا معاویہ بن صالح بیان کرتے ہیں کہ مجھے احمد بن حنبل نے بتایا کہ واقدی کذاب ہے یحییٰ بن معین نے مجھے بتایا کہ واقدی ضعیف ہے ایک مرتبہ اس سے لیس بشئ کہا ہے کہ واقدی یونس کی حدیث کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا اور معمر کی روایت میں تغیر کرتا تھا یہ ثقہ نہیں ہے اِمام شافعی سے بہقی نے بیان کیا کہ واقدی کی تمام کتابیں جھوٹ کا پلندہ ہیں اِمام نسائی الضعفاء میں کہا ان معروف جھوٹے چار آدمیوں میں سے ایک واقدی ہے جنہوں نے نبیﷺ پر جھوٹ باندھا اِمام نووی نے شرح المذہب میں اسے ضعیف کہا اور اس کے ضعف پر اتفاق نقل کیا اِمام ذھبی نے میزان میں کہا کے واقدی کے کمزور ہونے پراجماع پختہ ہو چکا ہے۔

قارئین کرام!

 محمد بن عمر المعروف الواقدی کے متعلق کتب اسماء الرجال کے حوالہ جات سے آپ کو بخوبی علم ہو گیا ہوگا کہ ایسے شخص کی عبارات کو اہلِ سنت کے خلاف بطور حجت پیش کرنا کس قدر ناانصافی ہے اور پھر الواقدی کی عبارت کو *القنی والقاب* سے نقل کیا گیا جو خود مسلک شیعہ کی ترجمان کتاب ہے اس کا حوالہ بھی غیر معتبر ہوا جبکہ الواقدی کے اہلِ تشیع نے اپنا عالم اور امام تسلیم کیا تو پھر رہی کسر سہی کسر بھی ختم ہو گئی ملاحظہ ہو۔

 الکنی والالقاب:

وقال ابنِ الندیم ان الواقدی کان یتشیع حسن المذھب یلزم التقیة وھوالذی روی ان علیا علیہ السلام کان من معجزات النبیﷺ کالعصا لموسیٰ علیہ السلام واحیاء الموتی لعیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہ السلام وغیر ذالک من الاخبار۔

 (1.الکنی والالقاب جلد سوم صفحہ 280 مطبوعہ تہران)

(2.اعیان الشیعہ جلد اول صفحہ 154 جلد 10 صفحہ 30)

(3.تنقیح المقال جلد سوم صفحہ 166)

 ترجمہ:

 ابنِ ندیم نے کہا کہ الواقدی میں تشیع تھا مذہب کا اچھا تھا اور تقیہ کو ضروری سمجھتا تھا یہ وہی شخص ہے جس نے روایت کی کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نبیﷺ کا معجزہ ہیں جیسا کہ موسیؑ کا عصا اور عیسیؑ کا مردے زندہ کرنا تھا اس کے علاوہ بھی کچھ خبریں ایسی ہی ہیں۔

 تنقیح المقال:

واقول بعد کون الرجل شیعیا عالما ینبغی عد حدیثہ فی الحسن وتولیة القضاء لا یدل علی فسقہ لامکان کونہ بعد حسن مذھبہ تولی باذن من الرضاء۔

 (تنقیح المقال جلد سوم صفحہ 166 باب محمد من ابواب المیم مطبوعہ نجف اشرف)

 ترجمہ:

 میں کہتا ہوں کہ جب کہ یہ ثابت ہے کہ الواقدی شیعہ عالم تھا تو اس کی حدیث کو حسن شمار کرنا چاہیے عہدہ قضأ قبول کرنا اس کے فاسق ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ اس کے اچھے مذہب کے ہوتے ہوئے ممکن ہے کہ یہ امام رضا کی اجازت سے قاضی بنا ہو۔

 لمحہ فکریہ:

 گزشتہ حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ الواقدی کو اگر سنی تسلیم کر لیا جائے تو سخت مجروح آدمی ہے لہٰذا اس کی روایات قابل حجت نہ ہوں گی اور اگر یہ دیکھا جائے کہ خود شیعوں نے اسے شیعہ عالم قرار دیا اور تقیہ کرنا اس کا لازمہ ثابت کیا تو پھر ہو سکتا ہے کہ اس نے سنیت کو بطور تقیہ اختیار کیا ہو اور قرائن اسی کی تصدیق و تائید کرتے ہیں کیونکہ تقیہ باز شخص بہتر سمجھتا ہے کہ لہٰذا اس اعتبار کے پیش نظر بھی اس کی روایات قطعاً اہلِ سنت پر حجت نہیں ہوں گی۔

 محمد بن اسحاق بن یسار کے حالات:

محمد بن اسحاق بن یسار کابھی محدثین اہلِ سنت میں شمار کیا جاتا ہے لیکن متفق علیہ راویوں میں سے نہیں ہے اور اہلِ تشیع اس کی مرویات کو بھی پیش کرکے حجیت کا کام لیتے ہیں خاص کر مروجہ ماتم کے جائز ہونے پر اس کی مندرجہ ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں 

 سیرت ابنِ ہشام:

قال ابن اسحاق وحدثنی یحيیٰ بن عباد بن عبداللہ بن الزبیر عن ابیہ عباد قال سمعت عائشةؓ تقول مات رسول اللہﷺ بین سحری ونحری وفی دولتی لم اظلم فیہ احدا فمن سفھی وحدائت منی ان رسول اللہﷺ قبض وھو فی حجری ثم وضعت رأسہ علی وسادة وقمت التدم مع النساء واضرب وجہی.

(سیرت ابن ہشام جلد چہارم صفحہ 1513)

 ترجمہ:

 ابنِ اسحاق نے کہا ہے کہ (بحذف الاسناد) میں نے سیدہ عائشہؓ سے سنا ہے کہ نبی ﷺ کا وصال میری تھوڑی اور میرے سینہ کے درمیان ھوا آپ آخری وقت میرے ہی گھر میں تھے میں نے کیسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا میری سفاہت اور لڑکپن کی وجہ تھی کے آپﷺ کا میری گود میں.انتقال ہوا پھر بعد انتقال میں نے آپﷺ کا سر انور ایک تکیے پر رکھ دیا اور عورتوں کو بلا کر میں نے ان کے ساتھ اپنا چہرہ پیٹا یہ اور اس قسم کی دوسری روایت سے اہلِ تشیع مروجہ ماتم کو اہلِ سنت کی کتب سے ثابت ہونا بیان کرتے ویں کہ ہم نے اس اعتراض کا تفصیلی جواب تحریر کر دیا ہے خلاصتاً یہ ہے کہ ابنِ اسحاق کو اگر اہلِ سنت کا عالم تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی بالاتفاق ثقہ راوی نہیں ہے بلکہ سخت مجروح ہے۔

تہذیب التہذیب:

وقال مالك دجال من الدجلۃ وقال الزبیری عن الدراوردی وجلد ابن اسحاق یعنی فی القدر وقال الجوزجانی الناس یشتھون حدیثہ وکان یرمی بغیر نوع من البدع وقال موسیٰ بن ھارون سمعت محمد بن عبد اللہ بن نمیر یقول کان محمد نب اسحاق یرمی بالقدر وقال احمد بن حنبل کان ابنِ اسحاق یدلس سمعت ابا عبد اللہ یقول ابن اسحاق لیس بحجۃ وقال میمونی عن ابنِ معین ضعیف قال النسائی لیس بقوی۔

(تہذیب التہذیب جلد 9 صفحہ 41 تا 44) 

 ترجمہ:

 اِمام مالک نے ابن اسحاق کو دجال کہا زبیری نے دراوردی سے نقل کیے ہے کہ ابنِ اسحاق کو قدریہ ہونے پر کوڑے مارے گئے جوزجانی نے کہا کہ لوگ ابنِ اسحاق کی احادیث کی خواہش کیا کرتے تھے اور اس میں بدعت کی کوئی نوع باقی نہ تھی موسیٰ بن ہارون نے کہا کہ میں نے محمد بن عبداللہ بن نمیر کو یہ کہتے سنا کہ محمد ابنِ اسحاق قدریہ ہونے میں مطعون تھا اور حنبل بن اسحاق نے کہا میں نے عبداللہ سے سنا کہ ابنِ اسحاق لیس بشئی ہے اور ابنِ معین سے میمونی بیان کرتا ہے کہ ابنِ اسحاق ضعیف ہے اور نسائی نے بھی لیس بقوی کہا ہے۔

میزان الاعتدال:

وقال ابو داؤدقدری معتزلی وقال سلیمان التیمی کذاب وقال وھیب سمعت ھشام بن عروة یقول کذاب۔

(میزان الاعتدال جلد سوم صفحہ 21 حرف المیم مطبوعہ مصر قدیم)

ترجمہ:

  ابو داؤد نے کہا کہ ابنِ اسحاق قدری معتزلی ہے سلیمان تیمی نے اسے کذاب کہا وہیب نے بیان کیا ہے کہ ہشام بن عروہ اسے کذاب کہتے تھے۔

 قارئین کرام!

  کتاب اسماء الرجال اہلِ سنت سے آپ نے محمد بن اسحاق کا مقام مرتبہ معلوم کیا ہے کذاب تک کہا گیا بہرحال سخت تنقید کا نشانہ بنا چاہیے اس کی وجہ کوئی بھی ہے اس لیے اس کی مروجہ ماتم کے ثبوت پر سیدہ عائشہؓ کے مذکور روایت سے استدلال درست نہیں ہو سکتا علاوہ ازیں اگرچہ کتب اہلِ سنت میں سے بعض نے اسے صدوق کہا ہے لیکن یہ متفق علیہ نہیں ہے ہماری کتب یہ ثابت بھی کرتی ہیں کہ محمد بن اسحاق میں تشیع پایا جاتا تھا ۔

تقریب التہذیب:

محمد بن اسحاق یسار ابوبکر المطلبی مولاھم المدنی تنزیل العراق امام المغازی صدوق یدلس ورمی بالتشیع والقدر ۔

(تقریب التہدیب جلد دوم صفحہ 144 مطبوعہ بیروت)

ترجمہ:

 کہ محمد بن اسحاق یسار المطلبی المدنی عراق میں رہائش پزید ہوا اِمام المغازی تھا صدوق تھا اور تدریس کیا کرتا تھا علاوہ ازیں اور قدریہ ہونے کی بھی اس کی طرف نسبت کی گئی ہے یاد رہے محمد بن اسحاق میں وجوہ تشیع کی وجہ سے اس کی وہ روایات جو مسلک کے اہلِ سنت کے خلاف ہیں وہ ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں ہو سکتیں پھر خود شیعوں نے اسے اپنا اِمام تسلیم بھی کیا ہے ثبوت ملاحظہ ہو

 اعیان الشیعہ:

محمد اسحاق بن یسار المدنی صاحب الیسیروالمغازی نص علی تشیعہ ابن حجر فی التقریب وذکرہ اصحابنا فی علماء الشیعہ وقال العلماء انہ اعلم الناس بالمغازی واحفظھم واعرفھم بفنون العلم ۔

(اعیان الشیعہ جلد اول صفحہ 153 ذکر طبقات المؤرخین من الشیعة مطبوعہ بیروت لبنان جدید) 

 ترجمہ:

محمد بن اسحاق صاحب الیسیر والمغازی کے تشیع پر ابنِ حجر نے تقریب میں نص وارد کی ہے اور اسے ہمارے شیعہ احباب نے علمائے شیعہ میں سے ذکر کیا ہے کے مغازی کے موضوع کا یہ سب سے بڑا حافظ عالم اور فنون کا ماہر تھا۔

 تنقیح المقال:

محمد بن اسحاق بن یسار امدنی عدہ الشیح فی رجالہ من اصحاب الصادق وعلی کل حال فظاھرالشیخ ان الرجل امامی ونص علیہ ابن حجر فی التقریب حیث قال محمد بن اسحاق بن یسار ابوبکر المطلبی مولاھم المدنی نزیل العراق امام صدوق یدلس ورمی بالتشیع والقدر من صغار الخامسة 

(تنقیح المقال جلد دوم من ابواب المیم صفحہ 79 مطبوعہ تہران )

 ترجمہ:

  محمد بن اسحاق مدنی کو شیخ نے اپنے ان رجال میں سے شمار کیا ہے وہ سیدنا جعفرؓ کے اصحاب میں سے تھے وہ سیدنا جعفر صادقؓ کے اس خواب میں سے تھے بہرحال شیخ نے اس کے امامی ہونے کی تصریح کر دی ہے اور ابنِ حجر نے تقریب میں اس کے متعلق لکھا کہ اِمام صدوق اور تدلیس کرنے والا تھا تشیع اور قدریہ کا بھی اس پر الزام ہے۔

 خلاصہ:

 محمد بن اسحاق صاحب المغازی کو اگر اہلِ سنت قرار دیا جائے تو بوجہ سخت مجروح ہونے کے اس کی روایات قابل احتجاج نہیں اور جب اس کے تشیع کو دیکھا جائے تو جسے اہلِ سنت اور اہلِ تشیع دونوں نے تسلیم کیا ہےتو پھر اس کی ایسی روایات جو مسلک اہلِ سنت کے خلاف ہیں وہ اہلِ سنت پر حجیت کا کام نہیں دے سکتیں لہٰذا سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے ماتم کی روایات سے اہلِ سنت کے ہاں جواز ماتم پر استدلال پیش کرنا بعید ازعقل ہے علاوہ ازیں مائی صاحبہؓ جب اسے اپنے بچپن کی غلطی خود تسلیم کر رہی ہیں تو پھر سرے سے ہی استدلال ھباء منشورہ ہو گیا۔

 فاعتبروا یا اولی الابصار:

 شیعہ مجتہد ابو حنیفہ نعمان کے حالات:

  ابو حنیفہ نعمان نامی شیعہ عالم کا ذکر ہم نے اس لیے ضروری سمجھا تاکہ اہلِ سنت کے امام جناب ابوحنیفہ نعمان بن ثابت اور اسی نام و کنیت کے شیعہ عالم کے درمیان امتیاز ہو جائے اور اسی شیعہ ابوحنیفہ کی ایک فقہی عبارت سے یہ وہم دور ہو جائے کہ اس کا قائل ابوحنیفہ نعمان بن ثابت نہیں بلکہ ابو حنیفہ شیعی ہے اگرچہ یہ مسئلہ فقہ جعفریہ کتاب النکاح میں ہم نے تحریر کردیا ہے لیکن شیعہ سنی مصنفین کے امتیاز کے پیش نظر اسے مستقل ذکر کرنا ضروری سمجھا لف حریر مشہور مسئلہ کے بارے میں اس شیعی ابوحنیفہ کی عبارت درج ذیل ہے 

ذخیرۃ المعاد:

 سوال

اگر شخص آلت خود رابہ پچید بدست مال حریر و نحوآں کی مماست حاصل نشود و در زماں جماع وہم چنین مماست حاصل نہ شود بجہت کشادی فرج یا باریکی آلت آیا غسل واجب است یانازنہ

 جواب

لزوم غسل خالی از قوت نسیت واز ابوحنیفہ نقل شدہ کے جماع در فرج محارم با الف حریر جائز است 

(ذخیرۃ المعاد صفحہ 95 از شیخ العابدین باب طہارہ غسل جنابت مطبوعہ لکھنو)

  سوال

اگر کوئی شخص اپنے ذکر کو رویشمی رومال سے یا اس کی مثل کسی اور چیز سے لپیٹ لے اور جس کی وجہ سے مرد عورت کا شرمگاہ میں بوقت جماع مس نہ ہو پایا جائے اسی طرح عورت کی شرمگاہ کشادہ ہونے یا مرد کا ذکر بہت باریک ہونے کی صورت میں مس نہ ہو پائے تو کیا غسل واجب ہے یا نہیں؟

 جواب:

غسل کا لازم ہونا مضبوط دکھائی دیتا ہے اور ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ محارم کے ساتھ ریشم لپیٹ کر جماع کرنا جائز ھے ذخیرۃ المعاد کی مذکورہ عبارت پر محشی نے لف حریر کے مسئلہ کو جو ابوحنیفہ کے نام سے لکھا گیا ہے اسے اہلِ سنت کے امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کی طرف منسوب کرکے اپنے شیعہ مذھب میں اس کی تردیدکا قول کیا ہے محشی کی عبارت ملاحظہ ہو۔

 حاشیہ ذخیرة المعاد:

دستخطے علماء لکھنو دریں باب دارم کہ جناب مفتی سید محمد عباس قبلہ می نویسند کے ایلاج ذکر در فرج زن دخول وجماع است اگرچہ ذکر ملفوف باشدد ابوحنیفہ امام اعظم سنیاں است درشیعہ قابل ایں قول عالم ایں کنیت غیر معلوم مدعی باید اثبات کند

 واللہ اعلم

(مذکورہ عبارت پر حاشیہ ذخیرۃ المعاد صفحہ 95 مطبوعہ لکھنو )

 ترجمہ:

 کے میرے پاس لکھنو کے علماء کے دستخط ہیں کہ جناب مفتی سید محمد عباس قبلہ نے لکھا ہے کہ مردکا آلہ تناسل عورت کے فرج میں داخل ھوجانا دخول جماع کہلاتا ہے اگرچہ مرد کا آلہ تناسل کسی کپڑے وغیرہ میں لپٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو اور ابوحنیفہ سنیوں کا اِمام اعظم ہے شیعہ میں یہ قول اور اس کنیت کاعالم ناقابل اعتبار ہے مدعی کو چاہئے کہ ہمارے کسی شیعہ عالم کی یہ کنیت ثابت کر دکھاۓ۔

 واللہ اعلم

 ابو حنیفہ سنی اور ابو حنیفہ شیعہ کا تعارف اور فرق

الکنی والالقاب

 نعمان بن ثابت بن زوطی بن ماہ مولی تیم اللہ بن ثعلبہ الکوفی احد الائمة والاربعةالسنیة صاحب الرای والقیاس والفتاوی المعروفۃ الفقھیة۔

(الکنی والالقاب جلد اول صفحہ 53 مطبوعہ تہران)

 ترجمہ:

 نعمان بن ثابت بن زوطی بن ماہ الکوفی اہلِ سنت کے چار اماموں میں سے ایک ہوئے ہیں رائے قیاس اور فقہی فتاوی میں معروف شخصیت ہیں۔

مجالس المومنین:

در تاریخ ابن خلکان وابن کثیر شامی مسطوراست کی اویکے از فضلائے مشارالیہ بدودر علم فقہ و دین و بزرگی بمرتبہ سیدہ بود کے مزیدی برآں متصور نابود ودر اصل مالکی مذہب بود بعد ازآں بمذہب امامیہ انتقال نمود و اور امصنفات بسیاراست مانند کتاب اختلاف اصول المذاہب و کتاب اختیار در فقہ کتاب الدعوۃ للعبیدین وازا بن زولاق روایت نمودہ کے نعمان بن محمد القاضی درغایت فضل وازاھل قرآن وعالم بود بوجوہ فقیہ اختلاف فقہائے معارف بود بوجوہ فقہ و احتلاف فقہاء وعارف بود بوجوہ لغت شعر تاریخ ونجیلہ عقل و انصاف آراستہ بوددرمناقب اہلِ بیت چندیں ہزار ورق تالیف نمودہ بود بہ نیکو ترین تالیف ولطیف ترین سجعی ودر مثالب اعداء مخالفان ایشان نیز کتاب تالیف نمودہ واورا کتابہا است کہ درآنجا ودبر ابوحنیفہ کوفی و مالک وشافعی و ابنِ شریح وغیر ایشاں ازمخالفان نمودہ واز مصنفات او کتاب احتلاف فقہاء است درآنجا نصرت مذہب اہلِ بیت نمودہ واورا قصیدہ ایست درعلم فقہ وابوحنیفہ مذکور ہمراہ معزدین اللہ خلیفہ فائمی ازمغرب مصر آمد درماہ رجب سنة ثلاث وستین وثلثمائة درمصروفات یافت

( مجالس المومنین جلد اول صفحہ 538 تا 539 ابوحنیفہ نعمان بن محمد مطبوع و تہران خیابان )

(الکنی والالقاب جلد اول صفحہ 53 مطبوعہ تہران)

 ترجمہ:

 نعمان بن ثابت بن زوطی بن ماہ الکوفی اہلِ سنت کے چار اماموں میں سے ایک ہوئے ہیں رائے قیاس اور فقہی فتاوی میں معروف شخصیت ہیں۔

مجالس المومنین:

در تاریخ ابن خلکان وابن کثیر شامی مسطوراست کی اویکے از فضلائے مشارالیہ بدودر علم فقہ و دین و بزرگی بمرتبہ سیدہ بود کے مزیدی برآں متصور نابود ودر اصل مالکی مذہب بود بعد ازآں بمذہب امامیہ انتقال نمود و اور امصنفات بسیاراست مانند کتاب اختلاف اصول المذاہب و کتاب اختیار در فقہ کتاب الدعوۃ للعبیدین وازا بن زولاق روایت نمودہ کے نعمان بن محمد القاضی درغایت فضل وازاھل قرآن وعالم بود بوجوہ فقیہ اختلاف فقہائے معارف بود بوجوہ فقہ و احتلاف فقہاء وعارف بود بوجوہ لغت شعر تاریخ ونجیلہ عقل و انصاف آراستہ بوددرمناقب اہلِ بیت چندیں ہزار ورق تالیف نمودہ بود بہ نیکو ترین تالیف ولطیف ترین سجعی ودر مثالب اعداء مخالفان ایشان نیز کتاب تالیف نمودہ واورا کتابہا است کہ درآنجا ودبر ابوحنیفہ کوفی و مالک وشافعی و ابنِ شریح وغیر ایشاں ازمخالفان نمودہ واز مصنفات او کتاب احتلاف فقہاء است درآنجا نصرت مذہب اہلِ بیت نمودہ واورا قصیدہ ایست درعلم فقہ وابوحنیفہ مذکور ہمراہ معزدین اللہ خلیفہ فائمی ازمغرب مصر آمد درماہ رجب سنة ثلاث وستین وثلثمائة درمصروفات یافت

( مجالس المومنین جلد اول صفحہ 538 تا 539 ابوحنیفہ نعمان بن محمد مطبوع و تہران خیابان )

(الکنی والالقاب جلد اول صفحہ 57)

 ترجمہ

 تاریخ ابنِ خلکان اور ابنِ کثیر شامی میں تحریر ہے کہ ابوحنیفہ شیعہ مشہور و معروف زمانہ آدمی تھا علم فقہ اور دین و بزرگی میں ایسے مرتبہ و مقام پر فائز تھا اس سے زیادہ کا تصور نہیں ہو سکتا دراصل مالکی مذہب تھا اور پھر اس کے بعد مذہب امامیہ کی طرف منتقل ہو گیا اس کی بہت سی تصنیفات ہیں مثلاً کتاب اختلاف اصول المذاہب کتاب اختیار در فقہ اور کتاب الدعوة للعبیدین ابنِ زولاق سے مروی ہے ایک نعمان بن محمد قاضی بہت بڑا فاضل اور قرآن و علوم قرآن کا بہت بڑا عالم تھا اور وجوہ فقہ کا بہت جاننے والا تھا لغت شعر اور تاریخ کا عارف تھا عقل و انصاف کے زیور سے آراستہ تھا اہلِ بیت کے مناقب میں کئی ہزار صفحات تحریر کیے اس کی تالیفات بہت اچھی اور ان کی عبارات بڑی مستجع تھی اہلِ بیت کے دشمنوں کی چیرہ دستیاں اور مظالم پر اس کی تصنیفات ہیں اور اس کی کچھ تصنیفات میں اِمام ابوحنیفہؒ کوفی اور اِمام مالکؒ اور اِمام شافعیؒ قاضی شریخ وغیرہ اکابر اہلِ سنت جو اس کے مخالف ہیں ان کا رد بلیغ لکھا ہے اس کی تصنیفات میں سے اختلاف فقہاء نامی کتاب ہے اس میں اس نے اہلِ بیت کے مذہب کی پر زور حمایت کی اور علم فقہ میں اس کا ایک قصیدہ بھی ہے یہ ابوحنیفہ شیعی مذہب معز الدین خلیفہ فاطمی کے ساتھ مغرب مصر میں آیا اور جب 363 ہجری میں وہیں انتقال کر گیا۔

اعیان الشیعہ:

القاضی ابوحنیفہ النعمان بن محمد المصری قاضی الفاطمتین قال ابن خلکان کان مالکیا ثم انتقل الی مذھب الامامیة لہ کتاب الاخبار فی الفقہ وکتاب الاقتصار فی الفقہ ذکرہ الامیر مختار السبیحی فی تاریخہ فقال کان فی الفقہ والدین والنیل علی مالا مزید علیہ وقال ابن زولاق کان فی غایة الفصل عالما بوجوہ الفقہ ومن مؤلفاتہ فی الحدیث کتاب دعائم الاسلام

(اعیان الشیعہ جلد اول صفحہ 144مطبوعہ بیروت)

ترجمہ:

ابوحنیفہ نعمان بن محمد مصری فاطمی عقیدہ والوں کا قاضی تھا ابنِ خلکان نے کہا کہ یہ پہلے مالکی مذہب تھا پھر اسے چھوڑ کر امامیہ المذہب ہوگیا اس کی کتاب الاخبار اور دوسری الاقتصار فقہ کے موضوع پر ہیں امیر مختار نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے کہ فقہ دین اور عقل و خرز میں آخری درجہ پر فائز تھا ابنِ زولاق کا کہنا ہے کے بہت بڑا عالم اور وجوہ فقہ کا ماہر تھا اور حائم الاسلام نامی کتاب فن حدیث پر اس نے لکھا ہے ۔

 لمحہ فکریہ:

 ذخیرۃ المعاد جو شیعہ مسلک کی کتاب ہے اس میں ابوحنیفہ کنیت والے شخص کا ایک فقہی مسئلہ لکھا تھا جسے لف حریر کہا جاتا ہے اس ابوحنیفہ کنیت والے شخص کو مذکورہ کتاب کی حاشیہ لکھنے والے نے بڑی دلیری سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ یہ ابوحنیفہ اہلِ سنت کا اِمام اعظمؒ ہے اور لف حریر اس کا مسئلہ ہے ہم اہلِ تشیع کا نہ یہ مسلک ہے نہ ہی اس کنیت کا کوئی آدمی ہمارا اندر ہوا ہے الخ یہ محشی کی عیاری اور فریب دینے کی کوشش تھی خود شیعہ مصنفین کو تسلیم کہ ایک ابوحنیفہ ہمارا مجتہد بھی ہے جو 

  1.   ابوحنیفہ نعمان بن محمد مصری ہے جبکہ اہلِ سنت کا اِمام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ کوفی ہے
  2.   یہ فاطمی مسلک کے لوگوں کا قاضی تھا جبکہ اِمام اعظمؒ نے عہدہ قضا قبول ہی نہیں کیا تھا۔
  3.  یہ پہلے مالکی تھا پھر امامی ہوگیا جبکہ اِمام اعظمؒ خود ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد مطلق ہوئے ہیں ۔ 
  4.  اس نے مذہب امامیہ کی تائید اور سنی ائمہ ابوحنیفہؒ کوفی اِمام مالکؒ اِمام شافعیؒ وغیرہ کی بھرپور تردید کی ۔
  5.  کے یہ فاطمی خلیفہ معزدین کے ساتھ مصر آیا اور 363 ھ میں فوت ہوا جبکہ امام اعظم ابوحنیفہؒ نہ فاطمی حلیفہ کے ساتھ مصر آئے اور نہ ہی ان کا وصال مذکورہ سن میں ہوا بلکہ وہ اس سے پہلے انتقال کر گئے تھے لہٰذا ان حقائق کے پیش نظر ذخیرۃ المعاد میں جس ابوحنیفہ کی بات لکھی گئی ہے وہ شیعی ابوحنیفہ ہے اور اس کے الفاظ کی روشنی میں ہر شیعہ اپنی ماں بہن بیٹی وغیرہ سے اگر اس طرح جماع کرے کہ اپنے ذکر پر کوئی ریشمی کپڑا وغیرہ لپیٹا ہوا ہو تو وہ جائز ہے یہ شیعوں کا مسئلہ ایک شیعہ مجتہد اور ہر علم و فن کا ماہر لکھ رہا ہے جس کی بقول شیعہ اپنے زمانے میں نظیر نہ تھی اب شرم کی کون سی بات ہے بھلا ہو تمہارے ابوحنیفہ کا آسان اور کم خرچ وظیفہ بن گیا ہے خواہ مخواہ اسے سنی ابوحنیفہ کی طرف منسوب کر رہے ہو اور اپنے عالم مجتہد اور بےنظیر محقق کو ہیرا پھیری سےسنی ابوحنیفہ قرار دے کر بحوالہ جامع الاخبار کتے اور خنزیر سے برتر قرار دے رہے ہو بہرحال ان چند سطور سے ہم نے دونوں ابوحنیفہ کنیت والے اشخاص کے درمیان امتیاز واضح کردیا ہے اللہ تعالیٰ حق و باطل کا امتیاز سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین