Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رافضیت سے متعلق عمومی کلام یہودو روافض میں مشابہت

  امام ابنِ تیمیہؒ

رافضیت سے متعلق عمومی کلام

یہودو روافض میں مشابہت 

ابن المطہر نے اپنی کتاب کا نام ’’منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ‘‘ رکھا ہے۔یہ کتاب اس بات کی زیادہ حق دار تھی کہ اس کا نام ’’ منہاج الندامۃ ‘‘ رکھاجائے۔ جیسا کہ اس کا مصنف ہے؛ جو کہ [اپنے بارے میں ] طاہر ہونے کا دعوی کرتا ہے ‘ مگر حقیقت میں اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ پاک نہیں کرتا چاہتے۔ بلکہ یہ سرکش طاغوت اور اہل نفاق میں سے ہے ۔ اس کو مطہر کہنے کے بجائے پلید اور نجس کہنا زیادہ مناسب تھا۔ اور دل کی پلیدگیوں میں سب سے بڑی پلیدی یہ ہے کہ جو لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اوربہترین اہل ایمان ہیں ‘ ان کے خلاف حسد و بغض ہو۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد مال ِ فے میں صرف ان لوگوں کا حصہ رکھا ہے جو یہ کہتے ہیں : 

﴿رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ﴾ (الحشر۱۰)

’’ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کے لیے ہمارے دل میں بغض اور دشمنی نہ ڈال؛اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

شیعہ خبث باطن اور ہوائے نفس اور دیگر کئی ایک یہودی اخلاقیات میں یہود سے ملتے جلتے ہیں ‘اور غلو و جہالت اور دیگر کئی ایک عیسائی اخلاقیات میں نصاریٰ کے ہم نوا ہیں ۔بعض اسباب کی وجہ سے یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں تو بعض اسباب کی جہ سے عیسائیوں کے مشابہ ہیں ۔ لوگ شروع سے لیکر آج تک ان کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان کے متعلق سب سے زیادہ معلومات رکھنے والے امام شعبی رحمہ اللہ اور ان جیسے دوسرے علماء کوفہ تھے۔

امام شعبی رحمہ اللہ سے ثابت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے :

’’میں نے رافضیوں سے بڑھ کر بیوقوف کسی کو نہیں پایا[ان کے لیے یہاں پر ’’خشبیہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے؛ جو کہ خشب کی طرف منسوب ہے؛ یعنی لکڑی والے۔ انہیں یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے یہ لوگ اس دور میں تلوار سے نہیں لڑتے تھے۔ بلکہ لکڑ سے لڑتے تھے۔ اور کہتے تھے: اسلحہ کا استعمال کرنا اس وقت تک حرام ہے جب تک امام غائب کا ظہور نہ ہوجائے۔ اور لوگوں کو پتھر مار کر اور گلا گھونٹ کر یا لکڑ سے مار مار کر قتل کرتے تھے۔ ان کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔ [الفصل لابن حزم ۵؍۴۵]]۔اگر یہ جانوروں میں سے ہوتے تو گدھے ہوتے، اور اگر پرندوں میں سے ہوتے تو کوّے ہوتے۔ اور اللہ کی قسم ! اگر میں چاہوں کہ وہ میرے گھر کو سونے سے بھر دیں ، اور میں ان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ایک جھوٹ بولوں تو وہ ایسا کر گزریں گے۔ لیکن اللہ کی قسم ! میں کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں بولوں گا۔‘‘

آپ سے یہ کلام بہت تفصیل کیساتھ منقول ہے لگتا ہے کہ زیادہ تفصیل شعبی کے علاوہ کسی دوسرے عالم سے نقل کی ہے ۔

ابن شاہین [حسن بن موسی نو بختی کا تعلق کبار شیعہ امامیہ علماء سے تھا۔اس نے اپنی کتاب’’فرق الشیعہ ص ۱۹ ‘‘ میں کہا ہے: ’’جب حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل ہوگئے تو جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منصوص امام مانتے تھے؛ وہ تین گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک فرقے نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ آپ نہ ہی قتل ہوئے ہیں اور نہ ہی مرے ہیں ؛ اور نہ ہی قتل ہوں گے اورنہ ہی مریں گے جب تک کہ سارے عرب کو اپنی لاٹھی سے ہانک نہ لیں ۔اورزمین کو عدل و انصاف سے ایسے نہ بھر لیں جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وقف کا کہنے والا آپ کی امت میں یہ پہلا فرقہ ہے۔ اور یہی وہ لوگ تھے؛ جنہوں نے سب سے پہلے غلو کا عقیدہ اختیار کیا۔ اس فرقے کو سبائیہ بھی کہا جاتاہے؛ جو عبداللہ بن سبا کے ساتھی تھے۔یہی وہ انسان تھا جس نے حضرت ابوبکر صدیق؛ حضرت عمر فاروق اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم پر طعنہ زنی کی ابتداء کی ۔ اور ان پر تبرأ کرنا شروع کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ کر اس بارے میں پوچھا؛ تو اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے ایسا کہا ہے۔ تو آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ اہل علم کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ یہ عبداللہ بن سبأ یہودی تھا؛ اس نے اسلام کا اظہار کیا؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا پرچار کرنے لگا۔ جب وہ یہودی تھا تو کہا کرتا تھا کہ حضرت یوشع بن نون موسی علیہ السلام کے بعد وصی ہیں ۔تو اسلام کے بعد یہی بات وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ وصی ہیں ۔ یہ پہلا انسان ہے جس نے امامت کے فرض ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اور آپ کے مخالفین سے برأت کا اظہار کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں : ’’شیعیت در اصل یہودیت سے مأخوذ ہے۔‘‘[مقالات الإسلامیین للأشعری ۱؍۸۵؛ التبصیر في (]رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ اللطف في السنۃ‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’ہم سے محمد بن القاسم بن ہارون نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں : ہم سے احمد بن ولید واسطی نے بیان کیا ؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے جعفر بن نصیر الطوسی الواسطی نے بیان کیا ‘ وہ عبد الرحمن بن مالک بن مغول سے روایت کرتے ہیں ‘ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : مجھ سے شعبی نے کہا :

’’میں تمہیں گمراہ کرنے والی ہوا پرستی سے خبر دار کرتا ہوں اوران میں سب سے بڑھ کر برے رافضی ہیں ۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور ثواب کی امید پر اسلام میں داخل نہیں ہوئے لیکن اہل اسلام سے بیزاری اور ان پر سرکشی کرتے ہوئے اسلام میں داخل ہوئے؛بلکہ اہل اسلام سے انتقام لینے کیلئے اسلام کا اظہار کرنے لگے ۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں آگ میں جلایا تھااور انہیں شہروں سے نکال دیا تھا۔ انہی میں سے ایک عبد اللہ بن سباء یہودی تھا جوکہ صنعاء کے یہود میں سے تھا؛ جسے ساباط کی طرف ملک بدر کیاتھا۔اور عبد اللہ بن یسار کو حاذر[الدین ص ۷۱۔ الفرق بین الفرق ص ۱۴۳۔ الشیعۃ و التشیع از علامہ ظہیر ص ۴۶۔] ابن طاہر البغدادی نے اپنی کتاب [الفرق بین الفرق ص ۱۸۔]پر کہا ہے: سبئیہ وہ سب سے پہلا فرقہ ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اپنی بدعت کا اظہار کیا۔ان میں سے بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: آپ ہی خدا ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے بعض کو جلا ڈالا؛ اور بعض کو ساباط کی طرف ملک بدر کردیا۔  ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان البغدادی ‘ ۳۸۵ھ میں انتقال ہوا ؛ دیکھیں : تذکرۃ الحفاظ ۳؍۱۸۳] کی طرف ملک بدر کیا۔

رافضیوں کا فتنہ بھی یہودیوں کی طرح ہے۔[اس کی وجہ ان کے عقائد میں یگانگت ہے ۔ مثال کے طور پر:]

۱۔ یہودی کہتے ہیں کہ :’’بادشاہت صرف آل ِ داؤد میں ہی ہوسکتی ہے۔ جب کہ رافضی کہتے ہیں : ’’امامت صرف آل علی بن ابی طالب میں ہی ہوسکتی ہے۔ ‘‘

۲۔ یہودی کہتے ہیں : ’’جہاد اس وقت تک نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ مسیح منتظر نہ نکلے اور آسمان سے تلوار اترے ۔‘‘

رافضی کہتے ہیں : ’’جہاد فی سبیل اللہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ مہدی منتظرکا خروج ہو؛ اور آسمان سے ایک آواز لگانے والا آواز لگائے ۔‘‘

۳۔ یہودی نماز مغرب میں تاخیر کرتے ہیں یہاں تک کہ ستارے آپس میں مل جائیں ؛ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث میں ثابت ہے آپ نے فرمایا: ’’ میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک یہ نماز مغرب میں ستاروں کے مل جانے تک دیر نہ کرنے لگ جائیں ۔‘‘[رواہ أبو داؤد في السنن ۱؍۱۶۹؛ وابن ماجۃ ۱؍۲۲۵۔ وأحمد في المسند ۴؍۱۴۷۔]

۴۔ یہود قبلہ سے کچھ ہٹ کر نماز پڑھتے ہیں ‘ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں ۔

۵۔ یہود نماز میں سستی کرتے ہیں ‘ ایسے ہی رافضی بھی سستی برتتے ہیں ۔

۶۔ یہودی نماز میں اپنے کپڑے لٹکا کر رکھتے ہیں ؛ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔

۷۔ یہود کے ہاں عورتوں کی عدت نہیں ہے۔ ایسے ہی رافضہ کے ہاں بھی ہے۔

۸۔ یہودیوں نے تورات میں تحریف کی ؛ رافضیوں نے قرآن میں تحریف کی۔

۹۔ یہودی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں ‘رافضی بھی ایسے ہی کہتے ہیں ۔

۱۰۔ یہودی اہل ایمان کو اخلاص کے ساتھ سلام نہیں کرتے بلکہ [السلام علیکم کے بجائے ] السام علیکم [ تم پر موت ہو] کہتے ہیں ۔ اور رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔

۱۱۔ یہودی جری اورمرماہی [ مچھلی کی اقسام ] نہیں کھاتے ؛ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں ۔

۱۲۔ یہودیوں نے خر گوش کواور ’’تِلی ‘‘کو حرام قرار دیا ؛ رافضہ نے بھی ایسے ہی کیا۔

۱۳۔ یہودی موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں سمجھتے۔ رافضہ بھی ایسے ہی نظریہ رکھتے ہیں ۔

۱۴۔ یہودی ہر مسلمان کے خون کو حلال سمجھتے ہیں [یہودیوں کی بابت]اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن میں خبر دی ہے :

﴿قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ﴾ (آل عمران ۷۵)

’’وہ کہتے ہیں کہ جاہلوں کا مال مار لیں توہم پر کوئی گناہ نہ ہو گا۔‘‘

رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔[وہ کہتے عامہ کے اموال کھانا ہمارے لیے جائز ہیں ]۔

۱۵۔ یہودی نماز میں اپنی مینڈھیوں پر سجدہ کرتے ہیں ۔ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں [تربت کربلا کی ٹکیہ پر سجدہ کرتے ہیں ]۔

۱۶۔ یہودی نامکمل رکوع سے سجدہ میں چلے جاتے ہیں ۔ اوریہی حال روافض کا بھی ہے ۔

۱۷۔ یہود جبرئیل سے بغض رکھتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ : یہ ملائکہ میں سے ہمارا دشمن ہے۔ ایسے ہی رافضہ بھی کہتے ہیں کہ : ’’ جبرئیل نے غلط کیا وحی لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا، اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔‘‘

۱۸۔ اس ایک خصلت میں رافضی عیسائیوں سے مشابہت رکھتے ہیں ؛ عیسائی کہتے ہیں ہم پر عورتوں کاکوئی مہر نہیں ‘ بس صرف ان سے فائدہ اٹھالینا چاہیے ۔ رافضی بھی اپنی عورتوں سے متعہ کرتے ہیں ۔

یہودیوں اور عیسائیوں کی رافضیوں پر دو وجہ سے فضیلت ہے۔ یہودیوں سے پوچھا گیا کہ: تمہاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ توکہنے لگے :’’ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی ہیں ۔‘‘

اورنصاریٰ سے پوچھا کہ: تمہاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟

توکہنے لگے :’’ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھی ہیں ۔‘‘

رافضیوں سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے برے لوگ کون ہیں ؟

توکہنے لگے : ’’ محمد کے ساتھی ہیں ۔‘‘

انہیں ان (اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے استغفار کرنے کا حکم دیا گیا، تو انہوں نے (استغفار کے بجائے) سب و شتم کیا۔

سو یہ برہنہ تلوار قیامت تک ان کے سروں پر لٹکتی رہے گی۔ان کے قدم قیامت تک جم نہیں پائیں گے۔ او رنہ ہی ان کا جھنڈا بلند ہوگا اور نہ ہی ان کا ایک بات پر اجتماع ہوسکتا ہے۔ ان کی دعوت راندی ہوئی ہے۔ ان کا کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ ان کے اجتماع میں بھی تفریق ہے۔جب بھی یہ جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں ،تو اللہ تعالیٰ اس آگ کوبجھا دیتے ہیں ۔‘‘

(میں کہتا ہوں ):امام شعبی رحمہ اللہ سے ثابت ہے آپ فرماتے ہیں :

’’اگر شیعہ جانوروں میں ہوتے تو گدھے ہوتے اور اگر پرندوں میں سے ہوتے تو کوّے ہوتے۔‘‘

ابن شاہین کہتے ہیں : ہم سے محمد بن عباس نحوی نے بیان کیا ‘ وہ کہتے ہیں : ہم سے ابراہیم الحربی نے بیان کیا ؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے ابو ربیع زہرانی نے بیان کیا ‘ وہ کہتے ہیں : ہم سے وکیع بن جراح نے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں : ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا۔ اور پھر یہی کلام نقل کیا ۔ یہ سیاق عبدالرحمن بن مالک بن مغول کی سند سے امام شعبی سے منقول ہے ۔

ابو عاصم خشیش بن اصرم [خشیش بن اصرم بن اسود ؛ ابو عاصم النسائی ؛ آپ کا انتقال ۲۵۳ھ میں ہوا۔ تہذیب التہذیب ۳؍۱۴۳۔]نے اپنی کتاب میں روایت کیا ؛ انہوں نے ابو عمرو الطلمنکی کی سند سے روایت کیا ہے ‘ان کی کتاب ’’ الاصول ‘‘ میں ہے ؛ آپ فرماتے ہیں : ’’ ہم سے ابن جعفر الراقی نے بیان کیا ؛ وہ عبدالرحمن بن مالک بن مغول سے روایت کرتے ہیں ‘ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ‘ وہ فرماتے ہیں میں نے عامر الشعبی سے کہا :’’ آپ کو ان لوگوں سے کس چیز نے موڑا، جب کہ آپ انہی میں سے تھے، اور ان کے بڑے سردار تھے ؟‘‘

تو انہوں نے فرمایا: ’’ میں نے دیکھا کہ وہ نصوص کوایسے کاٹ کر لیتے ہیں جن کا کوئی منہ سرا ہی نہیں ہوتا۔ پھر مجھ سے کہا : ’’ اے مالک ! اگر میں چاہوں کہ وہ اپنی گردنیں غلام بناکر میرے سامنے پیش کردیں ، اور میرے گھر کو سونے سے بھر دیں ، یا وہ میرے اس گھر کا حج کریں ، اور میں جناب سید نا علی رضی اللہ عنہ پر ایک ہی جھوٹ بولوں ، تو وہ ایسا کر گزریں گے۔ ‘‘ مگر اللہ کی قسم ! میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہر گز نہیں بولوں گا۔‘‘

اے مالک ! میں نے تمام بدعتی فرقوں کا مطالعہ کیا ہے، رافضہ سے بڑھ کر بیوقوف کسی کو نہیں پایا۔اگر یہ لوگ چوپائے ہوتے تو گدھے ہوتے؛ اور اگر پرندوں میں سے ہوتے تو کوّے ہوتے۔ ‘‘

اے مالک ! یہ لوگ دین اسلام میں رغبت اور اللہ کی رضا مندی کے حصول اور اس کے خوف کی وجہ سے مسلمان نہیں بنے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب ہے۔ اوران کی اسلام پر سرکشی اور بغاوت۔ یہ چاہتے ہیں کہ دین اسلام کو ایسے بگاڑ دیں جیسے پولس بن یوشع (یہودی بادشاہ) نے عیسائیت کو بگاڑا تھا۔

ان کی نماز ان کے کانوں سے اوپر تجاوز نہیں کرتیں ۔ انہیں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آگ میں جلایاتھا۔ اوران میں سے کچھ کو مختلف علاقوں میں جلاوطن کیا۔ انہی میں سے عبد اللہ بن سبا ؛صنعاء کا یہودی بھی تھا جسے ساباط کی طرف جلا وطن کیا۔ اور ایسے ہی ابوبکر الکروس کو جابیہ کی طرف جلا وطن کیا۔ اور ان میں سے ایک قوم کو آگ سے جلادیا؛ (یہ وہ لوگ تھے) جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کہنے لگے : ’’ آپ وہی ہیں ۔‘‘

حضرت علی نے کہا : میں کون ہوں ؟

تو کہنے لگے : ’’آپ ہی ہمارے رب ہیں ۔ ‘‘

(حضرت علی رضی اللہ عنہ ) نے آگ جلانے کا حکم دیا۔ جب شعلے بھڑکنے لگے تو حکم دیا کہ انہیں آگ میں ڈال دیا۔

ان ہی کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ جب برائی کو حد سے بڑھا ہوا دیکھا تو میں نے آگ جلائی، اور (انہیں جلانے کے لیے اپنے غلام) قنبر کو آواز دی ؛ (اس نے انہیں آگ میں جلا دیا)۔‘‘

۱۹۔یہود نماز میں اپنا کپڑا لٹکائے رکھتے ہیں ۔رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے اپنا کپڑا لٹکایا ہوا تھا تو آپ نے اسے نرمی سے کپڑا اوپر کرنے کو کہا۔ ‘‘

۲۰۔ یہودیوں نے تورات میں تحریف کی تو رافضی قرآن میں تحریف کرتے ہیں ۔

۲۱۔ یہودی تمام مسلمانوں کے خون کو حلال تصور کرتے ہیں ‘ ایسے ہی رافضی بھی عقیدہ رکھتے ہیں ۔

۲۲۔ یہودی لوگوں کو دھوکا دینا حلال سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں ۔

۲۳۔ یہودی تین طلاق کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے ؛ بس ہر حیض پر ایک طلاق شمار کرتے ہیں ۔ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں ۔

۲۴۔ یہودی باندیوں سے عزل کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ رافضہ بھی ایسے ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔

۲۵۔ یہود قبر میں لحد نہیں بناتے۔رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد بنائی گئی تھی۔

۲۶۔ یہودی اپنے مردوں کو ( قبر میں ) تازہ گیلی مٹی میں رکھتے ہیں ، ایسے ہی رافضہ بھی کرتے ہیں ۔[(مزید مشابہات یہ ہیں :)۲۷۔ یہودی اپنے آپ کو اﷲ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہودیوں کے علاوہ تمام انسان ’’گوئم‘‘ ) Goium)یعنی حیوان ہیں جو یہودیوں کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ،اور ان کے مال ودولت کی لوٹ مار جائز ہے ۔ اہل تشیع بھی بالکل یہی دعویٰ کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق اہل بیت سے ہے اس لئے ہم سب سے افضل اور اﷲکے محبوب بندے ہے ،وہ بھی اپنے علاوہ تما م انسانوں کو’’ ناصبی‘‘ کہتے ہیں یعنی ان کے عقیدے کے دشمن !جن کے مال ودولت کو لوٹنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کار ہے ۔ (۲۸) یہود نسلی برتری وتعصب کے علم بردار ہیں وہ عربوں کو بلکہ تمام مسلمانوں کو ذلت وحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ فارسی شیعوں کابھی عربوں کے متعلق یہی نظریہ اور خیال ہے ۔جدید ایران کے ایک مصنف’’مہدی بازرگان‘‘اسی رافضی نظریہ کی یوں وضاحت کرتا ہے :’’عربوں کی طبیعت میں سختی اور خشونت ہے ۔ان کا مزاج جارحانہ اور سوچ بڑی پست ہے ۔‘‘(الحد الفاصل بین الدین والسیاسہ ،مہدی بازرگان ص:۶۸) (۲۹): یہودیوں نے اپنے اقتدار وتسلط کے لئے تاریخ کے ہر دور میں جنس(Sex)کا سہارالیا انہوں نے علم وادب کے نام پر دنیا میں ایسی فحاشی اور بے حیائی پھیلائی کہ مشرق ومغرب کے معاشروں کی اخلاقی قدریں تار تار ہوگئیں ۔اور اباحیت کے اسی یہودی فلسفے نے یورپ کی حالیہ جنسی بے راہ روی اور اجتماعی زنا کاری کی راہ ہموار کی جس نے انسان وحیوان کے فرق کو مٹادیا۔شیعوں نے بھی انسانی معاشرے کو کھوکھلا کرنے کے لیے زناوبدکاری پر ’’متعہ‘‘کانقاب ڈال کر اس کو اعلیٰ ترین عبادت کا درجہ دے دیا اور کلینی سے خمینی تک تمام رافضی اہل قلم اس بات پر متفق ہیں کہ جو متعہ سے محروم رہا وہ جنت سے بھی محروم رہے گا اور قیامت کے دن نک کٹا اٹھے گا اور اس کا شمار اﷲکے دشمنوں میں ہوگا ۔شیعہ علماء ومجتہدین میں عاملیؔ تو اجتماعی بدکاری پر زور دے ہی چکے تھے ،لیکن عصر حاضر کے کلینی یعنی ’’آیت اﷲخمینی ‘‘ نے بدکار اور فاحشہ عورتوں کے ساتھ زنا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔(تحریر الوسیلۃ ،ج۲ص ۳۹۰) ۳۰۔ یہ لوگ یہودیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ، جنہوں پاک دامن بی بی حضرت مریم علیہاالسلام پر بہتان دھرا تھا۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک دامن بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان دھرتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان سے ایمان سلب کر لیا گیا۔ ۳۱۔ اور یہودیوں کے ساتھ اس قول میں بھی مشابہت رکھتے ہیں کہ وہ (یہود) کہتے ہیں :’’ بے شک دینا بنت یعقوب علیہ السلام (گھر سے ) نکلی تو وہ کنواری تھی۔ ایک مشرک نے اس کی بکارت کو زائل کردیا۔ ‘‘ یہ (شیعہ)کہتے ہیں : ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو غصب کر لیا۔ ‘‘ ۳۲۔ تاج پہننا جو کہ یہودیوں کا لباس ہے، [اس کا مشابہ ایک کٹورہ نماسا رافضیوں کے سر پر ہوتا ہے] ۳۳۔ اور داڑھی کاٹنا یا منڈوانا اور مونچھیں بڑی بڑی رکھنا یہ یہودیوں اور ان کے بھائیوں کادین ہے جو کافر ہیں ؛[اور رافضی بھی داڑھیاں کٹواتے، منڈواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں ] ۳۴۔ ان مشابہات میں سے ایک نماز باجماعت اور جمعہ کا ترک کرنا ہے۔ یہ لوگ اکیلے ہی نماز پڑھتے ہیں (باجماعت نماز شاذ و نادر ہی کہیں ہوتی ہے ) ۳۵۔ ان متشابہات میں سے ایک آپس میں سلام کا ترک کرنا ہے۔ اگر وہ سلام کریں گے بھی تو سنت کے خلاف کریں گے۔ ۳۶۔ انہی میں سے ایک کوئی کام کرکے نماز کو ختم کردینا ہے، جس میں وہ نماز کے فرض سلام کو پورا نہیں کرتے۔ بغیر سلام کے نماز توڑ دیتے ہیں ۔ بلکہ اپنے ہاتھ اٹھا کر رانوں پر مارتے ہیں ؛جیسے کہ شریر ٹٹو کرتے ہیں ۔ ۳۷۔ ایک مشابہت اہل ِ اسلام سے عداوت اور دشمنی رکھنا ہے؛اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا : ﴿ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا﴾ (مائدہ:۸۲)’’آپ دیکھیں گےکہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں ۔‘‘ ایسے ہی رافضی بھی اہل ِ سنت والجماعت سے بہت ہی سخت دشمنی رکھتے ہیں ؛ یہاں تک کہ انہیں نجس شمار کرتے ہیں ۔اس میں بھی وہ یہودیوں سے مشابہ ہیں ، اور جوکوئی اس نہج پر چلے وہ بھی ان میں سے ہی ہے۔ اور جس انسان کا ان سے میل جول ہو،وہ اس چیز کا انکار نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ جہاں اور جس ملک میں رہتے ہیں ،ا س ملک اور اس کے عوام کے لیے درد سر بن جاتے ہیں]

ابو القاسم الطبری (المعروف لالکائی) نے اپنی کتاب ’’ شرح اصول السنہ ‘‘ میں وھب بن بقیہ الواسطی کی سند سے یہ کلام محمد بن حجر الباہلی سے نقل کیا ہے ۔ ’’یہ اثر عبد الرحمن بن مالک بن مغول سے بھی روایت کیاگیا ہے اور اس کی اور بھی اسناد ہیں جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں ۔ اور دوسری بعض روایات میں کچھ زیادہ بھی ہے۔ لیکن عبد الرحمن بن مالک بن مغول ضعیف ہے۔ اور امام شعبی رحمہ اللہ کاان لوگوں کی مذمت کرنا دوسری اسناد سے ثابت ہے۔ یہ امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی وہ امور ہیں جن میں روافض کی یہودیوں سے مشابہت ذکر کی گئی ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسرے علماء نے ان کے علاوہ بھی وجوہات ذکر کی ہیں ۔ لیکن ان (شیعہ) کا نام رافضی اس وقت سے پڑا ہے جب انہوں خلیفہ ہشام کی خلافت کے زمانہ میں زید بن علی بن حسین رحمہ اللہ کا ساتھ چھوڑ دیا ؛ یہ تقریباً ۱۲۱ھ کا واقعہ ہے ۔

ابو حاتم البستی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں : زید بن علی بن حسین بن علی رحمہ اللہ کو ۱۲۲ھ میں کوفہ میں قتل کرکے ایک لکڑی پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ آپ اہل بیت کے اہل علم و فضل لوگوں میں سے تھے ۔ شیعہ اپنے آپ کو ان ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔

رافضیوں پر اس اسم کا اطلاق کب ہوا؟ :

(میں کہتا ہوں ): زید بن علی کے خروج کے زمانے میں شیعہ دو گروہوں میں بٹ گئے ۔ رافضیہ اور زیدیہ ۔

جب آپ سے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ان کے لیے رحم کی دعاء کی ۔ مگر کچھ لوگوں نے اس بات کو رد کردیا۔

آپ نے ان سے پوچھا : ’’ رفضتمونی‘‘[ کیونکہ تخریبی سرگرمیاں ان کے دین کا ایک حصہ ہیں ۔اس سلسلے میں ابوجعفر کلینی کی ایک شر انگیز عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ،کلینی نے لکھا ہے:’’ابوبکر سے لے کرآج تک تمام سنی حکمران غاصب وظالم ہیں ،کیونکہ حکمرانی کا حق صرف شیعہ اماموں یا ان کی امامت کو ماننے والے شیعوں کو ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرنے میں لگے رہیں ،کیونکہ اگر انہوں نے ایسانہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو چاہے یہ شیعہ کتنے ہی عبادت گذار کیوں نہ ہوں عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے ‘‘ (اصول کافی ص:۲۰۶)۔ ۳۸۔ ان مشابہات میں سے ایک : ان کا یہ کہنا ہے کہ جو کوئی ان سے دشمنی رکھے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ایسی ہی بات یہود اور نصاریٰ نے کہی تھی : ﴿وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا أَوْ نَصَارَی﴾ (البقرہ: ۱۱۱) ’’ اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ ۳۹۔ ان میں سے ایک : ائمہ [مسلمان حکمران ] کی نصرت سے پیچھے رہنا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت زید ( بن حسین ) کے ساتھ کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں رسوا کرے ؛ اہل ِ بیت سے محبت کے کتنے بڑے دعوے کرتے ہیں ، اور ان کی نصرت کے وقت کتنے بزدل ثابت ہوتے ہیں ۔ یہود نے بھی تو اپنے نبی موسیٰ سے یہی کہا تھا : ﴿ فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قَاعِدُوْنَ﴾ (مائدہ:۲۴) ’’تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔‘‘ ۴۰۔ ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ یہود پرذلت اور رسوائی مسلط کردی گئی ہے ؛ بھلے وہ جہاں کہیں بھی ہوں ، ان پر بھی ذلت مسلط ہے۔ یہاں تک کہ اس ذلت اور خوف کے مارے انہوں تقیہ کا عقیدہ ایجاد کیا۔ ۴۱۔ ان مشابہات میں سے ایک یہ ہے کہ یہود تورات کواپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔ ایسے یہ لوگ بھی اپنے ہاتھوں سے جھوٹ لکھتے ہیں ، اور کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے؛ اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اہل بیت پر جھوٹ بولتے ہیں ۔  حضرت زید رحمہ اللہ کے خروج اوررافضہ کے ساتھ ان کے اختلاف اور ان کانام رافضہ پڑنے کا سبب ؛اورحضرت زید کے مقتل و صلب کا واقعہ علامہ اشعری نے اپنی کتاب ’’مقالات الاسلامیین ۱؍۱۲۹پر بیان کیا ہے۔ اور فخر الرازی نے یہی قصہ اختصار کے ساتھ اپنی کتاب ’’اعتقادات فرق المسلمین و المشرکین ص ۵۲ پر بیان کیا ہے۔ ان دونوں نے بیک زبان ان کے رافضی نام پڑنے کا سبب ان لوگوں کا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی خلافت کا انکار بیان کیا ہے؛ کوئی دوسرا سبب نہیں ۔]....’’کیا تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے؟‘

یہیں سے ان کا نام رافضی پڑ گیا ‘ اس لیے کہ انہوں نے زید بن علی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اور جن لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا ‘ انہیں زیدیہ کہا جانے لگا۔ اس لیے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو زید بن علی کی طرف منسوب کرتے تھے۔

جب آپ کو پھانسی پر لٹکایاگیا تورات کو [کچھ شیعہ ]عابد آتے اور اس لکڑ کے پاس عبادت کرنے لگتے ۔ امام شعبی رحمہ اللہ کی وفات خلیفہ ہشام کی خلافت کے شروع اور اس کے بھائی خلیفہ یزید بن عبد الملک کی خلافت کے آخری ایام میں ہوئی ہے ۔یہ تقریباً ۱۰۵ھ کا زمانہ ہے ۔ اس وقت تک لفظ ’’ رافضہ ‘‘ معروف نہیں تھا۔

اس سے ان احادیث کے من گھڑت ہونے کا بھی پتہ چل جاتا ہے جن میں ’’ رافضہ ‘‘ کا لفظ آیا ہے ۔ مگر اتنا ضرور تھا کہ انہیں اس کے علاوہ دوسرے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ جیسا کہ انہیں خشبیہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس لیے کہ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ : ہم تلوار کے ساتھ جہاد صرف امام معصوم کی موجود گی میں ہی کریں گے۔پس یہ لوگ لکڑی سے لڑا کرتے تھے۔

امام شعبی رحمہ اللہ سے منقول بعض روایات میں آیا ہے ‘ آپ نے فرمایا: ’’ میں نے خشبیہ[شیعہ] سے بڑھ کر بیوقوف کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ تو ان روایات میں رافضہ کو بالمعنی تعبیر کیاگیا ہوگا۔عبد الرحمن کے ضعیف ہونے کے باوجود اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ : یہ کلام عبد الرحمن بن مالک بن مغول کی تالیف ہے ۔اور اس کا کچھ حصہ انہوں نے ضرور امام شعبی سے سنا ہوگا ۔ بھلے پھر اسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہو۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے شیعہ میں ایسے برے امور کا مشاہدہ کرلیا تھا۔ یا ان کے بارے میں جو کچھ سنا ہو ‘ اس کی بنیاد پر ایسے کہا ہوگا۔ یا دیگر اہل علم کے اقوال ان کے بارے میں سنے ہوں گے۔ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں دونوں باتیں موجود ہوں ۔ یا کچھ کلام امام شعبی کا ہو اور کچھ دیگر علماء کرام کا ۔ خواہ جو بھی حال ہو ‘یہ کلام اتنی اسناد سے منقول ہے کہ اب دیگر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رافضی ایسے کرتے ہیں ۔ اس سے مراد بعض رافضی ہیں ‘سارے نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُنِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ﴾ (التوبہ۳۰)

’’اوریہود ی کہتے ہیں کہ عزیر (پیغمبر )اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے اورنصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ﴾ [المائدہ ۶۴] 

’’اور یہودی کہتے ہیں اللہ کا ہاتھ تنگ ہے ؛انھی کے ہاتھ تنگ[کردیے گئے] ہیں ۔‘‘

یہ بات تمام یہودیوں نے نہیں کہی تھی؛ بلکہ ایسا کہنے والے ان میں سے کچھ لوگ تھے۔یہ جو باتیں بیان کی گئی ہیں ؛ یہ رافضیوں میں بھی موجود ہیں ۔ صرف یہی نہیں ‘بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر ان میں سے بعض خر گوش اور اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے ۔ یہ بھی یہودیوں کی مشابہت ہے ۔ اور ہمیشہ دو نمازیں اکٹھی کرکے پڑھتے ہیں ؛ وہ دن میں صرف تین بار ہی نماز پڑھتے ہیں ۔ یہ بھی یہودیوں کی مشابہت ہے ۔اور ان میں سے بعض کا یہ کہنا کہ گواہوں کی موجودگی کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔یہ بھی یہودیوں کی مشابہت ہے ۔ اور ان کا اپنے علاوہ دوسرے اہل کتاب اور مسلمانوں کے بدنوں کو نجس سمجھنا ‘ اور ان کے ذبیحہ کو حرام قرار دینا۔ اور پانی اور مائع چیزیں جن میں ان میں سے کسی ایک کا ہاتھ لگ جائے اسے نجس سمجھنا ۔ اور ان برتنوں کو دھونا جن میں ان کے علاوہ دوسرے لوگ کھالیں ۔ یہ بھی سامری یہودیوں کی مشابہت ہے ؛ بلکہ یہ لوگ ان سے بھی بدتر ہیں ۔ اور ایسے ہی ان لوگوں کا تقیہ کرنا ‘ اور اپنے باطن میں موجوددشمنی کے خلاف ظاہر کرنا بھی یہودیوں کی مشابہت ہے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔