Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قرآنی زندگی

  علی محمد الصلابی

سیدنا عمرؓ کی قرآنی زندگی 

اللہ، کائنات، زندگی، جنت، جہنم اور قضاء وقدر کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہ کا تصور:

سیدنا عمر بن خطابؓ اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جس تربیتی نظام میں پرورش ہوئی وہ قرآنی نظام تھا۔ جو اللہ ربّ العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کسی نظام حیات کو سیکھنے کا وہی ایک مصدر ہے ۔رسولِ اکرمﷺ اس بات کے حریص تھے کہ نظام زندگی کو سیکھنے کا فقط ایک ہی سرچشمہ ہو اور یہ کہ قرآنِ مجید ہی طریقۂ کار اور طرزِ فکر کا ایسا بنیادی محور و مرکز ہو جس پر مسلم فرد، اسلامی خاندان اور جماعت تربیت پا سکیں۔ چنانچہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے جن آیات کریمہ کو آپﷺ سے بہ نفس نفیس سنا تھا آپ کی اسلامی شخصیت سازی میں ان کا نمایاں اثر رہا، ان آیات نے آپ کے دل کو پاک و صاف اور روح کا تزکیہ کیا، اور اس طرح آپ اپنے نیک ارادوں، کردار سازی، اعلیٰ مقاصد، پاک جذبات اور اخلاقی قدروں کے ذریعہ سے ایک نئے انسان کی شکل میں نمودار ہوئے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے قرآنِ کریم کے ذریعہ سے پہچان لیا کہ حقیقی معبود کون ہے کہ صرف اسی کی عبادت فرض ہے، معاً نبی کریمﷺ قرآن کی عظیم آیات سے سیدنا عمرؓ کی روح کی آبیاری بھی کرتے رہتے تھے، اور آپﷺ کی ہمیشہ یہ کوشش بھی رہتی کہ آپ کے صحابہ کرامؓ اپنے حقیقی ربّ اور بندوں پر اس کے حقوق کے بارے میں صحیح تصور پر تربیت پائیں، کیونکہ آپﷺ بخوبی واقف تھے کہ جب روحیں صاف شفاف ہو جائیں گی اور فطرت کی درستگی ہو جائے گی تو یہی سچا تصور یقین اور تصدیق کو دل میں جا گزیں کر دے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ، کائنات، زندگی، جنت اور جہنم، قضاء و قدر، انسان کی حقیقت اور شیطان سے اس کی جنگ کے بارے میں آپ کا نظریہ قرآن کریم اور سنت نبویﷺ پر قائم ہو گیا۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہے، اور ان اوصاف کاملہ سے متصف ہے جن کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کی ذات یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد۔

 اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور اس کا مالک و مدبر ہے:

إِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۞

(سورة الاعراف: آیت، 54)

ترجمہ: بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلا آتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کیے) اس حال میں کہ اس کے حکم سے تابع کیے ہوئے ہیں، سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘

 اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات میں تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، ظاہر ہوں یا پوشیدہ:

وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ۞

(سورة النحل: آیت، 53)

ترجمہ: ’’اور تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے، پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف تم گڑگڑاتے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ زمین اور آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ نہ انسان کی ظاہری باتیں یا سربستہ راز اس سے پوشیدہ ہیں۔

 اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے انسانوں کے تمام اعمال کو تحریر کروا رہا ہے، ایسی کتاب میں تحریر ہو رہا ہے جو نہ چھوٹے عمل کو چھوڑے گی اور نہ بڑے عمل کو۔ وہ کتاب مناسب موقع اور مناسب وقت پر کھل کر سامنے آئے گی:

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيد۞

(سورة ق: آیت، 17)

’’وہ کوئی بھی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگران ہوتا ہے ۔‘‘

’’(انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگہبان تیار رہتا ہے۔‘‘

 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان چیزوں سے آزماتا ہے جو ان کی مرضی اور پسند کے خلاف ہوتی ہیں تاکہ لوگوں کی حقیقت سامنے آ جائے اور یہ واضح ہو جائے کہ ان میں کون شخص اللہ کی قضا و قدر سے راضی ہے، اور ظاہر و باطن میں اس کے سامنے سرنگوں ہے، تاکہ وہ خلافت، امامت اور سیاست کے لائق ہو جائے۔ اور کون شخص ہے جو اللہ کی قضاء و قدر سے خفا اور ناراض ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ کسی ذمہ داری کا اہل نہیں ہے۔

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ۞

(سورة الملک: آیت، 2)

’’وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہی سب پر غالب، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘

 اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کو توفیق دیتا ہے اور تائید ونصرت عطا کرتا ہے جو اس کی پناہ چاہتا ہے، اس کا سہارا لیتا ہے اور امر و نہی کے بارے میں جو احکامات ہیں ان پر پورا اترتا ہے:

إِنَّ وَلِيِّيَ اللّٰهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ۞

(سورة الاعراف: آیت، 196)

ترجمہ: ’’یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔‘‘

 اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اسی کی وحدانیت کا اعتراف و اقرار کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں:

بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ۞

(سوة الزمر: آیت، 66)

’’بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا۔‘‘

 اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس عبودیت و بندگی اور توحید کے مضمون کی مکمل حدبندی کر دی ہے۔

کائنات کے بارے میں آپ کا نظریہ قرآن کی اس آیت سے ماخوذ ہے:

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ۞ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ ۞ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ۞ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ۞

(سورة فصلت: 9 تا 12)

ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی، سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے، اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں کی) غذا بھی تجویز کر دی۔ (صرف) چار دن میں ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا، پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی خوشی آؤ یا نا خوشی سے، دونوں نے عرض کیا کہ ہم بخوشی حاضر ہیں۔ پس دو دن میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی، اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی۔ یہ تدبیر اللہ غالب و دانا کی ہے۔‘‘

یہ زندگی خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو بہرحال اس کا انجام زوال ہے، اس کے مال و متاع کتنے ہی زیادہ گراں قدر کیوں نہ ہوں بہرحال وہ حقیر اور کمتر ہیں۔

اللہ کا ارشاد ہے:

إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

 (سوة یونس: آیت، 24)

ترجمہ: ’’دنیا کی زندگی کی مثال تو بس اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین سے اگنے والی چیزیں خوب مل جل گئیں، جس سے انسان اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی آرائش حاصل کر لی اور خوب مزین ہو گئی اور اس کے رہنے والوں نے یقین کر لیا کہ بے شک وہ اس پر قادر ہیں تو رات یا دن کو اس پر ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اسے کٹی ہوئی کر دیا، جیسے وہ کل تھی ہی نہیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے آیات کھول کر بیان کرتے ہیں جو خوب سوچتے ہیں۔‘‘

جنت کے بارے میں آپ کا نظریہ ان آیات پر قائم تھا جو اس کی صفات کو بتاتی ہیں۔ اس طرح آپ کی زندگی کا حال ان پاکیزہ نفوس کی طرح تھا جن کے بارے میں ارشادِ الہٰی ہے:

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ۞فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۞

(سورة السجدہ: آیت، 16 اور 17)

ترجمہ: ’’ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے، اس عمل کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے۔ ‘‘

جہنم کے بارے میں بھی آپ کا تصور قرآنی آیات ہی پر قائم تھا، اور یہی تصور آپ کو آپ کی زندگی میں شریعت الہٰیہ سے کسی بھی انحراف سے روکتا تھا۔ چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والا شخص یہ بخوبی محسوس کرے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کے اسباب پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے، اور اللہ کے عذاب اور اس کی سزا سے کس قدر خائف رہتے تھے۔ آپ اپنے دورِ خلافت میں ایک رات مدینہ میں پاسبانی کے لیے نکلے، ایک مسلمان آدمی کے گھر سے آپ کا گزر ہوا، آپ نے اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ رک کر اس کی قرأت سننے لگے، وہ پڑھ رہا تھا:

وَالطُّورِ ۞وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ ۞فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ ۞ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ ۞ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ۞ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ ۞إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ۞

(سورة الطور: آیت، 1 تا 8)

ترجمہ: ’’قسم ہے طور کی اور لکھی ہوئی کتاب کی، جو جھلی کے کھلے ہوئے ورق میں ہے، اور آباد گھر کی اور اونچی چھت کی، اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی، بے شک آپ کے ربّ کا عذاب ہو کر رہنے والا ہے۔‘‘

آپ نے یہ سن کر کہا: قسم؛ کعبہ کے ربّ کی قسم یہ برحق ہے۔ پھر آپ اپنے گدھے سے اتر گئے، تھوڑی دیر ٹھہرے، پھر اپنے گھر واپس آئے، پھر ایک مہینہ بیمار رہے، لوگ آپ کی عیادت کو آتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ آپ کی بیماری کا سبب کیا ہے۔

آپ نے قضاء و قدر کا مفہوم بھی اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت سے سیکھا، آپ کے دل میں اس کا مفہوم راسخ ہو گیا، اور اس کے درجات کو کتاب الہٰی سے آپ نے بخوبی سمجھ لیا، پس آپ کامل یقین رکھتے تھے کہ اللہ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے:

وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ۞

(سورة یونس: آیت، 61)

ترجمہ: ’’اور تو نہ کسی حال میں ہوتا ہے اور نہ اس کی طرف سے (آنے والے) قرآن میں سے کچھ پڑھتا ہے اور نہ تم کوئی عمل کرتے ہو، مگر ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں، جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو اور تیرے رب سے کوئی ذرہ برابر (چیز) نہ زمین میں غائب ہوتی ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر ایک واضح کتاب میں موجود ہے۔‘‘

نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیز کو لکھ دیا ہے جو ہونے والی ہے:

وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا۞

(سورة فاطر: آیت، 44)

ترجمہ: ’’اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو عاجز کر دے، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وہ بڑے علم والا بڑی قدرت والا ہے۔‘‘

اور یہ کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے:

ذَلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

(سورة الانعام: آیت، 102)

ترجمہ: ’’یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا ربّ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، تو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا کارساز ہے۔‘‘

قضا و قدر کا حقیقی معنی ومفہوم، اور اسی پر پختہ عقیدہ کی وجہ سے آپ کی زندگی میں نفع بخش اور نہایت مفید نتائج ظاہر ہوئے جسے آپ ان شاءاللہ اس کتاب میں جا بجا ملاحظہ فرمائیں گے۔

آپ نے قرآن کے ذریعہ سے اپنے اور دیگر بنی نوع انسان کے وجود کی حقیقت کو جانا اور یہ معرفت حاصل کی کہ انسان کی بس دو ہی بنیادیں ہیں جہاں سے وہ وجود میں آیا: پہلی بنیاد سے مراد مٹی سے اس کی پہلی خلقت ہے، جب کہ اللہ نے اسے سنوارا اور اس میں روح پھونکی۔ اور دوسری بنیاد سے مراد نطفہ سے انسان کا وجود میں آنا ہے۔(الرقۃ والبکاء: عبداللہ بن احمد المقدسی: صفحہ، 166)

ارشادِ ربانی ہے:

الَّذِىۡۤ اَحۡسَنَ كُلَّ شَىۡءٍ خَلَقَهٗ‌ وَبَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِيۡنٍ‌۞ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَهٗ مِنۡ سُلٰلَةٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّهِيۡنٍ‌ ۞ثُمَّ سَوّٰٮهُ وَنَفَخَ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِهٖ‌ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَالۡاَفۡــئِدَةَ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ ۞

(سورة السجدة: آیت، 9تا7)

ترجمہ: جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی۔پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی کے نطفے سے بنائی۔پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی اور تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ تم بہت کم شکر کرتے ہو۔ ‘‘

آپ نے پہچان لیا کہ اس انسان کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے وجود بخشا، اسے بہترین صورت اور معتدل قد و قامت سے مکرم و محترم بنایا۔ اسے عقل، گویائی اور اچھے برے کی تمیز کا ملکہ عطا فرمایا، زمین اور آسمان کی چیزوں کو اس کے لیے مسخر کر دیا، اسے اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت و برتری سے نوازا، اس کے لیے اپنے رسولوں کو مبعوث فرما کر اسے سرفراز کیا، اور انسان کی عزت و تکریم کا سب سے اعلیٰ و افضل مظہر اس نے یہ عطا کیا کہ اسے ہی اپنی محبت اور رضا مندی کے لیے منتخب کیا، جو صرف اس نبیﷺ کی اتباع ہی سے میسر آ سکتی ہے، جس نے لوگوں کو دینِ اسلام کی دعوت دی تاکہ سارے انسان دنیا میں پاک اور بہترین زندگی گزار سکیں اور آخرت میں ہمیشگی والی نعمتوں سے مالا مال ہوں:

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَـنُحۡيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً‌ وَلَـنَجۡزِيَـنَّهُمۡ اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ۞

(سورۃ النحل: آیت، 97)

ترجمہ: ’’جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انہیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

سیّدنا عمرؓ نے شیطان اور انسان کے درمیان حقیقی معرکہ آرائی کو بھی پہچان لیا، اور جان گئے کہ یہی وہ دشمن ہے جو انسان پر آگے پیچھے دائیں اور بائیں سے حملہ آور ہوتا ہے، اسے گناہ کا وسوسہ دلاتا ہے، خفیہ شہوتوں کو ابھارتا ہے۔ چنانچہ آپ اپنے دشمن ابلیس پر ظفر یابی کے لیے اللہ سے مدد مانگتے رہے اور اپنی زندگی میں اس پر غالب بھی رہے، جیسا کہ آپ کی سیرت سے یہ چیز ظاہر ہے۔ قرآنِ کریم میں آدم علیہ السلام اور شیطان کے درمیان پیش آنے والے واقعہ سے یہ بات بخوبی جانی جا سکتی ہے کہ آدم علیہ السلام ہی سے انسانوں کا آغاز ہے اور اسلام کا حقیقی جوہر یہ ہے کہ اللہ ذات واحد کی مطلقاً عبادت کی جائے، نیز یہ کہ انسان غلطیوں اور گناہوں کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ آدم علیہ السلام کی لغزش سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مسلمان کا اپنے رب پر بھروسہ کرنا بے حد ضروری ہے، اور یہ کہ مومن کی زندگی میں توبہ و استغفار کی بڑی اہمیت ہے۔ اسے حسد اور تکبر سے بچنا چاہیے۔ نیز یہ کہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ اور ان کے بارے میں بہترین انداز میں گفتگو کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے:

وَقُلْ لِّعِبَادِىۡ يَقُوۡلُوا الَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ‌ؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ يَنۡزَغُ بَيۡنَهُمۡ‌ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ كَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا ۞

(سورۃ الاسراء: آیت، 53)

ترجمہ: ’اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں، کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔‘‘

آپ نے اپنے رفقاء اور ساتھیوں کی عبادات کے ذریعہ سے روحانی تربیت ان کی قلبی تطہیر اور ان کو قرآن کی روشنی میں متعین کیے ہوئے اخلاق کریمہ کا عادی بنانے کے لیے نبیﷺ کے طریقۂ تربیت کو اختیار کیا۔

اللہ جل شانہ نے عمر بن خطابؓ کو اسلام کے ذریعہ سے عزت عطا فرمائی، وہ اسلام جس نے آپ کے سامنے صاف اور صحیح عقیدہ پیش کیا، پھر اس عقیدہ نے آپ کے پہلے عقیدہ کو پیچھے چھوڑ دیا، اور آپ کے دل سے اسے فنا کے گھاٹ اتار دیا، اس طرح بت پرستی کے ستون منہدم ہو گئے، کسی بت کے لیے قربت کا تصور نہ رہا، اللہ کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ نہ رہا، جنات اور اللہ کے درمیان کوئی رشتہ نہ بچا، کوئی کہانت محفوظ نہ رہی جو معاشرہ کے راستوں کی حد بندی کرتی، اور اسے بدشگونی و فال بازی کے چٹیل میدانوں میں سرگرداں رکھتی۔ اور نہ موت کے بعد عدم محض کا تصور باقی رہا۔ یہ تمام چیزیں ختم ہوگئیں اور اس کی جگہ صرف اللہ واحد پر ایمان لانے کا عقیدہ تھا، جو اس کے ساتھ شرک، اس کے لیے اولاد، کہانت اور دنیوی زندگی کے بعد عدم محض کے تصور سے بالکل پاک و صاف تھا۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ اس آخرت پر ایمان مکمل ہو جائے، جہاں آ کر جزا کے ایک نظام کے تحت انسان کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔ جاہلیت کا وہ کھلواڑ ختم ہوا جس میں دنیوی زندگی کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے، اور روز جزاء کے مالک کے سامنے کسی جواب دہی کا کوئی تصور نہ تھا، اس بے مقصد اور غیر معقول عقیدہ کو آخرت کے دن پر ایمان، اور روز جزاء میں جواب دہی کی ذمہ داری نے پیچھے دھکیل دیا۔ اس طرح سیدنا عمرؓ مکمل طور پر دین اسلام میں داخل ہو گئے، اللہ اور اس کے رسولﷺ آپ کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہو گئے، اور اس کامل تصور سے عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کہ گویا آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے قرآنی تعلیمات کے مطابق تربیت پائی، اور اللہ تعالیٰ کے بے کراں فیضان و توفیق کامل کی وجہ سے قرآنی زندگی کے ساتھ اسلامی شریعت و آداب اور تاریخ و حکمت کی باتیں سیکھتے رہے، جس کا آپ کے دل و دماغ اور نفس و روح پر اثر رہا۔ اور اس زندگی کے اثرات و نتائج بھی آپ کے اعضاء و جوارح پر نمایاں رہے۔ درحقیقت توفیق الہٰی کے بعد ان اثرات و کردار کا اہم سبب یہ تھا کہ آپ نے رسول اللہﷺ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔