دور صدیقی میں اقتصادی بحران
علی محمد الصلابیدورِ صدیقی میں اقتصادی بحران
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں بارش رک گئی، لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: بارش نازل نہیں ہوئی، فصلیں نہیں اگیں، لوگ سخت بحران و پریشانی کا شکار ہیں، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ لوگ جائیں اور صبر سے کام لیں، شام تک اللہ تعالیٰ تمہاری اس پریشانی کو دور فرما دے گا۔ اتنے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا تجارتی قافلہ سو اونٹوں پر گندم لادے شام سے مدینہ پہنچ گیا۔ اس کی خبر سن کر لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچ گئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا: آپ حضرات کیا چاہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: آپؓ جانتے ہیں یہ وقت قحط سالی کا ہے۔ بارش نازل نہیں ہوئی اور فصلیں نہیں اُگیں، لوگ انتہائی پریشانی کا شکار ہیں۔ ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ آپؓ کے پاس گندم ہے، آپؓ اسے ہمیں فروخت کر دیں تاکہ ہم اسے فقراء و مساکین تک پہنچا دیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہت خوب! اندر تشریف لائیں اور خرید لیں۔ تجار آپؓ کے گھر میں داخل ہوئے، دیکھا گندم رکھی ہوئی ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تاجروں سے کہا: آپ لوگ شام سے میری خرید و قیمت پر کتنا منافع دیں گے؟ انہوں نے کہا: دس کا بارہ دیں گے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے کہا: دس کا پندرہ لے لیجیے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے عرض کیا اے سیدنا ابو عمروؓ مدینہ میں تو ہمارے علاوہ اور کوئی تاجر تو ہے نہیں،
تو کون آپؓ کو زیادہ دے رہا ہے؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ دے رہا ہے۔ ایک درہم کا دس درہم دے رہا ہے کیا آپ حضرات اس سے زیادہ دے سکتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں، اس غلے کو میں نے مسلمانوں کے فقراء پر صدقہ کر دیا ہے۔
(الرقۃ و البکاء، ابنِ قدامۃ: صفحہ، 190 الخلفاء الراشدون، حسن ایوب: صفحہ، 191 شہید الدار، احمد الخروف: صفحہ، 21)
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے رات میں رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپﷺ چتکبرے گھوڑے پر سوار ہیں۔ آپﷺ پر نور کا جوڑا ہے، آپﷺ کے پیروں میں نور کی جوتیاں ہیں اور ہاتھ میں نور کا گچھا ہے، اور آپﷺ جلدی میں ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں، آپﷺ کا اور آپﷺ کی گفتگو کا بے حد مشتاق ہوں، آپﷺ اتنی جلدی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: اے سیدنا ابنِ عباسؓ! سیدنا عثمانؓ نے ایک صدقہ کیا ہے اور اللہ نے اس کو قبول فرما لیا ہے، اور جنت میں ان کی شادی کی ہے اور ہمیں ان کی شادی میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ (الرقۃ والبکاء: صفحہ، 190)
کیا اللہ تعالیٰ مال و دولت کے پجاریوں اور بخل و لالچ میں غذاؤں کا احتکار و ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے کان اس عثمانی عظمت کی آواز کے لیے کھولے گا کہ ان کے دلوں میں پیوست ہو، اور شفقت و عظمت اور فراخ طبعی کی روح ان میں پھونک دے، اور ان فقراء و مساکین، بیواؤں یتیموں اور ضرورت مندوں کے ساتھ رحمت و احسان کے جذبات کو بیدار کر دے جنہیں زندگی کے بحران نے کچل رکھا ہے، اور سخت دل مال داروں نے جن کا خون چوس لیا ہے؟
زندگی کے اس مرحلہ میں مسلمانوں کو فقراء و مساکین پر انفاق مال سے متعلق عثمانی عزائم کی شدید ضرورت ہے، جو ان کے مابین عطف و مواساۃ اور نیکی و احسان کو برپا کر دے؟
(عثمان بن عفان، صادق عرجون: صفحہ، 52)
یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نیکی و احسان کے مواقف کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے، آپؓ لوگوں کے ساتھ بڑے رحم دل تھے۔ آپؓ یہ آیت کریمہ:
كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (سورة العلق: آیت، 6)
ترجمہ: ’’سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔‘‘ پڑھتے تو یہ آیتِ کریمہ آپؓ کو طغیان و سر کشی سے باز رکھتی۔ اور یہ آیت کریمہ پڑھتے:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورة البقرہ: آیت، 44)
ترجمہ: ’’کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجود یہ کہ تم کتاب پڑھتے ہو کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟‘‘
یہ آیت کریمہ آپؓ کو نفاق اور منافقین سے انتہائی دور کر دیتی۔ اور یہ آیت کریمہ پڑھتے:
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِی الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (سورة البقرہ: آیت، 177)
ترجمہ: ’’ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی کرے، زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں، اور یہی پرہیز گار ہیں۔‘‘
یہ آیت کریمہ آپ کو اس بات پر ابھارتی کہ آپ
أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (سورة البقرہ: آیت، 177)
ترجمہ: ’’یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں‘‘ کے مصداق ہوں۔ (شہید الدار: صفحہ، 22، 23)