Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مذاہب اربعہ اور شیعہ اعتراض کا جواب

  امام ابن تیمیہ

شیعہ قلمکار کا یہ قول کہ ’’اہلِ سنت نے مذاہب اربعہ ایجاد کیے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں نہیں تھے اور اقوالِ صحابہؓ کو ترک کر دیا۔‘‘
جواب: ہم رافضی مصنف سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور ان کے اقوال سے انحراف کب سے مذموم قرار پائے؟
(یاد رہے کہ اہلِ تشیع صحابہ کرامؓ کی شان و عظمت کے قائل ہی نہیں ہیں)
اہلِ سنت والجماعت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت و دوستی رکھنے اور باقی تمام زمانوں پر ان کو ترجیح دینے پر اتفاق ہے اور ان کے ہاں صحابہ کرامؓ کا اجماع حجت بھی ہے اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے کسی طرح بھی خروج کی اجازت نہیں بلکہ عام آئمہ مجتہدین وضاحت و صراحت کے ساتھ فرما رہے ہیں: ’’ہمارے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو ترک کرنا جائز نہیں۔‘‘
پھر جو لوگ (شیعہ) یہ کہتے ہیں کہ اجماعِ صحابہؓ حجت نہیں ہے اور صحابہ کرامؓ کو ظلم اور کفر کی طرف منسوب کرتے ہیں تو وہ کیسے اہلِ سنت پر اعتراض کر سکتے ہیں؟ (کیا ہم اجماعِ صحابہؓ کے مخالف ہیں یا تم؟ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گمراہ اور کافر کون کہتا ہے؟ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اہلِ سنت اجماعِ صحابہؓ کے خلاف متفق ہو جائیں)
مزید برآں اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع حجت ہے تو وہ دونوں گروہوں پر حجت ہے اور اگر اجماعِ صحابہؓ حجت نہیں تو پھر اس کو بنیاد بنا کر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
اعتراض: ’’اہلِ سنت والجماعت اجماعِ صحابہؓ کو حجت مانتے ہیں اور پھر اسکی مخالفت کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘
جواب: اہلِ سنت والجماعت کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اجماعِ صحابہ کرامؓ کے خلاف یک زبان ہو جائیں۔ جب کہ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ شیعہ امامیہ عترت نبوی (اہلِ بیتؓ، بنو ہاشم) اور حضرات صحابہؓ دونوں کے متفق اجماع کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے عہدِ سعادت میں بنی ہاشم کا کوئی فرد اس بات کا مدعی نہ تھا کہ’’بارہ امام معصوم ہوں گے یا یہ کہ سالار رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی شخص معصوم بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
بخلاف ازیں کوئی شخص خلفائے ثلاثہؓ کے کفر کا قائل تھا نہ ان کی امامت پر طعن و تشنیع کرتا تھا اور نہ ہی صفات اللہ تعالیٰ کا کوئی منکر تھا اور نہ تقدیر کا۔ اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے، کہ امامیہ اہلِ بیتؓ و صحابہؓ دونوں کی مخالفت کرنے میں متحد الخیال ہیں، پھر انہیں لوگوں پر معترض ہونے کا کیا حق ہے، جو اہلِ بیتؓ و صحابہؓ دونوں کے اجماع کو حجت مانتے ہیں اور اس کی مخالفت سے اجتناب کرتے ہیں۔
اعتراض: ’’اہلِ سنت نے مذاہبِ اربعہ ایجاد کر لیے جو نبی کریمﷺ کے دور میں نہیں تھے۔‘‘
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شیعہ کے خیال میں اہلِ سنت نے حضرات صحابہؓ کے عین برخلاف جمع ہو کر باتفاقِ رائے یہ مذاہب ایجاد کر لیے تھے تو یہ عظیم افترا ہے اس لیے کہ یہ چاروں مذاہب ایک ہی زمانہ میں نہ تھے، بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات 150 ہجری میں ہوئی۔امام مالک رحمہ اللہ کی وفات 179 ہجری میں ہوئی ۔امام شافعی رحمہ اللہ کی وفات 203 ہجری میں ہوئی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی وفات 231 ہجری میں ہوئی۔
مزید برآں ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی تقلید نہیں کرتا تھا اور نہ دوسروں کو اپنی پیروی کا حکم دیتا تھا۔ بخلاف ازیں یہ سب آئمہ اتباع کتاب و سنت کی دعوت دیتے اور دوسروں پر تنقید کیا کرتے تھے۔ باقی رہا یہ معاملہ کہ لوگ آئمہ اربعہ کی اطاعت کرتے ہیں، تو یہ ایک اتفاقی بات ہے۔ نیز یہ کہ جب ان میں سے کوئی ایک کوئی ایسی بات کہے جو کتاب و سنت کی مخالف ہو تو اس کو چھوڑ دینا واجب ہوجاتا ہے اور لوگوں پر اس کی تقلید واجب نہیں ہوتی۔
اگر تم شیعہ کہو کہ لوگ ان مذاہب کی پیروی کر رہے ہیں یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے بلکہ لوگوں نے آپس میں اتفاق سے طے کیا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور تم اس کی پیروی کرو۔ ان کی مثال ان حجاج کی ہے جنہیں کسی رہبر کی تلاش ہو پھر انہیں کوئی رہنما مل جائے کچھ لوگ اسے ماہر راہبر سمجھ کر اس کے پیچھے چلنے لگیں اور کچھ لوگ اس کو ڑ کر الگ چل دیں ۔
جواب 2:
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر بھی اہلِ سنت و الجماعت کا اتفاق کوئی باطل نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک گروہ دوسرے کی خطا پر آگاہ کرتا ہے۔ کیونکہ ان کا اتفاق اس بات پر نہیں ہے کہ جو کچھ بھی متعین شخص کہے وہ ہر حال میں قبول کیا جائے۔ بلکہ جمہور مسلمین نبی کریمﷺ کے علاوہ کسی متعین شخص کی تقلید کا حکم نہیں دیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کی عصمت کی ضمانت دی ہے۔ یہ عصمت کی نشانی ہے کہ اس امت میں کئی کئی علماء ہوتے ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک کسی چیز میں غلطی کر جائے تو دوسرا کوئی اس مسئلہ میں حق پر ہوتا ہے تاکہ حق بات باقی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بعض علماء کرام کے ہاں بعض مسائل میں خطاء ہو جائے جیسا کہ شیعہ مصنف نے بطورِ مثال کے کچھ مسائل ذکر کیے ہیں تو (ان ہی علماء کے دوسرے قول میں یا) دیگر علماء کے اقوال میں حق موجود ہوتا ہے تو اس سے ظاہر ہوا کہ اہلِ سنت و الجماعت کا اتفاق کبھی بھی گمراہی پر نہیں ہوا۔ رہ گیا بعض علماء کرام سے بعض دینی مسائل میں خطاء کا سر زد ہوجانا تو ہم اس سلسلہ میں کئی بار وضاحت کر چکے ہیں کہ اس معمولی (یا جزوی) خطاء سے کوئی نقصان نہیں ہوتا جیسا کہ بعض عام مسلمانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں جب کہ شیعہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے ہر وہ مسئلہ جس میں وہ تمام اہلِ سنت کی مخالفت کرتے ہیں اس میں وہ خطاء پر ہوتے ہیں جیساکہ یہود و نصاریٰ ہر اس مسئلہ میں خطاء پر ہیں جس میں وہ مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہیں ۔
شیعہ کا اعتراض ہے کہ ’’یہ مذاہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں موجود نہیں تھے‘‘
جواب: اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے مذاہب کے اقوال نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل نہیں کئے گئے بلکہ ان لوگوں نے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے اقوال کو ترک کر کے اپنی طرف سے بدعات گھڑ لیں تو یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت پر کبھی بھی اہلِ سنت کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ تمام اہلِ سنت اپنے اقوال و آراء میں صحابہ کرامؓ کے پیروکار ہیں اگر یہ بات مان لی جائے کہ بعض اہلِ سنت و الجماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کا علم نہ ہونے کی بنا پر مخالفت کے مرتکب ہوئے ہیں تو پھر ایسے بھی ہے کہ باقی اہلِ سنت صحابہ کرامؓ کی اتباع پر متفق ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والے کی غلطی سے اس کو آگاہ کر رہے ہیں (اور اس کو غلطی مان رہے ہیں) اگر شیعہ کے اعتراض سے مراد یہ ہے کہ ان مذاہبِ اربعہ کے آئمہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں موجود نہیں تھے تو اس میں کوئی ایسی ممانعت کی بات نہیں ہے اس لیے کہ ہر آنے والے زمانے کے لوگ پہلے لوگوں کے بعد ہی آتے ہیں 
شیعہ کا اعتراض’’انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو ترک کر دیا ۔‘‘
جواب: یہ ایک من گھڑت جھوٹ ہے بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کی کتابیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال اور ان سے استدلال سے بھری پڑی ہیں اگرچہ ان میں سے بعض مذاہب کے پاس ایسی روایات ہیں جو دوسرے فرقہ کے پاس نہیں ہیں اور اگر شیعہ مصنف کے اعتراض سے مراد یہ ہو کہ یوں نہیں کہتے یہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے، یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے وغیرہ تو اس کا سبب یہ ہے کہ ان آئمہ میں سے کسی ایک نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال جمع کیے اور پھر ان سے مسائل کا استنباط کیا، اس بنا پر ان اقوال کو ان آئمہ کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ جس طرح کتب حدیث کو ان کے جامعین مثلاً امام بخاری و مسلم اور ابو داؤد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، بعینہ اسی طرح مختلف قرأتوں کو ان آئمہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے جنھوں نے وہ قرأت اختیار کی تھیں، جیسے کہ نافع اور ابنِ کثیر وغیرہ
غالب طور پر ان آئمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سابقین سے منقول ہیں۔ بعض کے ہاں ایسے بھی کچھ اقوال پائے جاتے ہیں جو کہ متقدمین سے منقول نہیں ہیں لیکن انہوں نے یہ اقوال ان ہی اصولوں کی بنیاد پر استنباط کیے ہیں، اس سے ان کے اقوال میں موجود غلطی واضح ہو گئی۔ یہ سب کچھ دین کی حفاظت کے لیے ہوا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ اس صفت کے اہل ہو جائیں جس میں ارشاد فرمایا ہے 
يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ ۞(سورۃ التوبة: آیت، 71)
ترجمہ: ’’وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔‘‘
پس جب بھی کسی سے بھول کر یا عمداً غلطی واقع ہوئی تو دوسرے علماء کرام نے اس پر آگاہ کیا اور اس غلطی پر رد کیا۔ علمائے کرام رحمہم اللہ کا مرتبہ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَدَاوٗدَ وَسُلَيۡمٰنَ اِذۡ يَحۡكُمٰنِ فِى الۡحَـرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِيۡهِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ‌ وَكُنَّا لِحُكۡمِهِمۡ شٰهِدِيۡنَ ۞فَفَهَّمۡنٰهَا سُلَيۡمٰنَ‌‌ وَكُلًّا اٰتَيۡنَا حُكۡمًا وَّعِلۡمًا‌ وَّسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ يُسَبِّحۡنَ وَالطَّيۡرَ‌ وَ كُنَّا فٰعِلِيۡنَ ۞
ترجمہ: ’’اور داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر گئی تھیں اور ان کے فیصلے میں ہم شاہد تھے۔ ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ہم نے ہر ایک کوحکمت و علم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی اور ہم ایسا کرنے والے ہی تھے۔‘‘
صحیحین میں ثابت ہے کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’جب نبی کریمﷺ جنگِ احزاب سے واپس ہوئے تو ہم لوگوں سے فرمایا: ’’کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ میں پہنچ کر۔ ‘‘چنانچہ لوگوں کے راستہ میں ہی نمازِ عصر کا وقت ہو گیا، تو بعض نے کہا کہ ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک کہ وہاں (بنو قریظہ) تک پہنچ نہ جائیں اور بعض نے کہا کہ ہم تو نماز پڑھیں گے اور آپﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم قضاء کریں اور بعض نے بنو قریظہ میں پہنچ کر غروبِ آفتاب کے بعد نماز پڑھی۔ جب اس کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا گیا تو آپﷺ نے کسی کو ملامت نہ کی۔‘‘
(البخاری:جلد، 5 صفحہ، 112 کتاب المغازِی: باب مرجع النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الأحزاب: جلد، 2 صفحہ، 15 کتاب صلاۃ الخوف: باب صلاۃ الطالب والمطلوب راکبا وإیمائ: مسلم: جلد، 3 صفحہ، 1391 کتاب الجہاد والسیر: باب المبادر بالغزو: وفیہ: أن لا یصلِین أحد الظہر إِلا فِی بنِی قریظۃ۔)
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ مجتہدین کا نبی کریمﷺ کا کلام سمجھنے میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی گنہگار نہیں ہوتا۔
اس پر مزید یہ کہ اہلِ سنت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ آئمہ اربعہ کا اجماع ایک بے خطا دلیل ہے اور نہ ہی کسی نے یہ کہا ہے کہ حق ان کے اقوال کے دائرہ میں محدود و محصور ہو کر رہ گیا ہے جو بات ان سے خارج ہے وہ باطل ہے۔ (مجتہدین کے یہاں جو نزاع و اختلاف پایا جاتا ہے، وہ صرف کلامِ رسول اللہﷺ کے فہم و ادراک کے بارے میں ہے اور بس!) بلکہ اگر ان آئمہ کے متبعین کے علاوہ کوئی دوسرا جیسا کہ سفیان الثوریؒ، اوزاعیؒ، لیث، سعد اور ان سے پہلے یا ان کے بعد والے مجتہدین اگر کوئی ایسی بات کہیں جو ان آئمہ اربعہ کے اقوال کے خلاف ہو تو اس معاملہ کو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پیش کیا جائے گا اور ان میں سے راجح قول وہی تصور ہو گا جس پر دلیل قائم ہو گی۔