Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مرض الموت کا آغاز

  علی محمد الصلابی

مرض الموت کا آغاز

رسول اللہﷺ ذوالحجہ 10 ہجری میں حجۃ الوداع سے واپس ہوئے اور مدینہ میں ذوالحجہ کے بقیہ ایام اور محرم و صفر گزارے۔ لشکر کو تیار کیا اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس کا امیر مقرر فرمایا اور انہیں بلقاء و فلسطین کی طرف کوچ کرنے کا حکم فرمایا۔ لوگوں نے تیاری کی اور ان میں مہاجرین و انصار بھی تھے۔ اس وقت حضرت اسامہ بن زیدؓ کی عمر صرف اٹھارہ (18) سال تھی۔ مہاجرین و انصار میں سے بعض لوگوں کو ان کی امارت پر اعتراض تھا۔

(دیکھیے: السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: جلد، 2 صفحہ، 552)

کیونکہ وہ موالی (غلاموں) میں سے کم سن تھے لیکن رسول اللہﷺ نے لوگوں کے اعتراض کو قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا اگر آج یہ لوگ سیدنا اسامہؓ کی امارت پر اعتراض کرتے ہیں تو اس سے قبل اس کے باپ حضرت زیدؓ کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ امارت کا مستحق تھا اور وہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ کا فرزند سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ ان کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔

(البخاری: فضائل اصحاب النبی: صفحہ، 4469 جلد، 4 صفحہ، 213)

لوگ جہاد کی تیاری میں تھے اسی دوران رسول اللہﷺ کی بیماری کا آغاز ہوا۔

(29 صفر 11 ہجری دو بروز شنبہ رسول اللہﷺ ایک جنازہ میں بقیع تشریف لے گئے، واپسی پر راستے ہی میں درد سر شروع ہو گیا اور حرارت اتنی تیز ہو گئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔

(الرحیق المختوم: صفحہ، 664) مترجم

آپﷺ کے بیمار پڑنے اور وفات کے درمیان مختلف واقعات پیش آئے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں

شہدائے احد کی زیارت اور ان کے لیے دعائے مغفرت۔

(البخاری: الجنائز، باب الصلاۃ علی الشہید صفحہ، 1344)

حجرۂ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا میں بیماری کے ایام گزارنے کے لیے ازواج مطہرات سے اجازت طلبی اور بیماری میں شدت۔

(صحیح السیرۃ النبویۃ: صفحہ، 695)

جزیرئہ عرب سے مشرکین کو نکال باہر کرنے اور وفود کے ساتھ نوازش کرنے کی وصیت۔

(البخاری: الجہاد والسیر صفحہ، 3053)

قبر کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت۔

(البخاری: الصلاۃ: صفحہ، 435 صحیح السیرۃ النبویۃ: صفحہ، 712)

اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی وصیت۔

(مسلم: الجن صفحہ، 288)

نماز اور ماتحتوں (غلاموں) کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت۔

(ابنِ ماجہ: الوصایا: جلد، 2 صفحہ، 900/901)

آپﷺ نے واضح فرمایا کہ اب مبشرات نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی ہیں۔

(مسلم: الصلاۃ: جلد، 1 صفحہ، 348)

انصار کے ساتھ خیر کی وصیت۔

(البخاری: مناقب الانصار صفحہ، 3799)

رسول اللہﷺ نے مرض الموت میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

ان اللہ خَیَّرَ عبدًا بین الدنیا وبین ما عند اللّٰہ ، فاختار ذلک العبد ما عند اللہ۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے دنیا لے لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کر لیا۔

یہ سن کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمیں حضرت ابوبکرؓ کے رونے پر بڑا تعجب ہوا کہ رسول اللہﷺ کسی بندے کو اختیار دیے جانے کی خبر دے رہے ہیں اور یہ رو رہے ہیں۔ (لیکن چند روز بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہﷺ تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ صاحبِ علم تھے۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحبِ احسان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور اگر میں اپنے رب کے علاؤہ کسی اور کو خلیل بناتا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا لیکن ان کے ساتھ اسلام کی اخوت و محبت کا تعلق ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازماً بند کر دیا جائے سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے۔

(البخاری: فضائل الصحابۃ صفحہ، 3654 رسول اللہﷺ کا یہ خطبہ وفات سے پانچ روز قبل بروز چہار شنبہ کا ہے، جس وقت آپﷺ کی بیماری میں مزید شدت آ گئی تھی) دیکھیے (الرحیق المختوم: صفحہ، 124)

حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ کے اشارے کو آپﷺ کے مرض الموت میں اس کے ذکر کے قرینے سے پہچان لیا تھا کہ آپﷺ اپنے آپ کو مراد لے رہے ہیں، اس لیے رونے لگے۔(فتح الباری: جلد، 7 صفحہ، 16)

جب نبی کریمﷺ کی بیماری میں مزید شدت آ گئی اور نماز کا وقت آ گیا، بلال نے اذان دی۔ آپﷺ نے فرمایا سيدنا ابوبکرؓ سے کہو نماز پڑھائیں۔

عرض کیا گیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رقیق القلب ہیں جب آپﷺ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ رسول اللہﷺ اپنے مؤقف پر قائم رہے، لوگ اپنی بات کہتے رہے، تیسری مرتبہ آپﷺ نے فرمایا

تم سب یوسفؑ والیاں ہو،

(یوسفؑ والیاں کہنے کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح جو عورتیں عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کر رہی تھیں حالانکہ در پردہ خود یوسفؑ پر فریفتہ تھیں یعنی زبان سے کچھ کہہ رہی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی بات تھی، یہی معاملہ یہاں بھی تھا۔ بظاہر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رقیق القلب ہونے کا ذکر تھا، لیکن دل میں یہ بات تھی کہ اگر خدانخواستہ اس مرض میں رسول اللہﷺ وفات پا گئے تو حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں نحوست اور بدشگونی کا خیال لوگوں کے دل میں جاگزیں ہو جائے گا)

(البخاری: المغازی صفحہ، 4445) 

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔

آپؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔

(البخاری: الاذان صفحہ، 712 رسول اللہﷺ مرض کی شدت کے باوجود وفات سے چار دن پہلے جمعرات تک نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے، اس روز بھی مغرب کی نماز آپﷺ ہی نے پڑھائی تھی اور اس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔ (البخاری: المغازی ۸۳، جلد، 83 صفحہ، 4429) لیکن عشاء کے وقت مرض کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ مسجد میں جانے کی طاقت نہ رہی، آپﷺ پر بار بار بے ہوشی طاری ہو رہی تھی، بالآخر آپﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکرؓ نماز پڑھاتے رہے۔ ہفتہ یا یک شنبہ کو نبیﷺ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، چنانچہ دو آدمیوں کے سہارے چل کر مسجد میں تشریف لائے، اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز شروع کر چکے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الرحیق المختوم: صفحہ، 624/628) (مترجم)

نبی کریمﷺ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، دو آدمیوں کے سہارے چل کر مسجد میں تشریف لائے، تکلیف سے آپﷺ کے پیر گھسٹ رہے تھے، آپﷺ کی آمد محسوس کر کے سيدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا، آپﷺ نے اشارے سے ان کو اپنی جگہ رہنے کا حکم دیا، پھر آپﷺ آکر حضرت ابوبکرؓ کے بائیں پہلو میں بیٹھ گئے۔

اعمشؒ سے پوچھا گیا: کیا آپﷺ نماز پڑھا رہے تھے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپﷺ کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکرؓ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے؟

تو اعمشؒ نے اپنے سر کے اشارے سے کہا ہاں۔

(البخاری: الاذان صفحہ، 713)

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ برابر لوگوں کو پنج وقتہ نماز پڑھاتے رہے، یہاں تک کہ حیاتِ طیبہ کا آخری دن دو شنبہ آیا۔ مسلمان نماز فجر میں صف بہ صف کھڑے تھے، نبی کریمﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا، مسلمانوں پر نظر ڈالی وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے تھے۔ آپﷺ نے دیکھا کہ آپﷺ کی دعوت و جہاد نے کیا اثر دکھایا ہے اور کس طرح وہ امت وجود میں آئی جو آپﷺ کی موجودگی اور عدم موجودگی میں نماز پر ہمیشگی کر رہی ہے، اس حسین و دلکش منظر اور نجاح و کامیابی کو (جو آپﷺ سے قبل کسی نبی و داعی کو میسر نہ آئی) دیکھ کر آپﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں اور آپﷺ کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس امت کا تعلق اللہ اور دین سے دائمی ہے۔ نبیﷺ کی وفات سے منقطع ہونے والا نہیں۔ اس سے آپﷺ کو اس قدر خوشی حاصل ہوئی جس کی انتہا اللہ ہی کو معلوم ہے اور آپﷺ کا چہرہ انور روشن ہو گیا۔

(السیرۃ النبویۃ للندوی: صفحہ، 401)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیان کرتے ہیں نبی کریمﷺ نے حجرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا پردہ ہٹایا، اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے، آپﷺ کا چہرہ انور قرآن کا صفحہ (چمکدار، صاف شفاف) معلوم ہو رہا تھا، پھر آپﷺ مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہم اس قدر خوش ہوئے کہ ارادہ کر لیا کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑ جائیں (یعنی نماز توڑ دیں) اور ہمیں یقین ہو گیا کہ آپﷺ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نمازیں پوری کر لو، پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرا لیا۔

(البخاری: المغازی صفحہ، 4448)

اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قدرے اطمینان ہو گیا اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے کاروبار میں مشغول ہو گئے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور رسول اللہﷺ کی صحت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ رسول اللہﷺ کی تکلیف ختم ہو گئی اور آج بنت خارجہؓ (آپﷺ کی زوجہ محترمہ) کی باری ہے۔ وہ مقام سنح میں رہتی تھیں۔ آپؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ان کے پاس چلے گئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابی شہبۃ: جلد، 2 صفحہ، 593)

نبی کریمﷺ پر سکرات کی کیفیت تیز ہو گئی، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپﷺ کے پاس آئے، آپﷺ کلام پر قادر نہ تھے، اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر سيدنا اسامہؓ پر رکھا، اس سے وہ سمجھ گئے کہ آپﷺ ان کے لیے دعا فرما رہے ہیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کی اپنے سینے سے ٹیک لگوا دی۔ سيدنا عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ تشریف لائے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپﷺ مسواک کی طرف دیکھنے لگے۔

ام المؤمنین فرماتی ہیں میں نے پوچھا آپﷺ کے لیے لے لوں؟

آپﷺ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں۔

میں نے مسواک لے کر آپﷺ کو دی تو آپ کو سخت محسوس ہوئی۔

میں نے کہا اسے آپﷺ کے لیے نرم کر دوں؟

آپﷺ نے سر کے اشارے سے کہا ہاں۔

میں نے مسواک کو دانتوں سے کوچ کر نرم کر کے آپﷺ کو دی، آپﷺ نے نہایت اچھی طرح سے مسواک کی، اس دوران میں آپﷺ اللہم فی الرفیق الاعلی

ترجمہ: اے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے۔

(البخاری: المغازی صفحہ، 4438)

کہتے رہے۔ آپﷺ کے بغل میں کٹورے میں پانی تھا، آپﷺ پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرے پر پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے لا الہ الا اللہ موت کے لیے سختیاں ہیں۔ پھر آپﷺ نے اپنا دست مبارک کھڑا کیا اور فرمانے لگے۔

اللہم فی الرفیق الاعلی

ترجمہ: پھر آپﷺ کی روح پرواز کر گئی اور ہاتھ جھک گیا۔

(البخاری: المغازی صفحہ، 4449)

اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ آپﷺ فرما رہے تھے اللہم أعنِّی علی سکرات الموت۔

ترجمہ: اے اللہ موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔

(الترمذی: الجنائز صفحہ، 978)

ایک روایت میں ہے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺ کی وفات سے قبل جبکہ آپ ام المؤمنینؓ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، کان لگا کر سنا تو آپﷺ فرما رہے تھے

اللہم اغفرلی وارحمنی والحقنی بالرفیق الاعلی۔

ترجمہ: اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔

(البخاری: المغازی صفحہ، 4440) 

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب نبی کریمﷺ کی بیماری میں شدت آ گئی اور آپﷺ پر بے ہوشی طاری ہونے لگی، یہ منظر دیکھ کر سيده فاطمہؓ نے کہا

واکرب اباہ!

ہائے ابا جان کی پریشانی۔

تو رسول اللہﷺ نے فرمایا

لیس علی ابیک کرب بعد الیوم

ترجمہ: آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی پریشانی نہیں آئے گی۔

پھر جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو سيده فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرط غم سے فرمایا

یا ابتاہ اجاب اللّٰہ دعاہ، یا ابتاہ من جنۃ الفردوس مأواہ، یا ابتاہ الی جبریل ننعاہ۔

ترجمہ: ہائے ابا جان! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان! جن کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے۔ ہائے ابا جان! ہم جبرائیلؑ کو آپﷺ کی موت کی خبر دیتے ہیں۔

اور جب آپﷺ کو دفن کر دیا گیا تو فرمایا

یا انس کیف طابت نفوسکم ان تحثوا علی رسول اللہ صلي الله عليه وسلم التراب۔

ترجمہ: اے انس! کیسے تم کو گوارا ہوا کہ رسول اللہﷺ پر مٹی ڈالو

(البخاری: المغازی صفحہ، 4462)

رسول اللہﷺ اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپﷺ جزیرہ عرب پر حکمرانی کر رہے تھے اور بادشاہان عالم آپﷺ سے لرزاں و مرعوب تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی جان، مال اور اولاد آپﷺ پر نچھاور فرما رہے تھے۔ وفات کے وقت آپﷺ نے نہ درہم و دینار چھوڑا اور نہ لونڈی و غلام۔ صرف ایک سفید خچر اور ہتھیار چھوڑے اور ایک زمین جسے امت کے لیے صدقہ کر دیا۔

(البخاری: المغازی: صفحہ، 4461)

 وفات کے وقت آپﷺ کی زرہ تیس صاع جو کے عوض ایک یہودی کے پاس رہن پر تھی۔

(السیرۃ النبویۃ للندوی: صفحہ، 403 نیز دیکھیے البخاری: المغازی صفحہ، 4467)

یہ واقعہ یوم دو شنبہ 12 ربیع الاوّل 11 ہجری بعد از زوال پیش آیا.

اس وقت آپﷺ کی عمر تریسٹھ (63) سال تھی۔

(مسلم: الفضائل جلد، 6 صفحہ، 825 البخاری: المغازی صفحہ، 4466)

آج کا دن مسلمانوں کے لیے انتہائی دلفگار، تاریک اور وحشت ناک تھا اور بشریت کے لیے بڑی آزمائش کی گھڑی تھی، جس طرح کہ آپﷺ کی ولادت کا دن سب سے زیادہ سعادت افزاء تھا۔

(السیرۃ النبویۃ للندوی: صفحہ، 404)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں جس روز رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تھے پورا مدینہ روشن ہو گیا تھا اور جس دن آپﷺ کی وفات ہوئی پورا مدینہ تاریک ہو گیا۔

(الترمذی: صفحہ، 3218 جلد، 5 صفحہ، 549)

اس حادثہ دلفگار پر سیدہ ام ایمنؓ سے رہا نہ گیا وہ رونے لگیں۔ پوچھا گیا نبی کریمﷺ پر کیوں رو رہی ہو؟ فرمایا میں پہلے سے جانتی تھی کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہو گی لیکن میں آج وحی الٰہی کے منقطع ہو جانے پر رو رہی ہوں۔

(مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1907)