صحابہ كرام رضی اللہ عنہم اور قرآن كريم
مولانا ابوعبيدالرحمن عارف محمود، استاذ جامعه فاروقيہ، كراچیصحابہ كرام رضی اللہ عنہم اور قرآن كريم
حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ايسی مقدس شخصيات ہيں،جنہوں نے حضرت رسول اللہﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا؛ بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا، رسول اللہﷺ کی زندگی کے تمام پہلوں کا عملی طور سے مشاہدہ کیا، آپﷺ سے سب سے پہلے دین کو سیکھا اور پھیلايا۔
یہی وہ مبارک اور پاک باز جماعت ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی رفاقت اور مصاحبت کے ليے چنا اور منتخب فرمایا؛ چناں چہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کی بنیاد اور معیارِ ایمان ہیں؛ بلکہ حضور اقد ﷺ کی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو سمجھنے، اور اس پر عمل کرنے کے ليے اگر کسی کی زندگی معیار ہے تو وہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک و مقدس جماعت ہے۔
یہی وہ جماعت ہے جس نے براہِ راست مشکوٰۃِ نبوّت سے استفادہ کیا؛ چناں چہ جو فیض انہوں نے پایا اور ایمان کی جو کیفیت و حلاوت ان کو حاصل ہوئی، وہ بعد والوں كو میسر نہ آئی، اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں اگر کسی نبی کے ساتھیوں کی سب کے سب کی تعریف بیان کی ہے تو وہ جنابِ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے، اللہ رب العزت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت كو رضامندی كی سند عنايت فرما دی۔
عدالتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:
قرنِ اوّل سے آج تک امتِ مسلمہ اہلِ سنت والجماعت کا یہ اتفاقی و اجماعی عقیدہ رہا ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام کے تمام عادل و معتبر ہیں، اور ان کا اجماع امتِ مسلمہ کے لیے حجت ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ اور مبارک جماعت عاداتِ کریمہ، خصائلِ حمیدہ، شمائلِ فاضلہ، اخلاقِ عظیمہ، اور شریعت کے تمام مسائل و دلائل، حقائق و آداب کے بارے میں علماً اور عملاً رسول اللہﷺ کے کمالاتِ نبوت کی آئینہ دار اور مظہرِ اتم ہے، انہی پاک باز نفوس کی اتباع امتِ مسلمہ کو ضلالت و گمراہی سے بچا سکتی ہے۔
مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یہ ان مردانِ خدا کی تاریخ ہے کہ جب ان کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انہوں نے اس کو دل و جان سے قبول کیا اور اس کے تقاضوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِيًا يُّنَادِىۡ لِلۡاِيۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّكُمۡ فَاٰمَنَّا (سورۃ آل عمران: آیت، 193)
اور اپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں دے دیا چنانچہ ان کے ليے اللہ کے راستے کی مشقتیں معمولی اور جان و مال کی قربانی آسان ہو گئی حتیٰ کہ اس پر ان کا یقین اور پختہ ہو گیا اور بالآخر دل و دماغ پر چھا گیا، غیب پر ایمان، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت، اہلِ ایمان پر شفقت، کفار پر شدت نیز آخرت کو دنیا پر، ادھار کو نقد پر، غیب کو شہود پر اور ہدایت کو جہالت پر ترجیح اور ہدایتِ عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔
اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لانے، مذاہب کے ظُلم و جَور سے اسلام کی عدل گُستری میں پہنچانے، دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے اور دنیوی مال و متاع اور زیب و زینت سے بے پرواہ ہو جانے، اللہ سے ملنے اور جنت میں داخل ہونے کے شوق کے محیر العقول واقعات سامنے آنے لگے، انہوں نے اسلام کی نعمت کو ٹھکانے لگانے، اس کی برکتوں کو اقصائے عالم میں عام کرنے اور چپے چپے کی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی و دقیقہ رسی کے باعث، اپنے گھر بار کو چھوڑا، راحت و آرام کو خیر باد کہا اور اپنی جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہو گئیں، دل اللہ کی طرف مائل ہو گئے اور ایمان کے ایسے مبارک، جاں فزا اور طاقتور جھونکے چلے جس سے توحید و ایمان اور عبادات و تقویٰ کی سلطنت قائم ہو گئی، جنت کا بازار گرم ہو گیا، دنیا میں ہدایت عام ہو گئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے‘‘۔
عظمتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور قرآن:
یہاں بطورِ نمونہ کے چند آیات اور ان کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں تاکہ ایک عام مسلمان قاری اس کا اندازہ لگا سکے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کیا فضل و کمال حاصل تھا۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًاۖسِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛ ۖۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ ۛۚ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہو گئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے۔
(آسان ترجمہ قرآن: جلد، 3 صفحہ، 1575)
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيۡنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤئِكَ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ
(سورۃ الأنفال: آیت، 72)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں) آباد کیا اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔
(آسان ترجمہ قرآن: جلد، 1 صفحہ، 550)
وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۖ وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَاكَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ (سورۃ آل عمران: آیت، 103)
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آ جاؤ۔
(آسان ترجمہ قرآن: جلد، 1 صفحہ، 212)
هُوَ الَّذِىۡۤ اَيَّدَكَ بِنَصۡرِهٖ وَبِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡلَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيۡنَهُمۡؕ اِنَّهٗ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ
(سورۃ الأنفال: آیت، 62- 63)
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے اور مومنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے۔ اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کردی۔ اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کرلیتے تو ان کے دلوں میں یہ الفت پیدا نہ کرسکتے، لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا، وہ یقینا اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
(آسان ترجمہ قرآن: جلد، 1 صفحہ، 546)
مذکورہ بالا آیات کا خلاصہ:
قرآن کریم میں اس مضمون کی اور بھی بہت ساری آیات موجود ہیں لیکن جو آیات ہم نے ذکر کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان میں اُخوّت و برادری کا تعلق ہوتا ہے، ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے تھامے رکھنی چاہيے کیونکہ اللہ نے ہی دیرینہ دشمنیوں کو محبت و الفت میں بدل دیا اور اب ایمان والوں کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا، یہی وہ ایمان والے ہیں جن کے ذریعے سے اللہ نے اپنے نبیﷺ کی تائید اور مدد و نصرت فرمائی، ان کے دلوں میں الفت و شفقت ڈال دی، پھر بتلایا کہ اہلِ ایمان کی وہ اولین جماعت جو مہاجرین اور انصار ہیں، مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں، مہاجرین کو ٹھکانہ فراہم کرنے والے اور ان کی نصرت و امداد کرنے والے ہیں، ایک دوسرے کے دوست اور امین، معاون و مددگار ہیں، حضور اکرمﷺ کی معیت میں رہنے والے مقدس اور پاک باز لوگوں کی جماعت ہے، کفار کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان، نرم دل اور شیر و شکر ہیں۔
عبادتِ خداوندی میں مصروف رہتے ہیں، اپنے رب کی رضا کو چاہنے والے ہیں، ان کی بزرگی اور نیکی کے آثار و انوار ان کے مبارک چہروں سے ظاہر و تاباں ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ صفات صرف قرآن کریم ہی میں نہیں بلکہ اس سے پہلے کی کتابوں، تورات، انجیل، میں بھی مذکور چلی آ رہی ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے تدریجاً ارتقاء عطا فرمایا، اسی طرح تدریجاً دینِ اسلام اور اہلِ ایمان کا غلبہ اور ارتقاء ہو گا، ان کی ترقی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ليے باعثِ خوشی ہے اور کفار کے ليے باعثِ عداوت ہے، اللہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔
اللہ رب العزت نے یہ بھی بتلایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو معتدل جماعت بنایا ہے، یہ لوگوں پر گواہ ہوں گے اور رسول اللہﷺ ان پر گواہ ہوں گے، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ لوگ ہیں جو اُس نبی کی اتباع و پیروی کرتے ہیں جس کی صفات تورات و انجیل میں مذکور ہوئی ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے آپﷺ پر ایمان لایا، آپﷺ کی رفاقت اختیارکی، مدد و نصرت کی اور آپﷺ پر اترے ہوئے قرآن کریم کی اتباع کی، وہی لوگ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) اپنی مراد کو پہنچنے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی نبی کریمﷺ پر ان کے ساتھی مہاجرین و انصار پر جو ان کے ساتھ مشکل وقت میں ساتھ رہے، وہ ایمان والے جنہوں نے درخت کے نیچے اللہ کے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی اللہ ان سے راضی ہوا، ان پر سکینہ نازل فرمایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے، ان کی مدد کرنے والے انصار، ان کے پیروکار، ان سب سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے ليے جنت تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کامیابی کو پانے والے ہیں۔
اللہ نے قرآن پاک کو نازل فرمایا، اس سے خوفِ خدا رکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کی کھال اور دل اللہ کے ذکر سے نرم ہو جاتے ہیں، اللہ کی آیات پر ایمان لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب ان آیات کو سنتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں، اور اس پاک ذات کو یاد کرتے ہیں، ان کے پہلو اپنے خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں، یہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں، لہٰذا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے ليے جو کچھ اللہ نے چھپا رکھا ہے وہ کسی نفس کو معلوم نہیں، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا بھی۔
اور یہ ان لوگوں کے ليے ہے جو اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں، غصہ آ جائے تو معاف کرتے ہیں، اپنے رب کے حکم کو انہوں نے مان لیا ہے اور نماز کو قائم کیا ہے، ان کے معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں، ان اہلِ ایمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کتنے ہی وہ مرد ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ كيے ہوئے وعدے کو سچ کر دکھایا اور اپنی ذمہ داری پوری کر دی اور کتنے ہی ایسے ہیں جو انتظار میں ہیں، اور ان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی، اللہ تعالیٰ سچوں کو بدلہ دے گا اور منافقین کو چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف فرما دے، اللہ تعالیٰ بخشنے والے اور مہربان ہیں، کیا وہ جو رات کی گھڑیوں میں بندگی میں لگا ہوا ہے سجدے کرتا ہے، قیام کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے، اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے، تو کیا سمجھ رکھنے والے اور ناسمجھ برابر ہوتے ہیں، ہرگز نہیں۔
ایمان اور دیگر ایمانی صفات، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تقویٰ، پرہیزگاری، انفاق فی سبیل اللہ، اور اخلاصِ نیت وغیرہ پر حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ کاربند اور عمل پیرا رہے اور باہمی الفت و محبت، شفقت و رحمت کی صفت پر بھی ان کا عمل دائمی رہا کیونکہ اللہ نے ان پر پرہیزگاری کی بات کو لازم کر دیا تھا اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كا فرمان:
انہيں اوصافِ کریمہ اور خصالِ حمیدہ کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’من كان مُستنًّا فليَستنَّ بِمَن ْقد مَاتَ فإنَّ الحَیَّ لا تُؤمَنُ عليها الفتنة، أولئك أصحابُ محمَّدٍ صَلَّى الله عليه وسلمَ كانوا أفضلَ هذه الأمَّة، أبرَّهَا قلوبًا وأعمقَها علماً وأقلَّها تكلّفًا، اختارهُمُ اللهُ لصحبةِ نبيهٖ ولإقامةِ دينهٖ فاعرِفُوا لهم فضْلَهمْ و اتبعوهم على آثارهِم وتمَسَّكوا بما استطعتُم من أخْلاقِهم و ِسيَرِهِم فإنَّهم كانوا على الهدى المستقيمِ‘‘
(جامع بیان العلم وفضلہ لابنِ عبدالبر: رقم، 1820 جلد، 2 صفحہ، 134)
(مشکاۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ: رقم، 193 جلد، 1 صفحہ، 111)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو اُن کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے، ان كے قلوب پاک تھے، ان كا علم گہرا تھا، ان ميں تکلف اور تصنع نہ تھا، اللہ جل شانہ نے انہيں اپنے نبی کریمﷺ کی صحبت اور دین کی اشاعت کے ليے چنا تھا اس ليے ان کی فضیلت اور برگذیدگی کو پہچانو، ان کے نقشِ قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو اس ليے کہ وہی ہدایت کے راستے پر تھے۔
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں سے محمدﷺ کو پسند فرمایا اور انہيں اپنا رسول بنا کر بھیجا اور ان کو اپنا خاص علم عطا فرمایا، پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپﷺ کے ليے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چنا اور ان کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبیﷺ کی ذمہ داری کا اٹھانے والا بنایا، لہٰذا جس چیز کو مؤمن (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) اچھا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے يہاں بھی اچھی ہو گی اور جس چیز کو بُرا سمجھیں گے، وہ چیز اللہ کے يہاں بھی بُری ہو گی۔
(حلیۃ الاولیاء: رقم الترجمہ، 84 الطفاوی الدوسی: جلد، 1 صفحہ، 376)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد:
حضرت ابو اِراکہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی جب آپؓ نماز سے فارغ ہوئے اور داہنی طرف رخ کر کے بیٹھ گئے تو ایسا لگ رہا تھا کہ آپؓ بے چین اور غمگین ہیں، حتیٰ کہ جب سورج مسجد کی دیوار سے ایک نیزہ بلند ہوا تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنے ہاتھ کو پلٹ کر فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے حضرت محمدﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے آج ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا ہے، صبح کے وقت ان کی یہ حالت ہوتی تھی کہ رنگ زرد اور بال بکھرے ہوئے اور جسم غبار آلود ہوتا تھا، ان کی پیشانی پر (سجدہ کا) اتنا بڑا نشان نمایا ہوتا تھا جتنا بڑا نشان بکری کے گھٹنے پر ہوتا ہے، ساری رات اللہ کے سامنے سجدہ کرتے اور کھڑے ہو کر قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے گزار دیتے تھے اور سجدہ اور قیام ہی میں راحت حاصل کرتے تھے، جب صبح ہو جاتی اور وہ اللہ کا ذکر کرتے تو ایسے جھومتے جیسے کہ تیز ہوا کے دن (یا بادِ صبا کے وقت) درخت جھومتا ہے اور اس طرح روتے کہ کپڑے گیلے ہو جاتے، خدا کی قسم (ان کے رونے سے یوں نظر آتا تھا کہ) گویا انہوں نے رات غفلت میں گزار دی ہو، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اس کے بعد کبھی آہستہ ہنستے ہوئے بھی نظر نہ آئے، یہاں تک کہ اللہ کے دشمن ابنِ ملجم فاسق نے آپؓ کو شہید کر دیا۔
(حلیۃ الاولیاء: رقم الترجمہ، 4 علی ابنِ ابی طالب: جلد، 1 صفحہ، 76)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم كی صفات:
قرآن و حدیث میں مذکور ان تمام صفات میں بے شک تمام کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہیں، خواہ مہاجرین ہوں یا انصار، مکہ کے رہنے والے ہوں یا مدینہ کے، قریشی ہوں یا کسی اور قبیلے کے، عربی ہوں یا عجمی، وہ تمام کے تمام باہمی خیرخواہی، ہمدردی، غم خواری اور خوش خلقی میں بے نظیر و بے مثال تھے، زمانہ ان کی مثال لانے سے عاجز ہے، پھر ان سب میں خصوصاً خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم حضور اقدسﷺ کے بعد تمام امت میں بہترین اور افضل ترین لوگ ہیں، یہ لوگ آپس میں شیر و شکر تھے، ایک دوسرے کے معاون و مددگار تھے، ان میں کسی طرح کا اختلاف و انتشار نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ان میں باہمی رشتے بھی ہوئے، حضرات شیخین حضرت ابوبکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے بابرکت دور میں امتِ مسلمہ متفق و متحد تھی، اس مبارک دور میں امت میں دور دور تک کہیں بھی کسی طرح کے نظریاتی اختلاف کا وجود نہ تھا، پوری امت یک جان و دل کفر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مقابلہ کے ليے سینہ سپر تھی۔
نظریاتی اختلافات کی ابتداء:
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا ابتدائی زمانہ ٔخلافت بھی اختلافات سے محفوظ تھا البتہ ان کے خلافت کے آخری زمانہ میں ’’ابنِ سبا‘‘ نامی ایک یہودی الاصل شخص نے’’ آلِ رسولﷺ‘‘ کے خوشنما نعرے کی آڑ میں امت میں اختلاف و افتراق اور انتشار کا بیچ بویا، اسی نقطۂ نظر پر ایک مستقل اور اسلام کے متوازی مذہب کی بنیاد رکھی گئی، ابتداء میں بہت سادہ اور عام الفاظ میں یہ کہا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرمﷺ کے عزیز و قریب ہیں، لہٰذا وہی جانشینی و خلافت کے زیادہ حقدار و مستحق ہیں حالانکہ قرابت اور آلِ رسول کے لبادہ میں لپٹا ہوا یہ نعرہ جتنا سادہ اور خوشنما ہے، اتنا ہی یہ تعلیماتِ الہٰی اور حضور اقدسﷺکی 23 سالہ مبارک زندگی اور آپﷺ کے لائے ہوئے دین اور اس کے منشا کے بھی خلاف تھا؛ اس ليے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے نسلی امتیاز اور خاندانی فخر و غرور کے تمام بتوں کو نہ صرف پاش پاش کر دیا بلکہ عزت و شرافت، بزرگی و بڑائی، سیادت و قیادت ک امدار تقویٰ کو قرار دیا۔
الأتقیٰ کا مقام:
قرآن کریم کا واضح اور ببانگِ دہل یہ اعلان ہے کہ صفتِ تقویٰ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام جماعتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ممتاز و فائق اور سب کے سرتاج و سرخیل تھے، قرآن نے الاتقیٰ سب سے زیادہ متقی کا تاج انہی کے سر پر سجایا ہے، قرآن کی یہ کوئی من گھڑت اور تراشیدہ تفسیر نہیں بلکہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جب کوفہ کی جامع مسجد میں برسرِ منبر سوال کیا گیا کہ آپ لوگوں نے آنحضرتﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کیوں بنایا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نےفرمایا: دین کے کاموں میں سب سے اہم تر نماز ہے، حضور اقدسﷺ نے اپنے مرض الوفات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو ہمارا امامِ نماز بنایا تھا حالانکہ میں وہاں موجود تھا، حضور اکرمﷺ کو میری وہاں موجودگی کا علم بھی تھا مگر اس کام کے ليے آپﷺ نے مجھے یاد نہیں فرمایا بلکہ حضرت ابوبکرؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، لہٰذا جس شخص کو حضور اقدسﷺ نے ہمارے دین کی امامت کے ليے منتخب فرمایا ہے، ہم نے دنیا کی امامت و قیادت کے ليے بھی اسی کو منتخب کر لیا ہے۔
جھوٹا پروپیگنڈہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان تعلیمات کے برعکس ابنِ سباء اور اس کے پیروکاروں نے تب سے آج تک عوام اور جاہل طبقہ میں بڑی شد و مد کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا کہ خلافت صرف حضرت علیؓ کا حق تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خصوصاً خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے العیاذ باللہ ان کے حق کو غصب کیا، ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا،خاندانِ نبوت پر بڑے بڑے مظالم ڈھائے، جو زبان و بیان سے بالا تر ہیں، اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف تھا، وغیرہ وغیرہ، انہوں نے ان مبارک ہستیوں اور پاک باز نفوس کے درمیان کشیدگی اور رنجیدگی کے نہ جانے کتنی داستانیں گھڑ لیں ہیں، اور انہيں حق و باطل کا معیار قرار دے کر بڑے زور و شور سے بیان کرتے پھرتے ہیں حالاں کہ یہ سب محض جھوٹ اور من گھڑت ہے، اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آپس میں تعلقات:
خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم خاص طور سے اور باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے خاندان نہ صرف باہم شیر و شکر تھے بلکہ ہر ایک دوسرے کا غم خوار، غم گسار، ہمدرد، مہربان اور حقوق کو ادا کرنے والا تھا، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فریقین کی کتابوں میں سيکڑوں احادیث و روایات مروی ہیں، جن سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عمومی اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خصوصی فضیلت، منزلت و مرتبت اور بزرگی و تقویٰ کا اظہار ہوتا ہے، یہ بات صرف اہلِ سنت کی معتبر کتابوں سے ہی ثابت نہیں بلکہ اہلِ تشیع کی بنیادی اور معتبر کتابوں میں بھی ہيں، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جن کو وه كبھی نہیں جھٹلا سکتے۔
جو چیز نصِ قرآنی اور سنتِ مشہورہ کےخلاف ہو وہ مردود ہے۔
حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت و منقبت، بزرگی و تقویٰ، قرآن و سنت سے ثابت ہے البتہ روایات اور تاریخی روایات میں ان حضرات کے درمیان مشاجرات کا شائبہ نظر آتا ہے، یہ لوگ ان کے درمیان تنازعات و رنجیدگی کے جو نقشے کھینچتے ہیں، نصوصِ قرآنیہ اور سنتِ مشہورہ کے مقابلہ میں ان کی چنداں حیثیت نہیں اور نہ ہی وہ قرآن و سنت کے معارض بن سکتی ہیں اس ليے کہ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا اس بات پر اتفاق ہے اور یہ فریقین کے يہاں مسلّم ہے کہ جو روایت بھی نصِ قرآنی اور سنتِ مشہورہ مسلّمہ کے خلاف مروی ہو اور اس کی کوئی تاویل ممکن نہ ہو، یا تطبیق و موافقت کی کوئی صورت نہ بن سکتی ہو، تو وہ قابلِ تسلیم نہیں۔
سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد:
ابنِ صباء کے پیروکار چونکہ جھوٹی روایات گھڑ گھڑ کر آلِ بیت کی طرف منسوب کرتے تھے، اسی وجہ سے ائمہ اہلِ بیت نے اس بات پر خاص طور سے لوگوں کو متنبہ کیا کہ جو چیز بھی کتاب اللہ، سنتِ نبوی کے خلاف ہو اس کو ہماری طرف منسوب کر کے مت قبول کرو، چنانچہ شیعوں کی معتبر کتاب میں حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ سے مروی ہے:
’’فاتَّقُوا اللهَ وَلَا تَقْبِلُوا عَلَيْنَا مَا خَالفَ قولَ ربِّنا تعالىٰ وسَّنةَ نبيِّنا مُحمَّدٍﷺـ‘‘
(تذکرہ مغیرہ بن سعید: صفحہ، 146)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ سے خوف کرو جو چیز کتاب اللہ اور سنتِ نبوی کے خلاف ہو اس کو ہماری طرف منسوب کر کے مت قبول کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد:
’’امالی شیخ صدوق‘‘ میں حضرت جعفر صادق و محمد باقر رحمہمااللہ کی سند سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’فَمَا وافَقَ كتَابَ اللهِ فخُذوهُ ومَا خَالفَ كتابَ اللهِ فدَعُوهُ‘‘
(مجلس الثامن والخمسون: صفحہ، 221)
ترجمہ: وہ بات جو کتاب اللہ کے موافق ہو اسے قبول کرو اور جو بات کتاب اللہ کے مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔
’’احتجاج طبرسی‘‘ میں حضرت باقر رحمۃ اللہ نے حضور اکرمﷺ سے خطبۂ حجۃ الوداع کے سلسلے میں یہی بات نقل کی ہے:
’’فإذَا أتَاكُم الحديثُ فاعْرِضُوه عَلىٰ كتابِ الله عزَّوجلَّ و سُنَّتی، فمَا وافَقَ كتابَ اللهِ و سنَّتی فخُذُوا به وما خَالفَ كتابَ الله و سنَّتی فلا تأخُذُوا به‘‘
(احتجاج ابی جعفر محمد بن علی الثانی علیہما السلام فی انواع شتّٰی: صفحہ، 229)
ترجمہ: امام محمد باقر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی حدیث پہنچے تو اس کو کتاب اللہ اور میری سنت پر پیش کرو، جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو اس کو قبول کرو اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے خلاف ہو اس کو قبول مت کرو۔
اہلِ سنت والجماعت کا مسلمہ قاعدہ:
اہلِ سنت والجماعت کے نزديک تو یہ ایک مستقل قاعدہ اور مسلّمہ حقیقت ہے کہ نصِ قرآن اور سنتِ مشہورہ کے خلاف جو روایت پائی جائے تو وہ مردود ہے وه ہرگز قابلِ التفات نہیں چنانچہ حافظ المشرق علامہ خطیب بغدادی (المتوفیٰ 463ھ) "الکفایۃ فی معرفۃ أصولِ علمِ الروایۃ" میں لکھتے ہیں:
’’عن أبی هريرة عن النَّبیﷺ أنَّه قال: سَيَأْتِيْكُمْ عنِّی أحاديثُ مختلفةٌ فَمَا جَاءَكُمْ موافِقًا لِكتابِ الله وَسُنَّتی فهو مِنِّی وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالفًا لكتابِ الله تَعَالىٰ وَسُنَّتِیْ فَلَيْسَ مِنِّی‘‘
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ میری طرف منسوب شدہ مختلف قسم کی روایات عنقریب تمہارے پاس پہنچیں گی، جو کتاب اللہ اور میری سنت (مشہورہ) کے مطابق ہوں وہ درست ہوں گی اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے معارض ہوں، وہ صحیح نہ ہوں گی۔
(بابٌ فِیْ وُجُوْبِ إِطْرَاحِ الـمُنْكَرِ وَالمستحيلِ مِنَ الْأَحَادِيْثِ:رقم الحدیث، 1309 جلد، 2 صفحہ، 552)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابو الطفیل نے نقل کیا ہے:
’’حدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُوْنَ وَدَعُوْا مَا يُنكِرُوْنَ أتُحِبُّونَ أنْ يُكذَّبَ اللهُ وَ رَسُوْلُه‘‘
ترجمہ: لوگوں سے مشہور و معروف چیزیں بیان کرو اور غیر معروف یعنی منکر باتیں عوام میں ذکر مت کرو، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تکذیب کی جائے؟
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ کا قول:
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ "تذکرۃ الحفاظ" میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد گرامی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فَقدْ زَجَر الإمامُ علیُّ رضء الله عنه عَنْ رِوايةِ الـمُنكرِ، وحَثَّ عَلى التَّحْدِيْثِ بِالْمَشْهُوْرِ، وَهٰذا أصلٌ كبيرٌ فی الكفِّ عَنْ بَثِّ الأشْيَاءِ الوَاهِيَةِ و الْمُنكَرَةِ مِنَ الأحاديثِ فی الفَضَائلِ و العَقَائدِ و الرِّقائقِ‘‘
(امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب: جلد، 1 صفحہ، 13)
ترجمہ: ہمارے امام و مقتدیٰ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں شاذ و منکر روایات کے بیان کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور مشہور و معروف چیزوں کے بیان کرنے میں رغبت دلائی ہے اور بے سروپا روایات کے پھیلانے اور تشہیر کرنے سے روکنے کے ليے یہ شان دار قاعدہ بیان فرمایا ہے، یہ روایات خواہ عقائد سے تعلق رکھتی ہوں، یا فضائل اور ترغیبات کے باب سے ہوں، سب کی خاطر یہ قانون قابلِ عظمت ہے۔