Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ملاں لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شیعوں ہی نے قتل شہید کیا اور اب شیعہ اپنے ان مذموم افعال پر روتے پیٹتے ہیں تو سانحہ کربلا کے موقعہ پر اہل سنت نے امام مظلوم کی مدد کیوں نہ کی جب کہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں اس وقت اہل سنت موجود تھے۔

  مولانا مہرمحمد میانوالی

الجواب: فرقہ شیعہ ہی کو غدار اہل بیت اور قاتل حسین بتانے والے معمولی ملاں نہیں بلکہ ان ملاؤں کے پیشوایان کرام جن کے جائز و نا جائزہ ذکر سے شیعہ ملاں و ذاکرین اپنے پیٹ کا دھندا کرتے ہیں حضرات اہلبیتِ عظامؓ ہی ہیں اس مسئلہ پر چونکہ شعیہ کی گمراہی یا سچائی کو ہر عامی پرکھ سکتا ہے لہٰذا قدرے مفصلاً چار شقوں میں ہم اس بحث کی تنقیح کرتے ہیں۔

الف: کیا حضرت حسینؓ عالی مقام کو بلانے والے شیعہ تھے؟

ب: کیا میدانِ جنگ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مدِ مقابل وہی شیعہ تھے؟

ج: کیا قافلہ اہلِ بیتؓ نے شیعہ کو اپنا قاتل کہا ہے؟

د: کیا وہ خود بھی اقبالِ جرم کر کے ندامت کے آنسو بہاتے ہیں؟ 

جب دنیا کے ہر قانون میں ثبوتِ قتل کے یہ چار طریقے قطعی طور پر قاتل کا پتہ بتا دیتے ہیں قاتل مقتول یکجا ہوئے ہیں مارتے دیکھا گیا ہو مقتول خود بیان دے دے قاتل اعتراف بھی کرلے تو اب کیا شبہ رہ جاتا ہے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نظریہ اور امن پسندی:

واضح رہے کہ شیعہ کے ہاں بھی عام مؤرخین کے مطابق یہ ایک سیاسی اور برائے طلب خلافتِ جنگ تھی یزید کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد گورنرِ مدینہ ولید اور حضرت حسینؓ کا مکالمہ ملاحظہ ہو جو شیعہ مؤرخ مجلسی رقمطراز ہیں:

جب ولید نے سیدنا حسینؓ کو بلایا اور حضرت امیرِ معاویہؓ کی وفات کی اطلاع دی حضرت نے فرمایا:

قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ۞(سورة البقرہ: آیت، 156)

پھر ولید نے یزید پلید کا خط پڑھا حضرت نے فرمایا میرا گمان نہیں ہے کہ تو مجھ سے یزید کے لیے خفیہ بیعت پر راضی ہو جائے گا تو چاہے گا کہ سب لوگوں کے سامنے میری بیعت لے تا کہ لوگوں کو بھی معلوم ہو جائے ولید نے کہا ہاں حضرت نے فرمایا صبح تک انتظار کرو تاکہ میں غور کر لوں اور آپ بھی غور کرلیں پھر ایک دوسرے سے مناظرہ کریں اور جو خلافت کا مستحق ثابت ہو دوسرا اس کی بیعت کرے۔

(جلاء العیون: صفحہ، 349 و منتهى الآ مال للعباس القمی: جلد، 1 صفحہ، 298)

سیدنا امیرِ معاویہؓ کے متعلق بہتر رائے آپ کی وفات کو نقصان ملی جان کر استرجاع پڑھنا اور اپنی تمنا تو معلوم ہوگئی مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے دلائل ظاہر کر کے اہلِ مدینہ کو ہمنوا نہیں بنا سکتے تھے اور نہ اہلِ عراق پر اعتماد کرکے حصولِ مقصد کی کوشش کر سکتے تھے لامحالہ غیر جانبداری اور گوشہ نشینی کا فیصلہ کیا صبح دربار حاکم میں جانے کے بجائے اہل و عیال سمیت مکہ روانہ ہو گئے تاریخ شاہد ہے کہ یہاں آپ نے حکومت کے خلاف یا اپنے حق میں کوئی بیان نہیں دیا شعبان تا ذی الحجہ تقریباً 5 ماہ میں نہ حکومت کی طرف سے کسی نے بیعت کا مطالبہ کیا اور نہ آپ نے استحقاق خلافت پر لوگوں کو دلائل سنائے بڑی عافیت اور سلامتی کے ساتھ جوارِ کعبہ میں یہ دن گزارے یہیں سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اہلِ کوفہ بصد اصرار اور ایک لاکھ تلواریں مہیا کرنے کے بہانے آپ کو نہ بلاتے تو کبھی سانحہ کربلا نہ ہوتا نہ امت دو گروہوں میں بٹتی اب چار امور کی تفصیل ملاحظہ ہو:

الف: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے والے شیعہ یہی ہیں:

جلاء العیون میں مجلسی کے اعتراف کے مطابق کوفہ کے مؤمنین شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی مسیب بن نحبہ رفاعہ بن شداد حبیب بن مظاہر وغیرہ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو دشمن جبار کہہ کر پہلا خط لکھا:

 این نامه ایست بسوئے حسین بن علیؓ از سائر شیعان او و از مومنان و مسلمانان۔

ترجمہ: یعنی یہ خط سیدنا حسین بن علیؓ کی خدمت میں آپ کے تمام شیعوں مؤمنوں مسلمانوں نے لکھا ہے کہ اس وقت ہمارا امام و پیشوا معلوم ہوا کہ ان کے خیال میں بھی امام کا تصور سیاسی حاکم تھا اگر مثل نبی کا تصور ہوتا تو نفی نہ کرتے یہ تصور بہت بعد کی پیداوار ہے کوئی نہیں ہمارے پاس آئیں ہم سب آپ کے مطیع ہیں آپ کے آنے پر حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو نکال دیں گے والسلام

(جلاء العیون: صفحہ، 356 منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 303)

یہ خط عبداللہ مسمع ہمدانی اور عبد اللہ بن دال لے کر حضرت کی خدمت میں چلے پھر دونوں کے بعد قیسں بن مصر عبد اللہ بن شداد عمار بن عبداللہ کو کوفہ کے بڑے بڑے رؤسائے 150 خط دے کر مکہ روانہ کیا پھر دو دن کے بعد ہانی بن ہانی سبیعی سعید بن عبد اللہ حنفی کو اہلِ کوفہ نے حضرت کی خدمت میں یہ لکھ بھیجا تسمیہ کے بعد یہ خط حضرت حسینؓ کی خدمت میں ہے از شیعان و فدویان و مخلصان آپ جلدی اپنے دوستوں اور ہوا خواہوں میں پہنچیں سب لوگ آپ کے منتظر ہیں۔

 پھر شیث بن ربعی حجار بن الابجر یزید بن حارث، عروہ بن قیس عمرو بن حجاج اور محمد بن عمرو نے اسی مضمون کے خط آپ کی خدمت میں بھیجے۔

(جلاء العیون: صفحہ، 357 منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 303) 

سیدنا حسینؓ ان خطوط کے جواب میں متردد تھے حتیٰ کہ ایک دن میں 600 خطوط ان غداروں کے حضرت کو پہنچے جب ان کا مبالغہ حد سے گزر گیا اور بہت سے قاصد آپ کے پاس پہنچے اور 12 ہزار خطوط حضرت کو پہنچ چکے تب آپ نے یہ جواب لکھا:

ایں نامه ایست از حسین ابن علیؓ بسوئے گروہ مومناں و مسلماناں و شیعان۔

ترجمہ: سیدنا حسین بن علیؓ کی طرف سے یہ خط تمام مؤمنوں مسلمانوں اور شعیوں کو بھیجا جاتا ہے کہ:

آپ کے سب خطوط مجھے ملے میں تمہاری طرف اپنے معتمد بھائی سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو بھیجتا ہوں اگر وہ میری طرف لکھیں کہ عقلمند بزرگوں اور شریف و ذمہ دار لوگوں نے یہ لکھوائے ہیں تو میں ان شاء اللہ جلدی تمہارے پاس آجاؤں گا اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔

کہ امامے نیست مگر کسے کہ حکم کند درمیان مردم بکتاب خدا و قیام نماید درمیان مردم خدا بعدالت و قدم از جاده، شریعت مقدسہ بیرون نگزارد و مردم را بر دین حق مستقیم وارد والسلام۔

(جلاء العیون: صفحہ، 357 و منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 303 )

کہ امام صرف وہی ہوگا جو لوگوں میں کتاب خدا کے مطابق فیصلے کرے لوگوں میں عدل قائم کرے اور شریعت کے طریقے سے باہر قدم نہ رکھے اور لوگوں کو دین حق پر جمائے رکھے۔

امامت کے متعلق آپ کا نظریہ:

یہاں سے معلوم ہو چکا کہ حضرت حسینؓ کو دعوتِ خلافت کا چکمہ دینے والے فقط شیعانِ کوفہ ہی تھے نیز یزید سے آپ کو اختلافِ اموی اور ہاشمی قرابت پر نہ تھا جیسے شیعہ خاندانی دشمنی کا اشتہار دیتے ہیں بلکہ شریعتِ اسلامیہ کے نافذ کرانے اور قرآن و سنت کے مطابق حکومت کرنے پر مبنی تھا اس باب میں راقم الحروف کا بھی یہی نظریہ اور ایمان ہے اور سیدنا حسینؓ کے متعلق اہلِ سنت و الجماعت کو یہی نظریہ رکھنا چاہیئے کہ ان کے عقیدہ عظمت و عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واہلبیتؓ اور ہوئی نفسانی سے پاکدامنی کا تقاضہ یہی ہے یہ خیال نہ کرنا چاہیئے کہ حضرت حسینؓ نے یہ اقدام اپنے والد کا تختِ خلافت حاصل کرنے کے لیے مناسب موقعہ جان کر کیا جو سقیفہ کے موقعہ پر آپ کے والد سے غضب کیا گیا تھا جیسے شیعہ کا باطل نظریہ ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت حسینؓ سقیفہ کے دن ہی شہید ہو گئے تھے اور اس کو محض سیاسی اور دنیوی حکومت کے حصول کا ذریعہ سمجھا جائے کہ جیسے محمود احمد عباسی کا غلط نظریہ ہے دراصل رفض و خروج کے یہ خیال ایک ہی ہیں صرف تعبیر کا فرق ہے اب سنی نقطہ نظر کی مزید وضاحت یہ ہے کہ اہلِ کوفہ اگر اپنے غلط پروپگینڈہ سے یہ نظریہ سیدنا حسینؓ کے ذہن میں نہ بٹھاتے کہ یزید بد عمل نافرمان اور خلافت کا غیر اہل ہے تو آپ کبھی اس کے خلاف نہ اٹھتے خواہ طبعی ناگواری کی وجہ سے بیعت سے کنارہ کشی کرتے لیکن جب آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ احکام شرع میں لاپرواہ ہے۔

مملکت کا ایک بڑاحصہ عراق اس کو نہیں مانتا تو اس بناء پر آپ نے خروج جائزہ جانا اور شرعاً آپ معذور ہی نہیں ماجورو مثاب بھی ہوئے گو حقیقت اس کے خلاف تھی اول سے آخر تک اہلِ کوفہ کا دھوکہ تھا۔ پھر واپسی بھی چاہی مگر مقدر نہ تھی بہر حال اپنے نظریہ کے تحت سیدنا حسینؓ نے یزید پر طعن کرتے ہوئے برحق امام کی تعریف میں بڑی وضاحت سے فرمایا: کہ امام وہ مقتدر حاکم ہی ہوتا ہے جو لوگوں میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت کرے شریعت پر خود بھی عمل کرے اور لوگوں کو بھی چلائے اس تعریف نے شیعہ کی ایک خود ساختہ تاویل اور من گھڑت معنیٰ کو باطل کر دیا کہ خلافتِ ظاہری اور ہے جو خلفائے ثلاثہؓ کو ملی اور خلافتِ باطنی اور ہے جو آئمہ اہلبیتؓ کو ملی۔

نیز حضرت شیرِ خدا سے بھی ان منافقوں کے الزام کا دفعیہ کر دیا کہ آپ خلافتِ ظاہری میں صحیح اسلام بقول ان کے مذہب شیعہ خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معتقدین کے ڈر سے نافذ نہ کر سکے۔(ملاحظہ ہو مجالس المومنین: صفحہ، 56) 

کیونکہ معاذ اللہ اگر یہ الزام صحیح ہو تو سیدنا علی المرتضیٰؓ کی خلافت باطل ہو گئی۔

الغرض حضرت حسینؓ کی نظر میں خلیفہ پابندِ شریعت سیاسی حاکم ہوگا نہ کہ حکومت سے محروم اور غار میں چھپے رہنے والا۔

ب: امام سے برسر کار بھی شیعہ تھے:

القصہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر علی اختلاف الروایات 18 ہزار، 30 ہزار اور 80 ہزار شیعانِ کوفہ نے برائے حضرت حسینؓ بیعت کی انہوں نے خوشی سے جلد بازی کرتے ہوئے صورتِ حال حضرت حسینؓ کو لکھ بھیجی عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہیں شیعی امام نہیں ہوتے آپ کوفہ چل پڑے سب دوستوں اور ہمدردوں نے کوفہ جانے کی مخالفت کی مگر آپ نہ مانے۔

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

ملا باقر علی مجلسی نے مندرجہ ذیل حضرات کی مخالفت و مانعت تفصیل سے لکھی ہے:

1: زرارہ بن صالح

2: محمد بن حنفیہ آپ کے بھائی

3: عبداللہ بن عباس آپ کے چچا ہوئے 

4: عبداللہ بن زبیر 

5: عبداللہ بن عمر  

6: فرزدق شاعر اہلبیت

7: عبدالله بن عمر و بن العاص 

8: آپ کے بھائی کی

9: عبداللہ بن جعفر طیار 

10: عون بن عبدالله محمد بن عبداللہ بن جعفر طیار۔ (جلاء العیون) 

جب آپ میدان کربلا میں پہنچ گئے اور حر بن یزید کے ایک ہزار لشکر نے آپ کا گھیراؤ کیا تو اکثریت آپ کو خط لکھنے اور بلانے والوں کی تھی حمد و ثناء کے بعد آپ نے ان سے فرمایا میں تمہارے پاس از خود نہیں آیا تمہارے پے درپے وعدوں اور خطوط کے بھروسے پہ آیا ہوں اگر اپنےعہد پر قائم ہو تو پورا کرو اور اگر پھر گئے ہو تو میں واپس ہوتا ہوں وہ غدار خاموش رہے کوئی جواب نہ دیا۔(جلاء العیون: صفحہ، 376)

حر سمیت سب لشکر نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی حر نے کہا مجھے خداکی قسم ان خطوط اور قاصدوں کا علم نہیں حضرت نے عتبہ بن سمعان کے ہاتھوں بارہ ہزار خط کی تھیلی منگوا کر بکھیر دی اور خطوط سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا مگر سب خاموش رہے ۔ (کذا فی منتھی الامال جلد:1 صفحہ: 330)

حر نے کہا بخدا مجھے خطوط کا علم نہیں تاہم میں آپ کو واپس نہیں جانے دیتا نہ لڑتا ہوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ قادسیہ کے راستے سے بائیں طرف چل پڑے وہ بد بخت آپ کو بلانے والا لشکر بھی ساتھ ہوگیا حر نے کہا ان سے نہ لڑنا ورنہ آپ قتل ہو جائیں گے حضرت نے جرأت سے فرمایا میں خدا کے حکم سے ان منافقون بلا کر غداری کرنے والے شیعوں سے ضرور جنگ کروں گا اور قتل ہونے سے نہیں ڈرتا اس کے بعد بھی لشکر نے حضرت کے پچھے نماز پڑھی اس موقعہ پر حضرت حسینؓ کے مکی ساتھی طلال بن نافعؓ بجلی نے کہا اے حسینؓ! آپ کے والد ماجد نے بھی ان بیعت توڑنے والے ظالموں اور دین سے خارج ہونے والوں سے تا وفات زحمت اٹھائی آج آپ بھی اسی گروہ کے ساتھ مبتلاء ہو چکے ہیں جو بھی بد عہدی اور تیری بیعت توڑے گا خود نقصان اٹھائے گا۔(جلاءالعیون: صفحہ، 381، منتھی الامال: جلد، 1 صفحہ، 332، 333)

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کے ناکثین قاسطین اور مارقین بھی شیعانِ کوفہ ہی ہیں جو رافضی ان لفظوں کا مصداق حضرت طلحہٰؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت امیرِ معاویہؓ اور خوارج کو قرار دیتے ہیں وہ اپنے اسلاف کا جرم چھپانے کے لیے ظلم کرتے ہیں ہاں مارقین خوارج بھی ہیں جو خاص شیعانِ کوفہ تھے جب عمر بن سعد چار ہزار کا لشکر لایا اور سیدنا حسینؓ سے آنے کا مقصد پوچھنا چاہا تو جس سپاہی یا افسر کو بھیجتا

بایں علت ابا میکردند زیرا که اکثر از آنہا بوند کہ بحضرت نوشتہ بودندو حضرت را بعراق طلبیدہ بووند چوں قرہ بن قیس آمدو پر سید حضرت فرمود اہل دیارِ شمانا مہائے بے شمار بمن نوشتند و بمبالغہ بسیار مرا طلب کر دند اگر نمے خواہید برمیگردم۔

ترجمہ: تو وہ سب اس وجہ سے انکار کر دیتے کہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے حضرت کو خط لکھ کر عراق بلایا تھا جب قرہ بن قیس آیا اور پوچھا تو حضرت نے فرمایا تمہارے شہر والوں نے مجھے بہت سے خط لکھے اور بڑے مبالغے اور اصرار کے ساتھ بلایا تو آیا ہوں تو اگر تم نہیں چاہتے تو میں واپس جاتا ہوں۔(جلاء العیون)

جب عمر بن سعد کو یہ پیغام ملا تو خوش ہو کر اس نے کہا کہ خدا حضرت حسینؓ کے ساتھ جنگ سے بچا لے گا پھر ابنِ زیاد کو حضرت حسینؓ کی واپسی کا ارادہ لکھ دیا۔ (منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 334)

ایک روایت کے مطابق اس نے آپ کو قید کرنے کا حکم دیا دوسری کے مطابق رہائی اور واپسی پر راضی ہو گیا مگر حضرت علیؓ کا سالا اور جمل و صفین میں سیدنا علیؓ کا دست و باز و (طبری: جلد، 5 صفحہ، 28) شمرذی الجوشن اڑگیا کہ حسینؓ سے یزید کی بیت لی جائے ابنِ سعد نے مخالفت کی مگر وہ ابنِ زیاد کے پاس جا کر نئے احکامِ جنگ بصورتِ انکار لے آیا ابنِ زیاد نے اہلِ کوفہ کو لالچ دیا اکثر ان بے دینوں غداروں نے اپنے دین و بیعتِ سیدنا حسینؓ کو دنیا کے بدلے بیچ دیا کیونکہ 9/10 حصے دین تقیہ پر عمل کیا جیسے خلیل قزوینی نے لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا باعث شیعہ امامیہ کی کوتاہی ہے تقیہ وغیرہ کی وجہ سے (صافی شرح کافی) اور اس بدترین کام قتلِ حسینؓ کے مرتکب ہوئے سب سے پہلے شمرذی الجوشن 4000 کافروں کے ساتھ باہر آیا ابھی تک تو شیعہ مؤمن تھے اب کافر بن گئے حضرت حسینؓ کو بلانے والا شیث بن ربعی بھی چار ہزار کوفیوں پر امیر تھا۔(جلاءالعیون: صفحہ، 282)

مسیب بن نخبہ بھی عمر بن سعد کے ساتھ کربلا میں آیا ہوا تھا (مجالس المؤمنین) اور سب سے پہلے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سرتن سے جدا کرنے کے لیے گھوڑے سے یہی اترا تھا (خلاصتہ المصائب: صفحہ، 37) عروہ بن قیس جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس دعوتی خط لکھنے کی وجہ سے ابنِ سعد کا قاصد بن کر بندامت نہ جا سکا تھا مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے مقابل فوج کا سردار تھا (خلاصۃ المصائب) قیس بن اشعث فوج یزید میں شامل ہو کر سیدنا حسینؓ سے لڑا حتیٰ کہ یہ ظالم بعد شہادت حضرت حسین مظلوم رضی اللہ عنہ کے جسمِ اطہر سے چادر مبارک بھی کھینچ کر لے بھاگا۔ (خلافت المصائب: صفحہ، 192)

الغرض فرزندِ شیعہ ابنِ زیاد یہ حضرت علیؓ کا پروردہ معتمد شیعہ اور آپ کی جانب سے بصرہ کا گورنر تھا تادمِ زیست حضرت علیؓ اس پر خوش رہے مگر حضرت حسنؓ سے خلع خلافت کے بعد جب یہ حضرت امیرِ معاویہؓ کے ساتھ مل گیا تو شیعہ نے اس کو حرامی بنا دیا نامعلوم کس مصلحت سے حضرت علیؓ نے بن باپ حرامیوں کے تعاون سے حکومت کی کے حکم سے شمر ذی الجوشن جیسے شیعہ کے مشورے اور نگرانی سے شیعانِ کوفہ نے حضرت حسینؓ سے جنگ کی ٹھان لی تو سیدنا حسینؓ کے ساتھی بریر بن حضیر نے فرمایا: کیا تم راضی نہیں ہو کہ اہلبیتؓ اپنے وطن واپس ہو جائیں۔

اے کوفیوں! تم پر افسوس کہ قسمیں اٹھا اٹھا کر تم نے جو وعدے کیے تھے اور خطوط لکھے تھے تم ان کو بھول چکے ہو تمہارے بے شرموں نے اھلبیت پیغمبر کو لکھا کہ ہمارے وطن آو ہم اپنی جائیں فدا کریں گے

اب جب کہ وہ آچکے تم ان کو پانی سے بھی منع کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ زیاد بداصل کے بیٹے کو ان پر مسلط کرو تم برے لوگ ہو خدا تمہیں قیامت میں سیراب نہ کرے۔(جلاء العیون: صفحہ، 39)

یہاں سے معلوم ہوا کہ میدانِ جنگ میں آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل اور پانی بند کرنے والے کوفی شعیہ اور شیعہ ہی تھے ليس فيهم شامی ولا حجازي بل كلهم من أهل الكوفة۔ 

(از خلاصة المصائب) ان تمام کوفیوں میں شامی اور حجازی ایک بھی نہ تھا، نیز یہ کہ حضرت حسینؓ تو تین باتوں میں سے ایک پر ضرور عمل کرنا چاہتے تھے۔

1: دمشق میں یزید کے پاس زندہ روانگی اور مناسب تصفیہ

2: آزاد علاقے میں رحلت

3: مکہ مکرمہ کو واپسی۔

مگر اہلِ لشکر نے سب درخواستیں مسترد کر دیں (طبری) اور ذلت سے بیعت کرنے پر زور دیا تو آپؓ نے فرمایا خدا کی قسم اپنے آپ کو تمہارے ہاتھوں میں نہ دوں گا اور کمینہ ذلیل نہ بنوں گا اور غلامانہ طور پر اطاعت کا طوق گردن میں نہ ڈالوں گا۔ 

(جلاء العیون: صفحہ، 39 منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 347)

اب ہر منصف مزاج سے غور کی اپیل کی جاتی ہے یہ جو شیعہ کا بلاسند و ثبوت پروپگینڈہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اسلام کی خاطر بچے ذبح کرانے کو گھر سے بھی کفن باندھ کر چلے تھے اس میں کتنی صداقت ہے؟ اگر وہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو رہا کر دیتے اور آپ رضی اللہ عنہ زندہ واپس آجاتے تو کیا زندہ اسلام پھر مردہ ہو جاتا؟ اور آپ کے اہل و عیال سمیت سلامت بچ جانے پر صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔

فاعبتبروا یا اولی الابصار

در اصل یہ لوگ اپنے اسلاف کے ذلیل ڈرامے پر پردہ ڈالنے اور حکومت کو ہی سارا الزام دینے کے لیے یہ دروغ گوئی کرتے ہیں اور عمداً اہلبیت کرامؓ کو خاک و خون میں تڑپا کر اور تڑپتا دکھا کر فخر کرتے اور اپنا معاشی دگر دہی مفاد حاصل کرتے ہیں ورنہ جہاں سانحہ کربلا انتہائی الم ناک داستان ہے اور اپنے اندر صبر و استقامت حق گوئی تقیہ شکنی، جرات مندی، کے علاوہ بیسیوں عبرتوں کا مرقع ہے وہاں اسلام کے لیے انتہائی نا قابلِ تلافی نقصان کہ صرف تاریخِ اسلام ہی بد نام نہیں ہوئی بلکہ امتِ مسلمہ، سبطِ پیغمبر کے نور سے محروم ہو کر خطرناک اصولی گروں میں بٹ کر رہ گئی۔

شہادتِ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نقصانات کے سلسلے میں مجلس حضرت سجاد سے ترجمانی کر کے لکھتے ہیں۔

و کثبتن او عالمیاں گمراه شدند و دینِ خدا ضائع شد و سننِ رسولِ خدا شد و بدع بنی امیہ ظاہر گردید بایں جہات میگریست۔

(اجلاء العیون: صفحہ، 453)

ترجمہ: آپ رضی اللہ عنہ کے شہید ہو جانے سے اہلٹ جہاں گمراہ ہو گئے اور خدا کا دین ضائع ہو گیا اور رسولِ خدا کی سنتیں معطل ہو گئیں اور بنی امیہ کی

بدعتیں ظاہر ہوگئیں ان وجوہ سے حضرت سجادؒ روتے تھے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنت حضرت سجاد زین العابدینؒ یہی ہے کہ سانحہ کربلا سے اسلامی نقصانات یاد کر کے غم و گریہ کرنا چاہیے نہ کہ اسلام زندہ شد کے نعرے لگا کر فخر کے جشن و جلوس نکالنے چاہئیں۔

ج: قافلہ اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شیعہ کوفہ کو اپنا قاتل بتاتا ہے:

1: حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے کوفیو! تم پر لعنت ہو اور تمہارے ارادوں پر اے بے وفا و ظالم اور غدارو تم نے مجبوری کے وقت اپنی مدد و نصرت کے لیے ہم کو بلایا جب ہم تمہاری بات مان کر تمہاری مدد و نصرت کے لیے آ گئے تو کینہ کی تلوار تم نے ہم پر کھینچی اور اپنے دشمنوں آلِ زیاد یہ ہمارے خلاف مدد کی۔(جلاء العیون: صفحہ، 391)

2: نیز فرمایا تم پر تباہی ہو جو بغیر کسی دشمنی کینہ اور جھگڑے کے عداوت کی تلوار انتقام کے نیام سے نکالی بلا سبب اہلِ بیتؓ کے قتل پر کمر بستہ ہو گۓ۔(ایضاً)

اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ ذاکرین مجتہدین جو یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بدر و احد و صفین وغیرہ میں بنو امیہ کے کفار آباء کے قتل کے انتقام میں بنو امیہ نے اھلبیت کو کربلا میں شہید کیا بالکل لغو ثابت ہوا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے نہ شام سے آئے تھے نہ بنو امیہ تھے اور نہ وہ کسی بدلہ سے لڑتے تھے جیسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تقریر سے واضح ہے۔

3: بالآخر آپ رضی اللہ عنہ نے بددعا دی اے اللہ زمین کی برکت کو روک لے اور ان کو منتشر کر دے حاکموں کو بھی ان سے خوش نہ رکھ کیونکہ انہوں نے ہم کو مدد کے لیے بلایا تھا مگر کینہ کی تلوار خود ہمارے اوپر چلائی۔(ایضاً)

آج شیعہ فخر سے کہتے ہیں ہم تاریخِ اسلام کی ہر حکومت کے مظلوم رہے ہیں اس کی اصلی وجہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یہ بد دعا ہے۔

4: نیز فرمایا تم پر ہلاکت ہو حق تعالیٰ دونوں جہاں میں میرا بدلہ تم سے لے گا وہ اس طرح کے خود اپنی تلواریں اپنی ذاتوں پر اور مؤمنوں پر چلاؤ گے اور اپنا خون خود گراؤ گے اور دنیا سے نفع نہ اٹھاؤ گے اور اپنی امیدوں کو نہ پہنچو گے جب مر کر آخرت میں جاؤ گے ہمیشہ کا عذابِ الہٰی تمہارے لیے مہیا ہے اور تمہیں تو بدترین کافروں والا عذاب ہوگا۔(جلاء العیون: صفحہ، 409)

آج زنجیروں چھریوں اور تلواروں سے ماتم میں خود کو لہولہان کرنے والے عزاداروں پر سیدنا حسینؓ مظلوم کی دنیاوی بددعا صادق ہوئی اور یقیناً صادق ہوئی آخرت والی بھی یقیناً سچی ہوگی۔ (اللھم آمین)

حضرت حسینؓ کی ان تقریروں اور بد دعاؤں کو سننے کے بعد بھی سب ظالموں نے بے دردی سے آپؓ کو مع اہلُ و عیال ذبح کر کے اسلام زندہ کر دکھایا تو خاتمہ جنگ کے بعد اسی قاتل لشکر نے حضرت علیؓ کے خالی گھوڑے ذوالجناح کو آگے آگے چلا کر ندامت سے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور اس سطحِ ارضی پر سب سے پہلا یہی ماتمِ حسین رضی اللہ عنہ کا جلوس تھا جس کی یاد آج بھی ان کی روحانی اولاد مناتی ہے۔

5: اس جلوس کو دیکھ کر حضرت زین العابدینؒ نے فرمایا تم ہم پر بین کرتے ہو روتے ہو پس بتاؤ کس نے ہم کو قتل کیا ہے الحمدللہ ماتمی جلوس کو دیکھ کر غصہ کر کے انہی کو قاتل بتانے کی سنت سجا دی جس پر اصلی سنی عمل کرتے ہیں۔

6: پھر سیدہ زینبؓ نے بددعا دی اے کوفی غداروں مکارو تم ہم پر روتے ہو حالانکہ تمہارے ظلم سے اب بھی ہماری آنکھوں کا پانی ختم نہیں ہوا اور نہ تمہارے ظلم سے آہ ختم نہیں ہوئی تمہاری مثال اس عورت کی سی ہے جو دھاگہ کاٹ کر توڑ دیتی ہے تم نے بھی ایمانی رشتے کو توڑ دیا ہے اور کفر کی طرف پلٹ گئے ہو آیا تم ہم پر ماتم کرتے ہو جب کہ تم نے ہم کو قتل کیا ہے ہمارے غم میں روتے ہو اللہ کی قسم یہ ہوگا کہ تم بہت رؤ گے اور تھوڑا ہنسو گے عیب اور ذلت کو تم نے اپنے لیے خرید لیا یہ ذلت کا داغ کسی پانی آنسوؤں سے زائل نہیں ہو گا۔(جلاء العیون: صفحہ، 424)

جگرِ گوشہ سیدہ فاطمہؓ سیدہ زینبؓ مظلومہ کی بددعا اور پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوتی آ رہی ہے۔ 

7: حضرت فاطمہ بنت حسینؓ نے فرمایا تم نے ہم کو ایسے شہید کیا اور مال و متاع لوٹ کر ہم کو قید کیا ہے جیسے کل میرے دادا حضرت علیؓ کو تم نے شہید کیا ہمیشہ سے تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپک رہا ہے جلدی تم اپنے بدلہ کو پہنچو گے تم پر ہلاکت ہو منتظر رہو کہ خدا کے پے در پہ عذاب اور لعنت تم پر برسے گی آسمانی عذاب تمہارا استقبال کریں گے دنیا میں اپنے کرتوتوں سے تم اپنی ہی تلواریں اپنے اوپر چلاؤ گے اور آخرت میں عذابِ الہٰی میں گرفتار ہوں گے۔ (جلا العیون: صفحہ، 425)

الحمدللہ سب کچھ ہو رہا ہے ایرانی خونی انقلاب اور اس کا خوفناک حشر آپ کے سامنے ہے

8: حضرت امِ کلثومؓ بنتِ سیدہ النساء فاطمہ رضی اللہ عنہا نے روتے ہوئے کجاوہ سے ندا دی کہ اے اہلِ کوفہ تمہارا برا حال ہو تمہارے منہ برے ہوں تم نے کیوں میرے بھائی حضرت حسینؓ کو بلایا اور اس کی مدد نہ کی اسے قتل کر دیا ان کے مالوں کو لوٹ لیا اور پردہ دار حرموں کو قید کر دیا تمہارے اوپر لعنت ہو تمہارے چہروں پر پھٹکار ہو۔(جلاء العیون: صفحہ، 426)

اس پر اہلِ کوفہ نے ہائے ہائے کر کے مزید رونا پیٹنا شروع کر دیا حسرت کی مٹی سر میں ڈالتے اور اپنا منہ نوچتے اور طماچے منہ پر مارتے اور واویلا اور ہائے تباہی کہتے اتنا روتے تھے کہ کسی آنکھ نے اتنا بڑا ماتم نہ دیکھا ہو اس منظر سے مشتعل ہو کر حضرت زین العابدینؒ نے لوگوں کو خاموش کرایا اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

9: اے لوگو! میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ تم نے میرے باپ کو خط لکھا اس کو دھوکا دیا بڑے عہد و پیمان لکھے ان کے ساتھ بیعت کی آخر کار ان سے جنگ کی (ایضاً صفحہ، 424)

10: امِ کلثوم بنتِ علیؓ نے فرمایا اے کوفیو تمہارے مرد ہم کو قتل کرتے ہیں اور عورتیں ہم پر روتی ہیں خدا قیامت کے دن تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔(جلاء العیون: صفحہ، 426)

تلک عشرہ کاملۃ قارئین کرام قافلہ اہلِ بیتؓ کی زبانی ہم نے قاتلوں کی نشاندہی مفصل کر دی تاکہ کسی خون آشام اہلبیتؓ کو آئندہ انکار کے گنجائش ہو نہ تاویل کا راستہ ہو۔ واللہ الحمد۔

4: شعیان کوفہ جرم قتل کا اقرار کرتے ہیں:

چوتھی بات یہ ہے کہ خود ان شیعانِ کوفہ نے اقبالِ جرم کر کے حسرت اور ندامت کے وہ خونی آنسو بہائے جن کے دھبے صفحاتِ تاریخ سے آج تک نہیں مٹیں گے اوپر کیا حوالہ جات کے علاوہ چند اور بھی ملاحظہ ہوں: 

1: کوفیوں کی ایک جماعت ایک غیبی آواز سے چونک اٹھی اور کہنے لگے اللہ کی قسم جو کچھ ہم نے اپنے ساتھ کیا کسی اور نے نہیں کیا ہم نے جنت کے جوانوں کے سردار کو قتل کیا ابنِ زیاد ولد زنا کے لیے پس وہاں انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ابنِ زیاد پر خروج کریں لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ (جلاء العیون: صفحہ، 430)

2: نور اللہ شوستری نے مجالس المؤمنین میں لکھا ہے کہ شہادتِ حضرت حسینؓ کے بعد شیعوں کی لیڈر سلیمان بن صرد خزاعی نے اپنے شیعوں کو جمع کر کے کہا ہم نے حضرت حسینؓ کو عہد و پیمان سے بلایا پھر بے وفائی کر کے ان کو شہید کیا اتنا بڑا جرم نہ ہوگا بجز اس کے کہ ہم اپنے آپ کو قتل کریں چنانچہ بہت سے شیعہ فرات کے کنارے جمع ہوئے اور بنی اسرائیل سے متعلقہ آیت:

 فَتُوۡبُوۡآ اِلٰى بَارِئِكُمۡ فَاقۡتُلُوۡٓا اَنۡفُسَكُمۡؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌلَّـكُمۡ عِنۡدَ بَارِئِكُمۡ الخ۔ (سورۃ البقرہ: آیت، 54)

ترجمہ: پس تم خدا کے دربار میں یوں توبہ کرو کہ اپنے آپ کو مارو یہی تمہارے لیے خدا کے ہاں بہتر ہے اپنے اوپر منطبق کی پھر ایک دوسرے کے کتنے قتل ہوئے اور زخمی ہوئے یہ جماعت تاریخ میں توابین کہلاتی ہے۔(بمعناہ)

صدہا ارمانوں میں سے جس نے کہ مجھے ذبح کیا

قتل کے بعد کوئی دیکھے ندامت اس کی۔

شعیہ کا عذر لنگ بدتر از گناہ:

آئیے ذرا اس بحث میں شیعہ کا جواب عذرِ لنگ بھی معلوم کرتے چلیں حال ہی میں شعیانِ پنجاب کے ایک فاضل محقق نے "تجلیاتِ صداقت" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو بزعم خویش شہرہ آفاق کتاب "آفتابِ ہدایت" مصنفہ مناظر اسلام مولانا کرم الدین دبیرؒ چکوالی کا 50 سال کے بعد جواب لکھا ہے جس میں بڑے ہاتھ پاؤں مار کر برسوں کی محنت اور تفتیش کو ترتیب دے کر قرضہ آفتاب سے سبکدوش ہونے کی سعی لا حاصل کی ہے حقائق اور دلائل کا جواب ان کے بس کی بات نہیں ہاں حضور اکرمﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ خلفائے راشدینؓ اور دیگر متعلقین رسالت کو جو غلیظ گالیاں سنائی ہیں وہ قابلِ دیدنی ہیں ایک شیعہ سے اس کے علاؤہ اور توقع ہی کیا ہو سکتی ہے مسئلے زیرِ بحث میں ہم اس کتاب کے کچھ افکار آپ کے سامنے رکھتے ہیں جناب محمد حسین ڈھکو صاحب نے "برعکس نام نہند زنگی کافور" کہ مصداق قاتلانِ سیدنا حسینؓ کے سنی مذاہب ہونے پر پانچ تاریخ شواہد بتائے ہیں: 

1: حکومتی شیعہ پارٹی نے یزید کو مسلم کی بیعت اور نعمان بن بشیر کی کشتی کی اطلاع دی تھی

2: ابنِ زیاد کے قاصد نے حضرت عثمانؓ کو تکی زکی مظلوم امیر المؤمنین کہا تھا۔

3:عروہ بن قیس احمسی جس نے حضرت حسینؓ کو دعوتی خط لکھا تھا نے رفیق حضرت حسینؓ زہیر بن قین سے کہا تھا:

ہمارے خیال میں تم اہلبیت کے جماعتی نہ تھے آپ تو عثمانی تھے زہیر نے کہا کیا تم میرے ان کے ساتھ ہونے سے معلوم نہیں کر سکتے۔

4: نافع بن ہلال جملی کے جواب میں ایک شخص مذاہب بن خلص نے انا علی دین عثمانؓ کا نعرہ لگایا۔

5: ابنِ زیاد نے فاتحانہ خطبہ پڑھتے ہوئے یزید کی تعریف کے بعد کہا و قتل الحسین بن علیؓ و شیعتہ۔ خدا نے حضرت حسینؓ اور ان کی جماعت کو قتل کرا دیا۔(طہری) 

اس سے بڑھ کر اس بات کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ حضرت حسینؓ کے ہمراہ شہید ہونے والے شیعہ تھے اور قتل کرنے والے وہ تھے جن کے مذہب میں یزید حق کا علمدار اور خلیفہ وقت تھا۔ (تجلیاتِ صداقت: صفحہ، 547)

الجواب: اولاً یہ نام نہاد پنج تنی ٹولی صرف پانچ شواہد ہی دکھا سکا حالانکہ ایسے عثمانی پانچ نہیں بلکہ 50 اور 500 حضرت حسینؓ کے مقابل ثابت کر دکھائے جائیں تو علامہ مجلسی اور شیخ عباس قمی وغیرہ کی تحقیقاتِ مذکورہ کی روشنی میں جواب نہیں بن سکتا کیونکہ جب مقابل امام بڑی اکثریت بلانے والے شیعہ اہلِ بیت ہی کی تھی قافلہ اہلِ بیت نے ان کو ہی قاتل و غدار بتایا جیسے تصریحات پھر ملاحظہ ہوں تو پھر عذرِ گناہ بدتر اس گناہ کا کیا معنیٰ زہیرین قین واقعی مخلص عثمانی تھا شیعہ کی سیاست سے تعلق نہ تھا لیکن جب اس نے شعیانِ کوفہ کی غداری دیکھی تو حضرت عثمانؓ سے محبت کے باوجود حضرت حسینؓ مظلوم کے ساتھ مل گیا جیسے خود حر بن یزید عثمانی ہو کر شعیانِ کوفہ کے دعوتی خطوط سے بے خبر تھا پھر جب اسے شیعی دھوکے کا علم ہوا تو وہ سیدنا حسینؓ کا ساتھی اور اپنے لشکر کا مخالف بن کر ان کے ہاتھوں سے شہید ہوا اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا جماعتی ہونے میں تفاد نہیں ہے۔

ثانیاً: جو کہ شیعہ سیاسی پارٹی کو کہتے ہیں جہاں سیاسی جماعت میں شیعہ علی کی اصطلاح چلی وہاں حضرت امیرِ معاویہؓ حضرت عثمانؓ کے حامیانِ قصاص کو بعض دفعہ شیعہ معاویہؓ و عثمانؓ کہا جانے لگا جیسے پیپلز پارٹی نیشنل عوامی پارٹی کی آج کل اصطلاح ہے اس معنیٰ میں شاہد میں حکومت کی طرف داروں کو شیعتی سے یزید نے تعبیر کیا ہے اور اس معنیٰ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں پر شاہد میں ابنِ زیاد نے شیعہ کا لفظ بولا ہے ورنہ نہ تو یزید کے حامی اصطلاحی شیعہ تھے اور نہ حضرت حسینؓ کے ساتھی اصول اور فاروق میں مسلمانوں سے الگ مخصوص شیعہ مذہب رکھتے تھے

اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ابنِ زیاد کی زبانی شیعہ کے لفظ سے اصحابِ حضرت حسینؓ کو مخصوص شیعہ رافضی ثابت کرنا اور شیعہ اھلبیت کہلانے والے لشکر مقابلِ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو صرف تین آدمیوں کے عثمانی ہونے پر سنی المذہب ثابت کرنا خالص سینہ زوری اور حقائق کا منہ چڑھانا ہے حالانکہ آپ کا سر قلم کرنے والا شیعہ عقیدہ رکھتا تھا۔ 

سنان سر مبارکش راجدا میکر دومیگفت کہ سر ترا جدا میکنم و میدانم کہ تو فرزندِ رسولخدائی ومادر و پدر تو بہترین خلقند۔ (جلاء العیون: صفحہ، 410)

ترجمہ: سنان حضرت حسینؓ کا سر مبارک جدا کرتے وقت یہ کہہ رہا تھا کہ میں تیرا سر جدا کر رہا ہوں حالانکہ اعتقاد رکھتا ہوں کہ تو رسولِ خدا کا فرزند ہے اور تیرے ماں باپ سب خلائق سے افضل ہیں۔

اب بتلائیں کیا یہ خالص شیعہ بنیادی عقیدہ نہیں ہے کہ حضرت فاطمہؓ و حضرت علیؓ تمام خلائق سے افضل ہیں اہلِ سنت کا تو نہیں ان کے ہاں سب سے افضل انبیاء علیہم السلام ہیں اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ درجہ چہارم میں سب امت سے افضل ہیں بنو امیہ تو بیٹی کی اولاد فرزند کا درجہ نہیں دیتے تھے شیث بن ربعی کی شیعت کسے معلوم نہیں صفین میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ کا سفیرِ خاص تھا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اب سیدنا حسینؓ کو بلانے والا تھا مگر امام کے مقابل چار ہزار (4000) کے لشکر پر امیر بن کر آیا تھا۔(جلاء العیون) 

اور سب سے پہلے امام کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے گھوڑے سے یہی اترا تھا۔ (خلاصۃ المصائب: صفحہ، 37)

حضرت حسینؓ کے سالے قیس بن اشعث کا تشیع کسے معلوم نہیں اس نے لڑائی کے بعد جسدِ اطہرِ سیدنا حسینؓ سے چادر بھی چھین لی۔(خلاصۃ المصائب: صفحہ، 192)

حضرت کے بالمقابل صرف وہی بے حیا کوفی تھے جنہوں نے نامہائے پر دغا حضرت حسینؓ کو لکھے تھے۔ 

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے 

نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں۔

اہل کوفہ کا تشیع:

 اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امیرِ معاویہؓ نے کوفہ کو دارالخلافت قرار دیا اور وہ شیعانِ علی کا مرکز سمجھا جاتا تھا مگر یہاں دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔ 

1: یہ کہ اس دور میں بالعموم جو لوگ شیعانِ علی کہلاتے تھے وہ صرف اس معنیٰ کے اعتبار سے شیعہ تھے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے مقابلے میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے ورنہ حقیقی معنوں میں وہ شیعہ نہ تھے بلکہ حضرت امیرِ معاویہؓ کو چوتا خلیفہ تسلم کرتے تھے نہ خلیفہ بلافصل ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی قلیل تھی جو صحیح معنوں میں شعیہ علی تھے۔

وَقَلِيۡلٌ مِّنۡ عِبَادِىَ الشَّكُوۡرُ‏۞(سورۃ سبا: آیت، 13) (تجلياتِ صداقت: صفحہ: 53)

سبحان اللہ! یوں تو شیعہ بڑی چالاکی اور فخر سےکہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کی ابتداء امامِ اول حضرت علیؓ نے وفاتِ نبویﷺ کے بعد ڈالی مگر جب "قاتلِ حسینؓ" ہونے کی تلوار سر پر پڑی تو فوراً مرکزِ خلافت علوی کے پاسبانِ خاص شیعانِ علیؓ کو بھی خلیفہ چہارم مانے والے اور خلیفہ بلا فصل کے منکر بتلایا شترمرغ کی مثال اس پر صادق آتی ہے اگر واقعی شیعانِ علیؓ سیاسی طور پر حریف حضرت امیرِ معاویہؓ اور حامیانِ علیؓ ہو کر آپ کو خلیفہ بلا فصل نہیں بلکہ خلیفہ چہارم مانتے تھے تو اظہر من الشمس ہو گیا کہ رافضی فرقہ شیعہ جو اصول و فروع میں مسلمانوں سے الگ مذہب رکھتا ہے بہت بعد کی پیدا وار ہے حضرت علیؓ و حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ کا یہ مذہب ہرگز نہ تھا نہ ان کے شیعوں اور پیروکاروں کا اور نہ ان ائمہ نے خلافت بلا فصل کی ان کو تعلیم دی تھی ورنہ وہ آپ کو چوتھا خلیفہ ماننے کے بجائے خلیفہ بلا فصل مانتے ائمہ کی شاگردی کے بعد یہ گمراہی کیوں؟

 اس اعترافِ حقیقت کے بعد صحیح معنوں میں شیرِ علیؓ کی بہت قلیل تعداد ہونے کا دعویٰ مضحکہ خیز ہی ہے۔

آیت وَقَلِيۡلٌ مِّنۡ عِبَادِىَ الشَّكُوۡرُ‏۞(سورۃ سبا: آیت، 13) کو ہر گمراہ اقلیت پڑھتی ہے وجہ ترجیح ہونی چاہیئے وہ قلیل صحیح معنوں میں شیعہ وہی نہ ہوں جو حضرت علیؓ کو مشکل کشا، حاجت روا، عالم الغیب ،مختار کل ،پیکر انسانی میں نورِ خدا یعنی الہ مانتے تھے اور 70، 80 نفر تھے حضرت شیرِ خدا نے گڑھے کھود کر زندہ جلا دیا تھا۔(رجال کشی: صفحہ، 72)

دوسری بات کے سلسلے میں کہتے ہیں دوسرے شیعانِ کوفہ جیسے کچھ بھی تھے حضرت امیرِ معاویہؓ کو ان سے اصلی بعض تھا کہ انہوں نے اس کے مقابلے میں حضرت علیؓ کا ساتھ دیا تھا چنانچہ جب حضرت امیرِ معاویہؓ کو اسلامی ممالک پر تسلط ہوا اور اس نے نا معلوم باپ کے بیٹے زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو اہلِ کوفہ پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے "کان اشد الناس بلاء حينئذ اهل الكوفة" پھر شیعہ پر مظالم کی وضعی کہانی لکھنے کے بعد کہتے ہیں ان حالات میں بھلا کوئی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص ایک لمحہ کے لیے بھی باور کرسکتا ہے تیس ہزار کا لشکرِ جرار برائے نصرت حضرت حسین رضی اللہ عنہ شیعانِ کوفہ سے تیار کیا گیا تھا پھر دعوتی خطوط لکھنے والوں کو بھیڑ چال سے تشبیہ دیتے ہوئے اور آلِ زیاد کے مظالم کا ورد کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کوفہ میں 18 بیس ہزار کی تعداد میں کیا شیعہ ہو سکتے تھے ہرگز نہیں کسی آدمی کے اپنے تئیں شیعہ ظاہر کرنے سے حقیقی شیعہ نہیں بن جاتا یہی وجہ ہے کہ امام کو بھی ان تمام پر اعتماد نہ تھا جب ہی تو حضرت مسلم رحمتہ اللہ علیہ کو جانچ پڑتال کے لیے روانہ کیا۔  (تجلیات: صفحہ، 548) 

واہ واہ کس چالاکی اور سخن سازی سے اہلِ کوفہ کے تشیع کا انکار کیا جا رہا ہے اسے کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔

جنابِ من جب شیعہ کہلانا صداقت کی دلیل نہیں نہ اپنے تئیں شیعہ ظاہر کرنے سے کوئی حقیقی شیعہ بن جاتا ہے تو پھر شیعہ کہلاتے کیوں ہو؟ شیعہ کہلا کر گروہ بندی کی تاسیس و تعمیر کیسے؟ ظاہر و باطن میں اھلِ بیت کی اتباع کر کے متبع اہلِ بیت کیوں نہیں کہلا تے اگر حضرت علیؓ و حضرت حسینؓ کے اصحاب ان کے مقتدی شاگرد طرفدار بن کر آلِ زیاد کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بن کر بھی کوئی حقیقی شیعہ نہیں بن سکتا تو آج کل ظاہر شریعتِ جعفری کے بھی تارک صرف عشرہ محرم میں عالمی رسوم اور سیاہ پوشی کی وجہ سے شیعہ علیؓ کہلانے والے کیسے حقیقی شیعہ ہیں؟ ماتمی محافل و جلوسوں کا انبوہِ کثیر بقول شما بھیڑ یا دھیان اور جدھر ایک چلا اُدھر سب کا مصداق کیوں نہیں؟ کیا ان میں اور قرنّ اول کے شیعانِ علیؓ و حسینؓ میں یہی فرق ہے کہ یہ عہدِ حاضر کے شیعہ قرآن کی تحریف اور کمی بیشی کے قائل ائمہ اہلبیت کو حضورﷺ کے درجہ و منصب میں شریک ماننے والے امہاتُ المومنینؓ اور خلفائے ثلاثہؓ پر تبرا کرنے والے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نیز تمام امتِ محمدیہﷺ کو اپنے سواء دائرہ ایمان و نجات سے خارج مانتے ہیں اور وہ اصحابِ ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بالتریب برحق خلفاء تسلیم کرتے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو خلیفہ بلا فصل کے بجائے رابع تسلیم کرتے تھے اور حضرت امیرِ معاویہؓ اور آپؓ کی آل کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور حمایتِ اہلِ بیت کرتے تھے جب یہ حقیقت ہے تو ہم بعض مسائل میں اختلاف کے باوجود حضرت علیؓ و حضرت حسینؓ کے شیعہ اولیٰ کو اپنا دینی بھائی اور مسلمان تصور کرتے ہیں صدیوں بعد کی پیداوار روافض کو نہیں مانتے۔

عذر و نفاق کی اہم وجہ:

اہلِ حق کے ساتھ اس قرب کے باوجود اہلِ بیت کے ساتھ غداری اور بے وفائی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان میں غالب عنصر نو مسلم یہود و مجوس کا منافقانہ رنگ میں آگیا جن کا مقصدِ وحید تشیع اور سیاسی اختلافات کی آڑ میں مسلمانوں کے ملی اتحاد و اتفاق کو تہ و بالا کرنا تھا شہادتِ سیدنا عثمان ذی النورینؓ حادثہ جمل، و صفین، و نہروان، انہی کی سازشوں کا نتیجہ ہے وہ جب علیؓ نہیں ہیں بعضِ حضرت امیرِ معاویہؓ کے تحت مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے تھے حادثہ کربلا کے بعد بھی وہ اسی لیے متمنی تھے ظاہر ہے کہ جب اہلبیت سے محبت ان کے کمالات کی وجہ سے نہیں محض حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ حضرت امیرِ معاویہؓ اور یزید کے مقابل مستحق خلافت ہونے کی وجہ سے عقیدت ہو تو یہ مفادات کے تحت سیاسی محبت یہی رنگ لاتی ہے۔

 نہ اِدہر نہ اُدہر اس میں وفاداری کیسی؟ لہٰذا ہم تاریخی مطالعہ میں بیانگ دہل اور علیٰ وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ شیعہ علیؓ و حب اہلبیت کے دعویٰ کے ساتھ جو تحریک بھی اٹھی اور جو گروہ بھی آگے بڑا وہ بالآخر غدار ہو کر ناکام ثابت ہوا قدرت وفاداری کا مادہ ہی سب کر لیا شیعی ائمہ کی تاریخ اس پر گواہ ہے آج شیعہ لاکھوں کروڑوں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں گر اپنے امام عصر سے ایمان و وفا کا تصدیق نامہ تو لا کر دکھائیں وہ تو 1200 سال سے نامعلوم غار میں 313 مخلص مومنوں کی انتظار میں ہیں مگر افسوس تا ہنوز ایران جیسی مستقل شیعہ ریاست اور خمینی کے اقتدار ہونے کے باوجود 313 مؤمن پیدا نہ ہوسکے اور نہ امام کو یہ یقین ہے کہ میرے ظاہر ہونے سے دار الخلافہ طہران مجھے مل جائے گا۔

آخر میں لمحہ فکریہ کے عنوان سے محقق صاحب کا وہ بڑا جھوٹ بھی ملاحظہ ہو جس سے شہدائے کربلا کی ارواحِ مقدسہ کو بھی اذیت ہوگی۔ (صفحہ: 112)

یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان خطوط لکھنے والوں میں جو بعض لوگ واقعی شیعہ تھے ان میں سے کسی ایک شخص کی موجودگی بھی واقعہ کربلا میں امام کے مقابلہ پر ثابت نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض جیسے جبیب بن مظاہر سید بن عبد الله عبدالرحمٰن بن عبدالله وامثالھم کے ہمرکاب ہو کر شہید ہوئے اور دوسرے بعض بعض موانع و عوائق کی وجہ سے نصرتِ امام کا فریضہ ادا نہ کر سکے اور بعد میں انتقامِ امام کے جذبہ سے سرشار ہو کر اٹھے اور توابین کہلائے۔( تجلیاتِ صداقت: صفحہ، 549)

قارئین! چند ورق مجھے الٹ کر حضرت حسینؓ کے لشکر سے مکالمے اور خطوط کے حوالے نام بنام ان کو پکارنا اور شیث بن ربعی حجار بن اکبر جیسے لوگوں کو شرمندہ کرنا اور بد دعائیں دینا ملاحظہ کر کے محقق فاضل کو دروغ گوئی پر دادِ تحسین دیں چہ دلاو راست دزدے کہ بکف چراغ وارد۔

محقق صاحب حقیقی شیعہ کی کوئی پہچان اور علامت تو بیان کر دیتے توابین کالفظ ہی ان کو مجرم ثابت کر رہا ہے وہ خود قتل کا اعتراف کر ہے ہیں اپنے آپ کو قتل اور خون ریزی کرنے کے باوجود مجلسی صاحب فائدہ نبخشید یعنی گناہ معاف نہ ہوا کا فتویٰ لگا چکے ہیں پھر بھی ان قاتلِ امام شیعہ کو لعنت کرنے کے بجائے لعن طعن سے بچاتے ہوئے بعض موانع و عوائق کا عذر کرنا اور بعض اعتبار سے مجبور و محصور ماننا فرقہ بندی کی بدترین مثال ہے ان مجرموں سے محض رشتہ تشیع کی وجہ سے فریضہ دفاع ادا کر کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ عالی مقام کو سلطان المحققین صاحب نے کیا انتہائی دکھ نہیں پہنچایا ؟" فاعتبروا یا اولی الابصار

اہل سنت نے امام کی نصرت کیوں نہ کی؟

اب سوال کا آخری جز قابلِ جواب ہے کہ اس وقت کروڑوں اہلِ سنت نے امام کی نصرت کیوں نہ کی یہاں معترض نے پہلی صدی میں ہی کروڑوں اہلِ سنت کا وجود تسلیم کر کے ان کی قدامت و صداقت اور مذہبِ شیعہ کے جدید و بدعت ہونے پر مہر تصدیقِ ثبت کر دی ہے والفضل ما شهدت به الاعداد۔

رہا یہ امر کہ اہلث سنت نے نصرت نہ کی تو وضاحت یہ ہے کہ کوفہ شیعستان تھا ملا نور اللہ شوستری رقمطراز ہیں:

و بالجمله تشیع اہلِ کوفہ حاجت باقامت دلیل ندار دوسنی بودن کو فی الاصل محتاج بدلیل است اگرچه ابوحنیفه کوفی باشد۔ 

(مجالس المومنین: صفحہ، 56 بیان کوفہ)

خلاصہ یہ کہ تمام اہلِ کوفہ کا شیعہ ہونا دلیل دینے کا محتاج نہیں ہے اور کوفی الاصل کا سنی ہونا دلیل کا محتاج ہے اگرچہ امام ابو حنیفہ کوفی ہو۔

جب آپ لوگ کوفیوں کو سنی مانتے ہی نہیں پھر نصرت کا سوال کیسا؟ اگر اپنی کتب سے خالص الاعتقاد سنی بتائیں تو جواب دیا جائے گا۔ بروایت مجلسی در جلاء العیون: صفحہ، 377 ایک لاکھ تلواریں مہیا کر کے حکومت کے لیے آپ کو بلانے والے شیعہ پر یہ یقین نہ تھا کہ وہ خود ہی امام مظلوم کو شہید کر کے اسلام زندہ کر دکھائیں گے سب حضرات اہلِ مکہ نے اور حضرت علیؓ کے کئی صاحبزادو اور دامادوں نے آپؓ کو کوفہ جانے سے روکا جنکی تفصیل جلاء العیون صفحہ 368 تا 372 پر ہے اور نام ہم شروع بحث میں ذکر کر چکے ہیں مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ جانے پر اصرار کرتے ہے حضرت عبد اللہ بن جعفر نے اپنے دو صاحبزادوں کے ذریعے حاکم کہ عمر بن سعد سے امان نامہ لکھوا کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو دیا اور حاکمِ مدینہ ولید نے از خود ابنِ زیاد کو کہا کہ سیدنا حسینؓ تیری طرف آرہے ہیں وہ رسولِ خداﷺ کی صاحبزادیؓ کے دلبند ہیں ان سے نہ الجھنا اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا مگر اس خط کا اس پر اثر نہ ہوا۔(جلاء العیون: صفحہ، 272)

اس قدر ہمدردی اور سدِ باب کے باوجود بھی بطورِ احتیاط سنی اہلِ مکہ نے 50، 60 کے لگ بھگ نوجوان حضرت حسینؓ کے ساتھ کر دیے جنہوں نے کبھی شیعہ بننے کا دعویٰ نہیں کیا اگر آخر دم تک شرط وفاداری میں حضرت حسینؓ کے ساتھ شہید ہوئے اہلسنت کے آرگن النجم لکھنؤ کے کربلا نمبر میں شہداءِ کربلا کی فہرست 105 نفردی ہے جن میں حضرت حسینؓ کے ساتھ 20 عدد ان کے اعزہ کے نام ہیں مثلاً ابوبکرؒ بن حسنؓ، عمرؒ بن حسنؓ، ابوبکرؒ، عمرؒ، عثمانؒ، صاحبزادگان حضرت علی رضی اللہ عنہم باقی 85 عدد غیر اہلِ بیت ہیں ان میں حبیب بن مظاہرؒ سعیدؒ و عبد الرحمٰن بن عبداللہؒ کوفہ کے چند حضرات ہیں باقی سب سنی الاصل مکی ہیں اور انصار صحابہ و تابعین کی اولادیں ہیں مثلاً محمد بن مقدادؒ انصاری سیف بن مالک انصاریؒ محمد بن انس انصاریؒ قیس بن ربیعؒ انصاری، عامر بن مسلمؒ جوہر بن مالکؒ فرغانہ بن مالکؒ نعیم بن عجلانؒ، ابو ثمامہؒ عمار بن ابی سلامتؒ، شیب بن حارثؒ، مالک بن سریعؒ، عمار بن حسانؒ زبیر بن حسانؒ، حماد بن انسؒ وقال بن مالک خالد بن عمرؒ مجمع بن عبدالله عائذیؒ وغيرہم ہیں۔

(كذا فى النجم لکھنؤ بابت محرم 1356ھ)

اس کھلی حقیقت کے باوجود شیعہ کے عناد اور کتمانِ حق جوان کے ہاں بڑی عبادت ہے کا یہ عالم ہے کہ ان بزرگوں کا نام لینا ہی شیعہ ذاکرین گناہ سمجھتے ہیں کوفہ شیعستان ہونے کی وجہ اہلِ سنت کی نصرت کا یہاں سوال نہ تھا ہاں جب قافلہ اہلبیت شہرِ دمشق میں پہنچا تو وہاں صدمہ سے ہر آنکھ اشکبار تھی خود یزید نے شیعہ کی بڑی عبادت ماتم جس کے ایک قطرہ آنسو سے سب صغائر و کبائر معاف ہو جاتے ہیں۔

(اجلاء العیون: صفحہ، 3) ادا کی طمانچہ بر روئے خود زد و گریست منہ پر طمانچے مار کر رونے لگا حضرت حسینؓ کا سر لانے والے قاتل کو قتل کرا دیا۔(جلاء العیون: صفحہ، 447) 

ابنِ مرجانہ پر لعنت کی اور انعام کے لالچیوں کو پھٹکار کا تمغہ دے کر دھتکار دیا پھر اہلِ بیت سے حسنِ سلوک کرتا رہا ان کو جگر کا غم نکالنے کی پوری اجازت دی حضرت زین العابدینؒ کو کئی دن تک اپنے ساتھ شاہی دستر خوان پر کھانا کھلاتا رہا آٹھ دن گزرنے کے بعد سب اھلبیت کو بلایا اور معافی چاہتے ہوئے شام میں ٹھرنے کی درخواست کی حضرت زینبؒ خواہر حسینؓ تو وہیں رہ پڑیں اور وہیں وفات پائی اور شام میں آج تک انکا مزار مرجع خلائق اور زیارت گاہ نام ہے باقی قافلہ کی روانگی کے لیے خوبصورت کجاوے تیار کرائے اور ان کو سفر خرچ دیا۔

حضرت زین العابدینؒ کی طلب پر حضرت حسینؓ کا سر مبارک ان کو دے دیا کوفی غنڈوں کے ہاتھوں لوٹے ہوئے سب مال کی ادائیگی کی اور وہ کپڑے بھی لوگوں سے وصول کر کے ادا کیے جو حضرت فاطمہؓ نے خود سوت کات کر بنوائے تھے مستورات کے برقعے لباس اور ہار وغیرہ زیورات واپس کرائے پھر دوصد سونے کے دینار حضرت زین العابدینؒ کو دیئے حضرت نے وہ قبول کر کے فقراء پر تقسیم کر دیئے پھر یزید نے دمشق ٹھرنے کا اختیار دیا حضرت نے مدینہ واپسی کو ترجیح دی۔ (اجلاء العیون: صفحہ، 449)

شیخ مفید اور دیگر شیعہ مؤرخین کی روایات کے مطابق یزید نے حضرت نعمان بن بشیرؓ صحابی کو بلا کر کہا کہ اہلِ شام کے نیک با اعتماد اور امین و دین دار آدمی کو اس قافلہ کے ساتھ مدینہ بھیجو۔

ایک روایت کے مطابق سیدنا نعمانؓ کو ہمراہ کیا پھر سیدنا زین العابدینؒ کو بلایا اور لوگوں کو ان کی ملامت اٹھانے کے لیے کہا لعنت ہو خدا کی ابنِ مرجانہ پر اللہ کی قسم قسم اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو حضرت حسینؓ جو کچھ مجھ سے مانگتے میں دے دیتا اور ان کے قتل پر ہرگز راضی نہ ہوتا اے زین العابدینؒ! ہمیشہ مجھ سے خط و کتابت کرتے رہنا اور اپنی ہر ضرورت مجھے لکھنا کہ پوری کی جائے گی پس جس آدمی کو ہمراہی قافلے کے لیے تیارکیا تھا اس کو بلا کر اہلغ بیت کے حق میں حسنِ سلوک کی خوب تاکید کی۔(اجلاء العیون: صفحہ، 405)

سنی مؤرخین نے بھی بالکل اسی طرح لکھا ہے غالباً یہ اسی حسنِ سلوک کا اثر تھا کہ جب اس حادثہ کے تین سال بعد 64ھ میں یزید کے فسق کی افواہ اڑنے پر اہلِ مدینہ نے بغاوت کر دی تو حضرت زین العابدینؒ نے اس میں کچھ حصہ نہیں لیا بلکہ اپنے متعلقین کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی طرح سختی سے روکا یزید کی فوجوں کو بھی یہی حکم تھا چنانچہ انہوں نے حضرت سجادا اور خاندانِ اہلِ بیتؓ سے کچھ تعرض نہیں کیا۔

گو شیعہ مؤلفین نے اس حقیقت کو یوں مسخ کر کے پیش کیا ہے کہ حضرت نے یزید سے قتل کے ڈر سے خود کو یزید کا غلام کہا۔

فقال له على بن الحسينؓ قد اقردت لك ما سالت انا عبد فان شئت فامسك و ان شئت فبع۔

(روضہ کافی: صفحہ، 235 ایران)

ترجمہ: حضرت علی بن حسينؓ نے فرمایا، جو چیزیں تو مانگتا ہے میں نے اُن باتوں کو تسلیم کر لیا میں تیرا مجبور غلام ہوں تو چاہے تو اپنے پاس رکھ اور چاہے تو بیچے دے (العیاذ باللہ)۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ کچھ حاطب الیل مؤرخین کے بیان کے مطابق یزید نے سر مبارک کے ساتھ بے حرمتی کی اور مخدراتِ عصمت کے ساتھ نامناسب مکالمہ بھی کیا قطع نظر اس کے ثبوت و عدم ثبوت کے یہ ایک حقیقت ہے کہ یزید نے سیدنا حسینؓ کے قتل کا صریح حکم ہرگز نہیں دیا صرف نئے گورنر کا تقرر اہلِ کوفہ کی بغاوت فرد کرنے کا حکم یا بصورتِ انکار بیعتِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو زندہ اپنے پاس پہنچانے کا حکم مؤرخین نے لکھا ہے ہر حکومت اپنی مخالفت کو روکنے کے لیے ایسے احکام دیتی ہے خواہ مقابلے میں کوئی بھی ہو اسے قتلِ حضرت حسینؓ کے متعلق مظنہ نہ تھا مولانا سید مین الدین شاه ندوی تاریخ اسلام: جلد، 1 صفحہ، 368 پر رقم طراز ہیں۔ 

یہ حادثہ عظمیٰ یزید کی لاعلمی میں اور بغیر اس کے حکم کے پیش آیا تھا کیونکہ اس نے صرف بیعت لینے کا حکم دیا لڑنے کی اجازت نہ دی تھی اس لیے جب اس کو اس حادثہ کی اطلاع دی گئی تو اس کے آنسو نکل آئے اور اس نے کہا اگر تم حضرت حسینؓ کو قتل نہ کرتے تو میں تم سے زیادہ خوش ہوتا (بحوالہ طبری: جلد، 7 صفحہ، 375 ) الغرض يزيد حضرت حسینؓ کے قتل پر راضی نہ تھا اسنے اھل بیتؓ کے ساتھ ہر ممکن عمدہ سلوک کیا لیکن اس کے عہد میں اہلبیتؓ کی پامالی ہوئی خاندانِ رسولﷺ کے ساتھ شدید ظلم و تشدد ہوا اوران کی ناقابلِ تلافی بے حرمتی ہوئی اس حسنِ سلوک کے باوجو اہلِ بیتؓ کی عزت کا مداوا اور بدنامی کا ازالہ کسی صورت سے نہیں ہو سکتا یزید کی حماقت اور ابنِ زیاد کی رعونت و سرکشی نے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کو اور عزتِ اہل بیتؓ کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ہم دفاع یا طعن کے بجائے معاملہ خدا کے سپرد کرتے ہیں جو ہر سںٔی اور صالح کو بدلہ دے گا۔

العرض قافلہ اہلبیتؓ نے مدینہ ہی میں سکونت اختیار کی یہاں کسی کی طرف سے اہل بیتؓ کو گزند نہ پہنچا کیا اہلِ مکہ و مدینہ یعنی اہلِ سنت سے بڑھ کر بھی اہلِ بیتؓ کے لیے کوئی محسن و خیر خواہ ہوا ہے؟ آخر حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ حضرت زین العابدینؒ حضرت محمد باقرؒ و حضرت جعفر صادقؒ نے مسکن پدر عراق و کوفہ چھوڑ کر مدینہ کی رہائش کیوں اختیار کی تھی؟ مکہ و مدینہ کے مرکزِ اہلِ سنت ہونے پر قاضی نور اللہ شوستری کی شہادت ملاحظہ ہو:

اما مکه و مدینه محبت ابوبکرؓ و عمرؓ براشیاں غالبست۔ 

ترجمہ: مکہ اور مدینہ والوں میں حضرت ابوبکرؒ و حضرت عمرؓ کی محبت کا غلبہ ہے ان کو ہی افضل مانتے ہیں۔  (مجالس المؤمنین: صفحہ 55 حال کوفہ)

یہاں شیخینؓ کی محبت غالب کیوں نہ ہو امام الانبیاء کا مولد، مسکن و ماوی ہیںپانی کی جگہ نمناک آگ جلنے کی جگہ گرم ہوتی ہے سایہ میں ظلمت اور دھوپ میں نورانیت ہوتی ہے صداق اہلِ سنت پر اس سے بڑی شہادت کیا چاہئے؟