مسلمانوں میں بدعات اور اہل کلام کے مذاہب کی تاریخ
امام ابنِ تیمیہؒمسلمانوں میں بدعات اور اہل کلام کے مذاہب کی تاریخ
مسلمان اس چیز پر قائم تھے جو پیغام اور دین حق دیکر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔ جوکہ صحیح منقول اور صریح معقول کے موافق تھا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا ‘ تومسلمانوں کے درمیان فتنہ پیدا ہوا۔ مسلمانوں کے مابین صفین کے موقع پر جنگ و قتال بپا ہوئے۔ اور وہ لوگ ظہور پذیر ہوئے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’مسلمانوں کی تفرقہ بندی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور دو گروہوں میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۴۵؛ سنن ابو داؤد ۴؍۳۰۰]
ان لوگوں کا ظہور اس وقت ہوا جب یہ دونوں مسلمان گروہ دو جرگہ داروں پر راضی ہوگئے۔اور بغیر کسی فیصلہ کے ان کا افتراق ہوگیا۔اور اس وقت سے شیعیت کی ابتداء ہوئی۔
ان لوگوں کا ظہور ہوا جو غالی شیعہ بنے ؛ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے کا دعوی کیا۔ اوروہ لوگ سامنے آئے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منصوص ہونے کا دعوی کیا؛ جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو گالی دینے لگے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں قسم کے لوگوں کو سزا دی۔خوارج سے قتال کیا ۔ اور جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے الہ ہونے کا دعوی کیا تھا‘ انہیں آگ میں جلادیا۔ ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے باہر نکلے ؛ تو جو لوگ آپ کو خدا سمجھتے تھے ‘ انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ۔ آپ نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہنے لگے : تم وہی ہو۔ آپ نے پوچھا:میں کون ہوں ؟ کہنے لگے : ’’ آپ وہ معبود ہیں جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’ تمہارے لیے ہلاکت ہو ‘ ایسے کہنا کفر ہے ۔ اپنی بات سے رجوع کرو ‘ ورنہ میں تمہاری گردنیں ماردوں گا۔‘‘
دوسرے دن بھی ان لوگوں نے ایسے ہی کیا۔ تیسرے دن بھی ایسے ہی کیا ۔ آپ نے تین دن تک انہیں مہلت دی۔ اس لیے کہ مرتد کو توبہ کرنے کے لیے تین دن کی مہلت دی جاتی ہے ۔ جب انہوں نے اپنے قول سے رجوع نہیں کیا تو آپ نے آگ جلانے کا حکم دیا۔یہ خندقیں باب کندہ کے پاس کھودی گئیں ۔ اور ان لوگوں کو اس آگ میں ڈال دیا گیا۔
اس موقع پر آپ نے وہ مشہور شعر کہا:
فلما رأیت الامر أمراً منکراً أججت ناری و دعوت قنبرا
ان لوگوں کو قتل کرنا بالاتفاق واجب تھا۔ لیکن ان کو آگ سے جلانے میں علماء کرام کا اختلاف تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں آگ میں جلا دیا جائے ۔ جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمااور دوسرے فقہاء کا خیال اس کے خلاف تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’ اگر میں اس جگہ پر ہوتا [یا میرا بس چلتا ] تو میں انہیں آگ میں نہ جلاتا ‘ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ : ’’ کوئی بھی اللہ کے عذاب سے مخلوق کو عذاب نہ دے ۔‘‘میں ان کی گردنیں مار دیتا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ جو کوئی اپنے دین کو بدل ڈالے اسے قتل کردو۔‘‘ [یہ حدیث بخاری میں ۹؍۱۵پر ہے۔ ]
رہ گئے سبُّ و شتم کرنے والے ‘ جو کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دیتے ہیں ؛ ان کے بارے میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی تو آپ نے ابن سوداء [عبد اللہ ابن سباء شیعیت کے موجد اعلی] کو بلا بھیجا؛ جس کے بارے میں آپ کو یہ شکایت ملی تھی۔آپ اس کو قتل کرنا چاہتے تھے ‘ مگر وہ قرقیسیا کی طرف بھاگ نکلا۔
رہ گئے مفضلہ ؛ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جناب حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہماپر فضیلت دیتے ہیں ‘ ان کے متعلق آپ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ جب بھی کوئی ایسا انسان میرے پاس لایا جائے گا جو مجھے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماپر ترجیح دیتا ہو ؛ تو میں اسے بہتان گھڑنے والی کی حد لگاؤں گا؛ [یعنی اسی کوڑے مارے جائیں گے]۔
آپ سے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ آپ نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا:
’’ آگاہ ہوجاؤ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین فرد حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘
یہ بات آپ سے تقریباً اسی اسناد کیساتھ روایت کی گئی ہے۔ اسے امام بخاری اور دوسرے لوگوں نے بھی روایت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے شیعہ بالاتفاق حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے تھے۔جیسا کہ کئی لوگوں نے روایت کیا ہے۔
پس یہ دو بدعتیں یعنی خوارج اور شیعہ کی بدعت یہ اس وقت پیدا ہوئی جب کہ فتنہ واقع ہوا۔ پھر صحابہ کرام کے زمانے کے بالکل آخر میں قدریہ اور مرجئہ کا فتنہ پیدا ہوا حضراتِ صحابہ اور تابعین نے اس پر نکیر فرمائی جیسے عبد اللہ ابن عمر ،عبد اللہ ابن عباس،جابر ابن عبد اللہ اور واثلہ بن اثقع رضی اللہ عنہ۔
پھر تابعین کے زمانے کے بالکل اواخر میں اور دوسری صدی کے اوائل میں جہمیہ جو کہ صفات کے منکر تھے ان کا فتنہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے جس نے اس فتنہ کا کھل کر اظہار کیا وہ جعد ابن درہم تھا ،خالد ابن عبد اللہ قسری نے اس کو بلایا اور مقامِ واسط میں چاشت کے وقت اور یوم النحر میں لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور کہا اے لوگو! قربانی کرو اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی کو قبول کرے آج کے دن میں جعد ابن درہم کی قربانی کرتا ہوں ۔
بے شک یہ آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل نہیں بنایا اور موسیٰ علیہ السلام سے کلام نہیں فرمایا اور اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت ہی بلند اوربرتر ہیں جو کہ جعد کہتا ہے اور پھر منبر سے اترے اور اس کو ذبح کر دیا۔
پھر اس مذہب کے ساتھ جہم بن صفوان ظاہر ہوا۔ اور اس کے بعد اس مذہب میں معتزلہ داخل ہوئے اور یہ وہ پہلے لوگ تھے جن سے یہ مذہب منقول ہوا اہل اسلام میں سے یعنی اہل اسلام میں سے سب سے پہلے معتزلہ نے اس مذہب کو اختیار کیا یقیناً انہوں نے عالم کے حدوث کو ثابت کیا حدوث اجسام کے ساتھ اور انہوں نے اجسام کے حدوث کو ثابت کیا ان اشیاء کے حدوث کے ساتھ جو اس کے ساتھ مستلزم ہیں یعنی اعراض اور انہوں نے کہا کہ اجسام اپنے اعراض محدثہ سے بالکل جدا نہیں ہوتے اور جو شے حوادث سے جدا نہ ہو یا جو شے حوادث سے سابق نہ ہو تو وہ بھی حادث ہوتا ہے اس لیے کہ ایسے حوادث ممتنع ہیں جن کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی وہ ازلی ہوں ۔
پھر بعد میں وہ اس اصل سے پھر گئے۔ اور جو انہوں نے ماضی میں حوادث کے دوام کے امتنا ع کا عقیدہ اختیار کیا تھا تو مستقبل میں حوادث کے دوام سے ان کے ساتھ معارضہ کیا گیا۔پس اس طریقے کے دو اماموں نے اس اصل اور اس قاعدے کو چھوڑ دیا جو کہ جہمیہ کے امام جہم بن صفوان اور ابو الہذیل علاف ہیں جو کہ معتزلہ کے امام ہیں اور انہوں نے مستقبل اور ماضی دنوں میں حوادث کے دوام کے امتناع کا قول اختیار کیا ۔
پھر جہم نے تو یہ کہا کہ جب معاملہ اس طرح ہے لہٰذا جنت اور نار کی فنا لازم آئے گی اور بے شک یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا سب کچھ معدوم ہو جائے گا جس طرح کے پہلے معدوم تھے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا سلف نے اور آئمہ نے جہمیہ پر نکیر فرمائی ہے اور حضرات سلف اور آئمہ نے اس بات کو ان کے کفر میں سے شمار کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تو ارشاد یہ ہے کہ:
﴿ إِنَّ ہَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہُ مِن نَّفَادٍ ﴾( ص ۵۴ )
’’بلاشبہ یقیناً یہ ہمارا رزق ہے، جس کے لیے کسی صورت ختم ہونا نہیں ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
﴿ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا﴾(سورۃ رعد ۳۵ )
’’ان کا پھل بھی دائمی ہے اور سایہ بھی۔‘‘
اور اس کے علاوہ دیگر وہ نصوص جو کہ جنت کی نعمتوں کے بقاء پر دلالت کرنے والے ہیں ۔
لہٰذا ابو الہذیل علاف نے کہا یقیناً دلیل تو صرف حوادث کے انقطاع پر دلالت کرتی ہے۔ لہٰذا جنت اور جہنم کی بقا تو ممکن ہے لیکن حرکات منقطع ہو جائیں گی۔ لہٰذا اہل جنت اور اہل نار باقی رہیں گے۔ اس حال میں کہ یہ اس میں سکون اور بے حرکت حالت میں ہونگے ،اس میں بالکل حرکت نہیں ہوگی۔ اور ایسی کوئی شے بھی نہیں ہوگی جو نئی پیدا ہو تو اس پراس قول کے مطابق یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ایسے اجسام کو ثا بت کرے جو باقی اوردائم رہیں اوروہ حوادث سے خالی ہوں پس ایسے اجسام کا وجود لازم آئے گا جو بغیر حوادث کے ہوں ۔ لہٰذا وہ اصل جس پر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی تھی وہ منقوض ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ اجسام حواد ث سے خالی نہیں ہوتے یہی وہ اصل ہے جس پر ہشام بن عقیل ،ہشام بن سالم الجوالیقی اور ان کے علاوہ دیگر وہ لوگ جو مجسمہ اور رافضہ میں سے ہیں اور غیر رافضہ میں سے کرامیہ نے بھی اپنے مذہب کی بنیاد اس پررکھی ہے ۔
پس ان کا عقیدہ ہے کہ ایک ایسے جسم قدیمِ ازلی کا ثبوت بالکل ممکن جس کے وجود کے لیے کوئی اول نہ ہو اور وہ تمام حوادث سے خالی ہو۔ اور ان لوگوں کے نزدیک جسم قدیمِ ازلی حوادث سے خالی ہو سکتا ہے ۔رہے وہ اجسام جو مخلوق ہیں تو وہ حوادث سے خالی نہیں ہوتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جو شے حوادث سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوتی ہے لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ ہر جسم حوادث سے خالی نہیں ہوتا ۔
پھر یہ جہمیہ جو ایسے اصل کو اختیار کرنے والے ہیں جو ایک مبتدع اور انوکھا اصل ہے یہ اس بات کی طرف محتاج ہیں کہ وہ اس اصل کو چھوڑ دیں پس انہوں نے یہ کہا کہ رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ صفات قائم نہیں نہ افعال اس لیے کہ وہ اعراض اور حوادث ہیں اور یہ تو صرف کسی جسم کے ساتھ قائم ہو سکتے اور اجسام تو محدث ہوتے ہیں پس لازم آئے گا کہ رب تعالیٰ کے ساتھ اس کی علم اوراس کی قدرت اوراس کی مشیت اور اس کی رحمت اور اس کی غضب اور اس کے علاوہ دیگر صفات قائم نہ ہوں بلکہ سارے کے سارے وہ صفات جس سے اس کی ذات کو موصوف کیا جاتا ہے وہ ساری صفات مخلوق اور اس کی ذات سے منفصل ٹھہریں گی ۔
جہمیہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قول تو یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ متکلم ہے لیکن یہ مجاز ہے اور معتزلہ نے کہا کہ وہ متکلم بالمعنی الحقیقی ہے لیکن معنی ان دونوں کا ایک ہی ہے دونوں فرقوں کی بات کامحل ایک ہی ہے پس ان لوگوں کی اصل وہی مادہ ہے جس کی بنیاد پر یہ بدعت پیدا ہوئی ہیں پس ابن کلاب ان کے بعد آیا جب کہ محنت کا فتنہ ظاہر ہوا جو مشہور فتنہ ہے اور اس میں امام احمد اور اس کے علاوہ آئمہ سنت میں سے ان کو انتہائی مشقت اور تکالیف سے ان کو آزمایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے امام احمد بن حنبل کو ثابت قدم رکھا اور اس کے علاوہ بھی بہت سے امور کثیرہ اور واقعاتِ کثیرہ پیش آئے جو معروف ہیں اور امت میں ان مسائل میں نزاع اور اختلاف پیدا ہوا پس ابو محمد عبد اللہ بن سعید بن کلا ب بصری کھڑا ہوا اور انہوں نے جہمیہ اور معتزلہ کے اوپر رد میں کئی تصنیفیں لکھیں اور ان کے تناقض کو بیان کیا اور ان کی بہت سی پوشیدہ باتوں سے پردہ چاک کیا لیکن اس شخص نے رد کرنے کے باوجود ان کے اس اصل اور بنیاد کو نہیں چھیڑا اور نہ اس کو رد کیا جو بدعات کا سرچشمہ ہے پس اس بنیاد پر یہ شخص یعنی عبد اللہ بن سعید بصری اس بات کی طرف محتاج ہوا کہ وہ یہ کہے کہ رب تعالیٰ کی ذات کیساتھ امورِ اختیاریہ قائم نہیں ہوتے اور نہ وہ اپنے مشیت اور قدرت کے ساتھ کلام کرتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ نے طور میں موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی ندائے حقیقی قائم ہوتی ہے اور بندوں کا ایمان اور ان کا عملِ صالح اُس کی رضا مندی اور محبت کا سبب بنتا ہے۔
نہ ان لوگوں کا کفر اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سبب ہے پس ان کے اعمال کے بعد تو نہ کوئی محبت اور رضا ہے اور نہ کوئی ناراضگی اور نہ کوئی خوشی اور نہ اس کے علاوہ وہ امور ہیں جن کا نصوصِ قرآن و سنت نے خبر دی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ﴾(آل عمران ۳۱)
’’کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ ذَلِکَ بِأَنَّہُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَہُمْ﴾( محمد ۲۸)
’’یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘
سورۃزخرف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ فَلَمَّا آسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَأَغْرَقْنَاہُمْ أَجْمَعِیْنَ ﴾( زخرف۵۵)
’’پھر جب انھوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا، پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔‘‘
سورۃ زمرمیں ارشاد ہے :
﴿ إِن تَکْفُرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ وَإِن تَشْکُرُوا یَرْضَہُ لَکُمْ﴾(زمر ۷)
’’ اگر تم نا شکری کر و تو یقیناً اللہ تم سے بہت بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتااوراگر تم شکر کرو تووہ اسے تمھارے لیے پسندکرے گا۔‘‘
سورۃ آل عمران میں ارشادہے :
﴿إِنَّ مَثَلَ عِیْسَی عِندَ اللّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُونُ ﴾( آل عمران ۵۹)
’’ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
سورۃ الأعراف میں ارشادہے :
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ﴾ [الاعراف:۱۱]
’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھارا خاکہ بنایا، پھر ہم نے تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو۔‘‘
اس کے علاوہ کتاب و سنت کے وہ نصوص جو شمار سے باہر ہیں اور قرآن و حدیث میں تقریباً دو سو تک ان کا عدد پہنچتا ہے جس طرح کہ اس مقام کے علاوہ کسی اورجگہ پر ہم نے اس کا ذکر کیا ہے اور ہم نے وہاں سلف اور خلف کا اس اصل کے بارے میں کلام کو ذکر کیا ہے اور ہم نے فلاسفہ میں قدماء کا مذہب بھی ذکر کیا ہے اور اس اصل کے بارے میں ان کے بڑے بڑے عالموں کی موافقت کو بھی بیان کیا ہے۔
پھر اسی کی وجہ سے قرآن کے مسئلے میں بھی لوگوں میں اختلاف ہوا پس ابن کلاّب اور اس کے متبعین اس بات کی طرف محتاج ہوئے کہ وہ یہ کہیں کہ وہ قدیم ہیں اور اللہ کی ذات کے ساتھ لازم ہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت اور قدرت کے ساتھ کلام نہیں کیا اور انہوں نے اس تمام کلام کو جس پراللہ تعالیٰ متکلم ہیں اس کو قدیم العین قرار دیا اور انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اپنی مشیت اور قدرت کے ساتھ ازلاً اور ابداً متکلم ہیں اور یقیناً اس کا کلام اس معنی پر قدیم ہے کہ وہ ازل سے قدیم النوع ہے اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے ساتھ متکلم ہیں جس طرح کہ سلف اور ائمہ نے فرمایا ۔
پھر انہوں نے یہ کہا کہ وہ تو قدیم العین ہے اور پھر وہ دو جماعتوں میں بٹ گئے :
ایک جماعت نے کہا کہ یہ بات ممتنع ہے کہ وہ (اللہ کا کلام )حروف اور اصوات قدیم ہوں باوجود اس کے کہ ان کی بقا ممتنع ہے اور ان کا دھیرے دھیرے موجود ہونا بھی اس لیے ہے کہ جو شے مسبوق بالغیر ہو وہ قدیم نہیں ہوسکتی وہ تو معنی ہے اور ایسے معانی کا وجود بھی ممتنع ہے جس کے لیے کوئی انتہانہ ہو آنِ واحد میں یعنی آن واحد میں وجود ممتنع ہے اور ایک عدد کو چھوڑ کر دوسرے عدد کے ساتھ تخصیص کے لیے کوئی موجِب نہیں (یعنی کوئی سبب نہیں )پس قدیم تو ایک معنی واحد ہے جوہر مامور کو امر دینا اور مخبر کے بارے میں خبر دینا ہے اور وہی معنی تورات انجیل اور قرآن کا ہے اور وہی آیت الکرسی کا معنی ہے اور دین کی آیت (یعنی دین کے احکام پر مشتمل آیت )کا معنی ہے اور قل ھو الاحد کا بھی ایک معنی ہے اور سورۃ فلق کا معنی ہے ۔
انہوں نے اس بات کا انکار کیا کہ وہ کلامِ عربی جو ہم پڑھتے ہیں یہ کلام اللہ ہو دوسری جماعت نے کہا کہ حروف یا حروف اور اصوات دونوں قدیم اور ازلیۃ الاعیان ہیں یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے ازلی ہیں ،انہوں نے کہا کہ ان کی ذات میں ترتیب ہے وجود میں ترتیب نہیں اور انہوں نے حقیقت اور وجودِ حقیقت کے درمیان فرق کر دیا جس طرح کہ اہل کلام میں سے بہت سے لوگ اللہ کے وجود اور اس کی حقیقت کے درمیان فرق کرتے ہیں اوربہت سے ان میں سے اورفلاسفہ میں سے بھی ممکنات کے وجود اور ان کی حقیقتوں کے درمیان فرق کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ترتیب ان کی حقائق میں ہے نہ کہ ان کے وجود میں بلکہ وہ تو ازلاً و ابداً موجود ہیں اور ان میں سے کوئی شے بھی ایسی نہیں جو دوسرے سے سابق ہو یعنی سب آنِ واحد میں موجود ہیں اگرچہ ان کے حقائق ترتیبِ عقلی کے ساتھ مرتب ہیں جس طرح کہ ذا ت کی صفات پر ترتیب اور تقدیم ہے اور جیسے کہ معلول کی علت پر تقدیم ہے جس طرح کہ وہ فلاسفہ اس کے قائل ہیں جو قدمِ عالم کے قائلین ہیں چنانچہ انہوں نے کہا کہ رب تعالیٰ پورے عالم پر اپنی ذات اور حقیقت کے اعتبار سے متقدم ہیں اور وہ عالم پر تقدمِ زمانی کے اعتبار سے متقدم نہیں اور انہوں نے اللہ کے بعض کلام پر بعض کے تقدم کے بارے میں اُسی طرح بات کہی جس طرح کہ لوگوں نے اس کے معلول پر تقدم کے بارے میں کہی اور یہ لوگ تقدم اور تاخر اور ترتیب کو دو قسم پر قرار دیتے ہیں :ایک عقلی دوسرا وجودی ۔اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے جس ترتیب سے تقدم او ر تاخر کو ثابت کیا ہے وہ عقلی ہے وجودی نہیں ۔
رہے جمہورِ عقلاء تو وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ قول تو معلول الفساد ہے بداہۃاور یقیناً ،ترتیب اور تقدم وتاخر تو صرف اور صرف اِسی سے عبارت ہے کہ ایک شے دوسرے کے بعد موجود ہوتا ہے اور یہ اس صورت میں ممکن نہیں کہ اس کو اس کے ساتھ حسی طور پر معیت حاصل ہو الا یہ کہ وہ اس کے بعد ہی ہو تب تو تقدم وتاخر متحقق ہوگا جس طرح کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ معلول صرف علت کے بعد ہی موجود ہوتا ہے اور وہ اس کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہوتا یعنی اس کی اس کے ساتھ معیت نہیں ہوتی اور یہ امور اس مقام کے علاوہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں لیکن یہاں پر اس میں سے صرف اتنی بات ذکر کر دی گئی ہے جو آسانی سے سامنے آئی اور مقصود تو یہ ہے کہ یہ کلامی طریقہ جس کو جہمیہ اور معتزلہ نے عقل سے بنا کرنکالا ہے اور امت کے سلف نے اور آئمہ نے اس کا انکار فرمایا ہے تو یہ بہت سے متاخرینِ اہل نظر کے نزدیک دینِ اسلام ہی ٹھہرا بلکہ وہ تو اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو اس کی مخالفت کرے تو دینِ اسلام کی مخالفت کرنے والا ہے باوجود یکہ اس نے اس میں موجود حکمتوں میں سے کوئی حکمت نہیں بیان کی اور نہ کوئی کتاب اللہ اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی طرف سے منقول خبر کی کوئی دلیل ،پس وہ کیسے دینِ اسلام ٹھہرے گا بلکہ دینِ اسلام کے اصولوں میں سے کوئی اصل بھی ایسی نہیں جس پر کوئی کتاب یا سنت یا سلف میں سے کسی کا قول دلیل ہو ۔