گندگی جب خشک ہوجائے تو اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
امام ابن تیمیہ[اہل سنت پر اعتراضات ] :
گندگی جب خشک ہوجائے تو اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
[انتہیٰ کلام الرافضی] ۔
جواب:
خشک گندگی پر بغیر کسی حائل کے نماز پڑھنے کا مسئلہ:
خشک گندگی پر بغیر کسی حائل کے نماز پڑھنا ؛ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا۔لیکن اگر زمین کو نجاست لگے جائے؛ اور پھر سورج کی وجہ سے یا ہواؤوں کی وجہ سے یا زمین میں تحلیل ہوجانے کی وجہ سے ختم ہوجائے تو اکثر لوگوں کا مذہب ہے کہ یہ زمین پاک ہوگئی ہے اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔اور امام مالک رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں منقول ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا پھلا قول بھی یہی ہے۔یہ قول ان لوگوں کے قول کی نسبت زیادہ ظاہر و مقبول ہے جو اسے پاک نہیں مانتے ۔
وہ قصہ جس میں رافضی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق بادشاہ کے دربار میں نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا ہے ۔یہاں تک کہ حنفی بادشاہ نے اپنے مذہب سے رجوع کرلیا۔ یہ قصہ اہل سنت والجماعت کا مذہب فاسد ہونے پر دلالت نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : حق ان سے خارج نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر گزیہ نہیں کہتے کہ : ان میں سے کوئی ایک خطا نہیں کرسکتا۔
اس طرح کی نماز کا جمہور اہل سنت والجماعت انکار کرتے ہیں ۔ جیسا کہ امام شافعی ؛ امام مالک ؛ احمد بن حنبل رحمہم اللہ
کا مذہب ہے ۔ جس بادشاہ کا ذکر اس رافضی نے کیا ہے وہ محمد بن سبکتکین ہے؛ جو کہ ایک بہترین اور عادل بادشاہ تھا۔ اس نے رجوع بھی اس چیز کی طرف کیا تھا جس کا سنت نبوی ہونا اس کے لیے ظاہر ہوگیا تھا۔ یہ بادشاہ خود نیک تھا او راہل بدعت اور خصوصاً رافضیوں پر بہت سخت تھا۔ اس نے اپنے ملک میں روافض اور ان جیسے دوسرے لوگوں پر لعنت کرنے کا حکم جاری کررکھا تھا۔ مصر کے عبیدی حاکم نے اسے خط لکھ کر دعوت دی تھی ؛ اس نے اس کے ایلچی کے سامنے یہ خط جلا دیا۔اور اہل سنت والجماعت کی جو مدد کی وہ تاریخ میں مشہورو معروف ہے۔