Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حدیث الائمۃ من قریش اور انصار کا مؤقف

  علی محمد الصلابی

حدیث الائمۃ من قریش اور انصار کا مؤقف

یہ حدیث صحیحین اور حدیث کی دیگر کتابوں میں مختلف الفاظ میں وارد ہے چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا

ان ہذا الامر فی قریش لا یعادیہم احد اکبَّہ اللہ فی النار علی وجہہ ما اقاموا الدین۔

ترجمہ: یہ امر خلافت اس وقت تک قریش میں رہے گا جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے، جو بھی ان سے اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا اللہ اس کو اس کے چہرے کے بل جہنم میں ڈالے گا۔

(البخاری: الاحکام صفحہ، 7139)

اور صحیح مسلم میں ہے کہ

لا یزال الاسلام عزیزًا بخلفاء کلہم من قریش۔

ترجمہ: اسلام بارہ خلفاء کے ذریعہ سے برابر غالب و عزت میں رہے گا، یہ سب کے سب قریش میں ہوں گے۔

(مسلم: الامارۃ: صفحہ، 1821)

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لایزال ہذا الامر فی قریش ما بقی منہم اثنان۔

ترجمہ: خلافت قریش میں رہے گی، جب تک ان میں سے دو آدمی بھی باقی رہیں۔

(البخاری: الاحکام صفحہ، 1740) 

اور رسول اللہﷺ نے فرمایا

الناس تبع لقریش فی ہذا الشأن مسلمہم لمسلمہم وکافرہم لکافرہم۔

ترجمہ: لوگ امارت و قیادت میں قریش کے تابع ہیں، مسلمان ان میں سے مسلمانوں اور کافر ان میں سے کافروں کے۔

(مسلم: الامارۃ صفحہ، 1818)

اور بکیر بن وہب الجزریؒ سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے ہر ایک سے نہیں بیان کرتا۔ ہم انصار کے ایک گھر میں تھے، رسول اللہﷺ وہاں تشریف لائے اور دروازے کے دونوں بازو پکڑ کر کھڑے ہو گئے۔

(الفتح الربانی للساعاتی: باب الخلافۃ جلد 5 صفحہ، 22/65 ابن ابی شیبۃ: جلد، 5 صفحہ، 544)

اور فرمایا

الائمّۃ من قریش ان لہم علیکم حقا ولکم علیہم حقا مثل ذلک، ما ان استرحموا فرحموا، وان عاہدوا اوفوا، وان حکموا عدلوا۔

ترجمہ: ائمہ، قریش میں سے ہوں گے ان کا تم پر حق ہے اور اسی کے مثل تمہارا ان پر حق ہے۔ اگر ان سے رحم طلب کیا جائے تو رحم کریں، اگر عہد و پیمان کریں تو پورا کریں اور حکومت کریں تو عدل و انصاف کو قائم رکھیں۔

(المصنّف لابن ابی شیبۃ: جلد، 5 صفحہ، 544)

اور فتح الباری میں حافظ ابنِ حجرؒ نے الامراء من قریش کے تحت بہت سی احادیث سنن و مسانید اور مصنفات کے حوالے سے وارد کی ہیں۔

(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 111)

اور یہ متعدد الفاظ میں مروی ہیں لیکن سب متقارب ہیں اور تمام کی تمام اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ شرعی امارت قریش میں ہو گی اور اس امارت سے مقصود خلافت ہے۔ رہا دیگر امارتیں، تو اس میں تمام مسلمان برابر ہیں.

(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 111)

جس طرح احادیث نبویہﷺ نے اس کی وضاحت کر دی کہ خلافت قریش کا حق ہے۔ اسی طرح ان کی اندھی تقلید سے منع فرمایا اور وہ اس وقت تک خلافت کے مستحق رہیں گے جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے جیسا کہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ میں بیان ہوا اور جیسا کہ حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ میں آیا

ان استرحموا رحموا وان عاہدوا اوفوا وان حکموا عدلوا فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین۔

ترجمہ: اگر ان سے رحم طلب کیا جائے تو رحم کریں، اگر عہد و پیمان کریں تو پورا کریں اور حکومت کریں تو عدل و انصاف کو قائم رکھیں، جو ایسا نہ کرے اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

(المصنف لابن ابی شیبۃ: جلد، 5 صفحہ، 544)

اس طرح احادیث نبویہﷺ نے اگر قریش اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکومت کرنے سے ہٹ جائیں تو ان کی اتباع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اگر وہ لوگ ان شرائط کو نافذ نہیں کرتے تو وہ امت کے لیے خطرہ ہیں اور احادیث نے شریعت کے خلاف ان کی اتباع سے منع فرمایا ہے اور ان سے اجتناب اور دور رہنے کا حکم دیا۔ کیونکہ اس حالت میں ان کا ساتھ دینے کی وجہ سے امت اسلامیہ کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے

ان ہلاک او فساد امتی رؤس اغیلمۃ من قریش۔

ترجمہ: میری امت کی ہلاکت یا فساد کا سبب قریش کے چند نوجوان حکام ہوں گے۔

(البخاری: الفتن صفحہ، 7058)

اور جب آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ آپﷺ اس حالت میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا

لو ان الناس اعتزلوہم

ترجمہ: کاش لوگ انہیں معزول کر دیں۔

(دلائل النبوۃ للبیہقی: جلد، 6 صفحہ، 464 الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان: صفحہ، 6713)

نصوص کی روشنی میں الائمۃ من قریش کا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے اور یہ کہ انصار نے ضوابط و شرائط کے ساتھ اور ان کی بنیاد پر قریش کی فرماں برداری اور امامت کو قبول کیا تھا اور رسول اللہﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہوئے سمع و اطاعت، امتیازات کی صورت میں صبر اور اولی الامر سے حکومت و سلطنت نہ چھیننے کا عہد و اقرار کیا تھا مگر یہ کہ وہ ان کی طرف سے صریحاً کفر دیکھیں۔

(البخاری: الفتن صفحہ، 7056)

انصار کے یہاں خلافت کا مکمل تصور پایا جاتا تھا، یہ چیز ان کے یہاں نامعلوم اور مبہم نہ تھی اور ان میں سے اکثر الائمۃ من قریش کے راوی تھے اور جن کو یہ حدیث معلوم نہ تھی، وہ بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیان کرنے پر خاموش ہو گئے اور تسلیم کر لیا، اسی لیے جب حضرت ابوبکرؓ نے بیان کیا تو کسی طرح کا اعتراض نہ کیا۔ لہٰذا مسئلہ خلافت آپسی مشاورت اور ان نصوصِ شرعیہ اور عقلیہ کی بنیاد پر پایۂ تکمیل کو پہنچا جو قریش کی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔ سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت کے بعد انصار میں سے کسی سے یہ بات نہیں سنی گئی کہ اس نے اپنے لیے خلافت کا دعویٰ کیا ہو اور اس کی دعوت دی ہو۔ جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس اجتماع میں جن نتائج پر لوگ پہنچے تھے اس پر انصار مطمئن تھے اور اس کی تصدیق کرتے تھے۔

(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 116)

اس سے ان لوگوں کا قول ساقط اور ناقابلِ اعتبار قرار پا جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ الائمۃ من قریش ایک شعار تھا، جس کو قریش نے انصار سے خلافت سلب کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ یا یہ سیدنا ابوبکرؓ کی ذاتی رائے تھی، حدیث رسولﷺ نہیں بلکہ قریشی سیاسی فکر تھی جو اس دور میں مشہور تھی اور عربی معاشرہ میں قریش کے دباؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

حقیقت میں ان احادیث کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے یا قول قرار دینا اور قریش کا شعار بتلانا صدر اوّل اور خلفائے راشدین کی تاریخ میں تحریف اور اسے بگاڑنے کی ایک شکل ہے۔ حالانکہ صدر اوّل کی تاریخ مہاجرین و انصار اور ان کے بعد آنے والے نیک نفوس کی کوششوں اور ان کے مابین پائی جانے والی مضبوط اخوت پر قائم ہوئی تھی۔

(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 116)