قرآنی آیات جن میں خلافت صدیقی کی طرف اشارہ ہے
علی محمد الصلابیقرآنی آیات جن میں خلافتِ صدیقی کی طرف اشارہ ہے:
قرآن پاک میں ایسی آیات ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے بعد آپﷺ کی خلافت کے سب سے زیادہ مستحق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔
ارشاد ربانی ہے
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۞ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡنَ۞
(سورۃ الفاتحہ: آیت نمبر، 6/7)
ترجمہ: ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا، ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انہیں ان کے طریقہ پر ہدایت عطا فرمائے اور ان کے راستہ پر چلائے اور وہ اللہ کے انعام یافتہ بندے ہیں اور ان انعام یافتہ بندوں میں اللہ تعالیٰ نے صدیقین کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے
وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا۔
(سورۃ النساء: آیت نمبر، 69)
ترجمہ: اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسولﷺ کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے جیسے نبی اور صدیق و شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں۔
اور رسولﷺ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ صدیقین میں سے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپؓ گروہ صدیقین کے ایک فرد ہی نہیں بلکہ ان میں سب سے آگے ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا طریقہ مستقیم ہے۔ لہٰذا کسی عقل مند کو اس میں ادنیٰ شک بھی باقی نہ رہا کہ وہ اس امت میں رسول اللہﷺ کی خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔
(عقیدۃ اہلِ السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: ناصر حسن الشیخ جلد، 2 صفحہ، 532)
امام رازیؒ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۞ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡنَ۞
(سورۃ الفاتحہ: آیت نمبر، 6/7)
ترجمہ: ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا، ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی راہ۔
سیدنا ابوبکرؓ کی امامت پر دلیل ہے کیونکہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہاں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔ سے قبل اِھٌدِنَا مقدر ہے۔ یعنی اصل میں اِھٌدِنَا صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔ ہمیں منعم علیہ بندوں کا راستہ دکھا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں ان منعم علیہ بندوں کی تفصیل ذکر فرمائی ہے
فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ
ترجمہ: وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جیسے نبی اور صدیق۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صدیقین کے رئیس و قائد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم اس ہدایت کو طلب کریں جن پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صدیقین قائم تھے۔ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گمراہ ہوتے تو ان کی اقتداء جائز نہ ہوتی۔ لہٰذا ہم نے جو بیان کیا ہے وہ سیدنا ابوبکرؓ کی امامت پر دلیل ہے۔
(تفسیر الرازی: جلد، 1 صفحہ، 260)
علامہ محمد بن امین شنقیطیؒ فرماتے ہیں اس آیت کریمہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ان لوگوں میں داخل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سبع مثانی یعنی فاتحہ کے اندر ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم ان کے راستہ کی ہدایت کے لیے اللہ سے دعا کریں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۞ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡنَ۞
ترجمہ: ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا۔
اور اللہ تعالیٰ نے منعم علیہ لوگوں کو بیان کرتے ہوئے ان میں صدیقین کا ذکر کیا اور رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا کہ سیدنا ابوبکرؓ صدیقین میں سے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ آپؓ ان منعم علیہ لوگوں میں داخل ہیں جن کے راستہ کی ہدایت کے لیے دعا کرنے کا اللہ نے ہمیں حکم فرمایا ہے۔ اب اس بات میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صراط مستقیم پر ہیں اور آپؓ کی امامت حق ہے۔
(اضواء البیان: جلد، 1 صفحہ، 36)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 54)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا، جو اللہ کی محبوب ہو گی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہو گی، وہ نرم ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت اور تیز ہوں گے کفار پر۔ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا بھی نہ کریں گے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل، جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں وارد شدہ صفات سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کی فوج یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر صادق آتی ہیں، جنہوں نے مرتدین سے قتال کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اکمل ترین صفات کے ذریعہ سے ان کی مدح فرمائی۔ یہ آیت کریمہ اس طرح خلافتِ صدیقی پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے یہ بات تھی کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ارتداد کی لہر اٹھے گی تو اللہ رب العالمین نے ایسے لوگوں کے لانے کا وعدہ فرمایا اور اس کا وعدہ بر حق ہے جو اس کے محبوب ہوں گے اور وہ خود اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے، مؤمنوں کے معاملات میں نرم اور کفار کے مقابلہ میں سخت ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کریں گے اور کسی کی ملامت کا خوف نہیں کھائیں گے۔ تو جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد اللہ کے علم میں جو ارتداد تھا وہ رونما ہوا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ثابت ہوا۔ سیدنا ابوبکرؓ ان سے قتال کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپؓ کی اطاعت قبول کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان لوگوں سے قتال کیا، جن لوگوں نے آپؓ کی نافرمانی کی اور کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف ان کو دامن گیر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ حق غالب آیا اور باطل مغلوب ہوا۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد اللہ کے وعدے کا صادق آنا سارے عالم کے لیے نشانی اور حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے صحیح ہونے پر دلیل ہے۔
(الاعتقاد للبیہقی: صفحہ، 173/174)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗوَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔
(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 40)
ترجمہ: اگر تم ان نبیﷺ کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جب کہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔ اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند و عزیز اللہ کا کلمہ ہی ہے۔ اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے قول:
ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ
ترجمہ: دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے۔
سے استدلال کیا ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد خلیفہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیونکہ خلیفہ ہمیشہ دوسرا ہی ہوتا ہے اور میں نے اپنے استاد ابوالعباس احمد بن عمرؒ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوبکرؓ ثانی اثنین کہلانے کے مستحق اس لیے ہوئے کہ رسول اللہﷺ کے بعد اسلامی سلطنت کو اسی طرح سنبھالا جس طرح شروع میں رسول اللہﷺ نے سنبھالا تھا۔ وہ اس طرح کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو عرب مرتد ہو گئے۔ اسلام صرف مدینہ و جواثا میں باقی رہا۔
(جواثا بحرین کی ایک بستی کا نام ہے۔ دیکھیے: معجم البلدان: جلد، 2 صفحہ، 174)
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلامی دعوت کو لے کر اٹھے اور اس راستے میں قتال کیا جیسا کہ رسول اللہﷺ نے کیا تھا لہٰذا آپ اس طرح اس بات کے مستحق قرار پائے کہ آپؓ کے حق میں ثانی اثنین کہا جائے۔
(تفسیر القرطبی: جلد، 8 صفحہ، 147/148)
ارشاد الٰہی ہے
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.
(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 100)
ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
اس آیت کریمہ رسول اللہﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے سب سے زیادہ امامت کے حق دار ہونے کی اس طرح دلیل ہے کہ ہجرت نفس پر شاق اور طبیعت پر انتہائی گراں ہے۔ لہٰذا جو اس میں آگے بڑھا اور لوگوں سے سبقت لے گیا وہ اس نیکی کے کام میں دوسروں کے لیے قدوہ و نمونہ قرار پایا۔ اس سے رسول اللہﷺ کے دل کو تقویت ملی اور یہ آپﷺ کے نفس سے خوف کے زوال کا سبب بنا۔ اور اسی طرح نصرت و تائید میں آپ کا سبقت کرنا (بھی دلیل ہے) چنانچہ جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو بلاشبہ جن لوگوں نے آپﷺ کی نصرت و خدمت میں سبقت کی وہ منصب عظیم پر فائز ہوئے۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی تو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت میں سب پر سبقت کرنے والے ہیں کیونکہ آپؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہے اور ہر مقام و منزل پر آپﷺ کے ساتھ رہے۔ لہٰذا آپؓ کا منصب اس سلسلہ میں دوسروں کی بہ نسبت اعلیٰ رہا اور یہ بات ثابت ہو گئی تو اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ آپؓ سے اللہ راضی ہوا اور آپؓ اللہ سے راضی ہوئے، اور فضیلت کا یہ سب سے اعلیٰ مقام ہے۔ پس اس ثبوت کے بعد یہ بات واجب ہو گئی کہ رسول اللہﷺ کے بعد آپؓ ہی منصبِ امامت کے حقیقی مستحق ہیں۔ لہٰذا یہ آیت کریمہ سیدنا ابوبکرؓ کی فضیلت اور ان کی امامت کی صحت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔
(تفسیر الرازی: جلد، 16 صفحہ، 168/169)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ۔
(سورۃ النور: آیت نمبر، 55)
ترجمہ: تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں، اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا، جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔
یہ آیت کریمہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور آپؓ کے بعد خلفائے ثلاثہ (سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ) کی خلافت پر صادق آتی ہے۔ اور جب استخلاف اور تمکین کی یہ صفت حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہم کی خلافت میں پائی گئی تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی خلافت بر حق ہے۔
(تفسیر ابنِ کثیر: جلد، 5 صفحہ، 121)
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں بعض سلف نے فرمایا کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی خلافت بر حق ہے اور اللہ کی کتاب میں ثابت ہے اور پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔
(تفسیر ابن کثیر: جلد، 5 صفحہ، 121)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّـهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖوَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا۔
(سورۃ الفتح: آیت نمبر، 16)
ترجمہ: آپ پیچھے چھوڑے ہوئے بدویوں سے کہہ دو عنقریب تم ایک سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے، پس اگر تم اطاعت کرو گے، تو اللہ تمہیں بہت بہترین بدلہ دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ اس سے پہلے تم منہ پھیر چکے ہو تو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔
امام ابوالحسن الاشعریؒ فرماتے ہیں کہ سورۃ براۃ (توبہ) میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت پر دلیل موجود ہے۔ اللہ نے ان لوگوں کے متعلق جو نبی کریمﷺ کی نصرت سے بیٹھ گئے تھے اور آپ کے ساتھ نکلنے سے پیچھے رہ گئے تھے فرمایا۔
فَإِن رَّجَعَكَ اللَّـهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖإِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ۔
(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 83)
ترجمہ: پس اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کی کسی جماعت کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں نکلنے کی اجازت طلب کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو۔ تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا، پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو۔
سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّـهِ۔
(سورۃ الفتح: آیت نمبر، 15)
ترجمہ: جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔
یہاں اللہ کے کلام سے مقصود لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا.
(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 83)
ترجمہ: تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے ہے۔
اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا
قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّـهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا.
(سورۃ الفتح: آیت نمبر، 15)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے۔ وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ (اصل بات یہ ہے کہ) وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّـهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖوَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا.
(سورۃ الفتح: آیت نمبر، 16)
آپ پیچھے چھوڑے ہوئے بدویوں سے کہہ دو عنقریب تم ایک سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے، پس اگر تم اطاعت کرو گے، تو اللہ تمہیں بہت بہترین بدلہ دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ اس سے پہلے تم منہ پھیر چکے ہو تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔
اور یہاں انہیں قتال کی دعوت دینے والا نبی کریمﷺ کے علاؤہ کوئی اور ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا۔
(سورۃ التوبۃ: نمبر، 83)
ترجمہ: تو آپ کہہ دیجیے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو۔
اور سورۃ فتح میں فرمایا
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَـلَامَ اللہِ
ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو نبی کریمﷺ کے ساتھ نکلنے سے منع فرمایا اور اس کو کلام الہٰی میں تبدیلی قرار دیا لہٰذا اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ان کو قتال کی طرف دعوت دینے والا نبی کریمﷺ کے بعد ہو گا۔
(الابانۃ عن اصول الدیانۃ: صفحہ، 67 مقالات الاسلامیین: جلد، 2 صفحہ، 144)
اور امام مجاہدؒ
اُولِیْ بَاسٍ شَدِیْدٍ
ترجمہ: سخت جنگجو قوم
کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مقصود فارس اور روم ہیں اور یہی بات امام حسن بصریؒ نے فرمائی ہے۔ امام عطاءؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مقصود فارس کے لوگ ہیں اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ اور ان کی دوسری روایت میں ہے کہ اس سے مقصود بنو حنیفہ ہیں جن سے جنگ یمامہ ہوئی تھی۔ اگر اس سے مقصود اہلِ یمامہ ہیں تو سیدنا ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں ان سے جنگ ہوئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہی مسیلمہ کذاب اور بنو حنیفہ سے قتال کی دعوت دی تھی، اور اگر اس سے مقصود فارس و روم کے لوگ ہیں۔
(جامع البیان للطبری: جلد، 26 صفحہ، 84/86 الاعتقاد للبیہقی: صفحہ، 173)
تو ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگ کی گئی۔ پھر آپؓ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا اور فتح حاصل کر کے فارغ ہوئے۔ اور جب اس سے حضرت عمرؓ کی امامت لازم آتی ہے تو آپؓ کی امامت کی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت بھی لازم آتی ہے کیونکہ حضرت عمرؓ کو منصب امامت پر فائز کرنے والے حضرت ابوبکرؓ ہی تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی امامت و خلافت پر قرآن کریم دلالت کرتا ہے۔ اور جب رسول اللہﷺ کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت لازم آئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آپؓ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں۔
(الابانۃ فی اصول الدیانۃ: صفحہ، 67)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ۔
(سورۃ الحشر: آیت نمبر، 8)
ترجمہ: (مال فے) ان مہاجرین مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی راست باز لوگ ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو صادقین (راست باز) کا نام دیا ہے، اور جس کی صداقت وراست بازی کی شہادت رب العالمین دے اس سے جھوٹ کا صدور نہیں ہو سکتا اور وہ کبھی جھوٹ کو اپنی خصلت نہیں بنائے گا۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ نے صادق قرار دیا ہے یہ سب کے سب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسول اللہﷺ کا نام دینے پر متفق ہیں۔
(منہاج السنۃ: جلد، 1 صفحہ، 135 الفصل فی الملل والا ہواء والنحل: جلد، 4 صفحہ، 107)
اور اس طرح یہ آیت کریمہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے ثبوت پر دلیل ہے۔
(عقیدۃ اہلِ السنۃ والجماعۃ: جلد، 2 صفحہ، 538 ناصر حسن الشیخ)