شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کی ابتداء
الشیخ ممدوح الحربیپہلی بحث
شیعہ امامیہ کا تعارف:
یہ فرقہ درج ذیل مختلف ناموں کے ساتھ مشہور و معروف ہے۔
رافضیہ:
انہیں رافضی اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ شیخین سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر بن خطابؓ کی امامت کا انکار کرتے اور یارانِ رسول کریمﷺ کو سبِّ وشتم کا مستحق گردانتے اور ان کے متعلق بدگوئی کرتے ہیں۔
شیعہ:
یہ لوگ اس لیے کہلاتے ہیں کہ یہ خاص طور پر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف داری کرتے ہیں اور صرف انہی کی امامت کو برحق تسلیم کرتے ہیں۔
اثناء عشریہ:
انہیں اثناء عشریہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ بارہ اماموں کی امامت کے قائل اور معتقد ہیں ان کا آخری امام محمد بن الحسن العسکری ہے۔ جو ان کے عقیدہ کے مطابق تاحال غار میں چھپا ہوا ہے۔
امامیہ:
انہیں امامیہ کا نام دیا جاتا ہے، اس لیے کہ ان کے عقیدے کی رو سے امامت کو اسلام کے پانچویں رکن ہونے کا درجہ حاصل ہے۔
جعفریہ:
انہیں جعفریہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، یہ ان کا چھٹا امام ہے اور ان کا شمار اپنے دور کے فقہاء میں ہوتا ہے۔ اس فرقے کی فقہ کو کذب وافتراء کے ذریعے ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
دوسری بحث
عبداللہ بن سباء کے ذریعے شیعہ مذہب کی ابتداء:
یمن کے یہودیوں میں سے ابن السوداء کے لقب سے مشہور عبداللہ بن سباء خبیث یہودی نے سادہ لوح عام مسلمانوں کے سامنے یہودیت کی بعض تعلیمات کو پیش کیا اور انہیں اس دعوت کو قبول کرنے کی ترغیب دی۔ اس نے اپنی اس نئی دعوت کو اہل بیتؓ کی محبت، ان کی ولایت سے الفت و قرب اور ان کے دشمنوں سے اظہارِ براءت کا جامہ پہنا دیا، چنانچہ جلد ہی ایسے لوگ اس کے فریب کا شکار ہو گئے جن کے دلوں میں اسلام ابھی تک پوری طرح جاگزیں نہ ہوا تھا، یہ اعراب تھے، یا نئے نئے حلقہ اسلام میں داخل ہونے والے لوگ، اس طرح ایک نیا دینی فرقہ ظہور پذیر ہو گیا جس کے عقائد سراسر اسلامی حلقہ کے مخالف تھے اور اس کی تمام تر تعلیمات یہودیت سے اخذ شدہ تھیں۔اس فرقے کو اس کے بانی و مؤسس ابنِ سباء کی طرف منسوب کیا جانے لگا اور اسے سبئیہ کا نام دیا گیا، شیعہ نے اپنے کل اصول و عقائد اسی فرقے سے لیے ہیں، اس اعتبار سے شیعہ انہیں پوشیدہ یہودی تعلیمات سے اثر پزیر ہو گئے جن کی دعوت ابنِ سباء یہودی نے دی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ علماء کے ہاں یہ بات درجہ شہرت تک پہنچی ہوئی ہے کہ عبداللہ بن سباء ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے رفض کی بدعت کو ایجاد کیا اور یہ رفض یہودیت سے اخذ شدہ شئے ہے۔
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ مجموعہ الفتاویٰ میں فرماتے ہیں:
وقد ذكر اهل العلم ان مبدأ الرفض اى: التشيع كان من الزنديق عبدالله بن سبأ فانه اظهر الاسلام وأبطن اليهودية وطلب ان يفسد الاسلام كما فعل بولس النصرانی الذی كان يهوديا فی افساد دین النصاری
(مجموع الفتاوىٰ، جلد 28، صفحہ، 483)
اہلِ علم کا بیان ہے کہ رافضیت، یعنی شیعیت کی ابتداء زندیق عبداللہ بن سباء سے ہوئی ہے اس نے بظاہر تو اسلام کا اقرار و اعتراف کیا مگر باطنی طور پر وہ یہودیت سے پیوستہ رہا۔ اس کی دلی آرزو یہ تھی کہ وہ اسلام کے اندر بھی اسی طرح کا بگاڑ پیدا کردے جس طرح کا بگاڑ نصرانی پولس نے اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے دینِ نصرانیت میں کر دیا تھا۔
ایک دوسرے مقام پر یوں فرماتے ہیں:
واصل الرفض من المنافقين الزنادقة فانه ابتدعه ابنِ سباء الزنديق واظهر الغلو في على، بدعوة الإمامة والنص عليه، وادعى العصمة له ولهذا كان مبداء من النفاق قال بعض السلف: حب ابی بکر و عمر ايمان وبغضهما نفاق وحب بنی هاشم ایمان وبغضهم نفاق
رافضیت کی اصل بنیاد زندیق منافقون نے فراہم کی ہے، اسے ابنِ سباء زندیق نے ایجاد کیا، بایں طور پر کہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق غلو کو اختیار کیا، اس کے ساتھ ان کی منصوص امامت کا اور ان کی عصمت کا بھی دعویٰ ظاہر کیا، لہٰذا اس کی بنیاد ہی نفاق پر استوار ہے۔ بعض سلف صالحین کا قول ہے حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنھما سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی نشانی ہے۔ بنو ہاشم سے محبت ایمان کی دلیل اور ان سے کدورت نفاق کا خاصہ ہے۔
ابنِ سباء کے وجود کی حقیقت کا ثبوت:
دورِ حاضر کے اکثر شیعہ حضرات ابنِ سباء سے لا تعلقی ظاہر کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ سراسر وہمی و خیالی شخصیت ہے اور یہ اہلِ السنت والجماعت کی طرف سے شیعہ اثناء عشریہ کے خلاف گھڑا گیا بہتان ہے اور خلاف حقیقت بات شیعہ۔ معاصروں کا یہی مؤقف ہے مگر ہم ثابت کریں گے کہ یہ فرضی و قیاسی شخصیت نہیں بلکہ معتبر شیعی ائمہ، جنہیں شیعوں کے ہاں بہت بڑا مرتبہ اور مقام حاصل ہے شیعہ کی کتب میں اس کی حقیقی شخصیت کی سچائی کو تسلیم کیا گیا ہے۔
انہی اماموں میں سے ایک امام قمی ہے، جس نے ابنِ سباء اور سبئیت کو موضوع بحث بناتے ہوئے اپنی کتاب المقالات والفرق میں لکھا ہے:
وهذه الفرقة تُسمى السبئية اصحاب عبدالله بن سباء وهو عبدالله بن وهب الراسبی الهمدانی، وساعده على ذالك عبدالله بن حرصی و ابن اسود وهما من أجلة اصحابه وكان اول من اظهر الطعن على ابى بكر و عمر و عثمان و الصحابة و تبرأ منهم۔ (المقالات والفرق، صفحہ 20)
اس فرقہ کا نام سبئیہ ہے۔ جو عبداللہ بن سباء المعروف عبدالله بن وہب الراسبی الہمدانی کے پیروکاروں کا گروہ ہے۔ اس مذہب کی تأسیس میں اس کے دو بڑے ساتھیوں عبداللہ بن حرصی، اور ابنِ اسود نے معاونت فراہم کی، یہ (ابنِ سباء) وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور (باقی) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن و طعن کا آغاز اور ان سے برأت کا اظہار کیا ہے۔
ان کے امام نوبختی نے اپنی کتاب فرق الشیعة میں ابنِ سباء کے متعلق یوں لکھا ہے:
وحكى جماعة من اهل العلم من اصحاب على ان عبدالله بن سباء كان يهوديا فاسلم، ووالى عليا وكان يقول وهو على يهوديته فی يوشع بن نون بعد موسىٰؑ بهذه المقالة، فقال فی اسلامه ای بعد ان اسلم عبدالله بن سباء- قال فی اسلامه بعد وفاة النبی صلى الله عليه وسلم فى على بمثل ذالك۔ (فرق الشيعة، صفحہ 22)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے اہلِ علم کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا، دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار کیا، چنانچہ جن دنوں وہ یہودیت پر قائم تھا تو وہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع بن نون کے متعلق جو دعویٰ کیا کرتا تھا، بعینہٖ وہی دعویٰ اس نے اسلام قبول کرنے اور نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد سیدنا علیؓ کے بارے میں کیا۔
اسی طرح عبداللہ سباء کے وجود کی حقیقت کو تسلیم کرنے والوں میں سے ابنِ ابی الحدید بھی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ ابنِ سباء ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں غلو کو اختیار کیا، چنانچہ اس نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے:
واول من جهر بالغلو فی ايامه- اى: فی ايام علی بن ابی طالب عبدالله بن سباء فقام اليه وهو يخطب۔ فقال له: انت انت وجعل يكررها فقال له۔اى على بن أبی طالب ويلك من انا فقال: انت الله فامر باخذه واخذ قوم كانوا معه على رأيه
علی بن ابی طالب کے دور میں سب سے پہلے غلو کو علی الاعلان اختیار کرنے والا شخص عبداللہ بن سباء تھا۔ یہ علی الاعلان سیدنا علی ابنِ ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خطبہ کے دوران کھڑا ہوا اور آپ سے کہنے لگا تو ہے تو ہے بار بار وہ یہی کلمہ دہرانے لگا، تو آپ نے (یعنی حضرت علیؓ) نے اس سے دریافت فرمایا، تیری بربادی ہو۔ میں کون ہوں؟ تو اس نے کہا آپ اللہ ہیں چنانچہ آپ نے ابنِ سباء کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو اس کے ہم عقیدہ تھے۔
امام نعمۃ اللہ الجزائری شیعہ امام ہے، وہ اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں ابنِ سباء کے متعلق یوں رقم طراز ہیں:
وقيل:انه يهوديا فأسلم، اللهم ای: ابن سباء انه كان يهوديا فاسلم وكان فی اليهودية يقول فی يوشع بن نون، وفى موسىٰ مثل ما قال فی على
(الأنوار النعمانية: جلد2 صفحہ 234)
بیان کیا جاتا ہے کہ وہ (ابنِ سباء) یہودی تھا اور حلقہ بگوش اسلام ہو گیا، اللہ گواہ ہے کہ ابنِ سباء واقعتًہ یہودی تھا، جو بعد میں مسلمان ہو گیا اور وہ اپنے یہودیت کے دور میں یوشع بن نون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق وہی کچھ کہہ چکا تھا، جس کا اظہار اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا تھا۔
واضح ہوا کہ عبداللہ بن سباء یہودی کی شخصیت تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اثناء عشری شیعہ اماموں کی شہادت کو ابھی ہم نے ان کی اس گفتگو اور ان کی مستند ترین کتب سے ملاحظہ کر لیا ہے، لہٰذا اب ایسا قطعاً نہیں ہو سکتا کہ دورِ حاضر کا کوئی شیعی امام آئے اور وہ اس خبیث یہودی کے وجود کا انکار کر دے، جس نے شیعہ امامیہ کے عقائد کی بنیاد تعمیر کی تھی۔
تیسری بحث
شیعہ امامیہ کی مشہور ترین شخصیات اور مؤلفات:
شیعہ امامیہ کی مشہور ترین شخصیات، ان کے بارہ امام ہیں، جنہیں شیعہ امامیہ اپنے امام تسلیم کرتے ہیں، حالانکہ یہ ائمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شیعی عقائد سے لا تعلق ہیں۔ وہ ان تمام خلافِ حقیقت، باطل اور جھوٹے اقوال و اعمال سے بری الذمہ ہیں، جن کو شیعہ امامیہ ان ائمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ شیعوں کے نزدیک ان بارہ اماموں کی ترتیب درج ذیل ہے۔
پہلا امام:
علیؓ بن ابی طالب، لقب مرتضیٰ، کنیت ابو الحسن، چوتھے خلیفہ راشد اور دامادِ رسول اللہﷺ ہیں۔ انہیں گمراہ اور گمراہ کن عبدالرحمٰن بن ملجم نے مسجدِ کوفہ میں قاتلانہ حملے کے ذریعے شہید کر دیا۔
دوسرا امام:
حسن بن علیؓ بن ابی طالب، شیعہ انہیں مجتبیٰ اور ایک قول کے مطابق زکی کا لقب دیتے ہیں، ان کی کنیت ابو محمد ہے۔
تیسرا امام:
حسین بن علیؓ بن ابی طالب، شیعہ انہیں شہید کا لقب دیتے ہیں، واقعتاً آپؓ شہادت کے درجہ عالیہ پر فائز ہیں، ایک قول کے مطابق انہیں سید الشہداء کہا جاتا ہے، جب کہ آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔
چوتھا امام:
علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، شیعہ انہیں سجاد اور ایک قول کی رُو سے زین العابدین کا لقب دیتے ہیں، ان کی کنیت ابو محمد ہے۔
پانچواں امام:
محمد بن علی بن الحسین رحمۃ اللہ ہے ، انہیں باقر کا لقب اور ابو جعفر کی کنیت دی جاتی ہے۔
چھٹا امام:
جعفر بن محمد بن علی رحمۃ اللہ، انہیں صادق کا لقب اور ابو عبد اللہ کی کنیت دیتے ہیں۔
ساتواں امام:
موسیٰ بن جعفر صادق رحمۃ اللہ، لقب کاظم اور کنیت ابو ابراہیم سے ان کے نزدیک معروف ہے۔
آٹھواں امام:
علی بن موسیٰ بن جعفر رحمۃ اللہ، شیعہ انہیں رضی کا لقب اور ابوالحسن کی کنیت دیتے ہیں۔
نواں امام:
محمد بن علی بن موسیٰ رحمۃ اللہ، انہیں تقی کا اور دوسرے قول کے مطابق جواد کا لقب اور ابو جعفر کی کنیت دیتے ہیں۔
دسواں امام:
علی بن محمد بن علی رحمۃ اللہ، شیعہ انہیں نقی یا ہادی کا لقب اور ابوالحسن کی کنیت دیتے ہیں۔
گیارہواں امام:
حسن بن علی بن محمد رحمۃ اللہ، انہیں زکی یا عسکری کا لقب دیا جاتا ہے۔ ان کی کنیت ابو محمد ہے۔
بارہواں اور آخری امام:
محمد بن الحسن العسکری، انہیں شیعہ مہدی اور ایک قول کے مطابق حجتہ القائم المنتظر کا لقب دیتے ہیں، ان کی کنیت ابو القاسم ہے۔ شیعہ کے نزدیک آپ حجت الغائب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی ولادت 256ھ میں ہوئی، ان کی غیبت صغریٰ 260ھ اور غیبت کبریٰ 329ھ کو وقوع پذیر ہوئی۔ شیعوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کا یہ بارہواں امام سامرہ میں اپنے باپ کے گھر میں واقع غار سر من رأی میں داخل ہوا اور تا حال ان کا خروج نہیں ہوا۔
علی بن ابراہیم القمی ابو الحسن، ہلاکت 307ھ:
یہ اپنی کتاب تفسیر القمی کے ساتھ مشہور ہے، اس اللہ کے دشمن نے اپنی اس تفسیر میں قرآن کریم کے محرف ہونے کی صراحت کی ہے۔ تفسیر القمی کے علاوہ التاريخ، الشرائع، الحيض، التوحيد والشرک، فضائل امیر المومنین اور المغازی نامی کتب بھی اس کی مؤلفات ہیں۔
محمد بن یعقوب الکلینی ابو جعفر، ہلاکت 328ھ:
یہ کتاب الکافی کا مؤلف ہے، اس نے اپنی اس کتاب کے صرف پہلے اور دوسرے جزء کے بائیس صفحات میں قرآن کریم کی تحریف کو ثابت کیا ہے۔ یہ بہت بڑی کتاب ہے اور اصول و فروع اور تہذیب و اخلاق کی تین اقسام پر مشتمل ہے۔
محمد بن علی بن حسین بن بابویہ القمی، ہلاکت 381ھ
صدوق کے لقب سے معروف اور من لا یحضرہ الفقیہ نامی کتاب کا مؤلف ہے۔
محمد بن الحسن الطوسى، ہلاکت 460ھ:
یہ تہذیب الاحکام، الاستبصار، التبیان، الغبية، الامالی الطوسی، الفہرست اور رجال الطوسی ایسی معروف کتب کا مؤلف ہے۔
الحاج مرزا حسین محمد النوری الطبرسی:
یہ کتاب فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب کا مؤلف ہے۔ اس زندیق نے اپنی اس کتاب کے اندر یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم میں کمی، زیادتی اور تحریف وقوع پذیر ہوئی ہے۔ یہ کتاب ایران میں 1289ھ کو طبع ہوئی ہے۔ صاحبِ کتاب نے 1320ھ میں نجف میں ہلاکت پائی۔
آیت الله المامقانی:
یہ کتاب تنقیح المقال فی اصول الرجال کا مؤلف ہے اور شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کا امام الجرح والتعدیل، اس نے اپنی مذکورہ کتاب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے الحبت والطاغوت کے القاب استعمال کیے ہیں۔ یہ کتاب مطبعۃ المرتضویہ نجف کے زیر اہتمام 1352ھ میں شائع ہوئی ہے۔
محمد باقر مجلسی:
صفوی حکومت کا مذہبی قائد اور مؤلف کتاب بحار الانوار ہلاکت 1111ھ۔
نعمۃ اللہ الجزائری:
مؤلف كتاب الانوار النعمانية ہلاکت 1112ھ۔
ابو منصور الطبرسی
مؤلف کتاب الاحتجاج ہلاکت 620ھ۔
ابو عبدالله المفید:
مؤلف کتاب الارشاد اور کتاب الامالی المفید متوفی 413ھ۔
محمد بن الحسن العاملی:
مؤلف کتاب الایقاظ من الھجعة فی اثبات الرجعة ہلاکت 1104ھ۔
آیت الله الخمینی:
مکمل نام: روح الله المصطفٰی احمد الموسوی الخمینی اس کے والد احمد نے 1885ء میں ہندوستان کی سکونت ترک کر کے مستقل طور پر ایران میں رہائش اختیار کرلی، خمینی کی پیدائش قم شہر کے نواحی قصبه خمین میں 1320ھ میں ہوئی، ولادت کے ایک سال بعد اس کے باپ کو قتل کر دیا گیا، سن بلوغ تک عمر پہنچی تو اس کی ماں بھی وفات پاگئی، چنانچہ اس کے بڑے بھائی نے اس کی مکمل پرورش و کفالت کی ذمہ داری کو نبھایا۔ یہ شیعہ کے ممتاز ترین مذہبی راہنماؤں میں شمار ہوتا ہے۔ خمینی کی متعدد تالیفات میں سے ایک کتاب کشف الاسرار بھی ہے۔ اپنی اسی کتاب میں خمینی نے سیدنا فاروقِ اعظم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ لکھا ہے:
ان أعمال عمر تابعة من اعمال الكفر والزندقة والمخالفات لآيات ورد ذكرها فی القرآن (کشف الاسرار صفحہ:116)
عمر کے جملہ اعمال کفر، زندیقیت اور (کتاب اللہ) قرآن میں وارد شدہ آیات کی مخالفت پر مبنی ہیں۔
اس کے علاوہ خمینی نے ہی تحریر الوسیلہ اور الحکومۃ الاسلامیہ نامی کتب بھی تحریر کی ہیں۔ مؤخر الذکر کتاب میں خمینی نے لکھا ہے: ان تعاليم الائمة كتعاليم القرآن، يجب تنفيذها واتباعها (الحكومة الإسلامية: صفحہ13)
یقیناً ائمہ کی تعلیمات کا درجہ قرآن کی تعلیمات کے مساوی ہے۔ ان کا نفاذ اور ان کی پیروی دونوں لازم ہیں۔
خمینی تقریبا 89 سال کی عمر میں فوت ہوا، خمینی کے حاشیہ نشینوں نے اس کے برہنہ چہرہ میت کو شیشہ کے تابوت میں بند کر کے تہران کے سب سے بڑے اور کشادہ میدان میں رکھ دیا۔ اس خمینی کے مریدوں اور عقیدت مندوں نے اس تابوت کے گرد طواف کیا، جنازہ چلا تو اس کے پیچھے 10 ملین رافضیوں( شیعوں)کا جمع غفیر بھی رواں دواں تھا۔ سخت ازدہام کی وجہ سے کندھوں سے کندھے ٹکرا رہے تھے، یہ لوگ اپنے رخسار پیٹ رہے اور سینہ کوبی کر رہے تھے۔
اس موقع پر خمینی کی میت پر تجارت کرنے والوں نے اس کی قبر پر بہت بڑی عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جسے ایران کے بلند ترین گولڈن گنبد کی حیثیت حاصل ہو جائے گی، چنانچہ جس علاقے میں یہ گنبد تعمیر کیا گیا اس کے نام کے چناؤ کا شرف خمینی کے بیٹے احمد کو نصیب ہوا، جس نے اس مرکز کو روح الاسلام کا نام دیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس گنبد کے تعمیراتی اخراجات کی مد میں 7 ارب ڈالر خرچ کر دئیے گئے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہوا جہاں 5 ملین انسان بے روزگاری کی اذیت میں مبتلا ہیں۔