Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مشاجرات صحابہ اوراہل السنۃ والجماعۃ کا معتدل مسلک

  مولانااخترامام عادل قاسمی

ڈاکٹر علامہ خالد محمودؒ کی تحریرات کے آئینے میں
مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف، بہار
متکلم اسلام حضرت مولانا علامہ ڈاکٹر خالد محمود (متوفیٰ 20 رمضان المبارک 1441ھ مطابق 14 مئی 2020ء) عصرِ حاضر کے ممتاز محقق اور اسلامی افکار و نظریات کے مستند ترجمان تھے، فرق باطلہ کی تاریخ اور ان کے مسائل و افکار پر ان کی گہری نظر تھی، اس موضوع پر انھوں نے بے نظیر خدمات انجام دیں، ان کی کتابیں اس باب میں سند کا درجہ رکھتی ہیں، اس ضمن میں ناموسِ صحابہ کرام رضی الله عنہم کا تحفظ بھی ان کا خاص موضوع تھا، صحابہ کرام رضی الله عنہم کا مقام و معیار، صحابہ کرام رضی الله عنہم پر ہونے والے اعتراضات کا دفاع اور ان کے باہمی اختلافات جیسے حساس مسائل پر آپ کے قلم سے انتہائی محققانہ اور زندہ تحریریں معرضِ وجود میں آئیں اور اہلِ سنت والجماعت اور سلف صالحین کے مسلکِ اعتدال کی شاندار ترجمانی آپ نے فرمائی۔ زیرِ نظر مضمون میں مشاجراتِ صحابہ کرام رضی الله عنہم پر آپ کی قیمتی تحقیقات و افادات سے ہم استفادہ کریں گے، اس موضوع پر بہت سی قیمتی چیزیں علامہ صاحب کی کتابوں اور تحریروں میں پھیلی ہوئی ہیں، جن کو اگر ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو وہ ایک مستقل کتاب بن جائے گی۔
یہ موضوع انتہائی حساس اور قدیم ہے، جو شروع سے ہی علماء اور مصنّفین کے یہاں زیرِ بحث رہا ہے اور اکثر افراط و تفریط کا بھی شکار رہا ہے، جس کے نتیجے میں کئی فرقے وجود میں آئے، لیکن سلف صالحین نے ہمیشہ جادۀ اعتدال کو قائم رکھا۔
صحابیت ایک وہبی مرتبہ ہے، کسبی نہیں
یہاں سب سے پہلے اصولی طور پر مقاِم صحابیت کی حقیقت و نزاکت کو سمجھنا ضروری ہے، اکثر فتنے اور غلط فہمیاں اسی حقیقت کا پورا ادراک نہ کرنے کی بنا پر پیدا ہوئیں:
”صحابیت ایک وہبی مرتبہ ہے، کوئی کسبی شئے نہیں ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ اگر امام ابوحنیفہؒ سے علم میں آگے نکل گئے تو اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حضور اکرمﷺ کی پہلی زندگی میں پیدا کیا، یہ ان کی اپنی کسبی شئے نہیں تھی اور پھر یہ فیصلہ اللہ رب العزت کا اپنا تھا کہ حضورﷺ خاتم النّبیین ہیں، آپﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو گا، جب یہ ایک قطعی بات ٹھہری تو یہ بات بھی اپنی جگہ قطعی ہے کہ اب آئندہ کوئی شخص صحابی نہ ہو سکے گا۔اس سے یہ عقیدہ بھی ایک قطعی صورت اختیار کرتا ہے کہ صحابیت ایک وہبی چیز ہے، کوئی کسبی شئے نہیں ہے، اس دعویٰ پر کئی دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں، مثلاً:
ساری انسانیت رضائے الہٰی کی جستجو میں ہے اور یہی عام ہدایت بھی ہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی مقدس جماعت ہے کہ اس کی رضا خود اللہ پاک چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اتباع کرنے والوں کو بھی اس مرتبہ کا حقدار بتایا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ 
(سورۃ التوبة: آیت، 100)
ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا ہے، اور وہ اس سے راضی ہیں، 
اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا طبقہ بھی ہوا ہے جس کی رضا خود پروردگارِ عالم کو مطلوب ہے، ظاہر ہے کہ یہ چیز کسب سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
ایک اور آیتِ کریمہ پر غور کریں:
وَاَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى وَ كَانُوۡۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهۡلَهَا‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا 
(سورۃ الفتح: آیت، 26)
ترجمہ: اور ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا، اور وہ اسی کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔  
اللہ تبارک وتعالیٰ کا انھیں چن لینا اور یہ کہنا کہ وہ پہلے سے اس کے حقدار اور اہل تھے، یہ شرف صحابیت کے وہبی مرتبہ ہونے کی روشن دلیل ہے۔
یہ بات مولانا ابو الکلام آزادؒ نے سورة توبہ (آیت، 24) کی تفسیر کے تحت ان الفاظ میں کہی ہے:
”بلا شائبہ و مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہو گا، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ سے راہِ حق میں کیا، انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کر دیا جو انسان کر سکتا ہے اور پھر اس کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسان کی کوئی جماعت پا سکتی تھی۔
(ترجمان القرآن: جلد، 2 صفحہ، 143)
اسی کے ساتھ خود صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا اظہارِحقیقت بھی ملاحظہ فرمائیں:
ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ قال: ”مَن کانَ مُسْتَنًّا، فَلْیَسْتَنَّ بمن قد ماتَ، فإنَّ الحیَّ لا تُؤمَنُ علیہ الفِتْنَةُ، أولئک أصحابُ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کانوا أفضلَ ہذہ الأمة: أبرَّھا قلوبًا، وأعمقَھا علمًا، وأقلَّھا تکلُّفًا، اختارھم اللّٰہ لصحبة نبیِّہ، ولإقامة دِینہ، فاعرِفوا لہم فضلَہم، واتبعُوھم علی أثرھم، وتمسَّکوا بما استَطَعْتُم من أخلاقِھم وسیَرِھم، فإنھم کانوا علی الھُدَی المستقیم“
(جامع الأصول فی أحادیث الرسول: جلد، 1 صفحہ، 292 حدیث نمبر: 80 المؤلف: مجد الدین أبو السعادات المبارک بن محمد الجزری ابن الأثیر (المتوفیٰ: 606ھ) تحقیق: عبد القادر الأرنؤوط الناشر: مکتبة الحلوانی- مطبعة الملاح مکتبة دار البیان الطبعة: الأولیٰ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے منقول ہے آپؓ نے فرمایا جس کو کسی کی اقتدا ہی کرنا ہو اسے چاہیے کہ وہ ان کی اقتدا کرے جو اس دنیا سے جا چکے ہیں کیونکہ زندہ شخص فتنوں سے مامون نہیں ہے، جو جا چکے وہ حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، جو اس امت کے افضل ترین لوگ تھے، كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ (سورۃ آل عمران: آیت، 110) ان کے دل سب سے زیادہ نیکی سے لبریز تھے، ان کا علم بہت گہرا تھا اور ظاہر داری ان میں بہت کم تھی، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کریمﷺ کی صحابیت کے لیے اور اس دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا، ان کا یہ مرتبہ انھیں اللہ تعالیٰ کی عطا تھی (وہبی تھا) سو ان کا حق پہچانو اور ان کے پیچھے چلو وہ بیشک راہِ مستقیم پر تھے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی اس شہادت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ صحابیت ایک عطائے خداوندی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ہے، اسی لیے خطیب بغدادیؒ (463ھ) اور بے شمار علماء سلف و خلف نے صراحت کی ہے کہ:
عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعدیل اللّٰہ لھم و اخبارہ عن طھارتھم و اختیارہ لھم فی نص القرآن
(الکفایة فی علوم الروایة للخطیب: صفحہ، 26)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت ایک ثابت شدہ اور معلوم حقیقت ہے، اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعدیل اور ان کے دلوں کی شانِ طہارت بیان فرمائی اور بتصریح قرآنی شرفِ صحابیت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا۔
جس طرح کعبہ قبلۂ نماز ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قبلۂ اقوام ہیں، قرآن کریم کی اس آیتِ کریمہ کے پہلے مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں:
وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيۡدًا
(سورۃ البقرة: آیت، 143)
(عبقات: صفحہ، 27، 30 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
ترجمہ: اور (مسلمانو) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پر گواہ بنے۔
اسی لیے حضرت عمرؓ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا، دیکھو غلطیوں سے بچتے رہنا، لوگ تمہاری غلطیوں کو بھی اپنا دین بنا لیں گے، آپؓ نے حضرت طلحہؓ کو حالتِ احرام میں رنگ دار چادر پہننے سے یہی کہہ کر منع فرمایا:
إِنَّکُمْ أَیُّھا الرَّھطُ أَئِمَّةٌ یَقْتَدِی بِکُمْ النَّاسُ فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا جَاھلًا رَأَی ھذَا الثَّوْبَ لَقَالَ إِنَّ طَلْحَةَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّہِ کَانَ یَلْبَسُ الثِّیَابَ الْمُصَبَّغَةَ فِی الإِحْرَامِ فَلَا تَلْبَسُوا أَیُّھا الرَّھطُ شَیْئًا مِنْ ھذِہِ الثِّیَابِ الْمُصَبَّغَةِ
(الموطأ: صفحہ، 471 حدیث نمبر: 1165 الموٴلف: مالک بن أنس، المحقق: محمد مصطفیٰ الأعظمی، الناشر: مؤسسة زاید بن سلطان آل نہیان الطبعة الاولیٰ: 1426ھ بمطابق 2004ء م عدد الأجزاء: 8)
ترجمہ: آپ حضرات پیشوا ہیں، لوگ آپ کی پیروی کرتے ہیں، اگر کوئی عام آدمی (جو اس رنگ سے واقف نہ ہو) اسے دیکھے تو کہے گا کہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہؓ احرام میں رنگ دار کپڑے پہنتے تھے، اس لیے حالتِ احرام میں رنگین کپڑوں سے اجتناب کریں
(خلفاء راشدین: جلد، 2 صفحہ، 486 مؤلفہ علامہ خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قابلِ اتباع ہیں
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں درجات کے فرق کے باوجود اتباع کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ سابقین اولین ہی میں سے ہوں، بہارِ نبوت کے جو پھول آخر میں کھلے وہ بھی اسی گلستانِ نبوت کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدۀ جنت سب ہی سے ہے:
لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
(سورۃ الحدید: آیت، 10)
ترجمہ: تم میں سے جنہوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا، اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔  
سابقین اولین اور فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے دونوں شرفِ صحابیت رکھتے ہیں، جو طبقہ ان کے پیچھے چلا، وہ تابعین کہلایا، یہ حضرات تابعین اسی لیے بنے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب متبوعین ہیں اور امت کے ذمہ ہے کہ ان کے نقشِ پا سے زندگی کی راہیں روشن کرے۔
نبوت اور صحابیت کے درمیان صرف دیکھنا شرط ہے، اتباع ضروری نہیں، جس نے ایمان سے آپﷺ کے جمال جہاں آراء کو دیکھا صحابیت پا گیا، لیکن اگلوں کے لیے صرف دیکھنا کافی نہیں اتباع بھی لازم ہے۔
(عبقات: صفحہ، 38 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شناخت رسول اللہﷺکی نسبت سے ہے عمل سے نہیں!
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پہچان عمل سے نہیں رسول اللہﷺ کی نسبت سے ہے، اس لیے کہ ارشادِ نبوی ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللَٰہَ اللَٰہَ فِی أَصْحَابِی! اللَٰہَ اللَٰہَ فِی أَصْحَابِی! لَا تَتَّخِذُوھُمْ غَرَضًا بَعْدِی! فَمَنْ أَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّھُمْ وَمَنْ أَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِی أَبْغَضَھُمْ وَمَنْ آذَاھُمْ فَقَدْ آذَانِی وَمَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَی اللَّہَ وَمَنْ آذَی اللَٰہَ یُوشِکُ أَنْ یَأْخُذَہُ
(الجامع الصحیح سنن الترمذی: جلد، 5 صفحہ، 696 حدیث نمبر: 3862 المؤلف: محمد بن عیسیٰ ابو عیسیٰ الترمذی السلمی الناشر: دار إحیاء التراث العربی بیروت تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون عدد الأجزاء: 5 الأحادیث مذیلة بأحکام الألبانی علیہا)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں، میرے بعد انھیں کبھی کسی اعتراض کا نشانہ نہ بنانا، سو جس نے ان سے محبت کی (وہ ان کے اعمال سے نہیں) وہ میری نسبت سے کی (کہ وہ میرے صحابی ہیں) اور جس نے ان سے بغض رکھا دراصل اس نے مجھ سے بغض رکھا، جس نے میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کوئی اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی، وہ اس کی گرفت سے کہاں بچ سکے گا“۔
یہ حدیث تواتر طبقات کے ساتھ امت میں چلی آ رہی ہے، اسناد کے پہلو سے اس میں غرابت ہو تو اس سے یہ حدیث مجروح نہیں ہوتی، یہ اسی طرح ہے جیسے قرآن کریم تواتر طبقات کے ساتھ منقول ہوتا چلا آ رہا ہے اور وہ کہیں تواترِ اسناد کا محتاج نہیں ہے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرة العینین میں اس اصول کی تصریح کی ہے۔
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اعمال کو زیرِ بحث لانا درست نہیں، ان سے مؤمن کی عقیدت و محبت ان کے اعمال اور نیکیوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس رشتۂ رسالت سے ہے کہ وہ حضور اکرمﷺ کے صحابی ہیں، تو ظاہر ہے کہ ان کے کسی عمل پر بھی انگلی نہ اٹھائی جائے گی اور نہ ان پر کسی کو تنقید کا حق ہو گا، کیونکہ یہ فی الواقع اس رشتہ پر حملہ ہو گا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بارگاہِ رسالت مآبﷺ سے حاصل ہے۔
(معیارِ صحابیت صفحہ، 228 تا 237 تالیف ڈاکٹر علامہ خالد محمود ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی مانچسٹر، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ شاہدرہ لاہور، 2018ء)
عدالت و ثقاہت کے لیے صحابی ہونا کافی ہے
یہ بات یقینی طور پر حق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک بھی ایسا نہ تھا، جو غیر ثقہ ہو یا جو دین میں کوئی غلط بات کہے، سرخیل محدثین حضرت علامہ عینیؒ (757ھ) لکھتے ہیں:
لیس فی الصحابة من یکذب و غیر ثقة
(عینی علی البخاری: جلد، 2 صفحہ، 105)
جب کوئی حدیث کسی صحابی سے مروی ہو اور اس کے نام کا پتہ نہ چلے تو وہ راوی کبھی مجہول الحال نہ سمجھا جائے گا، صحابی ہونے کے بعد کسی اور تعارف یا تعدیل کی حاجت نہیں، علامہ ابنِ عبدالبر مالکیؒ (463ھ) لکھتے ہیں:
ان جمیعَھم ثقاتٌ مامونون عدل رضی فواجب قبول ما نقل کل واحد منھم وشھدوا بہ علیٰ نبیہ
(کتاب التمہید: جلد، 4 صفحہ، 264)
ترجمہ: سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثقہ اور امانت دار ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا ان میں سے ہر ایک نے جو بات اپنے نبی کریمﷺ سے نقل کی اور اس کے ساتھ اپنے نبی کے عمل کی شہادت دی (لفظاً ہو یا عملاً) وہ واجب القبول ہے۔
خطیب بغدادیؒ (463ھ) لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مخلوق میں سے کسی کی تعدیل کے محتاج نہیں، یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جو ان کے باطن پر پوری طرح مطلع ہے ان کی تعدیل کر چکا ہے:
فلا یحتاج احد منھم مع تعدیل اللّٰہ لھم المطلع علیٰ بواطنھم الیٰ تعدیل احد من الخلق لہ
(الکفایہ: صفحہ، 46)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی مخلوقات میں سے کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں، اللہ تعالیٰ جو ان کے قلوب پر مطلع ہے اس کی تعدیل کے ساتھ اور کسی کی تعدیل کی ضرورت نہیں۔
جو چیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں
ہر وہ قول اور فعل جو ان سے منقول نہیں بدعت ہے، سو یہ حضراتؓ خود بدعت کا موضوع نہیں ہو سکتے ان کے کسی عمل پر بدعت کا حکم نہیں کیا جا سکتا، حافظ ابنِ کثیرؒ (774ھ)لکھتے ہیں:
کل فعل و قول لم یثبت عن الصحابة رضی اللّٰہ عنھم ھو بدعة
(تفسیر ابنِ کثیر: جلد، 4 صفحہ، 556)
ترجمہ: دین کے بارے میں کوئی قول اور کوئی فعل جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہو بدعت ہے۔
صحابی رسول حضرت حذیفہ بن الیمانؓ (36ھ) فرماتے ہیں:
کل عبادة لم یتعبدھا اصحاب رسول اللہﷺ فلا تعبدوھا
(الاعتصام للشاطبی: صفحہ، 54)
ترجمہ: دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔
(عبقات: صفحہ، 27 تا 30 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
نسبتِ صحابیت لازوال اور حسنِ خاتمہ کی ضامن ہے۔
بعد کے ادوار میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف و نزاع یہاں تک کہ جنگ و جدل کے جو واقعات پیش آئے ان کی بنا پر کسی بھی صحابیؓ کو تنقید کا نشانہ بنانا قطعی درست نہیں، اس لیے کہ واقعات و حادثات سے وہ نسبت منقطع نہیں ہوئی جو ان کو سرکارِ دو عالمﷺ سے حاصل تھی، وہ نسبت لازوال ہے، امت کو ہدایت یہ دی گئی ہے کہ وہ صرف نسبت پر نگاہ رکھیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو واقعات کے آئینے میں نہیں بلکہ نسبتِ نبویﷺ کے آئینے میں دیکھیں، عالم الغیوب رب کائنات کو تو بعد میں پیش آنے والے تمام واقعات کی پہلے سے خبر تھی، اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پروانہ رضوان عطا کرنا اور ان کی تعدیل و تزکیہ بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے یہ واقعات اصل نہیں ہیں، بلکہ نسبت اصل ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے جس طرح اس نسبت کا حصول اختیاری نہیں ہے، اسی طرح اس کا زوال یا انقطاع بھی کسی کے اختیار میں نہیں، زندگی کے درمیانی وقفات میں خواہ کیسے ہی انقلابات پیش آئیں اس بات کی ضمانت ہے کہ خاتمہ بہرحال خیر پر ہو گا۔
جماعت سے باہر کا شخص امام کو لقمہ نہیں دے سکتا
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات و نزاعات کی بنا پر عام مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی صحابی پر انگلی اٹھائے، یا ان کو تنقید کا ہدف بنائے، علامہ خالد محمودؒ نے اس کی ایک بڑی پیاری فقہی مثال دی ہے:
”فقہ کا ایک مسئلہ ہے کہ امام نماز پڑھائے اور کسی متشابہ پر قرآن پڑھنے میں غلطی کرے، تو اگر کوئی شخص جو جماعت میں شریک نہیں اسے لقمہ دے اور امام اس پر اعتماد کر کے اس کے لقمہ کو قبول کر لے، تو سب کی نماز ٹوٹ جائے گی، یہ کیوں؟ جب کہ وہ لقمہ صحیح تھا یہ صرف اس لیے کہ لقمہ دینے والا نماز کے باہر تھا اور لقمہ لینے والا نماز کے اندر تھا، جو نماز کے اندر ہے وہ اللہ کے حضور حاضر ہے اور جو نماز سے باہر ہے وہ کسی اور کام میں بھی مشغول ہو سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اس درجے میں نہیں جس میں وہ ہے، جو نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہے۔ سو جس طرح نماز سے باہر والا نماز کے اندر والے کو لقمہ نہیں دے سکتا گو نماز کے اندر والا واقعی غلط پڑھ رہا تھا، اس طرح کوئی عام امتی کسی صحابی پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، گو وہ صحابی اپنی کسی بات یا تحریک میں غلطی پر ہوھاسلام میں بڑوں کے احترام کے جو آداب سکھائے گئے ہیں ان میں یہ صورت بہت اہم ہے۔
ان آداب میں سے ایک بڑا ادب یہ ہے کہ کوئی عام امتی کسی صحابی پر تنقید نہ کرے اس کی ہر غلطی کو بھی اس کی اجتہادی بات سمجھے، ہماری عقائد کی جملہ کتابوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہر تنقید سے بالا رکھا گیا ہے، خواہ یہ حضرات (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں کتنی سخت زبان کیوں نہ اختیار کریں، لیکن اس کے حوالے سے عام افرادِ امت کو ان پر زبان دراز کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔
(معیارصحابیت: صفحہ، 21، 22 تالیف ڈاکٹر علامہ خالد محمود ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی مانچسٹر، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ شاہدرہ لاہور، 2018ء)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر قسم کے جرح و تنقید سے بالاتر ہیں۔ 
علمائے امت کا اتفاق
چنانچہ سلف و خلف کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابیت کی نسبت ہی عدالت و ثقاہت کے لیے کافی ہے، مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہیں اور اعمال و واقعات کی بنا پر کسی صحابی رسول پر تنقید جائز نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر قسم کے جرح و تنقید سے بالاتر ہیں، ان کے اختلافات خواہ وہ علمی و فکری ہوں یا سیاسی و حربی، سب اجتہاد پر مبنی ہیں، کسی بدنیتی اور فساد پر نہیں اور اجتہاد غلط بھی ہو تو قابلِ اجر ہے، لائقِ مؤاخذہ نہیں ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات کے بارے میں کوئی تاریخی واقعہ سامنے آئے تو اس کی تاویل کی جائے گی اور کوئی محمل حسن متعین کیا جائے گا اور اگر صواب و خطا کچھ سمجھ میں نہ آئے تو بھی توقف اور کف لسان واجب ہے، کسی اظہارِ رائے یا ذہنی قیاس آرائی کی اجازت نہیں ہے، یہ مقام ہی ایسا ہے کہ زبان کھولنا بھی گناہ ہے۔
علامہ ابنِ اثیر الجزریؒ (630ھ) اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جرح سے بالا کیوں ہیں؟ لکھتے ہیں:
والصحابة یشارکون سائر الرواة فی جمیع ذلک الا فی الجرح والتعدیل فان کلھم عدول لا یتطرق الیھم الجرح لان اللّٰہ عزوجل و رسولہ زکاھم و عدلاھم و ذلک مشھور لا تحتاج لذکرہ
(اسد الغابة: جلد، 1 صفحہ، 2)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دوسرے راویوں کے ساتھ ہر بات میں شریک ہیں، مگر جرح و تعدیل میں وہ دوسروں کے درجے میں نہیں، یہ سب کے سب عادل ہیں، جرح ان کی طرف راہ نہیں پاتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ان کا تزکیہ کر دیا ہے اور ان کی تعدیل کر دی ہے اور یہ بات اتنی روشن ہے کہ اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
(عبقات: صفحہ، 33 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات میں بڑی حکمتِ الہٰی پوشیدہ: 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جو اختلافات ظاہر ہوئے یا خود عہدِ نبوت میں بعض خلافِ شان چیزیں ان کی طرف سے سامنے آئیں، ان میں بڑی حکمتِ الہٰی پوشیدہ ہے، عہدِ نبویﷺ میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو خلافِ شان اعمال سرزد ہوئے ان کا مقصد دراصل تکمیلِ شریعت تھا اور ان حضرات کو بطورِ اسباب استعمال کیا گیا اور عہدِ نبوی کے بعد جو چیزیں رونما ہوئیں ان میں بھی اجتہاد کی کئی جہتوں کو روشنی میں لانا مطلوب تھا،علاوہ آخری حالات کے اعتبار سے کسی صحابیؓ کا خاتمہ غلط فکر و عمل پر نہیں ہوا، بلکہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ راہِ صواب یا راہِ اعتدال پر قائم ہو گئے اور پھر ان کی وفات ہوئی۔ اختلافات کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خیر امت کے مقام پر فائز رہے، قرآن کریم نے باہمی جنگ کو ایمان کے منافی قرار نہیں دیا ہے۔
(تجلیات آفتاب: جلد، 1 صفحہ، 176 مؤلفہ علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ لاہور، 1431ھ مطابق 2010ء)
 وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ‌فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ‌ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ ۞ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَ اَخَوَيۡكُمۡ ‌وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ۞
(سورۃ الحجرات: آیت، 9، 10)
ترجمہ: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کر رہا ہو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ چنانچہ اگر وہ لوٹ آئے، تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو، اور (ہر معاملے میں) انصاف سے کام لیا کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔
ایک بڑا سبب تکمیل شریعت:
علامہ خالد محمود صاحبؒ لکھتے ہیں:
”صحابہ کے اختلاف کا منشا غلط فہمی تو ہو سکتا ہے، لیکن بدنیتی نہیں، سوء اعتقاد نہیں، ایمان اپنی بنیادی شان سے ان کے دلوں میں جگہ پا چکا ہے، ان میں خون ریزی تک دیکھو تو بدگمانی کو راہ نہ دو، یہ سب بھائی بھائی ہیں، بدگمانی سے انتہا تک بچو، ان میں سے کسی سے بڑے سے بڑا گناہ دیکھو تو بھی بدگمانی نہ کرو، اس کا ظہور بتقاضائے فسق نہیں ہوا، محض اس حکمت سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر شریعت کی ہدایت اترے اور یہ لوگ تکمیلِ شریعت کے لیے استعمال ہو جائیں، آنحضرتﷺ کا کسی وقت نماز کی رکعتوں میں بھولنا از راہِ غفلت نہیں تھا، اس حکمتِ الہٰی کے تحت تھا کہ لوگوں پر سجدۀ سہو کا مسئلہ کھلے اور شریعت اپنی پوری بہار سے کھلے۔
سو ایسے جو امور شانِ نبوت کے خلاف نہ تھے ان کے حالات حضورﷺ پر ڈالے گئے اور جو گناہ کی حد تک پہنچتے تھے انھیں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ڈالا گیا، اور وہ حضرات اس طرح تکمیلِ شریعت کے لیے بطورِ سبب استعمال ہو گئے، ان حالات سے گزرنے کے بعد ان کا وہ تقدس بحال ہے جو انھیں بطورِ صحابیؓ کے حاصل تھا، اور ان کی بھی بدگوئی کسی پہلو سے جائز نہیں، اعتبار ہمیشہ اواخرِ امور کا ہوتا ہے، اس کے بغیر ان امور اور واقعات کی قرآن کریم سے تطبیق نہیں ہوتی۔
اختلاف اصول کا نہیں فروع کا اور وسعتِ عمل کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا باہمی اختلاف اصول کا نہیں فروع کا ہے، حق و باطل کا نہیں وسعتِ عمل کا ہے، ان میں سے جس کی بات چاہے لے لو، لیکن دوسرے پر جرح نہ کرو اور نہ اسے باطل پر کہو ان حضرات کے جملہ اعمال و افکار کسی نہ کسی جہت سے حضورﷺ سے ہی استناد رکھتے ہیں، حافظ ابنِ تیمیہؒ (728ھ) نے ائمہ مجتہدین کے مختلف فیہ مسائل کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اعمال سے مسند بتایا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلاف کو امت کے لیے وسعتِ عمل قرار دیا ہے۔
(عبقات: صفحہ، 27 تا 30 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور بحوالہ فتاویٰ ابنِ تیمیہؒ، الانصاف لرفع الاختلاف صفحہ، 10)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف حق و ناحق کا نہیں، ترجیح کا تھا:
تمام اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ ہیں، حضرت امیرِ معاویہؓ نے ان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا، لیکن اس میں اہلِ سنت کا محتاط موقف یہی رہا ہے کہ ان مشاجرات میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کو برا بھلا کہنے کی بجائے اسے یوں کہا جائے کہ ان میں اولیٰ بالحق سیدنا علیؓ تھے، یعنی نیت دونوں کی درست تھی، منزل دونوں کی حق تھی، حضرت علیؓ حق کے زیادہ قریب تھے، دوسری طرف باطل کا لفظ لانے سے احتیاط کی جائے، اسے خلافِ اولیٰ کہنے سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ آپؓ کے لیے یہ اولیٰ بالحق کی تعبیر خود لسانِ رسالت سے ثابت ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت امیرِ معاویہؓ بھی حق پر تھے، 
حضرت ابوسعید الخدریؓ (74ھ) بیان کرتے ہیں، حضورﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ-صلی اللہ علیہ وسلم تَکُونُ فِی أُمَّتِی فِرْقَتَانِ فَتَخْرُجُ مِنْ بَیْنِہِمَا مَارِقَةٌ یَلِی قَتْلَہُمْ أَوْلاَہُمْ بِالْحَقّ
(الجامع الصحیح المسمی صحیح مسلم: جلد، 3 صفحہ، 113 حدیث نمبر: 6508 المؤلف: أبو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری النیسا بوری المحقق: الناشر: دار الجیل بیروت دار الآفاق الجدیدة بیروت)
ترجمہ: میری امت (سیاسی طور پر) دو حصوں میں بٹ جائے گی، ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا فرقہ نکلے گا، اس تیسرے فرقہ مارقہ کے قتل کے درپے جو ان دو جماعتوں میں سے نکلے گا وہ اپنے اختلاف میں حق کے زیادہ قریب ہو گا۔
دیکھیے حضورﷺ نے حضرت امیرِ معاویہؓ کے حامیوں کو باطل پر کہنے کی بجائے حضرت علیؓ کو اولیٰ بالحق فرمایا ہے، یعنی اصولاً دونوں حق پر ہوں گے، لیکن ان میں ایک زیادہ حق پر ہو گا اور ظاہر ہے کہ وہ حضرت علیؓ تھے جو خوارج سے لڑے۔
خود سیدنا علیؓ نے بھی کبھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کو گمراہ یا باطل پر نہیں کہا، بلکہ اپنا ہم عقیدہ قرار دیا، سیدنا علیؓ نے ارشاد فرمایا:
وکان بدء امرنا انا التقینا والقوم من اھل الشام والظاھر ان ربنا واحد و نبینا واحد و دعوتنا فی الاسلام واحدة ولا نستزیدھم فی الایمان باللّٰہ والتصدیق برسولہ ولا یستزیدوننا الامر واحد الاما اختلفنا فیہ من دم عثمان ونحن منہ براء
(نہج البلاغة: جلد، 3 صفحہ، 126)
ترجمہ: یہ ہمارے اختلاف کی ابتدا تھی کہ ہم اور اہلِ شام آپس میں ٹکرا گئے اور ظاہر ہے کہ ہم دونوں ایک خدا ایک نبی اور ایک دعوتِ اسلام پر جمع ہیں، ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے میں ان سے زیادہ نہیں اور وہ ہم سے ایمان میں زیادہ نہیں، ہم سب ایک ہیں، ماسوائے اس کے کہ خونِ سیدنا عثمانؓ کے بارے میں ہم میں کچھ اختلاف ہوا اور ہم اس سے بری ہیں۔(تجلیات آفتاب: جلد، 1 صفحہ، 44، 45 مؤلفہ علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ لاہور، 1431ھ بمطابق 2010ء)
علامہ ابنِ خلدونؒ لکھتے ہیں:
انما اختلف اجتھادھم فی الحق ما اقتتلوا علیہ و ان کان المصیب علیا فلم یکن معاویة قائمًا فیھا یقصد الباطل انما قصد الحق و اخطا والکل کانوا فی مقاصدھم علی الحق
(تاریخ ابنِ خلدون: صفحہ، 171)
ترجمہ: ان کا اختلاف اجتہادی تھا، گو کہ باہمی جنگوں میں سیدنا علیؓ صواب پر تھے، لیکن سیدنا امیرِ معاویہؓ کی نیت بھی خیر ہی کی تھی، لیکن غلطی ہوئی، مگر سب کی نیت خیر ہی کی تھی
(خلفاء راشدینؓ جلد، 2 صفحہ، 541، 542 مؤلفہ ڈاکٹر علامہ خالد محمود)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات کی تاویل کرنا اور بہتر محمل متعین کرنا واجب:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات و نزاعات میں تاویل کرنا اور ان کو کسی بہتر محمل پر محمول کرنا واجب ہے، ورنہ سخت فتنہ کا اندیشہ ہے۔
شرح عقائد میں ہے:
وما وقع بینھم من المنازعات و المحاربات فلہ محامل و تاویلات فسبھم والطعن فیھم ان کان مما یخالف الا دلة القطعیة فکفر کقذف عائشة و الا بدعة و فسق
(شرح العقائد: صفحہ، 112)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جو اختلافات اور محاربات واقع ہوئے ان سب کے اپنی اپنی جگہ حل موجود ہیں اور ان کی ایسی توجیہات کی جا سکتی ہیں کہ ہر ایک کا اپنا مقام برقرار رہے، ان بزرگوں کی شان میں طعن کرنا اگر دلائلِ قطعیہ یقینیہ کے خلاف ہو جیسا کہ حضرت عائشہؓ پر بہتان باندھنا تو یہ یقیناً کفر ہے اور اگر دلائلِ قطعیہ کی مخالفت نہیں، اخبارِ آحاد کے خلاف ہے تو یہ بھی بدعت اور بدکاری ہے۔
(عبقات: صفحہ، 54 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جو اختلافات ہوئے وہ رائے اور فہم کے اختلاف سے ہوئے، بدنیتی کسی کے شاملِ حال نہ تھی، اگر کسی نے کسی کو خطاء پر کہا ہے تو ظنی جہت سے ہے، یقینی طور پر ہم کسی کو خطا پر نہیں کہہ سکتے:
لا یجوز ان ینسب الیٰ احد من الصحابة خطاء مقطوع بہ و کانوا کلھم اجتھدوا فیما فعلوہ و ارادوا اللّٰہ عزوجل وھم کلھم لنا ائمة وقد تعبدنا بالکف عما شجر بینھم
(الجامع لاحکام القرآن: جلد، 16 صفحہ، 361)
ترجمہ: یہ جائز نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان اختلافات میں ہم کسی طرف قطعی خطا کی نسبت کریں، ہر ایک نے جو کچھ کیا اپنے اجتہاد سے کیا، اور سب کی مراد اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا تھا اور وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب ہمارے پیشوا ہیں، ان کے اختلافات سے زبان کو بند رکھنے میں ہم خدا کی رضا جانتے ہیں۔
تاویل معلوم نہ ہو تو باتفاقِ اہلِ سنت، توقفِّ اور کف لسان واجب ہے
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ (561ھ) اس باب میں تفویض کے قائل معلوم ہوتے ہیں، آپ کہتے ہیں، ان کے اختلاف کو اللہ کے سپرد کیا جائے اور خطا و صواب کے فیصلے ہم خود نہ کریں۔
تسلیم امرھم الی اللہ عزوجل علیٰ ما کان و جری من اختلاف علی و طلحة و الزبیر و عائشة و معاویة رضی اللّٰہ عنھم
(غنیة الطالبین: صفحہ، 140)
ترجمہ: ان کا معاملہ جیسا بھی رہا اسے اللہ کے سپرد کیا جائے، سیدنا علیؓ، سیدنا طلحہؓ، سیدنا زبیرؓ، سیدہ عائشہؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے معاملات کا یہی حکم ہے۔
حضرت حسن بصریؒ (110ھ) جو سیدنا علی مرتضیٰؓ کے خلیفہ ہیں، ان کا مسلک بھی توقف ہی معلوم ہوتا ہے۔
قتال شھدہ اصحاب محمد و غبنا و علموا و جھلنا و اجتمعوا فاتبعنا و اختلفوا فوقفنا
(الجامع لاحکام القرآن جلد، 16 صفحہ، 322)
ترجمہ: یہ ایسی جنگ تھی جس میں حضورﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سامنے تھے اور ہم وہاں نہ تھے، انھوں نے معاملے کو جانا اور ہم ناواقف رہے، جس پر یہ متفق رہے ہم نے اس کی پیروی کی اور جب ان میں اختلاف ہوا تو ہم نے توقف کیا۔
اگر ان میں سے کسی ایک جانب صواب متعین بھی ہو جائے تو بھی دوسری جانب اعتراض جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ مجتہد خطا کی صورت میں ایک اجر پھر بھی پائے گا، حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ (852ھ) لکھتے ہیں کہ اس پر اہلِ سنت والجماعت کا اجماع ہے:
و اتفق أہل السنة علی وجوب منع الطعن علی أحد من الصحابة بسبب ما وقع لہم من ذلک ولو عرف المحق منہم لأنہم لم یقاتلوا فی تلک الحروب الا عن اجتہاد وقد عفا اللّٰہ تعالی عن المخطء فی الاجتہاد بل ثبت أنہ یؤجر أجرا واحدا وان المصیب یؤجر أجرین
(فتح الباری شرح صحیح البخاری: جلد، 13 صفحہ، 34 المؤلف: أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر: دار المعرفة بیروت، 1379 تحقیق: أحمد بن علی بن حجر ابوالفضل العسقلانی الشافعی عدد الأجزاء: 13)
ترجمہ: اہلِ سنت کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس سلسلہ میں جو کچھ بھی واقع ہوا اس کے باعث کسی صحابیؓ پر اعتراض سے اجتناب کرنا واجب ہے، اگرچہ ان میں راہِ صواب پہچان بھی لیا جائے، کیونکہ وہ ان جنگوں میں اجتہاد کے باعث مبتلا ہوئے (کہ امت کی بھلائی کس میں ہے)، اپنی ذات یا خود غرضی کی راہ سے نہیں اور اللہ پاک نے اجتہاد میں خطا کرنے والے کو معاف کر دیا ہے، بلکہ ثابت ہے کہ ان کو ایک اجر ملے گا، اور صواب تک پہنچنے والے مجتہد کو دوہرا ثواب ملتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد حضرت ابومیسرہ عمرو بن شرحبیلؒ کا ایک خواب کتبِ حدیث میں نقل کیا گیا ہے:
”وہ کہتے ہیں، میں نے دیکھا کہ میں جنت میں ہوں اور میں نے اپنے سامنے خیمے لگے دیکھے، میں نے پوچھا یہ کن کا ڈیرہ ہے، مجھے بتایا گیا ذی الکلاع اور حوشب کا۔ یہ دونوں جنگِ صفین میں سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ میں نے پوچھا حضرت عمارؓ اور ان کے ساتھی کہاں ہیں، جواب ملا، آگے دیکھو۔
قال قلت سبحان اللّٰہ وقد قتل بعضہم بعضا فقال إنہم لقوا اللّٰہ فوجدوہ واسع المغفرة
(سنن البیہقی الکبریٰ: جلد، 8 صفحہ، 174 حدیث نمبر: 16497 المؤلف: أحمد بن الحسین بن علی بن موسیٰ أبوبکر البیہقی الناشر: مکتبة دار الباز مکة المکرمة، 1414ھ، 1994ء م تحقیق: محمد عبدالقادر عطا عدد الأجزاء: 10)
ترجمہ: میں نے پوچھا، سبحان اللہ! یہ کیسے ہوا؟ ان میں سے تو بعض نے بعض کو قتل کیا تھا؟ جواب ملا، جب یہ سب باری تعالیٰ کے حضور پہنچے تو انھوں نے اس کی مغفرت کو بے حد وسیع پایا۔
اللہ کی وسیع مغفرت سے مراد نیتوں پر فیصلے کرنا ہے، نیک نیت خطاکار بھی اس کے یہاں اجر پا لیتا ہے، بشرطیکہ اس نے نفس سے نہیں سوچ سمجھ کر کوئی راہ اختیارکی ہو۔ یہ سب معاملات اور اختلافات کچھ اس طرح واقع ہوئے کہ یہ حضرات اپنی اصل سے نہیں ہٹے، نہ امت سے کٹے، خون ریزی پر بھی اترے تو امت کی بقاء کے لیے اور پھر معاونت پر آئے تو وہ بھی امت کی اصلاح کے لیے اور پھر آپس میں متحد ہوئے تو وہ بھی اپنی اصل سے وفا کے لیے۔ ان کے اختلافات کو مشاجرات اسی لیے کہتے ہیں کہ درخت ایک ہی رہا جس کے گرد یہ جمع ہیں، بس اس کی پتیاں اور شاخیں آپس میں ٹکراتی رہیں، باہر سے کوئی ان کے تار نہیں ہلا رہا تھا، نہ یہ کہ ان کے دل پاک نہ تھے۔
(عبقات: صفحہ، 472 تا 475 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ (100ھ) نے بھی امتِ اسلامیہ کو نصیحت فرمائی ہے:
امر اخرج اللّٰہ ایدیکم منہ ماتعملون السنتکم فیہ
(الطبقات الکبریٰ: جلد، 5 صفحہ، 382 المولف: ابو عبداللہ محمد بن سعد بن منیع الہاشمی بالولاء، البصری، البغدادی المعروف بابنِ سعد (المتوفیٰ: 230ھ) المحقق: احسان عباس الناشر: دار صادر بیروت، الطبعة: 1، 1968ء م عدد الأجزاء: 8)
ترجمہ: یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں کو محفوظ رکھا، اب تم اپنی زبانوں کو اس میں کیوں ملوث کر رہے ہو؟
(عبقات: صفحہ، 472 تا 475 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
امام شافعیؒ نے مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ فیصلہ دیا:
تلک دماء اطھر اللّٰہ عنھا ایدینا فلنطھر عنھا ألسنتنا
(شرح مواقف: جلد، 1 صفحہ، 445)
ترجمہ: یہ وہ خون تھے کہ اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو ان سے بچائے رکھا، پس چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو بھی ان خون ریز اختلافات سے بچائے رکھیں۔
امام ابوجعفر الطحاویؒ (328ھ) لکھتے ہیں:
و نحب اصحاب رسول اللّٰہ ولا نفرط فی حب احد منھم ولا نتبرا من احد منھم و نبغض من یبغضھم و بغیر الخیر من یذکرھم ولا نذکرھم الا بخیر وحبھم دین و ایمان و احسان و بغضھم کفر و نفاق و طغیان
(العقیدة الطحاویة بحوالہ خلفاء راشدین)
ترجمہ: ہم اصحابِ رسولﷺ سے محبت رکھتے ہیں، نہ کسی کی محبت میں غلو کرتے ہیں اور نہ کسی سے برأت ظاہر کرتے ہیں، جو ان سے بغض رکھے یا غلط طور پر ان کا ذکر کرے ان سے ہم بغض رکھتے ہیں، ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا صرف ذکرِ خیر کرتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر و نفاق اور طغیان ہے۔
حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ (463ھ) تحریر فرماتے ہیں:
فھم خیرالقرون وخیر امة اخرجت للناس ثبتت عدالة جمیعھم بثناء اللّٰہ عزوجل علیھم انما وضع اللّٰہ عزوجل اصحاب رسولہ الموضع الذین وضعھم فیہ بثنائہ علیھم من العدالة والدین والامامة لتقوم الحجة علیٰ جمیع اھل الملة بما راوہ عن نبیھم من فریضة و سنة
(الاستیعاب: جلد، 1 صفحہ، 2، 7)
 ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین دور کے لوگ ہیں اور بہترین امت ہیں جو سب لوگوں کے رہنما ٹھہرے ان سب کا عادل ہونا اس طرح ثابت ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان سب کی ثنا کی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو اس مقام پر رکھا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کی عدالت، دیانت اور امامت کی خود ثنا کی ہے، تاکہ تمام اربابِ ملل پر دین کی حجت قائم ہو جائے، ان کے اپنے نبی کریمﷺ سے فرائض و سنن کی روایت کرنے میں۔
ابو منصور البغدادیؒ لکھتے ہیں:
و اما معاویة فھو من العدول الفضلاء والصحابة الاخیار والحروب التی جرت بینھم کانت لکل طائفة شبھة اعتقدت تصویب نفسھا بسببھا وکلھم متاولون فی حروبھم ولم یخرج احد منھم من العدالة لانھم مجتھدون
(الاستیعاب: جلد، 1 صفحہ، 7)
ترجمہ: حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ عادل فاضل اور اخیار صحابہ میں سے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جو جنگیں ہوئیں وہ اس طرح ہوئیں کہ ان میں سے ہر ایک گروہ ایک شبہے میں گھرا تھا، جس میں وہ اپنے آپ کو اجتہاداً حق پر سمجھتا تھا اور وہ اپنی اپنی جنگوں میں مقامِ تاویل پر تھے اور اس طرح ان میں سے کوئی اپنے مقامِ عدالت سے نہیں گرا اس لیے کہ وہ سب کے سب ان اختلافات میں مقامِ اجتہاد پر تھے۔
حافظ ابنِ عساکرؒ (571ھ) خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فھٰؤلاء الائمة بعد رسول اللّٰہﷺ و خلافتھم خلافة النبوة ونشھد للعشرة بالجنة الذین شھد لھم رسول اللہﷺ و نتولی للعشرة بالجنة الذین شھد لھم رسول اللّٰہﷺ و نتولی سائر اصحاب النبیﷺ و نکف عما شجر بینھم وندین اللّٰہ ان الائمة الاربعة راشدون مھدیون فضلاء لا یوازیھم فی الفضل غیرھم و نصدق بجمیع الروایات التی ثبتت عند اھل النقل
(ابنِ عساکر: صفحہ، 160، 161)
ترجمہ: یہ حضرات رسول اللہﷺکے بعد امت کے امام ہیں اور ان کی خلافت خلافتِ نبوت ہے اور ہم ان دس حضرات کرام رضی اللہ عنہم کے لیے جنت کی شہادت دیتے ہیں، جن کے لیے حضور اکرمﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے اور ہم تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں اور ان میں جو اختلاف ہوئے ہم ان سے زبان بند رکھتے ہیں اور ہم اللہ کو اس پر گواہ لاتے ہیں کہ یہ چاروں حضراتؓ رشد و ہدایت پر رہے، علم و فضل میں یہ ایسے ہیں کہ کوئی ان کے برابر نہیں اترتا اور ہم ان تمام روایات کی تصدیق کرتے ہیں جنہیں محدثین (اہلِ نقل) نے ثابت فرمایا ہے۔
علامہ سعدالدین تفتازانیؒ (791ھ) لکھتے ہیں:
مما روی فی الاحادیث الصحیحة من مناقبھم و وجوب الکف عن الطعن فیھم لقولہ علیہ السلام اکرموا اصحابی فانھم خیارکم الحدیث ولقولہ علیہ السلام لا تتخذوا غرضاً من بعدی
(شرح عقائد نسفی، مرقاة: جلد، 5 صفحہ، 517)
ترجمہ: احادیثِ صحیحہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جو مناقب مروی ہیں، ان کی رو سے ان پر زبان طعن کو روکے رکھنا واجب ہے، حضور اکرمﷺ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ارشاد ہے:
میرے صحابہ کی عزت کرو، یہ بیشک تم میں بہترین لوگ ہیں اور حضور اکرمﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میرے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی اعتراض کا نشانہ نہ بنانا۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ (852ھ) لکھتے ہیں:
اتفق اھل السنة علیٰ ان الجمیع عدول فی ذلک الاشذوذ من المبتدعة
(الاصابة: جلد، 1 صفحہ، 11)
ترجمہ: تمام اہلِ سنت اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں اور اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا، سوائے چند مبتدعین کے۔
سو ان میں سے کسی پر کوئی جرح نہ کی جائے، یہ گواہ کسی طرح مجروح نہ ہونے پائیں، حافظ ابنِ حجرؒ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرح کرنے کو بدعتیوں کا نشان بتایا ہے، اس لیے آج بھی جو اُن پر جرح کریں ان کے بدعتی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
حافظ ابنِ ہمام الاسکندریؒ (861ھ) لکھتے ہیں:
واعتقاد اھل السنة والجماعة تزکیة جمیع الصحابة رضی اللّٰہ عنھم وجوباً باثبات العدالة لکل منھم والکف عن الطعن والثناء علیھم کما اثنیٰ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ علیھم
(المسائرة: صفحہ، 130)
ترجمہ: اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تزکیہ یافتہ ماننا لازم ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا عادل ہونا ثابت ہے اور ان پر ہر طرح کے طعن سے رکنا اور ان کی ثنا خوانی کرتے رہنا جیسا کہ اللہ نے قرآن میں ان کی ثنا کی ہے لازم ہے۔
بحرالعلوم ملا محمد عبدالعلی لکھنویؒ (1225ھ) بھی لکھتے ہیں:
واعلم ان عدالة الصحابة الداخلین فی بیعة الرضوان والبدریین کلھم مقطوع العدالة لایلیق لمؤمن ان یمترا فیھا والواجب علینا ان نکف عن ذکرھم الا بخیر
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت: جلد، 2 صفحہ، 156)
ترجمہ: جان لو کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو بیعتِ رضوان میں شامل تھے اور جو بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، یہ سب قطعی طور عادل ہیں کسی مؤمن کو یہ حق نہیں کہ وہ اس میں کسی طرح کا کوئی شک کرے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کے بارے میں سوائے ان کی مدح و ثنا کے ہر طرح سے زبان بند رکھیں۔
غرض تمام ائمہ و اعلام کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کلمہ خیرکے سوا ہر بات سے زبان بند رکھی جائے، اس کا حاصل اس کے سوا کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی میں مؤمن کی زبان نہ کھلے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی عمل ان کی شان کے خلاف صادر ہو تو اس کی تنقیح یا تاویل کی جائے گی، انھیں اعتماد کی سطح سے گرایا نہیں جائے گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینِ اسلام کو آگے نقل کرنے میں جرح سے بالا اور سب اہلِ ملت پر حجت سمجھے گئے ہیں، ان کی مدح و ثنا کا اقرار اس امت میں تسلسل سے چلا آ رہا ہے، سو اس قدر مشترک کا تحفظ اس طرح سے رہ سکتا ہے کہ ان پر کسی قسم کی جرح سے زبان اور قلم کو روکا جائے۔
علماء حق تاریخ کے ہر دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تزکیہ ان کی عدالت و دیانت اور ان کا ہر جرح سے بالا ہونا اس کثرت سے بیان کرتے آئے ہیں کہ اس پر تمام اکابرینِ امت کا صدی وار اجماع قائم ہے، اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس اجماع سے نکلے اور کسی صحابیؓ پر زبان جرأت دراز کرے، اعاذنا اللہ منھا
(خلفاء راشدین: جلد، 2 صفحہ، 487 تا 497 مؤلفہ علامہ خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والا خارج از اسلام:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کبھی اس درجہ میں ہوتا ہے کہ کفر تک پہنچ جاتا ہے جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانا، ائمہ مجتہدین اور علماء صالحین میں سے کسی نے حضرت امیرِ معاویہؓ اور ان کے رفقاء پر لعنت کی اجازت نہیں دی ہے۔ 
شرح عقائد کی شرح النبراس میں ہے:
و الطعن فیھم ان کان مما یخالف الادلة القطعیة فکفر کقذف عائشة وبالجملة لم ینقل عن السلف المجتھدین والعلماء الصالحین جواز اللعن علیٰ معاویة و احزابہ
(النبراس بحوالہ خلفاء راشدین: جلد، 2 صفحہ، 491)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی پر کوئی طعن کرنا اگر دلائلِ قطعیہ کے خلاف ہو تو یہ کفر ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانا اور سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی سے حضرت امیرِ معاویہؓ اور ان کے احباب پر لعنت کرنے کا جواز منقول نہیں ہے۔
حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ جس نے حضور اکرمﷺ کے صحابہ سے دل میں کوئی بوجھ رکھا وہ اسلام سے نکل گیا:
ومن ہذہ الآیة انتزع الإمام مالک رحمۃ اللہ فی روایة عنہ بتکفیر الروافض الذین یبغضون الصحابة، قال: لأنہم یغیظونھم ومن غاظ الصحابة فھو کافر لھذہ الآیة و وافقہ طائفة من العلماء علی ذلک والأحادیث فی فضائل الصحابة والنھی عن التعرض لھم بمساءة کثیرة ویکفیھم ثناء اللّٰہ علیہم، ورضاہ عنہم
(تفسیر القرآن العظیم: جلد، 7 صفحہ، 362 المؤلف: ابو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی (المتوفیٰ: 774ھ) المحقق: سامی بن محمد سلامة، الناشر: دار طیبة للنشر والتوزیع الطبعة: الثانیة 1420ھ 1999ء م، عدد الأجزاء: 8)
حافظ ابو زرعہ رازیؒ (264ھ) لکھتے ہیں:
واذا رایت الرجل ینتقص احدا من اصحاب رسول اللہﷺ فاعلم انہ زندیق وھٰؤلاء یریدون ان یخرجوا شھودنا لان یبطلوا الکتاب والسنة والجرح بھم اولیٰ وھم زنادقة
(الاصابة: صفحہ، 11)
ترجمہ: تم جب کسی شخص کو دیکھو کہ وہ حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کی بھی تنقیص کر رہا ہے توجان لو کہ وہ زندیق ہے (ملحد ہے)۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے دین کے گواہوں پر جرح کر کے کتاب و سنت کو اڑا کر رکھ دیں یہ لوگ خود جرح کے زیادہ لائق ہیں اور یہ سب کے سب زندیق ہیں۔
(خلفاء راشدین: جلد، 2 صفحہ، 487 تا 497 مؤلفہ علامہ خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
اس اصولی بحث کے بعد ہم ایک نظر موضوع کی بعض تفصیلات پر ڈالتے ہیں، جس سے علماء اسلام کے مذکورہ مؤقف کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علمی اختلافات:
جہاں تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علمی و فکری اختلافات کا تعلق ہے تو بلاشبہ ان کے درمیان اس نوع کے بے شمار اختلافات ہوئے، بلکہ ان علمی اور اجتہادی اختلافات کا سر رشتہ خود عہدِ نبوت ہی سے ملتا ہے، جیسا کہ بنو قریظہ میں عصر پڑھنے کے واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے، مگر یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے، خود سرکارِ دو عالمﷺ نے دونوں فریق کی تصویب فرمائی۔
(لا یصلین أحد العصر إلا فی بنی قریظة فأدرک بعضہم العصر فی الطریق فقال بعضہم لا نصلی حتی نأتیہا وقال بعضہم بل نصلی لم یرد منا ذلک فذکر للنبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم فلم یعنف واحدا منہم (الجامع الصحیح المختصر المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی الناشر: دار ابنِ کثیر، الیمامة بیروت الطبعة الثالثة، 1407ھ 1987ء تحقیق: د مصطفیٰ دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومہ فی کلیة الشریعة جامعة دمشق عدد الأجزاء: 6 مع الکتاب: تعلیق د مصطفیٰ دیب البغا)
 ظاہر ہے کہ جس امت کو اجتہاد جیسا سرچشمہ قانون عنایت کیا گیا، وہاں فکر و رائے کا اختلاف عینِ قرین عقل و فطرت ہے، چنانچہ عہدِ نبوت کے بعد بھی یہ اختلافات جاری رہے، کتبِ حدیث میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک دوسرے پر مناقشات پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، مگر یہ قسم یہاں زیر بحث نہیں ہے۔
سیاسی اختلافات اور مشاجرات:
یہاں زیرِ بحث وہ اختلافات ہیں جو سیاسی اور حربی نوعیت کے ہیں، جن میں زبان کے ساتھ ساتھ شمشیر و سنان کی طاقت بھی استعمال ہوئی، اور انھیں کو مشاجرات کا نام دیا گیا، لیکن غور کیجیے تو یہ اختلافات بھی بہت بعد کی پیداوار ہیں، حضرت عثمانؓ کی شہادت سے قبل اس طرح کا کوئی بڑا اختلاف رونما نہیں ہوا تھا، سیدنا عثمانؓ کی خلافت کے آخری دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد عام مسلم آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہو گئی تھی، اس لیے جو اختلافات رونما ہوئے اس کا سبب براہِ راست خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں تھے، بلکہ ان میں بڑا دخل ان مسلمانوں کا تھا جو شرفِ صحابیت سے محروم تھے، اس لیے ان اختلافات کو براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف نہیں کہا جا سکتا۔
خود امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سانحہ شہادت بھی مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ضمن میں نہیں آتا، اس لیے کہ آپؓ کے قتل میں کوئی صحابی رسولﷺ شریک نہیں تھے، امام نوویؒ لکھتے ہیں:
ولم یشارک فی قتلہ أحد من الصحابة، وإنما قتلہ ہمج، ورعاع من غوغاء القبائل سفلة الأطراف والأراذل، تحزَّبوا، و قصدوہ من مصر، فعجزت الصَّحابة الحاضرون عن دفعہم، فحصروہ حتی قتل، رضی اللّٰہ عنہ ، وقد وصفہم الزبیر رضی اللہ عنہ بأنہم غوغاء من الأمصار، ووصفتہم السیَّدة عائشة بأنَّہم نزَّاع القبائل
(شرح النووی علی صحیح مسلم: جلد، 15 صفحہ، 148 مؤلف کتاب علامہ خالد محمود نے حافظ ابنِ کثیرؒ (676ھ) لکھا ہے، لیکن غالباً یہ سہو کاتب ہے، مجھے ابنِ کثیرؒ کی کسی شرح مسلم کا پتہ نہ چل سکا۔)
ترجمہ: سیدنا عثمانؓ کے قتل میں کوئی صحابیؓ شریک نہیں ہوا، آپؓ کو قتل کرنے والے نچلے درجے کے لوگ تھے، یہ فساد پیدا کرنے والے قبائل اور جنگی قسم کے رذیل لوگ تھے، جو جتھا بن کر آئے اور انھوں نے آپؓ پر حملہ کیا اور وہاں پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انھیں روکنے سے عاجز رہے، سیدنا زبیرؓ نے فرمایا کہ یہ مختلف شہروں کے شرپسند لوگ تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مختلف قبائل کے چھٹے ہوئے لوگ تھے۔
اختلافات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں نہیں، مخلوط جماعت میں پیدا ہوئے:
حقیقت یہ ہے کہ امت کے معاملات جب تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کے سپرد رہے اسلامی معاشرہ بیشک اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ (جو قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں کہا گیا ہے) کا مظہر بنا رہا، لیکن یہ حالت اسی دور تک رہی جب تک امتِ مسلمہ زیادہ تر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت پر مشتمل تھی، آنحضرتﷺ کی وفات شریفہ کا زمانہ جوں جوں دور ہوتا گیا، امتِ مسلمہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد کم ہوتی گئی اور دوسرے مسلمان جو صحابی نہ تھے، اکثریت بنتے چلے گئے، اب ایسے دور کے مسلمان اگر رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کا مظہر نہ رہیں، تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جماعتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس صفت کی آئینہ دار نہیں رہی، بلکہ دیکھا جائے تو ایسے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجموعی حیثیت یا تنظیم کسی محسوس صورت میں ملتی ہی نہیں، وہ اگلے دور کے مسلمانوں میں اس طرح ملے جلے نظر آتے ہیں کہ اس دور کے فیصلے نہ جماعتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فیصلے سمجھے جا سکتے ہیں اور نہ ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات کہا جا سکتا ہے، اس بات سے انکار نہیں کہ ان اختلافات نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں سے شہرت حاصل کی، لیکن یہ اختلافات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کا اختلاف نہیں کہلا سکتے، کیونکہ اس وقت کی جماعتی زندگی پر غیر صحابہ کا غلبہ اور تسلط تھا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ کے دور میں جماعتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بجائے غیر صحابہ کا غلبہ تھا اور وہ بھی زیادہ تر وہی لوگ تھے، جو سیدنا علی المرتضیٰؓ کے کہنے سننے میں نہ تھے، ہمیں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے اس دور کے متعدد ایسے خطبے ملتے ہیں جن میں وہ اپنی مجبوری اور ان لوگوں کی سینہ زوری کے بہت شاکی نظر آتے ہیں، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں:
یملکوننا ولانملکھم(نہج البلاغة: جلد، 2 صفحہ، 98)
ترجمہ: یعنی یہ لوگ اپنا حکم ہم پر چلاتے ہیں اور ہماری نہیں سنتے۔
ایسے لوگوں کی معیت اگر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بدگمان کیے رکھے اور یہ لوگ ہر وقت ایسے مواقع کی تاک میں رہیں اور باہمی معاملات میں اختلاف و انشقاق کے کانٹے بوتے رہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔
(عبقات: صفحہ، 54 مولفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
جیسا کہ جنگِ صفین میں حضرت عائشہؓ جنگ کے لیے نہ آئی تھیں، بلکہ بطور اُم المؤمنین بیٹوں میں مصالحت کرانی پیشِ نظر تھی، لیکن غلطی سے یہ جنگ میں تبدیل ہو گئی، جس کا سیدہ عائشہؓ کو ہمیشہ افسوس رہا۔
(تجلیات آفتاب: جلد، 1 صفحہ، 176 مؤلفہ علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ لاہور، 1431ھ مطابق 2010ء)
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد ان جنگوں سے علیحدہ رہی، حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ (852ھ) لکھتے ہیں:
وکان من الصحابة فریق لم یدخلوا فی شئی من القتال
(الاصابة: جلد، 2 صفحہ، 502)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے لوگ بھی تھے جو ان میں سے کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔
اور شرح عقیدۀ طحاویہ میں ہے:
وقعد عن القتال اکثر الاکابر
(شرح عقیدۀ طحاویہ صفحہ، 441)
ترجمہ: اور اکثر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان خون ریز جنگوں سے علیحدہ رہے۔
(عبقات: صفحہ، 472 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے حق میں بے حد مخلص اور خیر خواہ تھے۔
غرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جن اختلافات کا ذکر کیا جاتا ہے وہ درمیانی لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوئے اور محض غلط فہمیوں کی بنیاد پر بعض ناخوش گوار واقعات پیش آ گئے، ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باہم ایک دوسرے کے حق میں بے حد خیر خواہ اور مخلص تھے اور اگر غلطی سے کسی کے حق میں زیادتی ہو جائے تو اس سے درگزر کرنے والے تھے، اس کی ایک مثال خود عہدِ نبوتﷺ میں پیش آئی:
جنگِ احد میں حضورﷺ کی شہادت کی جھوٹی افواہ پھیلنے سے ایک افراتفری کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی، اس میں بعض مسلمان بھی خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید ہوئے، ان میں ایک حضرت حذیفہ بن یمانؓ کے والد بھی تھے، حضرت حذیفہؓ نے دور سے آواز دی کہ یہ میرے والد ہیں، مگر افراتفری میں وہ آواز سنی نہ جا سکی اور حضرت یمان شہید ہو گئے۔ 
(تاریخ طبری: جلد، 3 صفحہ، 26)
اب حضرت حذیفہؓ کی شان معافی دیکھیے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب کہا کہ خدا کی قسم! ہم نے ان کو پہچانا نہیں تھا، تو انھوں نے وہی بات کہی جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی:
يَغۡفِرُ اللّٰهُ لَـكُمۡ‌ وَهُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‏ ۞
(سورۃ يوسف: آیت، 92)
ترجمہ: اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
حضور اکرمﷺ نے سیدنا یمانؓ کاخون بہا بیت المال پر ڈالنا چاہا کہ یہ قتل خطا تھا، مگر سیدنا حذیفہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، وہ جانتے تھے کہ جو کچھ ہوا افراتفری کے عالم میں ہوا، اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ میں اس پر دیت لوں، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنا حق معاف کر دیا اللہ پاک کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس نے ان سب سے جن سے احد کے دن غلطی ہوئی تھی اپنی گرفت اٹھا لی اور سب کو معاف کر دیا۔
(تجلیات آفتاب: جلد، 1 صفحہ، 200، 201 مؤلفہ علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ لاہور، 1431ھ مطابق 2010ء۔)
حضور اکرمﷺ کے بعد بھی ان کا یہ باہمی اخلاص و تعلق برقرار رہا اور براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک دوسرے کے خلاف غلط الفاظ استعمال نہیں کیے اور نہ کبھی اپنی سطح سے نیچے اتر کر انتقامی کاروائیوں میں ملوث ہوئے۔
تاریخی روایات کے ذریعہ کسی صحابیؓ کو مطعون کرنا درست نہیں۔
جہاں تک ان تاریخی روایات کا تعلق ہے جن کے ذریعے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات کو مجروح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو اولاً قرآن و حدیث کے نصوصِ قطعیہ اور اجماعِ امت سے ثابت شدہ مؤقف کے مقابلے میں تاریخی روایات کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اس لیے کہ تاریخی روایات کے ضبط و اندراج میں اس معیار کو نہیں اپنایا گیا جو احادیث کے جمع و تحقیق میں اختیار کیا گیا تھا، بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ پر ابتدا سے لے کر بعد تک جتنی کتابیں لکھی گئیں ان میں ایک بھی مستند کتاب نہیں ہے،
علامہ خالد محمودؒ نے اس تاریخی حقیقت کو بہت مدلل طور پر پیش کیا ہے، لکھتے ہیں:
تاریخ اسلام کی کوئی مستند کتاب موجود نہیں ہے۔
اسلامی ذخیرۀ کتب میں تاریخِ اسلام کی ایک بھی ایسی مستند کتاب نہ ملی جسے مستزد تاریخِ اسلام کہا جا سکے، ہاں ان ادوار میں بعض مؤرخین ایسے ضرور ہوئے ہیں جو اپنے علم، محنت، شخصیت اور جمع روایات میں مستند مانے گئے ہیں، لیکن انھوں نے بھی اپنی جملہ روایات کو کبھی مستند ہونے کی سند نہیں دی، مؤلفین کا مستند ہونا اور بات ہے اور ان کی جمیع مرویات کا مستند ہونا اور بات ہے۔
اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جب مسلمان اپنے عہدِ اول کی کوئی مستند تاریخِ اسلام مرتب نہ کر پائے تو مسلمان بطور ایک قدیم قوم کے کیسے آگے چل سکیں گے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین کے قیام میں کتاب و سنت کے پابند کیے گئے تھے، تاریخ کے نہیں، حضور اکرمﷺ نے اپنے سفرِ آخرت سے پہلے امت کو نصیحت کی:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ و سنة نبیہ
(موطا امام مالک: صفحہ، 363)
سو دورِ اول کی کوئی مستند تاریخ اسلام نہ ملنے سے دین میں کوئی کمی نہیں آتی، نہ قیامِ نظامِ اسلامی میں اس سے کوئی مشکل در پیش ہوتی ہے۔
مؤرخین میں حافظ محمد ابنِ سعد، علامہ طبریؒ ؒ(310ھ)، حافظ ابنِ عبدالبرؒ (463ھ)، حافظ ابنِ عساکرؒ (571ھ) ابنِ اثیرؒ (606ھ)، ابنِ کثیرؒ (774ھ) اور علامہ ابنِ خلدونؒ (808ھ) بے شک بلند پایہ مؤرخین گزرے ہیں، لیکن ان کے مجموعۂ تاریخ کو کبھی پوری طرح مستند نہیں مانا گیا، یہ حضرات اپنے راویوں سے کئی کئی طرح کی روایات لائے ہیں اور دروغ بر گردن راوی کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے انھوں نے اہلِ کذب راویوں سے بچنے میں کوئی زیادہ احتیاط نہیں کی، بد مذہب اور جھوٹے راویوں کی جانچ پڑتال کیے بغیر انھیں اپنی کتابوں میں جگہ دے دی، اب ہم ان کی روایات کو قرآن و حدیث سے ملی معلومات اور اصولِ درایت پر پرکھے بغیر قبول نہ کر سکیں گے، انھیں یہ کہہ کر کبھی قبول نہ کیا جا سکے گا کہ یہ روایات تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخِ اسلام کی کوئی کتاب بذاتِ خود مستند نہیں مانی گئی، ان سے تاریخی مواد تو ضرور ملتا ہے، لیکن بلا دیکھ بھال اور راویوں کی پڑتال کیے بغیر ان سے مستند تاریخ ہمیں نہیں ملتی اور جو مؤلفین ان کتابوں کو تاریخ کی مستند کتابیں سمجھتے ہیں وہ ان کتابوں اور ان کے مؤلفین کے طرزِ تالیف سے یکسر بےخبر ہیں۔ علماء امت نے دین کو ہمیشہ کتاب و سنت کے چشموں سے لیا ہے، عقائد کی ترتیب میں تاریخ کو کوئی اساسی حیثیت نہیں دی۔
دیکھیے علامہ طبریؒ اپنی کتاب تاریخ الرسل والملوک میں غلط راویوں کی دی گئی روایات کی ذمہ داری سے اس طرح نکلتے ہیں:
فلیعلم انہ لم یات فی ذلک من قبلنا وانما اتیٰ من قبل بعض ناقلیہ الینا
(تاریخ الرسل و الملوک: جلد، 1 صفحہ، 3 المؤلف: محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، ابو جعفر الطبری (المتوفیٰ: 310ھ)
ترجمہ: جان لیجیے کہ ایسی باتیں اس میں ہماری طرف سے نہیں آئیں یہ اس کے بعض راویوں سے ہم تک آئی ہیں۔
علامہ طبریؒ نے واقدی جیسے مؤرخین سے جو روایات نقل کی ہیں ان کی ذمہ داری دروغ بر گردن راوی کے اصول پر واقدی پر آتی ہے، علامہ طبریؒ ان کی ذمہ داری لیتے تو انھیں واقدی کے نام سے روایت نہ کرتے، حضرت عثمانؓ کے خلاف یورش کرنے والے باغی جب مصر سے مدینہ کی طرف چلے تو طبریؒ نے ان کے کوائف واقدی کے حوالے سے پیش کیے ہیں اور ان میں بھی مؤرخ طبری یہ بات کہہ گئے ہیں:
”واقدی نے مصریوں کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف نکلنے کی بہت سی باتیں لکھی ہیں ان میں سے بعض کے ذکر سے میں نے اعراض کیا ہے، مجھے ان کی قباحت و شناعت کے سبب ان کے ذکر کرنے سے گھن آتی ہے۔ (ترجمہ)
(تاریخ طبری: جلد، 3 صفحہ، 391)
جب طبریؒ کا یہ حال ہے تو دوسرے مؤرخین کا کیا حال ہو گا، جو روایتیں گھڑنے سے مطلقاً حیا نہیں کرتے، قاضی ابوبکر ابن العربی (543ھ) لکھتے ہیں:
ولاتسمعوا لِمُؤرخٍ کلاماً الا للطبری فانھم ینشؤون أحادیث فیھا استحقارة الصحابة والسلف والاستخفاف بھم
(العواصم: صفحہ، 247)
ترجمہ: تم ان ابواب میں طبری کے علاوہ کسی مؤرخ کی کوئی بات نہ سنو، وہ ایسی حدیثیں خود گھڑتے ہیں جن سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کی تحقیر ہوتی ہے اور ان کے بارے میں استخفاف لازم آتا ہے۔
قاضی صاحبؒ کی یہ وصیت آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے:
فاقبلوا الوصیةَ ولا تلتفتوا الا ما صح من الأخبار و اجتنبوا أھل التواریخ
(العواصم: صفحہ، 245)
ترجمہ: میری یہ وصیت پلے باندھو، ان روایات کی طرف ہرگز دھیان نہ کرو، سوائے ان اخبارِ صحیحہ کے جو صحیح طور پر ہم تک پہنچیں اور ان اہلِ تاریخ سے پوری طرح بچو۔
البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ امام زہریؒ کے شاگرد موسیٰ بن عقبہ جو امام مالکؒ کے استاد تھے، انھوں نے دوسروں کی نسبت صحتِ روایت کا کچھ التزام کیا ہے، لیکن افسوس کہ یہ کتاب عام شائع نہ ہو سکی، علامہ شبلیؒ لکھتے ہیں:
”موسیٰ کی کتاب آج موجود نہیں، لیکن ایک مدت تک شائع و ذائع رہی ہے اور سیرت کی تمام قدیم کتابوں میں کثرت سے اس کے حوالے آتے ہیں۔
(سیرت النبیﷺ: جلد، 1 صفحہ، 23)
حافظ ابنِ تیمیہؒ (724ھ) اور حافظ ابنِ کثیرؒ (774ھ) بھی تاریخ کے ان ذخیروں کو مستند تسلیم نہیں کرتے۔حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں:
المؤرخون الذین یکثرون الکذب فیما یرونہ وقل ان یسلم نقلھم من الزیادة والنقصان
(منہاج السنة: جلد، 3 صفحہ، 196)
ترجمہ: مؤرخین جو اپنی مرویات میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ لاتے ہیں اور بہت کم ہیں کہ ان کی نقل زیادتی اور کمی سے بچی ہو۔
و انما ھو من جنس نقلة التواریخ التی لا یعتمد علیھا اولوا الابصار
(منہاج السنة: جلد، 3 صفحہ، 242)
ترجمہ: اور یہ بات تاریخ نقل کرنے والے لوگوں کی روایت سے جن پر آنکھ والے کبھی بھروسہ نہیں کرتے۔
اور حافظ ابن کثیرؒ کی رائے بھی ملاحظہ کر لیں، آپ لکھتے ہیں:
”بہت سے مؤرخین مثلاً ابنِ جریرؒ وغیرہ نے مجہول راویوں سے ایسی خبریں ذکر کی ہیں، جو صحاح کے ثابت شدہ حقائق کے خلاف ہیں، ان پر اعتماد کیا جائے یا انھیں رد کیا جائے اس پر آپ نے فیصلہ دیا ہے:
فھی مردودة علیٰ قائلھا و ناقلھا واللّٰہ اعلم
(البدایة والنہایة: جلد، 7 صفحہ، 147)
ترجمہ: یہ روایتیں اپنے غیر ثقہ دعویداروں اور راویوں پر رد کی جائیں گی (قبول نہ کی جائیں گی)۔
تاریخ کی اس قسم کی روایتیں ہرگز قبول ہونے کے لائق نہیں، خصوصاً وہ جن کے قبول کرنے سے کتاب و سنت کے بہت سے فیصلوں سے ٹکراؤ لازم آتا ہے۔
عصرِ حاضر کے مشہور مؤرخ مولانا شبلی نعمانیؒ (1332ھ) لکھتے ہیں:
سیرت پر اگرچہ آج بھی سیکڑوں تصنیفیں موجود ہیں، لیکن سب کا سلسلہ جا کر صرف تین چار کتابوں پر منتہی ہوتا ہے، سیرتِ ابنِ اسحاق، واقدی، ابنِ سعد، طبری، ان کے علاوہ جو کتابیں ہیں وہ ان سے متأخر ہیں اور ان میں جو واقعات مذکور ہیں، زیادہ تر انھیں کتابوں سے لیے گئے ہیں۔ ان میں سے واقدی تو بالکل نظر انداز کر دینے کے قابل ہے، محدثین بالاتفاق کہتے ہیں کہ وہ خود اپنے جی سے روایتیں گھڑتا ہے۔ ابنِ سعد کی نصف سے زیادہ روایتیں واقدی کے ذریعہ سے ہیں، اس لیے ان روایتوں کا وہی مرتبہ ہے جو خود واقدی کی روایتوں کا ہے، طبری کے بڑے بڑے شیوخ روایت مثلاً سلمہ بن الابرش، ابنِ سلمہ وغیرہ ضعیف الروایة ہیں، اس بنا پر مجموعی حیثیت سے سیرت کا ذخیرۀ کتب حدیث کا ہم پلہ نہیں، البتہ ان میں جو تحقیق و تنقید کے معیار پر اتر جائے وہ حجت و استناد کے قابل ہے۔
ابنِ سعد اور طبری میں کسی کو کلام نہیں، لیکن افسوس ہے کہ ان لوگوں کا مستند ہونا ان کی تصنیفات کے مستند ہونے پر چنداں اثر نہیں ڈالتا، یہ لوگ خود شریکِ واقعہ نہیں، اس لیے جو کچھ بیان کرتے ہیں، راویوں کے ذریعہ سے بیان کرتے ہیں، لیکن ان کے بہت سے رُوات ضعیف الروایة اور غیر مستند ہیں۔
(سیرت النبیﷺ: جلد، 1 صفحہ، 48، 49)
آنحضرتﷺ نے اپنے بعد جلد ہی واقع ہونے والے افتراق کی خبر دی تو ساتھ ہی فرمایا، اس افتراق میں نجات کے لائق وہی ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ پر ہوں، (ما انا علیہ و اصحابی) اس سے واضح ہوا کہ اس دور میں ایسے رواة اخبار جن کی روایات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات کسی درجہ میں مجروح ہوتی ہوں کسی طرح لائقِ قبول نہ سمجھے جائیں گے، سو ہدایت نبوی سے یہ ایک اصولی راہ مل گئی کہ اختلاف کے اس دور میں سلامتی اسی طرف رہنے میں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و ناموس برقرار رہے اور جو روایات ان کی شخصیات کو مجروح کریں لائقِ رد سمجھی جائیں گی۔
(خلفاء راشدین: جلد، 2 صفحہ، 340 تا 348 مؤلفہ علامہ ڈاکٹر خالد محمود)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر الزامات والی ایک روایت بھی واضح اور مستند نہیں۔
اس قسم کی جتنی روایات بھی نقل کی جاتی ہیں تحقیق کی جائے تو ان میں سے ایک بھی واضح نہیں یا یہ کہ پایہ استناد کو نہیں پہنچتی، علامہ خالد محمود صاحبؒ کی تحریرات سے اس کی بعض مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
حضرت امیرِ معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے سبِّ وشتم کا حکم نہیں دیا۔
1: کہا جاتا ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا علیؓ کے سبِّ وشتم کا حکم دیا تھا، مگر یہ بات درست نہیں، بلاشبہ صحیح مسلم میں سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی ایک گفتگو مذکور ہے، ان دو حضراتؓ کی ملاقات غالباً مکہ میں ہوئی، حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعدؓ سے وجہ پوچھی کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں خاموش کیوں ہیں اور میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتے، خونِ سیدنا عثمانؓ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر پائے، آپؓ انھیں برا بھی نہیں کہتے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ سبِّ کا معنیٰ گالی دینا ہی نہیں برا بھلا کہنا اور لاتعلق ہونا بھی اسی ذیل میں آتا ہے اور یہ لفظ عام ہے۔
ابو عبداللہ محمد بن خلیفہ الوشتانی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
یحمل السب علی التغییر فی المذھب والرای فیکون المعنیٰ ما منعک من ان تبین للناس خطائہ و ان ما نحن علیہ اسد و اصوب و مثل ھذا یسمیٰ سباً فی العرف (اکمال اکمال المعلم)
یہاں لفظ سبِّ اپنے مؤقف اور رائے کو بدلنے پر محمول کیا جائے گا، (گالی کے معنیٰ پر نہیں) پس اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ آپؓ کو کس چیز نے روک رکھا ہے کہ لوگوں کے سامنے سیدنا علیؓ کی خطا بیان نہ کریں اور یہ بات کہنے سے کہ جس بات پر ہم ہیں، وہ زیادہ صحیح اور بہتر ہے عرب کے عرف میں ایسے موقف کو بھی لفظ سبِّ سے ذکر کر دیتے ہیں (اور ظاہر ہے یہ گالی کا معنیٰ نہیں ہے)
لغت حدیث کی مشہور کتاب مجمع البحار میں ہے:
المعنیٰ ما منعک ان تخطئہ فی اجتھادہ و تظھر للناس حسن اجتھادنا
(مجمع البحار: جلد، 2 صفحہ، 83)
ترجمہ: ان کا معنیٰ یہ لیا جائے گا کہ آپ کو کس چیز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خطا فی الاجتہاد اور ہمارے صواب فی الاجتھاد کو لوگوں کے سامنے لانے سے روک رکھا ہے۔
حاشیة السندھی میں بھی یہی بات ہے:
أَیْ نَالَ مُعَاوِیَة مِنْ عَلِیّ وَ وَقَعَ فِیہِ وَسَبَّہُ بَلْ أَمَرَ سَعْدًا بِالسَّبِّ کَمَا قِیلَ فِی مُسْلِم وَالتِّرْمِذِیّ وَمَنْشَأ ذَلِکَ الْأُمُور الدُّنْیَوِیَّة الَّتِی کَانَتْ بَیْنھمَا وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاَللَّہِ وَاَللَّہُ یَغْفِرُ لَنَا وَیَتَجَاوَز عَنْ سَیِّئَاتنَا وَ مُقْتَضَی حُسْن الظَّنّ أَنْ یُحْمَل السَّبّ عَلَی التَّخْطِئَة وَنَحْوھا مِمَّا یَجُوز بِالنِّسْبَةِ إِلَی أَھل الِاجْتِہَاد لَا اللَّعْن وَغَیْرہ
(حاشیة السندی علی سنن ابنِ ماجہ جلد، 1 صفحہ، 108 حدیث نمبر: 118 مصدر الکتاب: موقع الإسلام المؤلف: محمد بن عبدالہادی السندی (المتوفیٰ: 1138ھ)
پھر اس روایت میں حضرت امیرِ معاویہؓ نے حضرت سعدؓ کو سب کرنے کے لیے نہیں کہا، سب نہ کرنے کی وجہ پوچھی ہے کہ یہ از راہِ تقویٰ و تورع ہے یا کسی خوف کے باعث ہے یا کوئی اور وجہ ہے، اگر تورع اور احتیاط ہے تو پھر صحیح ہے اور اگر کوئی اور وجہ ہے تو بتلائیں میں اس کا جواب دے کر آپ کو مطمئن کروں گا۔
حضرت سعدؓ نے صاف صاف حضرت علی المرتضیٰؓ کے فضائل ذکر کیے: 
فتح خیبر کا علمبردار ہونا، ہارونِ امت ہونا اور حدیث کساء میں اہلِ بیتؓ میں آنا ذکر فرمایا اور سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کسی کا مناقشہ نہیں کیا، آرام سے سنا، سیدنا سعدؓ ان سے بالکل مرعوب نہیں ہوئے اور بات صاف صاف کہہ دی
(معیار صحابیت: صفحہ، 174، 175 تالیف ڈاکٹر علامہ خالد محمود ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی مانچسٹر، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ شاہدرہ لاہور، 2018ء)
حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے ذریعہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مطعون کرنا درست نہیں:
2: اسی طرح سیدنا عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے ذریعہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مطعون کرنا درست نہیں، اس لیے کہ ان کا قتل کس نے کیا اس کا صحیح پتہ نہ چل سکا، معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ایک فئة باغیہ نے قتل کیا تھا اور وہ کسی بڑے لشکر کے لوگ نہیں تھے، یہ سیدنا عثمانؓ کے خلاف اٹھنے والے سیدنا علیؓ کے گروہ میں گھسے ہوئے فتنہ پرور لوگ تھے، انھیں باغی حضرت عثمانؓ کی نسبت سے کہا جاتا رہا، نہ کہ اس سے حضرت علیؓ کی تردید مقصود تھی،یہ وہ حالات تھے کہ یہ قتل اب تک مخفی درجے میں ایک معمہ بنتا چلا آیا ہے اور اس پر کئی متضاد باتیں سننے میں آتی ہیں، یاد رکھیے کسی مختلف فیہ بات سے کسی دوسری مختلف فیہ بات کو ختم نہیں کیا جا سکتا، کسی قطعی بات سے ہی کسی اختلاف کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
(تجلیات آفتاب: جلد، 1 صفحہ، 280، 281، 282 مؤلفہ علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ، ناشر: محمود پبلی کیشنز اسلامک ٹرسٹ لاہور، 1431ھ مطابق 2010ء)
حضرت امیرِ معاویہؓ پر حضرت حسنؓ کو زہر دینے کا الزام درست نہیں:
3: سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ذمہ یہ بات لگانا کہ آپؓ نے سیدنا حسنؓ کو زہر دلوایا تھا، ایک بڑا بہتان اور کذبِ محض ہے۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اس کی ضرورت کیا پڑی تھی، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تاحیاتِ سیدنا امیرِ معاویہؓ زندہ رہے، انھوں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کا کیا بگاڑا تھا، جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ اگر زندہ رہتے تو سیدنا امیرِ معاویہؓ کو کسی خطرے کا سامنا کرنا پڑتا، علم سے نابلد لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس میں حضرت امیرِ معاویہؓ کی کیا ضرورت تھی، جو وہ اس کا ارتکاب کرتے، خلافت سیدنا حسنؓ ان کو دے چکے تھے، دونوں بھائی سیدنا امیرِ معاویہؓ سے بیعت ہو چکے تھے، ان کے وظائف لیتے رہے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کی زندگی تک فدک کی آمدنی حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی اولاد کو ملتی رہی، سیدنا حسنؓ نے مسلمانوں کی دو جماعتوں کو ایک کیا، سلطنتِ اسلام متحد ہوئی، اور پھر تاحیات سیدنا امیرِ معاویہؓ اور ان حضراتؓ کے مابین کوئی دل خراش واقعہ پیش نہیں آیا، سیدنا حسنؓ کی نمازِ جنازہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے گورنرِ مدینہ حضرت سعید بن العاص امویؓ نے پڑھائی، اور انھیں اس کے لیے سیدنا حسینؓ نے آگے کیا، شہادتِ سیدنا حسنؓ میں اگر کسی طرح سیدنا امیرِ معاویہؓ ملوث ہوتے تو سیدنا حسینؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے گورنرکو کبھی نمازِ جنازہ کے لیے آگے نہ کرتے، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو آگے کرتے ہوئے فرمایا: لولا السنة لما قدمتک
(اسد الغابة: جلد، 2 صفحہ، 15 مقاتل الطالبین لابی الفرج: جلد، 2 صفحہ، 51)
ترجمہ: اگر سنت طریقہ نہ ہوتا تو میں تجھے کبھی آگے نہ کرتا (یعنی سنت یہ ہے کہ حاکمِ وقت امامت کرے)۔
حافظ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:
ولما توفی الحسن کان الحسین یفد الیٰ معاویة فی کل عام فیعظمہ ویکرمہ
(البدایة والنہایة: جلد، 3 صفحہ، 150 تاریخ ابنِ عساکر جلد، 4 صفحہ، 311)
ترجمہ: سیدنا حسنؓ کی وفات کے بعد سیدنا حسینؓ ہر سال سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس تشریف لے جاتے تھے، سیدنا امیرِ معاویہؓ آپؓ کا بہت اکرام فرماتے اور عطایا و تحائف دے کر رخصت کرتے تھے۔
مشہور شیعی مؤرخ احمد بن داؤد الدینوریؒ (282ھ) لکھتا ہے:
ولم یر الحسن ولا الحسین طول حیاة معاویة منہ سوء فی انفسھما ولا مکروھاً ولا قطع عنھما شیئاً مما کان شرط لھما ولا تغیر لھما عن بر
(الاخبار الطوال: صفحہ، 225)
ترجمہ: حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے پوری زندگی حضرت امیرِ معاویہؓ سے اپنے حق میں کوئی بدخواہی نہیں دیکھی، نہ ان کا اپنے بارے میں کوئی ناپسندیدہ عمل دیکھا، نہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ان دونوں کے ساتھ کسی معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور نہ کسی نیکی میں دریغ کیا۔
پہلے مؤرخین جیسے ابنِ جریر طبریؒ (210ھ) خطیب بغدادیؒ (463ھ) وغیرہ میں سے کوئی اس واقعہ کو نقل نہیں کرتا، حاکم (405ھ) نے زہر دیے جانے کا واقعہ تو نقل کیا ہے، مگر زہر دینے کے مجرمین کی کوئی نشاندہی نہیں کی ہے، سب سے پہلے ابنِ اثیر الجزریؓ (620ھ) نے اس زہر دینے کی نسبت آپؓ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی طرف کی ہے، اور پھر صیغہ تمریض سے کہا ہے کہ کچھ لوگ اسے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں، لیکن اس پر ابنِ اثیرؓ نے کوئی صحیح روایت پیش نہیں کی اور نہ اس الزام کی کہیں توثیق کی ہے، حافظ ابنِ تیمیہؒ (718ھ) لکھتے ہیں:
ان معاویة سم الحسن فھذا مما ذکرہ بعض الناس ولم یثبت ذلک ببینة شرعیة او اقرار معتبر ولا نقل یجزم بہ
(منہاج السنة: جلد، 2 صفحہ، 225)
ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا ہے یہ وہ بات ہے جو بعض لوگوں نے ذکر کی ہے اور یہ بات کسی واضح شرعی دلیل یا اقرارِ معتبر سے ثابت نہیں، اس پر کوئی نقل نہیں ملتی، جس پر یقین کیا جا سکے۔
حافظ ابنِ کثیرؒ (774ھ) تو یہ بھی لکھتے ہیں، کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسنؓ سے ان کے آخری وقت میں پوچھا تھا کہ آپؓ کو زہر کس نے دیا ہے؟ حضرت حسنؓ نے نام بتانے سے انکار کیا اور فرمایا کہ اس کوچھوڑ دیں، اس کا فیصلہ اللہ کے یہاں ہو گا 
(البدایة والنہایة: جلد، 8 صفحہ، 43)
علامہ ابنِ خلدونؒ (808ھ) لکھتے ہیں:
وما ینقل ان معاویة دس الیہ السم مع زوجتہ جعدة بنت اشعث فھو من احادیث الشیعة وحاشا لمعاویة من ذلک
(تاریخ ابنِ خلدون: جلد، 2 صفحہ، 129)
ترجمہ: اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے آپؓ کو آپؓ کی بیوی جعدہ بنتِ اشعث کے ساتھ مل کر زہر دلایا تھا، یہ شیعوں کی باتیں ہیں، حاشا وکلا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ایسا کیا ہو۔
البتہ یہ سوال کہ سیدنا حسنؓ کی دشمنی کن لوگوں سے تھی، یہ ضرور غور طلب ہے، سیدنا علیؓ کے ایک بیان سے اس کا کچھ اشارہ ملتا ہے، سیدنا حسنؓ نکاح بہت فرماتے تھے،اسی بناء پر آپؓ کو حسن مطلاق کہا جانے لگا تھا، اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا:
ما زال الحسن یتزوج و یطلق حتی حسبت ان یکون عداوة فی القبائل
(المصنف ابنِ ابی شیبہ جلد، 5 صفحہ، 354)
ترجمہ: سیدنا حسنؓ متواتر شادیاں کرتے رہے اور طلاقیں دیتے رہے، یہاں تک مجھے خدشہ گزرا کہ اس اندازِ عمل سے کہیں قبائل میں عداوت کی آگ نہ بھڑک اٹھے۔
اس پسِ منظر میں گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہ آپؓ کی کسی بیوی ہی کی سازش رہی ہو گی۔
(عبقات صفحہ، 390، 391 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
اسی کے ساتھ ایک اور بات جو اس حقیر کے نزدیک زیادہ قرینِ قیاس ہے اور جس کی وجہ سے خود آپؓ کے حامیوں (شیعان) میں ایک طبقہ آپؓ کا دشمن ہو گیا تھا، وہ تھا سیدنا امیرِ معاویہؓ کو تفویضِ خلافت کا معاملہ، تفویضِ خلافت کے بعد سیدنا امیرِ معاویہؓ سے تعلقات کی استواری نے اس عداوت کو اور دو آتشہ کر دیا تھا، اور غالباً آپؓ کی شہادت کے پیچھے یہ زیادہ بڑا محرک ثابت ہوا، واللہ اعلم بالصواب۔
حضرت امیرِ معاویہؓ پر سیدنا محمد بن ابی بکرؓ کے قتل کا الزام درست نہیں:
4: ایک الزام یہ ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا محمد بن ابی بکرؓ کو قتل کرایا تھا، اور حضرت عائشہؓ اپنے بھائی کے غم میں سیدنا امیرِ معاویہؓ پر قنوتِ فجر میں بددعا کرتی رہیں؟
جواب: حضرت علی المرتضیٰؓ کے بھائی سیدنا جعفر طیارؓ کی بیوہ سیدنا اسماء بنتِ عمیسؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے نکاح کر لیا تھا، اور حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد یہ حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں، سیدنا محمد بن ابی بکرؓ انھیں کے بیٹے تھے، جن کی پرورش حضرت علیؓ کے ہاں ہوئی، جب سیدنا عثمانؓ کے خلاف یورش ہوئی، تو سیدنا علیؓ حضرت عثمانؓ کے ساتھیوں میں تھے، اور حضرت محم دبن ابی بکرؓ باغی نوجوانوں کے ہتھے چڑھ کر حضرت عثمانؓ پر حملہ آور ہوا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا اگر آج تیرا باپ زندہ ہوتا تو تیرے اس کردار پر کیا کہتا، اسے شرم آئی اور پیچھے ہٹ گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس کے اس کردار سے اس کے خلاف تھیں۔
جنگِ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے مصر کا والی بنا دیا، مصر کے پہلے گورنر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے، حضرت عمرو بن العاصؓ سیدنا محمد بن ابی بکرؓ کے مقابلہ کے لیے معاویہ بن خدیج الکندی کو سپہ سالار مقرر کیا، اس جنگ میں سیدنا محمد بن ابی بکرؓ کی وفات ہوئی، یہاں سے یہ بات چل نکلی کہ سیدنا معاویہؓ بن خدیج الکندی نے حضرت محمد بن ابی بکرؓ کو قتل کیا ہے،اور پھر نام کی مشابہت سے سیدنا امیرِ معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کی طرف بھی منسوب ہو گیا۔ نیز اس لحاظ سے بھی کہ مرکزی حاکم حضرت امیرِ معاویہؓ تھے، آپؓ کو موردِ الزام بنایا گیا۔
حضرت امیرِ معاویہؓ کے خلاف سیدہ عائشہؓ کی بددعا والی روایت ابومخنف لوط بن یحییٰ نے نقل کی ہے، اور یہ صاحب شیعہ تھے، ان کے شیخ الشیخ عن الشیخ من اہل المدینة کے نام سے مذکور ہیں، ظاہر ہے کہ اس قسم کے راویوں اور رافضیوں کی روایت سے حضرت امیرِ معاویہؓ کے خلاف کوئی الزام قائم نہیں کیا جا سکتا۔ طبری نے یہ روایت اسی شیعہ راوی سے نقل کی ہے۔
(عبقات: صفحہ، 391، 392 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
سیدنا امیرِ معاویہؓ پر حضرت ابنِ عباسؓ کے تبصرہ والی روایت:
5: مالک بن یحییٰ ہمدانیؒ کی روایت ہے کہ حضرت امیرِ معاویہؓ نے وتر کی نماز ایک رکعت پڑھی، کسی نے اس کی اطلاع سیدنا ابنِ عباسؓ کو دی، آپؓ نے فرمایا: 
من این تری اخذھا الحمار 
ترجمہ: تو کہاں سے دیکھ رہا تھا گدھے نے ایسا کیا ہے؟
یہ روایت عمران بن حدیر، عکرمہ سے اور عکرمہ اسے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں، عمران بن حدیر سے عطا بن ابی رباح (117ھ) اور عثمان بن عمر اسے روایت کرتے ہیں، عثمان بن عمر کے طریق میں یہ اخذھا الحمار کے الفاظ موجود نہیں ہیں، اور اگر یہ بات ہو تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسا بے سمجھی کا کام سیدنا امیرِ معاویہؓ کیسے کر سکتے ہیں؟ ایک رکعت تو کوئی بیوقوف ہی پڑھے گا، تم نے کہاں سے دیکھ لیا کہ کوئی بیوقوف ایسا کر رہا ہے۔
اس کے اوپر کے راوی ابو عبداللہ عکرمہ فقہائے مکہ میں سے ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خارجی ذہن رکھتے تھے، اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ خارجی لوگ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تینوں کے برابر کے دشمن ہیں، محدثین نے اگر عکرمہ کی اور روایات قبول کی ہیں تو ضروری نہیں کہ ہم ان کی وہ روایات جو ان حضراتؓ کے مقام کو مشتبہ کریں، وہ بھی قبول کر لیں، سو یہ الفاظ من این تری اخذھا الحمار عکرمہ مولیٰ ابنِ عباسؓ کے تو ہو سکتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے نہیں، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اچھے تعلقات تھے، اور دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، محدث عبدالرزاق (211ھ) روایت کرتے ہیں:
ان کریباً مولیٰ ابنِ عباس اخبرہ انہ رای ابن عباس یصلی فی المقصورة مع معاویة
(المصنف: جلد، 2 صفحہ، 414)
ترجمہ: کریب مولیٰ ابنِ عباس نے بتایا کہ اس نے حضرت ابنِ عباسؓ کو حضرت امیرِ معاویہؓ کے ساتھ مقصورہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
ایک موقعہ پر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اعترافِ فضیلت کے طور پر فرمایا:
 لیس احد منا اعلم من معاویة (السنن الکبریٰ للبیہقی: جلد، 2 صفحہ، 26)
ترجمہ: ہم میں اس وقت سیدنا امیرِ معاویہؓ سے بڑا عالم کوئی نہیں ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما حضرت امیرِ معاویہؓ کے بارے میں ایسے الفاظ (من این تری اخذھا الحمار) ہرگز نہیں کہہ سکتے تھے۔
(عبقات: صفحہ، 394 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ پر باطل طریقے سے مال کھانے اور قتلِ ناحق کا الزام:
6: حضرت عبدالرحمٰن بن عبد رب کعبہ کہتے ہیں، سیدنا امیرِ معاویہؓ ہمیں باطل طریقے سے مال کھانے اور لوگوں کو بےجا قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
جواب: حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ ایک دفعہ کعبہ کے سائے میں احادیث سنا رہے تھے، اور لوگ آپ کے گرد جمع تھے، آپ نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے حدیث کا ایک حصہ پڑھا:
ومن بایع اماماً فاعطاہ صفقة یدہ و ثمرة قلبہ فلیطعہ مااستطاع فان جاء احد ینازعہ فاضربوا رقبة الآخر
(سنن نسائی: جلد، 2 صفحہ، 125)
ترجمہ: اور جس نے کسی امام کی بیعت کی اور اس کے ہاتھ میں دستِ وفا اور دل کا خلوص دیا، اسے چاہیے کہ اس کی پوری اطاعت کرے جہاں تک کر سکے، پھر اگر کوئی حکمراں اٹھے جو اس کے خلاف ہو تو تم اس دوسرے کی گردن مار دو۔
یہ اس دور کی بات ہے جب سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ میں اختلاف زوروں پر تھا، سیدنا عبدالرحمٰن بن عبدِ رب کعبہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سے بیعت کیے ہوئے تھے، ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ پھر سیدنا امیرِ معاویہؓ کی ساری مہم اور ان کا اپنے لشکروں پر مال خرچ کرنا یہ سارا سلسلہ اکل اموال بالباطل اور بےجا قتل و قتال کے ذیل میں آتا ہے ہم جب ایک امام کی بیعت کر چکے تو اب ہم دوسرے کی کیوں سنیں، یہ تو اس کی دعوت ہے کہ ہم اپنے آپ کو یونہی ضائع کریں، اور فوجی اپنے وظیفے غلط لیتے رہیں، عبدالرحمٰن بن عبدِ رب کعبہ نے اسی ذہن سے حضرت عبداللہ بن عمرو (67ھ) سے اس وقت جب وہ مذکورہ حدیث بیان کر چکے، کہا:
ھذا ابنِ عمک معاویة یامرنا ان ناکل اموالنا بالباطل ونقتل انفسنا
(صحیح مسلم: جلد، 2 صفحہ، 126)
ترجمہ: یہ آپ کا چچا زاد بھائی ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے اموال غلط طور پر کھاتے اور اپنی جانیں یونہی لڑاتے رہیں۔
اب ظاہر ہے کہ عبدالرحمٰن کا اشارہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے نظمِ مملکت اور مالی نظام کے غلط ہونے کی طرف نہ تھا، اس سیاسی اختلاف کی طرف تھا، جو سیدنا امیرِ معاویہؓ حضرت علیؓ کے خلاف اختیار کیے ہوئے تھے اور وہ حضرت عثمانؓ کے مظلومانہ قتل کے خلاف ایک اصولی آواز تھی، یہ مسئلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مجتہد فیہ تھا، اور دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، اب جن وجوہ سے ہم سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اس اجتہادی مؤقف کا حق دیتے ہیں، اسی جہت سے ان کا اپنے لشکروں پر خرچ کرنا اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی دعوت دینا "لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل“ اور ارشادِ خداوندی ”وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡـفُسَكُمۡ‌“ (سورة النساء: آیت،29) کے ظاہر سے نکل جاتا ہے، کیونکہ ان کے پاس اپنے اس مؤقف کی تائید میں بہت سی وجوہ ہیں، جن کی بناء پر انھیں بطور مجتہد اجتہاد کا حق پہنچتا ہے، اس لیے مذکورہ الفاظ راوی حدیث کا اپنا خیال ہے، چنانچہ نوویؒ لکھتے ہیں:
فاعتقہ ھذا القائل ھذا الوصف فی معاویة لمنازعتہ علیا(شرح النووی: جلد، 2 صفحہ، 126)
ترجمہ: اس کہنے والے کے ذہن میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں یہ بات تھی، بایں وجہ کہ وہ سیدنا علیؓ سے لڑ رہے تھے۔
یہ عبدالرحمٰن بن عبدِ رب کعبہ صحابی نہیں، انھوں نے جو بات کہی یہ ان کے اپنے سیاسی احساسات ہیں، ان کی کبھی ملاقات سیدنا امیرِ معاویہؓ سے ہوئی ہو اور انھوں نے انھیں یہ اکل اموال بالباطل کی ترغیب دی ہو یہ کہیں ثابت نہیں، اب محض اتنی وجدانی بات سے ایک جلیل القدر صحابی کی دیانت کو مجروح کرنا انصاف نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس آخری حصے کے نقل کرنے پر سب محدثین متفق نہیں ہیں، امام نسائیؒ نے پوری حدیث بیان کی ہے، اور عبدالرحمٰن اور سیدنا عبداللہ بن عمروؓ کی اس گفتگو کو نقل نہیں کیا، اور حدیث بیان کر کے لکھ دیا ہے، الحدیث متصل
(سنن نسائی جلد، 2 صفحہ، 165) 
یہ اشارہ ہے کہ اس کے آگے حدیث کا کوئی جزو نہیں، 
سنن ابنِ ماجہ میں بھی یہ ٹکڑا نہیں ملتا۔
(سنن ابنِ ماجہ: صفحہ، 293)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے رواة میں کوئی ایسا راوی ہے جو کبھی اسے روایت کرتا ہے اور کبھی نہیں۔عبدالرحمٰن سے نیچے اس کا راوی زید بن وہب کوفی ہے، علماء نے گو اسے ثقہ بھی لکھا ہے، لیکن یہ بھی تصریح کی ہے:
فی حدیثہ خلل کثیر(تہذیب التہذیب: جلد، 3 صفحہ، 427)
ترجمہ: اس کی روایت میں بہت خلل واقع ہوئے ہیں۔
اب اس کی روایت سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی دیانت پر جرح کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے، اور پھر جب سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکومت کو صحتِ خلافت کی سند دے دی تو پھر کیا یہ صورت باقی رہی جس کی عبدالرحمٰن بن عبدِ رب کعبہ خبر دے رہے ہیں، اور کیا حضور اکرمﷺ کا ارشاد العبرة بالخواتیم صحیح نہیں ہے؟
(عبقات: صفحہ، 414، 415 مؤلفہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، ناشر: دارالمعارف لاہور)
غرض اس ضمن میں جتنی روایات بیان کی جاتی ہیں سب کا یہی حال ہے، یا تو وہ مستند نہیں ہیں یا ان میں تاویل کی گنجائش ہے۔