Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

افتراء:

  مولانا ابو الحسنین ہزاروی

افتراء: " ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے قتل کی سنسنی خیز واردات"

(ابنِ خلدون حبیب السیر )

 الجواب

سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا تذکرہ وفات ابنِ خلدون وغیرہ سے یوں لکھا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے یزید کو ولی عہد بنانے پر اعتراض کیا تھا جس پر سیدنا معاویہؓ نے مدینہ میں ایک گھر لیا اور وہاں گھر کے اندر ایک کنواں کھدوایا سیدہ عائشہؓ کی دعوت کی اور دسترخوان کنویں کے اوپر لگایا، جب سیدہ عائشہؓ تشریف لائیں تو اس کنویں میں گر کر شہید ہوگئیں، سیدنا معاویہؓ نے کنواں مٹی سے بھردیا۔ معاذ اللہ 

مذکورہ روایت سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے اربابِ علم کے نزدیک اس کا وزن کوڑے کے ڈھیر جتنا بھی نہیں، رافضی لوگوں نے گھڑ کر تاریخ کی ٹوکری میں ڈال دیا، نہ یہ روایت عقل کے ترازو پر پوری اترتی ہے نہ نقل کے پیمانہ پر اور نہ ہی مشاہدہ کا تعاون اس روایت کو حاصل ہے بلکہ ابو عتیق کہتے ہیں کہ جس رات (سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا) جنازہ اٹھا (تو راستے میں روشنی کے لئے) زیتون کے تیل سے چلنے والے بڑے چراغ قمقمے جلائے گئے آپ کی وفات 17 رمضان المبارک وتروں کی نماز کے بعد ہوئی ۔

 آپؓ نے (سیدہ فاطمہ الزہراءؓ کی طرح) رات کے وقت دفن کیے جانے کی وصیت کی، انصار جمع ہوگئے اتنا بڑا اجتماع رات کے وقت کبھی نہ دیکھا گیا آس پاس کے لوگ بھی کثیر تعداد میں جمع ہوگئے، آپؓ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔

(سیر اعلام النبلا جلد 3 صفحہ 330 ) 

سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا طبعی طور پر وفات پانا اہل علم نے بیان فرمایا ہے ۔ سید سلمان علی ندویؒ سیرت عائشہؓ میں فرماتے ہیں، 58 ہجری تھا اور رمضان المبارک کی 17 تاریخ 13 جون 678 ء تھی کہ نماز وتر کی بعد شب کے وقت وفات پائی ۔

(سیرتِ عائشہؓ لشیخ السید سلمان علی ندوی صفحہ 154)

حضرتِ عائشہؓ کا سن وفات 58 ہجری ہے ۔

(مظاہر حق صفحہ 740 جلد 5)

 17رمضان المبارک 57 ھ کی شب بعمر 63 سال مدینہ منورہ میں ان کی وفات ہوئی انہوں نے رات کے وقت ہی دفن کیے جانے کی وصیت کی تھی، حضرت ابو ہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

(مظاہر حق جدید جلد 5 صفحہ 745)

 ابن عینیہ ہشام بن عروہؓ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپؓ کی وفات 58 ھ میں ہوئی۔

( تہذیب لابن حجر عسقلانی صفحہ 605 جلد 6)

واقدیؒ نے کہا ہے کہ حبیبہ خدا نے 58 ھ میں(طبعی طور پر) وفات پائی۔

(العبر جلد1صفحہ 42 )

ہشام بن عروہؓ نے فرمایا کہ سیدہ عائشہؓ کی وفات 58 ھ میں ہوئی ۔

( العبر جلد 1 صفحہ 43) 

تقریب التہذیب میں بھی 57 ھ میں (طبعی طور پر) وفات پانا مذکور ہے :

علامہ ذہبی فرماتے ہیں ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ کی وفات 57 ہجری میں ہوئی اور تذکرۃ الحفاظ جلد 1 صفحہ 26 پر فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی وفات پر ایک کتاب بھی لکھی ہے ۔

(الاعلام جلد 7 صفحہ 38)

ابن حبان فرماتے ہیں سیدہ عائشہ بنت صدیقؓ کہ وفات 57 ھ میں ہوئی ۔

(تاریخ الصحابہ لابن حبان صفحہ201)

اس کے علاوہ تذکرۃ الحفاظ الاستعاب وغیرہ میں وضاحت سے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا وفات پانا رقم فرمایا ہے ان بیانات سے یہ بات سورج کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا طبعی طور پر انتقال ہوا ہے کسی ایسے حادثہ میں قتل نہیں ہوئیں جس کا ذکر ایک بے چارے ابنِ خلدون نے ابو مخنف جیسے جلے ہوئے رافضی کی روایت پر اعتبار کرکے لکھا ہے، لہٰذا نقل اس مذکورہ ابنِ خلدون کے واقعہ کا صاف انکار کرتی ہے اہلِ علم اس دجل و فریب سے لبریز احمقانہ کہانی کو کسی طرح بھی قبول نہیں فرماتے ۔

 2- اس من گھڑت قصے کو جہاں نقل رد کر رھی ہے درایتاً بھی یہ واقعہ بالکل مردود ہے ذرا خیال فرمائیے، سیدنا معاویہؓ یزید کی بیعت لیتے ہیں جس کا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انکار کردیا ان انکار کرنے والوں میں سیدہ صدیقہؓ بھی تھیں سیدنا معاویہؓ 64 لاکھ 65 ہزار مربہ میل کی پوری حکومت میں کسی ایک کو بھی انکار بیعت یزید کی بناء پر قتل نہیں کرتے صرف سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو انکارِ بیعت پر قتل کی منصوبہ سازی ہوتی ہے، آنا فانا ایک مکان مدینہ میں خریدا جاتا ہے اس مکان میں فوری طور پر ایسا کنواں بنایا جاتا ہے جس میں سے مٹی بھی نہیں نکالنا پڑتی ورنہ اگر مٹی نکالی جاتی تو مکان کے اندر یا اس کے پاس کہیں تو ضرور پڑی نظر آتی جس سے اندازہ ہوجاتا کہ یہ مٹی کسی جگہ کو کھود کر نکالی گئی ہے اس شک سے بچنے کے لئے اٰلہ دین کا چراغ لے کر مٹی نکالے بغیر کنواں تیار ہوتا ہے کہ کسی کو شک بھی نہ ہوسکے کہ کچھ کھودا بھی گیا یا نہیں بغیر جدید آلات کے کنواں کھدایا گیا پھر رمضان المبارک جو عبادت کا مہینہ ہے اس میں شاہی دعوت کا اہتمام ہوتا ہے، اس دعوت میں رات کے وقت (حالانکہ رات کا وقت بھی خاص مناجات کا وقت ہے اور سیدہ عائشہؓ کا عبادت میں مشغول ہونا ہر خاص و عام پر اچھی طرح واضح ہے) سیدہ عائشہ صدیقہؓ تشریف لاتی ہیں عین اس کنویں کے اوپر دسترخوان بچھایا جاتا ہے اور شاہی کھانے اس دسترخوان پر چن دیے جاتے ہیں شاہی خدام اس عین کنویں پر رکھے دسترخوان پر بھاگ بھاگ کر آتے جاتے ہیں اور کھانا لگاتے پھرتے ہیں مگر یہ کنواں ان کا بال بھی بھیگا نہیں کرسکتا کھانا لگ جانے کے بعد شاہی مہمان دسترخوان پر جلوہ افروز ہوتے ہیں سیدہ عائشہؓ کی نشت خاص اس کنویں پر بنتی ہے جس کو خاص مشن کے لئے تیار کیا گیا تھا جب تمام مہمان حضرات آچکے اور دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں وہ دسترخوان کنویں میں سیدہ عائشہؓ سمیت کود جاتا ہے باقی مہمانوں میں کوئی اس کنویں میں تو کیا گرتا انہیں کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی کہ کیا ہوا ہے بس کنویں میں جاتے ہی آواز تک اوپر کسی کو سنائی نہیں دیتی کہ وہ کنواں بند کرنا شروع کردیا جاتا ہے بس لمحہ بھر میں وہ کنواں بند ہو چکتا ہے کہ ابھی تو مہمان کھانے سے فارغ ہی نہیں ہوئے اور ان مہمانوں میں ایک مہمان کنویں کا مہمان بن گیا اور پورے مدینہ میں کسی کو بھی پتہ نہ چلا نہ نماز جنازہ اور نہ اعلان اور یوں تمام دنیا کو علم و عرفان سے منور کرنے والی ماں چل بسیں اور کسی نے خبر ہی نہ لی اور بعد میں بھی کسی نے کوئی تحقیق و جستجو نہ کی کہ وہ جو علم کا چراغ تھیں کہاں گئیں۔

یہ وہ کہانی کا خاکہ ہے جو مذکورہ کتاب کے حوالے سے تیار کیا گیا ہے مشہور ہے کہ شیخ چلی بے چارہ دیوانہ قسم کا شخص تھا جس کے خیالی قصے عموماً بیان کیے جاتے ہیں مگر عقل و خرد کی دشمنی میں یہ قصہ تو تمام دیوانوں کو مات دیتا نظر آرہا ہے، بہرحال تاریخ ابنِ خلدون کی یہ کہاوت کوئی عقل کا دیری قبول کرے تو کرے، کو صاحبِ علم تو کیا عقل رکھنے والا بے علم اور ان پڑھ بھی اس کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا یہ کسی عقل دشمن کی قصہ گوئی ہے جو ایک آنکھ دیکھنے کے قابل نہیں۔

اگر اس واقعہ میں کچھ صداقت ہوتی تو ضرور یہ بات شہرہ آفاق ہوتی مگر ایسا ہرگز نہیں ہوا لہٰذا یہ محض افسانہ ہے حقیقت کچھ نہیں ۔