افتراء: امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے بارے میں مغلظات (تاریخ الخلفاء ازاله الخفاء مختصر سیرت رسول از محمد بن عبد الوہاب ، حیات الحیوان ، دمیری الصواعق الحرقه، حیات صحابه) ان میں ایک ہی بات مذکور ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر ضرور روانہ کروں گا اگر چہ مدینہ خالی ہوجائے اور مدینہ میں لوگ فوت ہوجائیں حتیٰ کہ دفن کرنے والا بھی کوئی نہ رہے فوت ہونے والوں کو جنگلی درندے اور کتے پامال کر دیں اگرچہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بھی نقصان پہنچا دیں اور ان کو ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچیں۔
مولانا ابو الحسنین ہزارویافتراء: امہات المومنینؓ کے بارے میں مغلظات
(تاریخ الخلفاء ازاله الخفاء مختصر سیرت رسول از محمد بن عبد الوہاب ، حیات الحیوان ، دمیری الصواعق الحرقه، حیات صحابه)
ان میں ایک ہی بات مذکور ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے فرمایا تھا کہ میں حضورﷺ کا تیار کردہ لشکر ضرور روانہ کروں گا اگرچہ مدینہ خالی ہو جائے اور مدینہ میں لوگ فوت ہو جائیں حتیٰ کہ دفن کرنے والا بھی کوئی نہ رہے فوت ہونے والوں کو جنگلی درندے اور کتے پامال کر دیں اگرچہ ازواج مطہراتؓ کو بھی نقصان پہنچا دیں اور ان کو ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچیں۔
الجواب:
1 سچ ہے
اذا فاتك الحياء فاصنع ما شئت.
"جب تجھ سے حیاء جاتی رہے تو جو چاہے کر "۔(تجھے کوئی چیز روکنے والی نہیں)۔
اب جب حیاء کا ہی جنازہ نکل گیا تو پھر کیا سچ کیا جھوٹ سب باتیں برابر کھاتے میں لکھی جائیں گی۔ ناس ہو بغض اور حسد کا یہ مرض جس کو لگ جاتا ہے اس میں اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ذرا زیرِ نظر واقعہ کو ملاحظہ فرمایئے سیدنا صدیق اکبرؓ نے کس کمال عزم سے فیصلہ نبوی پر استقامت کا مظاہرہ فرمایا کہ جو فیصلہ رحمت عالمﷺ نے فرما دیا ہے وہ ہو کر رہے گا چاہے دنیا کی محبوب ترین اور مقرب ترین چیز بھی قربان کرنا پڑے یہی استقامت اور عزم ہے کہ جس نے چراغِ ایمان کو گُل ہونے سے پوری پوری طرح محفوظ رکھا اس کمال استقامت کا اظہار انہوں نے ایک محال چیز کو ممکن کے ڈھانچے میں ڈھال کر کیا کہ یہ ممکن نہیں ہوسکتا مگر اس لشکر کی روانگی کے عوض ازواج مطہراتؓ کو کتے کاٹ کھائیں تو یہ گوارا کر لیا جائے گا مگر فیصلہ نبوی کو ہرگز تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
2- سیدنا ابوبکرصدیقؓ یہاں ناممکن کو ممکن فرض کر کے اپنے عزم کا اظہار فرماتے ہیں اور اہلِ عرب کے محاورات میں اس طرح کے موقعہ پر اپنی ثابت قدمی اور عزم کے اظہار کے لئے اس طرح کے جملے عموماً بولے جاتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ کسی نے بھی نہیں لیا کہ جو بات محض تمثیلا کہی ہے وہ واقع میں بھی ہو۔ جیسے ایک شخص نے چور خاتون کے حق میں سفارش کی اور نرمی کا مطالبہ کیا تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم اگر سیدہ فاطمہؓ بنتِ محمد بھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا۔ یہ حدیث فریقین کے مابین مسلم ہے۔ پھر کیا اس حدیث کا عکس دے کر یہ واویلا کرنا جائز ہوگا کہ سیدہ فاطمہ الزہراؓ کے بارے میں مغلظات جس طرح مذکورہ روایت محض تمثیل کے طور پر اور بالفرض والمحال کے درجہ کی چیز ہے فی الواقع ایسا ہرگز نہیں ہوا مگر آپﷺ نے اپنے عزم و استقامت کے اظہار کیلئے یہ جملہ ارشاد فرمایا ہے اسی طرح سیدناصدیق اکبرؓ نے محض اظہار عزم کیلئے یہ جملہ بالفرض والمحال کے ضمن میں استعمال فرمایا اور جیسے آپﷺ کا سیدہ فاطمہ الز ھراءؓ کے بارے میں فرمانا کہ وہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا اس حدیث میں نہ سیدہؓ کی اہانت مقصود ہے اور نہ تحقیر ایسے ہی سیدناصدیق اکبرؓ کا مذکورہ جملہ ازواج مطہراتؓ کی توہین کیلئے نہیں اپنے عزم کے اظہار کیلئے ہے۔
قرآن پاک کی مثالیں
ناممکن کو ممکن فرض کر کے کسی بات کو پائیدار اور یقینی بنانے کیلئے عربی معاورات کے علاوہ احادیث اور قرآن پاک میں بھی کئی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کریم میں مشرک کی نجات کو محال بتاتے ہوئے فرمایا:
1- حتى يلج الجمل في سم الخياط
یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزر جائے۔ یعنی یہ محال ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزر سکے مگر مشرک کو نجات حاصل ہونا اس سے بھی بڑھ کر محال ہے گویا یہ تو ہو سکتا ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزر جائے مگر مشرک کو نجات ملے یہ نہیں ہوسکتا حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ سوئی کے ناکہ سے اونٹ کا گزرنا ممکن نہیں۔
2- اسی طرح فرمایا: این ما تكونوا يدركم الموت و لو كنتم في بروج مشيدة. تم جہاں کہیں بھی ہو موت تم کو آ کر رہے گی اگرچہ تم شیشے کے محلات میں بند ہی کیوں نہ ہو جاؤ۔ حالانکہ شیشے کے محلات میں زندگی کا حصول اسباب کی دنیا میں ممکن نہیں کہ وہاں پر ہوا کا گزر نہیں اور ہوا کے بغیر زندگی کا حصول نہیں اس کے باوجود فرمایا یہ تو ممکن ہے کہ تم شیشے کے محلات میں جاپناہ لو مگر یہ ناممکن ہے کہ موت کے عمل سے چھٹکارا پاسکو۔ تو جیسے قرآن کریم میں اونٹ کے ناکہ سوئی سے گزرنے کو محال ہونے کے باوجود ممکن ظاہر کیا اور شیشے کے محل میں فقدان حیات کے باوجود حیات کے حصول ممکن قرار دیا ایسے ہی ازواج مطہراتؓ کے لئے کتوں کا حملہ اور مدینہ کا ہر نفس سے خالی ہونا جو ناممکن ہے اسے ممکن خیال کر کے اپنے عزم و یقین اور استقامت کا اظہار فرمایا۔ تو کیا رافضی قلم حدیث میں تذکرہ فاطمہؓ اور ان قرآنی مثالوں کو بھی کذب اور مغلظات سے تعبیر کرے گا؟ مگر ہم نے عرض کیا کہ حسد کا مرض لگ جائے تو پھر محسود کی بھلی بات بھی بری نظر آنے لگتی ہے۔