خمینی نے مجھے خاص مشن کے لیے پاکستان بھیجا تھا
مولانا محمد اسماعیل میسوِیخمینی نے مجھے خاص مشن کے لیے پاکستان بھیجا تھا
سرگزشت۔۔۔ حضرت مولانا سید امیر رضا شاہ قمی
سید امیر رضا شاہ رافضی مذہب کے عالم تھے جنہوں نے پانچ سال تک ابتدائی تعلیم جامعۃ المنتظر لاہور سے حاصل کی ۔پھر اعلی تعلیم کے لیے قم یونیورسٹی ایران میں داخل ہوئے۔ وہاں 12 سال بعد رافضی مذہب کی سب سے بڑی ڈگری حاصل کر کے مجتہد بن گئے چند سال قم یونیورسٹی ایران میں بطور استاد خدمات سر انجام دی ایران کے رافضی انقلاب کے بعد خاص مقصد کے لیے انہیں پاکستان بھیجا گیا۔پاکستان میں انہوں نے رافضی رہنما علامہ عارف الحسینی کے ساتھ مل کر اتحاد بین المسلمین کے نام سے رافضی انقلاب کا راستہ ہموار کرنے کے مشن پر کام کیا۔ عارف الحسینی کے قتل کی ایف آئی آر میں بطور گواہ ان کا نام درج ہے۔ ہدایت کی روشنی پانے کے بعد انہوں نے اپنے انٹرویو میں بہت سے راز افشا کیے،ایران کی رافضی حکومت کے خفیہ عزائم سے پردہ اٹھایا۔ اور آیت اللہ خمینی کا اصل روز ظاہر کر دیا۔اور ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی حقائق بیان کیے اور دل ہلا دینے والی داستان صفحہ قرطاس پر رقم کر کے مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے مشن کی سچائیاں روز روشن کی طرح عیاں کر دی ہیں۔
آئیے ۔۔۔ ذرا ان کی زبانی اس روداد کی تفصیل سنیے۔۔
اپنا تعارف۔۔ اپنی زبانی
میرا تعلق رافضی مذہب کے پیروکار انتہائی مالدار خاندان سے ہے جو کہ جامعہ عارف الحسینی مدینہ کالونی پشاور کے پہلو میں آباد ہے۔ میرے والد محترم سید نور احمد شاہ مالدار تجارت پیشہ آدمی تھے۔ میری پیدائش 1954 ء کو پشاور میں ہوئی، پرائمری تک تعلیم رسالدار پرائمری سکول امام بارگاہ سے حاصل کی۔ اس دور کے بہت بڑے رافضی ذاکر و عالم سید نجم الحسن کراروی (جو کتاب"چودہ ستارے" اور" بہتر تارے" کے مؤلف ہیں) کے ساتھ والد صاحب کی خاصی عقیدت تھی والد صاحب نے اس دور میں امام بارگاہ کی تعمیر کے لیے پانچ لاکھ روپے کی خطیر رقم بطور چندہ ان کو عنایت کی تو علامہ کراروی نے میرے والد صاحب سے کہا کہ آپ اس بچے کو رافضی مذہب کی تعلیم دلائیں۔ تو میرے والد صاحب مجھے رافضی عالم بنانے پر تیار ہو گئے.
جامعۃ المنتظر لاہور میں داخلہ
علامہ نجم الحسن کراروی نے 1967 ء میں( جس وقت میری عمر 13 سال تھی) مجھے جامعہ المنتظر لاہور میں داخل کرا دیا ۔لاہور سے میں نے پانچ سال تک ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ میری ذہانت اور تعلیم میں دلچسپی دیکھتے ہوئے اساتذہ نے میرے والد محترم کو مجھے اعلی تعلیم کے لیے قم یونیورسٹی ایران بھیجنے کا مشورہ دیا۔
ایران کے اندر قم یونیورسٹی میں داخلہ
1972 میں(جب میری عمر 18 سال تھی) مجھے اعلی تعلیم کے لیے قم یونیورسٹی ایران میں داخل کرا دیا گیا۔
ایران کے حالات
اس وقت ایران میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت تھی ۔شاہ ایران کے دور میں مذہبی رہنماؤں کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی۔۔۔ظلم و جبر کا دور دورہ تھا آزادی اظہار کا تصور بھی گناہ تھا۔۔ایران کی عوام شاہی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔۔۔جو عالم شاہ کے ظلم کی نشاندہی کرتا، اس کو جیل میں ڈال دیا جاتا۔۔حکومت کی مخالفت کی بنا پر درجنوں علماء کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔۔۔حوزہ علمیہ ایران کے استاد آیت اللہ خمینی بھی کئی دوسرے رافضی عالموں کی طرح بادشاہ کی حکومت کی مخالفت کی پاداش میں فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ شاہ کے خلاف تحریک کے آغاز میں کوئی مذہبی عنصر شامل نہ تھا۔بلکہ یہ تحریک خالص شاہ کے ظلم و جبر کے خلاف شروع ہوئی جس میں رافضی، سنی، عیسائی ،یہودی، ہندو، بدھ مت ،سمیت تمام مذاہب کے پیروکار شامل تھے۔آہستہ آہستہ اس تحریک کا رخ"لا رافضیہ و لاسنیہ، اسلامیہ اسلامیہ"جیسے خوش نما نعرا کی طرف موڑ دیا گیا ۔اسلامی انقلاب برپا کرنے کے نام پر لوگ اپنی جان، مال، اولاد، تک قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے خلاف انقلابی تحریک کے پس منظر میں یہ بات کہنا چاہوں گا، کہ دوسری جنگ عظیم 1945 ء سے 1975 ء تک شہنشاہیت کے عروج کا دور تھا۔ اس دور میں جو اصلاحات ہوئی انہیں سفید انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے درج ذیل 18 اصول وقت کے ساتھ ساتھ مرتب ہوتے گئے۔ یہی انقلابی اصول شاہ کے گلے میں پھندہ بن گئے۔
سفید انقلاب کے اٹھارہ أصول
1 زمین اس کی جو کاشت کرتا ہے۔
2 جنگلوں اور چراگاہوں کو قومی ملکیت میں لینا.
3 سرکاری کارخانوں کو فرضی ناموں سے شاہی خاندان کے افراد کی تحویل میں دینا.
4 خواتین کے لیے انتخابات میں رائے دہی کا اعلان۔
5 تعلیم بالغاں کے نام پر فحاشی کا فروغ۔
6 دیہات میں نرسوں کے ساتھ مردوں کی مخلوط تعیناتی۔
7 تعمیر و ترقی کے نام پر شاہ کے اقرباء پروری۔
8 دیہات میں پنچائیتی نظام کے ذریعے حکومتی جاسوسی۔
9 پانی کے بہم رسانی کے نام پر لوگوں کو بے گھر کرنا۔
10 تعمیر و ترقی کے نام پر امریکی مداخلت قائم کرنا۔
11 اصلاحی تعلیمی نظام کے نام پر غیر مسلم افکار کو فروغ دینا۔
12 ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بہتات۔
13 مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے نام پر غیر اسلامی سرگرمیوں کی ترویج۔
14 امریکی ذہنی غلامی کے لیے آٹھ سال کے بچوں کے لیے انگریزی کی لازمی اور مفت تعلیم۔
15 امریکی این جی اوزکی طرف سے ضرورت مند ماؤں اور نومولود بچوں کے لیے مفت خوراک کا نظام۔
16 سوشل سکیورٹی کے نام پر تمام ایرانیوں پر حکومتی کنٹرول۔
17 زمین، مکان کے لیے قرضوں کے نام پر سودی نظام کی ترویج۔
18 رشوت ،بدعنوانی اور بے ایمانی کے نام پر امریکی افسران کو بھاری معاوضے کے ساتھ حکومتی شعبوں پر مسلط کرنا۔
شاہ کے خلاف تحریک
اگرچہ اس سفید انقلاب نے ایران کو مادی ترقی اور خوشحالی میں آگے بڑھایا لیکن ایرانی عوام عیش پرستی، فحاشی میں بری طرح پھنس کر قحبہ خانوں کے دلدادہ ہو چکے تھے۔۔۔اسلام سے بیزاری کھلے عام دیکھنے میں آنے لگی۔۔پورے ملک میں امریکی تسلط کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہونے لگیں ۔۔۔ملک کے اندر نصاب ہٹنا شروع ہوگیا۔۔اور لاقانونیت نے ڈیرے ڈال دیے۔۔ایران کی عوام حکومتی ظلم و جبر کی چکی میں بری طرح پسنے لگی۔۔ایسے وقت میں حکومت کے خلاف ذرا سی بات کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔۔۔یہی وہ وقت تھا جب شاہی حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز عوام کے دل کی آواز بن گئی۔۔ ایران کا پورا مذہبی طبقہ شاہ کی ظالمانہ حکومت کا شدید مخالف تھا۔۔۔جو عالم حکومت پر تنقید کرتا اسے جیل میں ڈال دیا جاتا اور طرح طرح کے اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔۔۔ شاہ ایران نے حکومت کی مخالفت کے جرم میں بڑے بڑے دیگر علماء کی طرح رافضی پیشوا آیت اللہ خمینی کو بھی جلا وطن کر دیا۔۔شاہ کی حکومت کے خلاف منظم جدوجہد کے دوران وہ فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔۔۔انہوں نے فرانس، روس اور دیگر امریکہ مخالف حکومتوں کے تعاون سے شاہ کے خلاف تحریک کو کنٹرول کیا۔
تحریک کی کامیابی
میں اس وقت قم یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔اس تحریک میں ہماری یونیورسٹی کے طلباء نے بھرپور جدوجہد کی۔ یہ تحریک کا ایک طوفان تھا۔ جس نے چند ہی دنوں میں شاہ کا غرور ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ ہر مذہب ،مسلک اور ہر طبقہ کے لوگ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ امریکہ کی پوری طاقت شاہ کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور یہ تحریک کامیاب ہو گئی۔
خمینی کی آمد
تحریک کی کامیابی کے بعد خمینی کی فرانس سے آمد کا اعلان ہوا تو پورے ایران میں جشن کا سماں تھا۔ ہر شخص خمینی کو اپنا رہبر اور اپنا نجات دہندہ سمجھ رہا تھا اہلِ سنت کی تمام آبادی حتٰی کہ تمام غیر مسلم بھی خمینی کو مسیحا کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ یکم فروری 1979 ء کو خمینی ایران ایئرپورٹ پر اترا، تو لاکھوں لوگ اس کا دیدار کرنے کے لیے بے چین تھے۔ خمینی کے ساتھ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ خمینی جس کار میں سوار ہوا اس کو ہماری یونیورسٹی کے طالب علموں کے ایک گروپ نے سروں پر اٹھا لیا۔ خمینی کی کار اٹھانے والوں میں خود میں بھی شامل تھا ۔ہم نے لمبے فاصلے تک کار کو سروں پر اٹھائے رکھا ۔شاہ کے خلاف تحریک کی کامیابی اور خمینی کی ایران آمد کے بعد اس تحریک کو انقلاب کا نام دے دیا گیا ،بعد میں سنیوں کو پیچھے کر کے یہ تحریک خالص رافضی انقلاب کے روپ میں ظاہر ہوگئی۔
ایرانی انقلاب کے بعد اہلِ سنت کی حالت زار
ایران میں رافضی انقلاب کے بعد اہلِ سنت کی حالت زار سے متعلق سوال پر امیر رضا قمی نے فرمایا:
ایران میں رافضی انقلاب سے بیشتر طہران میں اہلِ سنت کی ایک مسجد ہوا کرتی تھی۔ جسے شاہی مسجد کہا جاتا تھا۔اس مسجد میں دیگر مسلم ممالک کے سفراء نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ اس مسجد کا پیش امام ایک مصری عالم تھا ۔جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ۔وہ امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا۔خمینی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا حکم یہ جاری کیا کہ یہ مسجد چونکہ اہلِ بیت کے ساتھ بغض رکھنے والوں کی ہے۔ اس لیے یہ مسجد فوری طور پر مسمار کر دی جائے۔ اس حکم کے بعد صرف ایک رات میں ہی یہ مسجد ملیامیٹ کر دی گئی۔ ملک بھر کے تمام سنی علماء کو پابند کر دیا گیا کہ جلسے اور جلوس تمہارے لیے ممنوع قرار دے دیے گئے ہیں۔خطبات جمعہ کے لیے لاؤڈ سپیکر پر پابندی لگا دی گئی۔ جبکہ رافضیوں کے امام باڑے اس پابندی سے مستثنٰی رہے۔ جب سنیوں کی طرف سے اس پابندی کی وجہ دریافت کی گئی تو انہیں بتایا گیا کہ ایران میں چونکہ رافضیوں کی کثرت ہے۔ اس وجہ سے سنیوں کے خطبات لاؤڈ سپیکر پر دینے سے رافضیوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اس لیے تمہیں لاؤڈ سپیکر پر تقریر کی اجازت نہیں ہے۔
حکومتی عہدوں سے محرومی
ایران کی فوج میں تمام سنی افسران کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں اذیتیں دے دے کر قتل کر دیا گیا۔بیورو کریسی کہ بڑے بڑے سنی افسران کو خمینی کے حکم نامہ کے تحت بغیر کسی عدالت میں پیش کیے قتل کر دیا گیا۔ ایران کے آئین میں واضح طور پر یہ شق داخل کی گئی ،کہ کوئی سنی شخص کسی اعلیٰ حکومتی عہدے، حتٰی کہ کسی تھانے کا ایس ایچ او تک بننے کا اہل نہیں ہوگا۔ ایران کے آئین میں اپنی مرضی سے رد و بدل کر کے اہلِ سنت کی تمام آبادی کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔
درس قرآن پر پابندی
رافضی انقلاب سے پہلے شاہ ایران نے 30 فیصد اہلِ سنت کو مکمل حقوق دیے ہوئے تھے۔ زاہدان شہر کے مولانا عبدالعزیز جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے ۔ریڈیو اسٹیشن زاہدان سے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں درس قرآن دیتے تھے۔ اردو پروگرام شام چھ بجے پاکستان میں بھی سنا جاتا تھا ۔رافضی انقلاب کے بعد خمینی نے یہ پروگرام بند کرادیا۔
متعہ کا رواج
شاہ نے رافضیوں کا لذت بخش متعہ قانونی طور پر بند کیا ہوا تھا ۔شاہ ایران رافضی علماء اور عوام کو کہتا تھا کہ میں نے تمہارے لیے"گمرک"(چکلے) بنا دیے ہیں۔ رقم دے کر اپنی خواہشات پوری کریں۔ لیکن اسلام کے نام پر متعہ (زنا) نہ کریں. حکومت کو پتہ چلتا کہ کسی رافضی عالم نے متعہ کیا ہے۔ تو اسے تین سال کے لیے جیل میں بند کر دیا جاتا تھا۔ شاہ کے جانے کے بعد خمینی نےگمرکوں کو بند کروا کر متعہ گھر عام کر دیا۔
امیر رضا کی خمینی سے ملاقات
آیت اللہ خمینی سے ملاقات کے سوال پر امیر رضا قمی نے فرمایا: اس وقت میرے لیے خمینی کا درجہ ایک نائب امام کا تھا۔ اس لیے خمینی کے ساتھ انتہائی درجے کی عقیدت کی وجہ سے ملاقات کا شرف ہمارے لیے کائنات کی سب سے بڑی نعمت تھی۔ میں نے ایران میں اپنے قیام کے دوران خمینی سے 35 بار ملاقات کی ان ملاقاتوں میں بعض خارجی امور سے متعلق مشاورت کی ملاقاتیں تھیں
خمینی کے عزائم
انقلاب کی کامیابی کے بعد خمینی کے عزائم کے متعلق سوال کے جواب میں امیر رضا قمی نے فرمایا: خمینی نے ایران کے اندر مکمل طور پر حکومتی گرفت کے بعد پوری دنیا میں رافضی انقلاب برآمد کرنے کے لیے بھرپور مہم شروع کر دی. اس مقصد کے لیے پہلے مرحلے میں پوری دنیا کے تمام ممالک خصوصا مسلمان ملکوں میں موجودہ رافضی آبادی کو متحرک کرنے کا پروگرام بنایا گیا. دوسرے مرحلے کا آغاز رافضی آبادی کی بیداری کے بعد ہونا تھا۔جس کے تحت رافضی آبادی کو مکمل طور پر مسلح کر کے مسلمان ملکوں کی حکومتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا۔
تکمیل عزائم کی کوششیں
پہلے مرحلے کے آغاز کے طور پر دیگر ملکوں کی طرح پاکستان اور ہندوستان سے رافضی علماء کو بھی ایران بلایا اور انہیں پاکستان میں رافضی انقلاب برپا کرنے کا مشن سونپا گیا۔
1979 ء میں ایران کے رافضی انقلاب سے پہلے پاکستان میں رافضیوں کے پاس کوئی سیاسی قیادت یاجماعت موجود نہ تھی اور نہ ہی کسی رافضی نے کبھی پاکستان میں رافضی انقلاب کے بارے میں سوچا تھا۔خمینی کی دعوت پر پاکستان کے رافضی علماء کا وفد ایران پہنچا ،وہاں تین دن تک اجلاس ہوتا رہا۔ اس وقت میں بھی اس اجلاس میں شریک رہا۔ اجلاس کے آخری دن خمینی نے خود پاکستان کے لیے مفتی جعفر حسین کو قائد ملت جعفریہ پاکستان نامزد کیا
اور انھیں کروڑوں روپے کے فنڈز کے ساتھ پاکستان میں رافضی انقلاب کا راستہ ہموار کرنے کا مشن دے کر روانہ کیا ۔پاکستان پہنچنے کے بعد مفتی جعفر حسین نے غریب عوام دینی جماعتوں اور رافضی علماء کو لاکھوں روپے تقسیم کر کے متحرک کر دیا۔ ایران کی حکومت کی طرف سے تمام رقم صرف رافضیوں کے لیے ہی مخصوص نہ تھی ۔بلکہ بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث علماء کے لیے بھی خصوصی فنڈ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔خاص طور پر جماعت اسلامی کے لیے ایک خطیررقم مخصوص کی گئی تھی۔ اس وقت میری موجودگی میں اس رقم میں سےنصف رقم کےخرد برد کےانکشافات بھی ہوئے تھے۔لیکن اسے حکومت کی طرف سے نظر انداز کر دیا گیا۔پاکستان میں مفتی جعفر حسین نے تمام رافضیوں کو اکٹھا کر کے جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اسلام آباد کا گھیراؤ کر لیا اور اپنے مطالبات ڈنڈے کے زور پر منظور کروائے۔ایرانی حکومت نے سفارت خانوں کے ذریعے رافضیوں کو مسلح کرنے کے لیے اسلحہ اور کمانڈوز روانہ کیے پاکستان میں رافضی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔
سپاہ صحابہؓ کا سد راہ بننا
مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کی جدوجہد کے سوال پر امیر رضا قمی نے فرمایا۔: 1985ء میں مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ نے ایرانی عزائم کو بھانپ کر سپاہ صحابہؓ کے نام سے جماعت قائم کی۔ تو اس جماعت کی باز گشت ایرانی حکومت کے اعلیٰ حلقوں میں سنی گئی، شروع شروع میں مولانا حق نواز جھنگویؒ کی آواز کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی۔ لیکن جب سپاہ صحابہؓ کافی پھیلنے لگی تو ایران کے مذہبی حلقوں میں زبردست تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ مولانا حق نواز جھنگویؒ کی جدوجہد سے ایران کی سنی عوام میں بھی واضح طور پر بیداری محسوس کی جانے لگی تھی۔
سید امیر رضا قمیؒ کی پاکستان آمد
قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد مولانا عارف حسین الحسینی آف پارا چنار کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا قائد مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اپنی نامزدگی کے بعد پشاور شہر میں اپنی جماعت کا بہت بڑا سیکرٹریٹ قائم کیا ۔جس میں عارف حسینی کے نام سے ایک بہت بڑے مدرسے کا پروگرام بھی شامل تھا۔عارف حسینی چونکہ پارا چنار کا رہنے والا تھا۔ اسے پشتو زبان سے زیادہ واقفیت نہ تھی۔ انہوں نے ملت جعفریہ کا پیغام عام پٹھانوں کے پاس پہنچانے کے لیے کسی پشتون عالم کی ضرورت محسوس کی۔ اس مقصد کے لیے اس نے علامہ خمینی کو ایک خط لکھا کہ ہمارے پاس پشتو جانے والا عالم بھیجا جائے۔
میں اس وقت قم یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہا تھا ۔عارف حسینی کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے میرا نام تجویز کیا گیا۔ فوری طور پر مجھے تین دن کی خاص تربیت دے کر پشاور کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ میری خاص تربیت میں یہ بات سب سے اہم تھی کہ میں پٹھان قوم کے اندر رافضی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی جدوجہد کروں اور پٹھان قوم کے بچے چونکہ ابتداء سے ہی اسلحہ وغیرہ سے آشنا ہوتے ہیں۔ اس لیے خاص کر پٹھان نوجوانوں کو مسلح جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے مجھے خاص حکم دیا تھا۔اس وقت 1984 ء میں مجھے پندرہ ہزار روپے ایرانی حکومت اور دس ہزار روپے عارف حسینی کی طرف سے بطور تنخواہ دینے کا حکم ہوا۔ میرے مشن میں پٹھان قوم کے دیہاتوں خاص طور پر قریہ قریہ جا کر ایرانی انقلاب کے فوائد بیان کرنا اور خمینی کو عالم اسلام کا سب سے بڑا رہبر اور نجات دہندہ ثابت کرنا شامل تھا۔
اتحاد بین المسلمین قائم کرنے کا مشورہ
پشتون علاقے کے دیہاتوں کا دورہ کرنے کے بعد میں نے عارف حسینی کو مشورہ دیا، کہ آپ ہر جگہ اہلِ بیت کی بات کرتے ہیں۔پاکستان میں چونکہ سنی اکثریت ہے پاکستان کے لوگ اہلِ بیت کے نام پر زیادہ متحرک نہیں ہو رہے۔ جب ہم خمینی کے ہمراہ اہلِ بیت کا ذکر کرتے ہیں۔ تو لوگ ہمیں رافضی جان کر ہماری بات توجہ سے نہیں سن رہے، میں نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو کوئی ایسا نعرہ دیا جائے جس کی طرف عام لوگوں کی بھی توجہ ہو جائے
انہوں نے مجھ سے پوچھا تو پھر کیا نعرہ ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ فقہ جعفریہ کی بات کریں گے تو لوگ توجہ نہیں دیں گے۔ اگر آپ ایرانی انقلاب پاکستان میں برپا کرنا چاہتے ہیں۔ تو پھر فقہ جعفریہ کا نام استعمال نہ کریں ۔بلکہ ایسا نام ہو جو سب کے لیے یکساں ہو ۔تو ہم نے غور و غوض کے بعد اتحاد بین المسلمین کے نام سے تنظیم قائم کی۔ میں نے کہا آپ تقیہ کر کے جس کی وجہ سے آپ کو بے شمار ثواب بھی حاصل ہوگا۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام قرآن و سنت کے عنوان سے پورے ملک میں کانفرنس کا اہتمام کریں۔ اس سے سنی عوام بھی آپ کی بات غور سے سنے گی۔ میری اس تجویز کو بہت پسند کیا گیا اور اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے، پورے ملک کے اندر قرآن و سنت کے نام سے کانفرنس کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ جن میں ایرانی انقلاب اور خمینی کو عالم اسلام کے سب سے بڑے راہبر کے طور پر پیش کرنا تھا۔ جس کے تحت بڑی بڑی قرآن و سنت کانفرنسیں لاہور، کراچی، بھکر، ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان، کوئٹہ ،اور پشاور، میں منعقد ہوئیں ۔
کانفرنسوں کے فوائد
ان کانفرنسوں کے نتائج پر غور کرنے کے لیے ہمارا اجلاس ہوا ۔تو اس اجلاس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان کانفرنسوں کے بے شمار فوائد سامنے آگئے ہیں۔ اس سے جہاں سنی آبادی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے وہاں پر ملت جعفریہ کو پوری طرح منظم کرنے میں بہت زیادہ مدد ملی ہے۔ ان کانفرنسوں کا سب سے زیادہ اور فوری فائدہ (کالعدم) سپاہ صحابہؓ کی یلغار کے آگے بند باندھنے میں بڑی مدد ملی۔ ان کانفرنسوں کی کامیابی کے بعد پاکستان کی بیوروکریسی اور فوج کے بڑے بڑے رافضی افسران نے علامہ عارف حسینی کو نہ صرف مبارکبادیں دیں۔ بلکہ حیران کن مثبت نتائج سے بھی آگاہ کیا۔
جماعت اسلامی کی حمایت
ان کانفرنسوں کے بعد روپے، پیسے کے لالچ میں بہت سی سنی تنظیمیں اور سنی علماء حتٰی کہ جماعت اسلامی کی پوری قیادت خمینی انقلاب اور امام خمینی کی زبردست حامی بن کر میدان میں آ گئی ۔اور جماعت اسلامی خمینی انقلاب کو پاکستان کے اندر درآمد کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہو گئی۔ پاکستان کی غیر رافضی جماعتوں اور غیر رافضی مکاتب فکر کے علماء سے رابطہ کے لیے مجھے ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سلسلے میں،میں نے ایک وفد کی صورت میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما سید اسعد گیلانی سے منصورہ میں ملاقات کی اور علامہ عارف حسینی کا پیغام پہنچایا. پہلی فرصت کے اندر میں سید اسعد گیلانی کو ایک اعلیٰ قیادتی وفد کے ساتھ اپنے خرچے پر ایران لے گیا۔ وہاں آیت اللہ خمینی کے علاوہ دیگر اعلیٰ انقلابی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔سید اسعد گیلانی کو ایرانی انقلاب اور عالم اسلام کے سب سے بڑے رہبر خمینی کے موضوع پر کتاب لکھنے کا کہا گیا ۔تو سید اسعد گیلانی نے پہلے مرحلے میں آیت اللہ خمینی کی کتاب (ولایت فقیہ) کا اردو ترجمہ کر کے جماعت اسلامی کی طرف سے شائع کرنے کی حامی بھر لی۔ اس مقصد کے لیے سید اسعد گیلانی کو ابتدائی کام شروع کرنے کے لیے میری موجودگی میں علامہ عارف الحسینی کے ذریعے 10 لاکھ روپے ادا کیے گئے ۔ اس وقت جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے مودودی کی کتاب (خلافت و ملوکیت) کا فارسی ترجمہ کر کے ایرانی حکومت کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں شائع کر کے مفت تقسیم کرنے پر ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آپ کے قائد خمینی ہمارے قائد ہمارے قائد مودودی آپ کے قائد ہیں.
سیدنا علیؓ دنیا و آخرت کے مالک ہیں
خلافت راشدہ: اتنی آسائشوں دولت شہرت کے باوجود کس چیز نے آپ کو شیعہ مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا؟
سید امیر رضا شاہ قمی مدظلہ:..........
ظاہر بات ہے کہ دنیا شیعیت میں آنکھ کھولی انہی میں پیدا ہوا دولت عزت شہرت ہر چیز میسر تھی اور شیعہ مذہب کی تعلیم و تہذیب سے آراستہ ہو کر اپنا آبائی مذہب جسم و جان سے زیادہ عزیز اور گراں قدر تھا۔ اپنے مذہب اور مسلک کو تبدیل کرنا اور کرانا کسی مجبوری کے تحت نہیں ہوا کرتا۔ البتہ شیعہ مذہب مجبوری کی بنا پر اپنایا نہیں، بلکہ چند ماہ یا سال اور کچھ دنوں کے لیے تقیہ اختیار کر کے چھوڑا جا سکتا ہے۔ کیونکہ شیعوں کے نزدیک اس میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ،بلکہ ان کے مذہب میں باعث ثواب اور قرب الہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ تبدیل مذہب یا دوسرے لفظوں میں ہدایت سے ہمکنار ہونا، قرآن و سنت کی روشنی میں یہ طاقت صرف اللہ تعالی ہی کو حاصل ہے۔ حصول ہدایت کا اختیار کسی نبی الانبیاء اور اولیاء اللہ کو بھی حاصل نہیں اور نہ ہی یہ کسبی چیز ہے جو انسان محنت و مشقت سے کام لے کر حاصل کرنے کی کوشش و کاوش کرے۔ البتہ قرآن و سنت کی پاکیزہ تعلیمات میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آیات الہی، رجوح الی اللہ، میلان قلبی، کا داعیہ انسان کو ضرور چاہیے ،اللہ رب العزت کا یہ عام قانون ہے کہ وہ اپنی ہدایت کا راستہ کسی انسان پر ٹھونستے نہیں ہیں نہ ہی وہ زبردستی اور جبری عمل سے کام لیتے ہیں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے انلزمكموها وانتم لها كارهون الايه ،
ترجمہ: کیا ہم تم پر کوئی لازم کرنے والے ہیں جس کو تم ناپسند کرتےہو۔
دوسری آیت میں ارشاد گرامی ہے
لا اكراه في الدين الایہ: دین اسلام میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے ۔شیعہ مذہب کی اس وقت 72 تفسیریں ہیں۔ جو عربی اور فارسی پر مشتمل ہیں۔ یہ سب کی سب میرے پاس موجود ہیں۔ یہ تمام تفسیریں مجھے ایران سے مفت ملی ہیں ۔مذکورہ 72 تفسیروں کی روشنی میں مختصراً آپ پرواضح کرنا چاہتا ہوں کہ کائنات کے تمام شیعوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ سیدنا علیؓ مشکل کشا اور حاجت روا ہے، اولاد دینے والا ہے، رزق دینے والا ہے، تنگی و فراخی ،نفع و نقصان کا مالک سیدنا علیؓ ہیں۔ جتنے امور اس دنیا میں پیش آنے والے ہیں، ان تمام امور کو حل کرنے والا سیدنا علیؓ ہے۔ گو شیعہ تعلیمات میں مذکورہ بالا عقیدہ رکھنا ہر شیعہ پر واجب اور فرض عین ہے اس کے ساتھ یہ بات بھی ان کے بنیادی عقائد میں شامل ہے، کہ سیدنا علیؓ کے پاس امور حل کرنے کی چابی موجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالی کے جو اوصاف تھے وہ تمام سیدنا علیؓ کو سپرد کر دیے گئے اور سیدنا علیؓ کو دنیا کا خالق، مالک بنا دیا گیا۔ باقی رہ گئی آخرت کی بات کہ آخرت جو ہمیشہ رہنے والی جگہ ہے۔ اس آخرت کے مقام کا اختیار کس کو سونپا گیا؟ یعنی دنیا کا حاجت روا مشکل کشا تو سیدنا علیؓ ہے اور آخرت کا حاجت روا مشکل کشا کون ہے؟ یہاں پر شیعہ لوگ شش و پنج میں مبتلا تھے بعد میں اس چش و پنج سے نکلنے کا ایک راستہ ڈھونڈ لیا۔ پھر اس کو خود ساختہ روایات کی فیکٹری میں ڈال کر ایک سانچہ تیار کر لیا کہ جناب رسولﷺ نے سیدنا علیؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ یا علي انت قسيم النار والجنه
ترجمہ
اے سیدنا علیؓ جنت اور دوزخ کا تو مالک اور تقسیم کرنے والا ہے۔ " مذکورہ خود ساختہ حدیث کا مطلب واضح ہے کہ سیدنا علیؓ دنیا کے بھی مالک ہیں اور آخرت کے بھی موجودہ شیعہ کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی اس دنیا میں نظر نہیں آسکتا اور نہ ہی آخرت میں نظر آئے گا۔ اگر آخرت میں نظر آئے گا تو سیدنا علیؓ کی شکل میں نظر آئے گا یعنی خود خدا علیؓ ہوگا۔ (نعوذ بالله من هذه العقيدة السيئة) اگر اللہ کے رسولﷺ نے سیدنا علیؓ کو جنت اور دوزخ کا اختیار دے دیا تو خود اللہ اور رسولﷺ کہاں گئے؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ شیعوں نے اللہ اور رسولﷺ کو پس پردہ کر کے کہاں پہنچا دیا ہے ۔اور سیدنا علیؓ کو آگے کر کے کہاں پہنچانا چاہتے ہیں۔ دنیائے شیعیت کا آج بھی یہی عقیدہ ہے کہ علیؓ، علیؓ کرو دنیا اور آخرت میں بیڑہ پار ہو جائے گا اس کے ساتھ شیعوں کا ایک یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم سیدنا علیؓ پر نازل ہونا تھا ۔لیکن جبرائیلؑ نے غلطی سے اس کے بھائی حضرت محمدﷺ پر نازل کر دیا۔ چلو یہ دونوں تو ان کی آپس کی بات تھی ۔نبوت و رسالت میں دونوں شریک تھے۔ لیکن سیدنا علیؓ تو دنیا آخرت میں مشکل کشاء اور حاجت روا ہے شیعہ مذہب چھوڑنے سے پہلے سیدنا علیؓ کے بارے میں میرا بھی یہی عقیدہ تھا۔ لیکن اب اس عقیدے کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت حیران ہوتا ہوں کہ ان لوگوں کی عقل کہاں گئی۔
ایک تفسیر نے کایا پلٹ دی
بات دور نکل گئی میں دراصل شیعہ مذہب چھوڑنے کی کہانی بیان کر رہا تھا ،کہ میں جامعہ عارف الحسینی پشاور میں بیٹھا ہوا تھا ۔شیعہ مذہب کی محبوب ترین تفسیر "المیزان فی تفسیر القران" مفسر رئیس المجتہدین محمد حسین طباطبائی کا مطالعہ کر رہا تھا, جہاں کہیں قرآن کریم میں "علیا کبیرا یا وھو العلی العظیم"کا ذکر آیا. وہاں شیعہ مفسرین اس سے سیدنا علیؓ مراد لیتے ہیں, لیکن پہلی ایک واحد تفسیر محمد حسین طباطبائی نے کی ہے, جس نے کھل کر دوسری اکہتر تفسیروں کی مخالفت کی ہے وہ لکھتا ہے: وھو العلی العظیم لا علی کما یقولون اویکتبون :کہ اس سے سیدنا علیؓ ہرگز ,ہرگز مراد نہیں ہے. جس طرح ہمارے ذاکرین اور حجت الاسلام و مجتہدین اس جملہ سے سیدنا علیؓ مراد لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں بلکہ اس سے مراد اللہ تعالی ہی ہیں۔ جونہی میری نظر اس جملہ پر پڑی میری قلبی کیفیت بڑی غضبناک صورت میں ظاہر ہو گئی۔ اس وقت میرے دل نے چاہا کہ اس تفسیر کو کسی کھڈ میں پھینک دوں، کیونکہ یہ بات سراسر میرے اور ملت شیعہ کے عقیدے کے خلاف تھی۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد میرے دل کی کیفیت پلٹ آئی۔ اور اس بات پر آمادہ ہو گئی کہ شاید یہ بات تقیہ کرتے ہوئے لکھ دی گئی ہو ۔اب میں نے سوچا کہ اس کا معنی تو یہی بنتا ہے، مگر سیاق و سباق تمام اگلی پچھلی عبارتوں کو ملا کر ممکن ہے اس کا مفہوم ،مفہوم مخالف بنتا ہو۔ پھر میں نے نئے سرے سے شوق و ذوق کے ساتھ مذکورہ جملوں پر نظر دوڑائی چند بار مطالعہ کرنے سے اس نتیجے پر پہنچا کہ معنی اور مفہوم میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بلکہ معنی اور مفہوم دونوں یکساں ہیں۔ کہ "وھوالعلی العظیم" سے مراد اللہ ہی ہے۔ سیدنا علیؓ ہرگز مراد نہیں ہے. پھر آگے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں"اے شیعو! اگر تمہارا دعوی یہی ہے کہ قیامت کے روز سیدنا علیؓ مشکل کشا اور حاجت روا ہے اور جنت اور دوزخ تقسیم کرنے والا ہے۔ تو پھر اس آیت کریمہ کا کیا بنے گا. جو کہ اللہ تعالی قیامت کے روز فرمائے گا "لمن الملك اليوم؟" آج کے دن حاجت روا ،مشکل کشا کون ہے؟ اس روز تمہارے بنائے ہوئے خود ساختہ مشکل کشا ،حاجت روا خاموش ہوں گے بولنے کی طاقت کسی کے پاس نہ ہوگی بلکہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہوگا اور جواب یہی ہوگا لله الواحد القهار آج کا مشکل کشا، حاجت روا صرف اور صرف اکیلا اللہ قہار ہی ہوگا ۔
محمد طباطبائی یہ تمام باتیں لکھنے کے بعد وسیلہ کے بارے میں جا کر پھنس گیا کہ سیدنا علیؓ کو پکارنا مدد خدا ہے۔ جب مذکورہ جملہ میں نے چند بار پڑھ لیا تو میرے دل کی دنیا بدل چکی تھی ،کیونکہ پہلے والے عقیدے میں شک آگیا تھا۔ اور جس عقیدے میں شک آجائے وہ عقیدہ، عقیدہ ہی نہیں رہتا، اپنے سابقہ عقیدہ میں شک آجانے کے بعد حق حاصل کرنے کے لیے میں نے تحقیق شروع کی۔
بریلوی علماء سے رابطہ اور ان کا مایوس کن جواب
سب سے پہلے میں نے علماء اہلِ سنت سے رابطہ قائم کیا لیکن یاد رہے کہ اس وقت میرے اور دیگر شیعہ کے نزدیک اہلِ سنت صرف اور صرف بریلوی طبقہ ہی کو تصور کرتے تھے۔ دیوبندیوں کو ہم وہابی کہتے تھے۔ چنانچہ میں نے علماء بریلوی کے ساتھ تحقیق کی خاطر رابطہ کیا مگر آگے سے بریلوی علماء کہہ دیتے"شاہ صاحبؒ ! آپ تو الحمدللہ اہلِ بیت عظام کو مانتے ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں۔۔۔آپ بھی پنج تن پاک کو مانتے ہیں ہم بھی پنج تن پاک کو مانتے ہیں۔۔۔آپ بھی اہلِ بیت کو مشکل کشا ،حاجت روا مانتے ہیں۔ ہم بھی ان کو مشکل کشا، حاجت روا مانتے ہیں۔۔آپ بھی اہلِ بیت کو عالم الغیب مانتے ہیں .ہم بھی ان کو عالم الغیب مانتے ہیں۔۔آپ بھی اہلِ بیت کو نور مانتے ہیں. ہم بھی ان کو نور مانتے ہیں۔۔۔آپ بھی اہلِ بیت کو حاضر و ناظر مانتے ہیں .ہم بھی ان کو حاضر ناظر مانتے ہیں۔۔آپ بھی نعرہ حیدری لگاتے ہیں ہم بھی لگاتے ہیں۔۔آپ بھی یا علی مدد کہتے ہیں. ہم بھی کہتے ہیں۔۔آپ کے مذہب تشیع میں اور ہمارے مذہب میں کوئی خاص فرق نہیں، انیس،بیس کا فرق ہے. مگر شاہ جی ایک بات یاد رکھیں کہ دیوبندی وہابیوں سے بچ کر رہیں"
جب بھی بریلوی علماء سے اس طرح کی باتیں سنتا تھا. پریشانی کے سوا مجھے حاصل نہ ہوتا تھا. کیونکہ جس چیز کی مجھے تڑپ تھی وہ کچھ حاصل نہ ہوتی تھی،اس وقت مجھے سمجھ آیا کہ پیسہ بولتا ہے کیونکہ خمینی کی طرف سے بریلوی علماء کو تنخواہ تین، چار ہزار حسب مرتبہ ملتی تھی کہ" شیعہ سنی بھائی, بھائی تیسری قوم کہاں سے آئی" کا نعرہ لگائیں اور جو ان کے پاس تحقیق کے لیے آئے۔ ان کو یہی نام کہیں تم ٹھیک ہو, اس لیے میں کہتا ہوں" شیعہ ہے نمبر ون' یہ ہیں نمبر ٹو۔
كانه هو بعد میں ہدایت کا سبب اللہ تعالی نے بنا ہی دیا۔
دیوبندی عالم سے رابطہ اور ان کی فیصلہ کن رہنمائی
ایک دیوبندی عالم مولانا محمود الحسنؒ سے ملاقات ہوئی اور متواتر دس ماہ بحث مباحثہ جاری رہا۔ مسئلہ امامت و خلافت، مسئلہ ولایت اور وصایت، مسئلہ متعہ، تقیہ، بداء اور دیگر مابہ الامتیاز مسائل جو مابین شیعہ و سنی واقع ہیں، تمام میں بحث و مباحثہ ہوا. مولانا محمود الحسنؒ جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، انہوں نے ہر موضوع پر میری بہترین رہنمائی فرمائی، مجھے حق بات اس انداز میں سمجھائی اسلام کی حقیقی نورانیت میرے قلب و جگر میں اترتی چلی گئی اور بالآخر میں نے 1995ءمیں شیعیت سے تائب ہو کر حقیقی اسلام قبول کر لیا" اللہ تعالی مجھے استقامت نصیب فرمائے اٰمین"
شیعہ کو پیغام
اس موقع پر میں پوری شیعہ قوم سے عرض کروں گا کہ وہ حب سیدنا علیؓ کہ خول سے نکل کر اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں
جب اسلام کا حقیقی پیغام آپ کے دل میں اترے گا۔ تو ہدایت کا نور آپ کے لیے سکون و اطمینان کا باعث بنے گا۔
دیوبندی عالم مولانا محمود الحسنؒ کا تعارف
مولانا محمود الحسنؒ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تھے ۔اور الحمدللہ انہیں عربی، فارسی زبان پر خوب عبور حاصل تھا ۔مولانا عبدالعزیز زاہدانیؒ ایرانی جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے ۔انہوں نے شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ اکوڑہ خٹک والوں کو خط لکھا ،کہ یہاں زاہدان شہر میں ایک باصلاحیت مدرس چاہیے، جو عربی، فارسی کو اچھی طرح سے جانتے ہوں۔ یہ ایران میں خمینی کی آمد سے پہلے کی بات ہے۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے صوابدید پر مولانا محمود الحسنؒ کا انتخاب عمل میں آیا۔ انہوں نے زاہدان شہر میں پانچ سال تک پڑھایا۔ اس دوران مولانا محمود الحسن صاحبؒ شیعہ مذہب کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے اور مذہب شیعہ سے مکمل شناسائی حاصل کرلی۔ جب خمینی انقلاب آیا تو خمینی نے قانون نافذ کیا، کہ امامیہ مذہب جعفری کے برعکس جو یہاں ایران میں خارجی اساتذہ ہیں، وہ ایران سے فورا نکل جائیں۔ چنانچہ محترم اساتذی مولانا محمود الحسنؒ بھی خمینی قانون کی زد میں آگئے اور ایران کو خیر باد کہہ کر پاکستان آگئے ۔
مصائب کا سامنا
خلافت راشدہ :.... شیعہ مذہب چھوڑنے کے بعد آپ کو کن کن مشکلات اور مصائب سے گزرنا پڑا؟
مولانا امیر رضا شاہ قمی ۔۔۔سب سے بڑی دکھ کی بات ہی یہ ہوتی ہے کہ انسان جب اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو وہ اپنے عزیز و اقارب سے مکمل علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ آگے پیچھے تمام رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔اس سے بڑی اذیت کیا ہو سکتی ہے،میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔اپنے والدین بہن، بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے تعلقات منقطع ہو گئے۔ اپنی جاگیر اپنی کوٹھی سے محروم ہونا پڑا تین دفعہ قاتلانہ حملے ہوئے لیکن اللہ تعالی نے تا حال مجھے حفظ و امان میں رکھا ہے۔
تنظیم اہلِ سنت کے ساتھ وابستگی
خلافت راشدہ۔۔
شیعہ مذہب چھوڑنے کے بعد آپ نے کس پلیٹ فارم سے کام کا آغاز کیا؟
مولانا سید امیر شاہ قمی۔۔۔پہلے پہل تو حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔ کہ کسی پلیٹ فارم سے آغاز کیا جائے. قاتلانہ حملوں کے بارے میں جب اخبارات میں بیانات آگئے, تو اس وقت مولانا ضیاء القاسمیؒ مناظر اسلام مولانا یوسف رحمانیؒ اور دیگر علماء نے میرے ساتھ ملاقات کر کے یہ تاکید فرمائی کہ آپ ذرا خاموشی اور مصلحت پسندی سے کام لیں، انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی علماء کرام کے حکم کے مطابق میں چار پانچ سال گوشہ تنہائی میں چلا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خفیہ تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا
الحمدللہ میں اس وقت پاکستان میں مختلف مقامات پر دوسرے ساتھیوں سے مل کر مختلف شہروں اور گاؤں میں 350 کے قریب شیعہ کو مسلمان کر چکا ہوں۔ یہ (نوٹ یہ 2004 ء کی بات ہے. دسمبر2007 ء میں راقم نے فون پر پوچھا تو کہا کہ 1250 شیعوں نے مذہب اہلِ سنت قبول کر لیا ہے الحمدللہ اللهم زد فزد) بعد میں مولانا محمد عمر فاروق تونسوی مدظلہ جو علمائے مناظر اسلام عبدالستار تونسویؒ کے فرزند ارجمند ہیں وہ پشاور میں آتے رہتے تھے اور ہماری ملاقات ہوتی رہتی تھی
انہوں نے ایک دفعہ عظمت قرآن کانفرنس پر تقریر کروانے کے لیے ڈیرہ غازی خان بلا لیا میں نے تقریر کی اور علامہ عبدالستار تونسوی مدظلہ نے میری تقریر کا ایک، ایک لفظ سنا۔ علامہ عبدالستار تونسوی مدظلہ نے تنظیم اہلِ سنت کے تمام مبلغین کو اکٹھا کر کے فرمایا :کہ شاہ جی کو اپنی تنظیم اہلِ سنت میں شامل ہونے کی دعوت ضرور دیں،شاہ جی کی تقریر علامہ سید نور الحسن شاہ بخاریؒ کی طرح ہے۔ چنانچہ تمام مبلغین تنظیم اہلِ سنت پاکستان نے مجھے شمولیت کی دعوت دی اور میں نے تبلیغی سلسلے کا آغاز تنظیم اہل سنت پاکستان سے کیا ، چھ ,سات، سال سے اسی تنظیم سے وابستہ چلا آرہا ہوں۔
لکل فرعون موسیٰ
خلافت راشدہ
کالعدم سپاہ صحابہؓ کے پروگرام اور مشن سے کب اور کیسے واقف ہوئے؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی۔۔کالعدم سپاہ صحابہؓ سے واقفیت تو اسی وقت ہوئی۔ جب اس کی بنیاد 1985ء میں رکھی گئی ظاہر بات ہے کہ شیعوں کا اصل مشن صحابہؓ رسول کی دشمنی عداوت اور تبرا بازی پر مبنی ہے۔ میرے دل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بہت زیادہ نفرت موجود تھی۔ اس وقت ایک داعیہ پیدا ہوا تھا کہ کائنات میں کون سا ایسا نعوذ باللہ بدبخت اور غلیظ ترین آدمی پیدا ہوا ہے۔جوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دفاع اور تحفظ کا مشن چلائے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ آئندہ میں اس قافلہ حق کا ساتھی بننے والا ہوں۔ بطور اختصار یہ بات کہتا ہوں کہ اگر اس وقت سپاہ صحابہؓ کی تنظیم وجود میں نہ آتی تو پاکستان ایرانی بل بوتے پر فقہ جعفری کا سٹیٹ بن جاتا لیکن عربی کا مقولہ مشہور ہے"لکل فرعون موسیٰ " ہر فرعون وقت کے لیے موسی جیسے آدمی پیدا ہوتے ہیں۔
توحید مستحکم ہو گئی
خلافت راشدہ۔۔۔علامہ حق نواز شہیدؒ کا مشن یا ان کی تقریر آپ نے پہلی مرتبہ سنی تو آپ کے تاثرات کیا تھے؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی۔۔جس طرح میں نے بتلایا کہ علامہ حق نواز شہیدؒ پہلے مجھے مبغوض لگتے تھے۔لیکن جب اہلِ السنت والجماعت میں آکر قرآن و سنت کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام معلوم ہوا پھر دل نے انگڑائی لی اور یہ محسوس کیا کہ یا اللہ اگر جھنگوی شہیدؒ سے ایک ملاقات ہو جاتی تو کیا اچھا ہوتا ۔لیکن وہ مجھے ہدایت کی روشنی ملنے سے پہلے ہی اس دار فانی کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ میں حق نواز شہیدؒ کی تقریر سننے کی تاب نہیں رکھ سکتا تھا۔ لیکن جب تحقیق کی طلب اور ضرورت پیش آئی تو اللہ کون ہے؟والی کیسٹ سنی تو میری توحید مستحکم اور دل مطمئن ہو گیا.
علامہ ضیاء الرحمن فاروقیؒ عظیم شخصیت تھے
خلافت راشدہ۔علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہیدؒ سے آپ کی ملاقات کب ہوئی اور آپ نے ان کو کیسےپایا ؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی
غالبا 1995 ء میں شیرا نوالہ باغ گجرانوالہ میں کالعدم سپاہ صحابہؓ کی طرف سے ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی تھی ۔جس میں علامہ ضیاء الرحمن فاروقیؒ نے شرکت فرمائی جبکہ اس وقت مولانا نواز بلوچؒ سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر تھے اور مولانا حافظ قاری عبدالبصیر برہانی بدخشانی کے ذریعے سے جامع مسجد صدیقیہ رسول پورا میں ملاقات ہوئی۔ علامہ شہیدؒ نے مجھے سپاہ صحابہؓ میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ لیکن اس وقت میرے حالات سازگار نہیں تھے البتہ علامہ شہیدؒ سے گفتگو میں محسوس ہوا کہ علامہ شہیدؒ ایک عظیم شخصیت نابغہ روزگار اور مورخ اسلام ہیں۔ علامہ شہیدؒ کی تقریرو تحریر دونوں میں حق گوئی للّٰہیت اور خلوص کے چشمے ابلتے تھے۔
مولانا اعظم طارق شہیدؒ سے ملاقات اور اعلان شمولیت
خلافت راشدہ۔۔مولانا اعظم طارق شہیدؒ کے ساتھ آپ کی ملاقات کب اور کیسے ہوئی اور آپ نے انہیں کیسے پایا اور کالعدم ملت اسلامیہ میں کب شامل ہوئے؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی
۔۔۔مولانا اعظم طارق شہیدؒ کے ساتھ پہلی ملاقات بمقام دائرہ دین پناہ تحصیل کوٹ ادو میں 20 اگست 2000 ء قرار پائی تھی۔ ایک بڑی کانفرنس بنام عظمت قرآن کانفرنس جس میں ہم دونوں مدعو تھے۔ لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے وہ ملاقات بھی نہ ہو سکی،قابل ذکر بات یہ ہے کہ وارث الشہداء قاری عبدالبصیر برہانی بدخشانی کی قربانیاں کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ اس نے 1999ء میں ضلع صوابی بمقام جلبی شہدائے سپاہ صحابہؓ جذبہ جہاد کانفرنس 17 کو منعقد کروائی، اس کانفرنس میں بھی مجھے دعوت دی گئی تھی۔ جبکہ اس وقت علامہ حیدری مدظلہ اور اعظم طارق شہیدؒ دونوں جیل کی سلاخوں میں بند تھے۔ اس کانفرنس میں سپاہ صحابہؓ کے نمائندے بالخصوص خلیفہ عبدالقیوم مدظلہ سے لے کر مولانا مسعود الرحمن عثمانی تک تمام قائدین سپاہ صحابہؓ نے شرکت فرمائی تھی۔اس وقت قاری عبدالبصیر برھانی نے مجھے بھی سپاہ صحابہؓ میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ لیکن حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے میں نے معذرت کر لی بعد میں سپاہ صحابہؓ پر پابندی لگ گئی اور جب ملت اسلامیہ بن گئی ،تو قاری عبدالبصیر برہانی وفود کی شکل میں پانچ مرتبہ میرے گھر آئے ۔تو ملت اسلامیہ میں شامل ہونے کی حامی بھر لی ایک شرط کے ساتھ کہ مولانا اعظم طارق شہیدؒ کی ملاقات میرے ساتھ کروائیں چنانچہ قاری عبدالبصیر برہانی نے فوراً مولانا اعظم طارق شہیدؒ سے رابطہ کیا۔ مولانا اعظم طارق شہیدؒ نے قاری عبدالبصیر برہانی سے فرمایا کہ شاہ صاحبؒ اگر زحمت فرمائیں تو یکم اکتوبر 2003 قصہ خوانی بازار پشاور شہر میں "نفاذ شریعت" کانفرنس میں تشریف لائیں۔ تو قمی صاحب سے باضابطہ بات چیت ہو جائے گی۔ چنانچہ میں حاضر خدمت ہوا میں نے بھی نفاذ شریعت کانفرنس میں تقریر کی اور مولانا اعظم طارق شہیدؒ سے ملاقات ہوئی اور بڑے اخلاص سے فرمایا" شاہ جی! جس طرح شیعہ کے گھروندے آپ جانتے ہیں ہم اتنا نہیں جانتے۔ آپ اگے ہوں گے جس قسم کی خدمت ہم سے ہو سکی ہم کر گزریں گے۔ ملت اسلامیہ کے سپاہی اور جانباز آپ کے ساتھ ہوں گے میں نے پہلی مرتبہ پیکر اخلاص کی باتیں سنیں ۔ تو نہایت متاثر ہوا اور اسی دن سے میں نے عزم کیا کہ حضرت مولانا اعظم طارقؒ کی طرح میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جان نثار اور سپاہی بنوں گا۔ مگر تقدیر کا فیصلہ کہ مولانا اعظم طارقؒ 16 اکتوبر کو تحفظ ناموس صحابہؓ کی خاطر ہم سے جدا ہو گئے۔ 17 اکتوبر کو میں نے احتجاجی جلوس نکالا اور مجھے گرفتار کر لیا گیا ۔صوبہ سرحد بالخصوص پشاور شہر کی ملت اسلامیہ کے قائدین کی پرزور مذمت و مطالبے پر مجھے رہائی نصیب ہوئی۔ رہائی کے بعد میں سیدھا جھنگ تعزیت کے لیے چلا گیا۔ بعد میں ملت اسلامیہ کے ایم ٹی اے نڈر اور جرات مند سپاہی مولانا ابراہیم قاسمیؒ نے 18 اکتوبر کو احتجاجی جلسہ پشاور شہر میں کرایا اور اسی احتجاجی جلسہ میں باضابطہ طور پر میں نے اعلان شمولیت کیا۔
شیعہ مذہب یہودیت کے مترادف ہے
خلافت راشدہ
۔۔آپ نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ شیعہ مذہب میں گزارا تو آپ نے شیعہ مذہب کو کیسا پایا؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی۔۔گندے اور برے اعمال جو شیعہ مذہب میں انجام دیے جاتے ہیں۔ وہ کسی اور مذہب میں نہیں، شیعہ مذہب دوسرے لفظوں میں یہودیت کے مترادف ہے۔ دنیا میں اگر شیعیت بڑھتی ہے تو اس کا واحد راستہ متعہ کا عمل ہے۔ کیونکہ زنا تو حرام ہے لیکن شیعہ مذہب میں متعہ کی صورت میں زنا کرنا حلال جائز اور باعث ثواب ہے۔
قرآن مجید کے بارے میں شیعی نظریات
خلافت راشدہ
۔۔قران مجید کے بارے میں شیعہ کے اصل نظریات کیا ہیں؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی۔قرآن مجید کو شیعہ مذہب میں کوئی مقام حاصل نہیں بلکہ شیعہ مذہب قرآن کریم سے انکاری ہے ان کی دو ہزار روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مذکورہ قرآن مجید جو مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے یا ان کے گھروں اور مسجدوں میں موجود ہے ۔شیعہ کے نزدیک اصلی اور حقیقی نہیں بلکہ اصل قرآن مجید ان کا بارہواں امام، سیدنا مہدی غار میں اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ ان کا قرآن تو سیدنا مہدی لے گیا ہے۔ اور وہ دشمنی ہم سے کر رہے ہیں عجیب بات ہے کہ شیعہ لوگوں کو ہدایت کی ضرورت نہیں تھی شیعہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیتیں جہاں کہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح اور منقبت ایمان اور دخول جنت کے بارے میں آتی ہیں۔ یہ تحریف ہوئی ہے یہ سنیوں نے اپنی طرف سے قرآن کریم میں داخل کی ہیں۔
ختم نبوت کے بارے میں عقیدہ
خلافت راشدہ۔آنحضرتﷺ کی ختم نبوت کے بارے میں شیعہ مذہب کیا کہتا ہے؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی۔شیعہ مذہب میں مسئلہ امامت ایسا مسئلہ ہے۔ جو ختم نبوت سے انکار پر مبنی ہے۔ اگر شیعہ لوگ نبی کریمﷺ کو آخری نبی تسلیم کرتے تو امامت کا مسئلہ کھڑا نہ کرتے وہ کہتے ہیں بلکہ ان کی اپنی احادیث ہیں الامامه افضل من النبوۃ كہ امامت نبوت سے افضل ہوتی ہے۔ شیعہ مذہب میں نبوت کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔
بارہ اماموں کا مقام
خلافت راشدہ۔
شیعہ مذہب میں بارہ اماموں کا مقام کیا؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی ۔مفترض الطاعتہ یعنی بارہ اماموں کی اطاعت فرض ہے وہ نبیوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔ بلکہ تمام انبیاء کرام سے افضل دنیا اور آخرت میں مشکل کشا ،حاجت روا ،بیڑا پار کرنے والے، عالم الغیب ہیں۔
صحابہ کرامؓ و خلفائے راشدینؓ کے بارے میں شیعی نظریات
خلافت راشدہ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصا خلفائے راشدینؓ کے بارے میں شیعہ نظریہ کی وضاحت فرمائیں؟
سید امیر رضا شاہ کاظمی
۔۔شیعوں کے مذہبی اصول پانچ ہیں اور ارکان دس ہیں۔ ان دس ارکانوں میں ایک رکن اس بات پر مبنی ہے جسے وہ اپنی اصطلاح میں تبرہ کہتے ہیں، تبرہ کا معنی ہے بیزاری اور براءت اختیار کرنا اور نفرت کا اظہار کرنا یہی رکن مخصوص ہے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے جو بھی مذہب شیعہ رکھتے ہیں وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نفرت ضرور کرتے ہیں ۔جو نفرت و بیزاری کا اعلان نہیں کرتا وہ ہرگز شیعہ نہیں ہے ۔خلفائے راشدینؓ میں سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ و سیدنا علیؓ چاروں آتے ہیں۔ لیکن شیعہ لوگ تین سے انکاری ہیں جب وہ اپنا کلمہ پڑھتے ہیں۔ لا اله الا الله محمد رسول الله علي ولي الله وصی رسول الله وخليفته بلا فصل
یعنی تیسرا جزء مستقل طور پر سیدنا علیؓ کی خلافت کے لیے ہے۔ انہیں تو مانتے ہیں مگر سابقہ تینوں خلفاء راشدینؓ کو نہیں مانتے۔
ایرانی حکومت کے اقدامات
خلافت راشدہ۔
ایرانی حکومت یا مذہب کے پرچار کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے ۔
سید امیر رضا شاہ کاظمی۔
ایرانی حکومت کی عوام اور علماء کو روپے دیتی ہے ۔لٹریچر ان سے چھپوا کر شیعہ مذہب کی اشاعت کرتی ہے اور کراتی ہے پاکستان کی تمام مجلس عزا ایرانی حکومت کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔
خلافت راشدہ
۔کالعدم سپاہ صحابہؓ کے قائدین کی شہادتوں میں ایرانی حکومت کا کیا ہاتھ ہے؟
سید امیر رضا شاہ
۔مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ سے لے کر جتنی شہادتیں واقع ہوئی ہیں۔ ان میں ایرانی حکومت کا مستقل ہاتھ ہے۔ اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جب مولانا اعظم طارق شہیدؒ نے بارہویں امام کا آپریشن کیا ۔تو ایرانی حکومت نے ان کو واجب القتل قرار دے دیا۔
اہلِ سنت کے نام پیغام
خلافت راشدہ
۔پوری دنیا کے اہلِ سنت کے نام کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں؟
سید امیر رضا شاہ
۔۔اہلِ السنت والجماعت قرآن و سنت کی روشنی میں جناب محمدﷺ کی حقیقی اور ہدایت یافتہ جماعت ہے اور شیعہ مذہب کائنات میں غلیظ ترین مذہب ہے اس سے بچ کر رہیں اس کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اور اہلِ السنت والجماعت کے پلیٹ فارم سے دنیا میں جتنے ادیان باطلہ ہیں ان تمام کو شکست دے سکتے ہیں۔
ملت اسلامیہ کے کارکنوں کے نام پیغام
خلافت راشدہ
۔۔کالعدم سپاہ صحابہؓ و ملت اسلامیہ کے قائدین اور کارکنوں کے نام آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
سید امیر رضا شاہ۔
ہمارے قائدین اور کارکنوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خاطر اپنی عزیز جانیں قربان کی۔ ہم بھی یہی راستہ اختیار کر کے جھنگوی مشن کو عام کرنے کے لیے میدان عمل میں اتریں۔ اور شیعیت کے خلاف دعوت کو جاری رکھ کر قائدین و کارکنوں کی قربانیاں ضائع نہ ہونے دیں۔ اور نہ ہی ان کے پاکیزہ مشن کے ساتھ سودا بازی کریں۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کر خلوص دل سے احقاق حق و سنت اور ابطال باطل وشیعیت کا کام جاری و ساری رکھیں۔ یہی سچا اور کھرا راستہ ہے اگر آج ہم نے ناموس صحابہؓ کے تحفظ کے جدوجہد سے روگردانی کی تو کل آنے والی نسلیں ہمارا گریبان پکڑیں گی۔
(ماخوذ ماہنامہ خلافت راشدہ مارچ اپریل 2004ء)
آخری گزارش
بندہ نے چند علماء مجتہدین اور ذاکروں کے حالات اس جلد میں قلم بند کیے ہیں۔ اگر قارئین نے اس کاوش کو پسند کیا اور بندہ کی حوصلہ افزائی کی، تو ان شاءاللہ اس سلسلے کی دوسری و تیسری جلدیں بھی منظر عام پر آ سکیں گی۔ کیونکہ اس کتاب میں مذکور حضرات کے علاوہ بھی عام لوگوں سے قطع نظر کئی علماء و مجتہدین کے حالات بندے کے سامنے ہیں۔اگر اس سے کسی بھائی کو فائدہ پہنچے یا کسی کو ہدایت ملے، تو بندہ کو اس پر ضرور مطلع کریں، نیز اگر کسی کے پاس ایسے کسی خوش نصیب کے حالات ہوں، جو شیعہ مذہب کی تاریکی سے نکل کر اہلِ سنت مذہب کی روشنی میں داخل ہوا ہو ،تو ان کو قلمبند کر کے بندہ تک پہنچا دے۔ ان شاءاللہ اس کو اگلی جلد میں شامل کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالی اس کاوش کو قبول کر کے بندہ اور دوسرے مسلمانوں کے لیے ذریعہ اطمینان و وسیلہ پختگی ایمان اور گمراہوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنائے۔
آمین ثم آمین
محمد اسماعیل میلسوی
فاضل جامعہ اسلامیہ باب العلوم کہروڑ پکا۔