Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کی نگاہ میں مسئلہ امامت کی اہمیت اور اس کی تردید

  امام ابنِ تیمیہؒ

شیعہ کی نگاہ میں مسئلہ امامت کی اہمیت اور اس کی تردید

شیعہ مصنف ابن المطہر آغاز کتاب میں رقمطراز ہے:

’’یہ ایک مفید رسالہ اور لطیف مقالہ ہے، جو دین کے اشرف و اہم ترین مسائل پر مشتمل ہے اور وہ مسئلہ امامت ہے۔ اس لیے کہ اس کے فہم و ادراک سے عزو شرف کے دروازے کھلتے ہیں ۔ یہ ارکان ایمان میں سے ایک ہے اور اس کی وجہ سے جنت میں دائمی زندگی نصیب ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کے غضب سے نجات حاصل ہوگی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو شخص امام زمانہ کو پہچانے بغیر مر جائے، وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ میں نے سلطان اعظم، شاہ عرب و عجم،مولی النعم ‘صاحب خیرو کرم؛ شہنشاہ مکرم غیاث الملۃ والدین والحق ’’الجاتیو خدا بندہ‘‘ کی لائبریری کے لئے یہ کتاب تحریر کی ہے ،جس میں میں نے دلائل کا خلاصہ پیش کیا ہے‘اوراہم ترین مسائل کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔میں نے اس کا نام ’’ منہاج الکرامۃ في معرفۃ الإمامۃ ‘‘ رکھا ہے ۔ اور اسے چند فصلوں میں ترتیب دیاہے:

۱۔ فصل اول میں امامت کے مسئلہ میں جو مذاہب پائے جاتے تھے ؛ بیان کیے ہیں ۔

۲۔ فصل ثانی میں یہ بیان کیا کہ امامیہ کا مسئلہ واجب الاتباع ہے۔

۳۔ فصل ثالث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے دلائل بیان کیے ہیں ۔

۴۔ فصل رابع میں بارہ ائمہ پر روشنی ڈالی ہے۔

۵۔ فصل خامس میں خلافت ابوبکر و عمر کا بطلان ثابت کیا ہے۔ (العیاذ باللّٰہ)[انتہٰی کلام الرافضی]

جوابات :

مذکورہ بالا بیان پر کئی طریق سے گفتگو کی جا سکتی ہے:

سب سے پہلے : ان سے یہ کہا جائے گا کہ ابن المطہر کا یہ قول کہ مسئلہ امامت اہم المطالب اور مسلمانوں کے اشرف ترین مسائل میں سے ہے؛ شیعہ وسنی علماء کے اجماع کی روشنی میں بالاتفاق کذب ہے۔بلکہ ایسا کہنا کفر ہے۔اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان سے بڑھ کر کوئی اور مسئلہ اہم نہیں ۔ یہ بات دین اسلام میں لازمی طور پر سب کو معلوم ہے ۔ اس لیے کہ کوئی کافر اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ کی گواہی نہ دیدے ۔ یہی وہ کلمہ ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارسے قتال کیا تھا۔ جیساکہ صحاح اور دوسری کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((أمرت أن أقاتل الناس حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللہ أني رسول اللہ ؛ویقیموا الصلاۃ ویؤتوا الزکاۃ فإذا فعلوا ذلک عصموا منی دمائہم وأموالہم إلا بحقھا۔))[البخاری ۱؍۱۰؛ مسلم ۱؍۵۲۔]

,,مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ اس بات کی گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ۔ جب وہ ایسا کرلیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کرلیں گے مگر اسلام کے حق کیساتھ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ َو احْصُرُوْہُمْ وَ اقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ﴾ [التوبہ ۵]

’’پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب خیبر کی طرف بھیجاتو آپ سے یہی ارشاد فرمایاتھا۔ کفار کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سیرت تھی ۔ جب بھی وہ اپنے کفر سے توبہ کرلیتے توان کے اموال و نفوس کوامن حاصل ہوجاتا۔کبھی بھی ان کے سامنے امامت کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ﴾ [التوبہ ۱۱]

’’پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمھارے بھائی ہیں ۔‘‘

مذکورہ بالا آیت میں صرف توبہ کرلینے کی وجہ سے انہیں دینی بھائی قرار دیا گیاہے ۔

یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ کفار جب عہد نبوی میں مشرف بہ اسلام ہوا کرتے تھے تو ان پر اسلامی احکام جاری کر دیے جاتے تھے اور مسئلہ امامت کا ان کے سامنے ذکر تک نہ کیا جاتا۔اور نہ ہی کسی اہل علم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات نقل کی ہے ۔نہ ہی کوئی خاص منقول ہے اورنہ ہی عام منقول ۔بلکہ ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب کوئی کافر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام قبول کرنا چاہتا توآپ اس کے سامنے مسئلہ امامت کا اظہار تک نہیں فرمایا کرتے تھے۔ نہ مطلق طور پر اورنہ ہی مقید طور پر۔ پھر یہ مسئلہ اہم المطالب کیوں کر ہوا؟

اگر ہم بالفرض تسلیم بھی کرلیں کہ امامت کی معرفت ضروری ہے ‘ تو پھر بھی جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں انتقال کر گئے ‘انہیں اس مسئلہ کی معرفت کی ضرورت نہیں تھی۔توپھر وہ مسئلہ تمام مسائل دین سے اہم ترین اور اشرف ترین مسائل میں سے کیونکر ہوسکتا ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔کیاوہ لوگ جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہری و باطنی طور پر ایمان لائے‘اور پھر دین اسلام پر قائم رہے ‘اس میں نہ ہی کوئی تبدیلی کی ‘اور نہ ہی ارتداد کے مرتکب ہوئے؛ کیا وہ باتفاق مسلمین [شیعہ و سنہ ]تمام مخلوق سے بہترین لوگ نہیں تھے؟ ۔ورنہ وہ مسلمانوں سے کیسے افضل ہوسکتے ہیں جو دین کے اہم ترین اورافضل ترین مسائل سے لا بلد ہوں ؟

امامت کی اہمیت کا وہم اور اس پر رد:

اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارک میں خود امام تھے۔ اور امام کی ضرورت آپ کی وفات کے بعد پیش آئی۔یہ مسئلہ کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں اہم ترین مسائل میں سے نہیں رہا ۔ بلکہ آپ کی موت کے بعد دین کے اہم ترین مسائل میں سے ہوگیا۔

تواس کے جواب کہا جائے گا کہ :

۱ول: اگر اس بات کوصحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی یہ کہنا جائز نہیں کہ یہ مسئلہ مطلق طور پر دین کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔بلکہ کبھی کبھار بعض اوقات میں ایسا ہوتا ہے ۔ باقی اوقات میں یہ نہ ہی دین کے اہم مطالب میں سے ہوتا ہے اورنہ ہی اشرف ترین مسائل میں سے ۔

دوم : یہ کہا جائے گا کہ: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ہر زمانے میں اور ہر جگہ پر امامت کی نسبت اہم ترین مسائل میں سے رہا ہے ۔پس امامت کا مسئلہ کسی طرح بھی اہم ترین مطلب اور اشرف ترین مسئلہ نہیں ہوسکتا۔

سوم : یہ کہا جائے گا کہ: اگر واقعی یہ اتنا اہم ترین مسئلہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا کہ وہ باقی امت کے لیے اس مسئلہ کو بیان فرماتے ؛ جیسا کہ نماز ‘ روزہ ؛ زکاۃ اور حج کے امور کو بیان فرمایاہے۔ اور خاص کر اللہ تعالیٰ پر ایمان ‘ اس کی توحید اور آخرت پر ایمان کوبیان کیا ہے ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ان [رافضی] اصولوں کے مطابق امامت کا مسئلہ نہ ہی قرآن میں بیان ہوا ہے اور نہ ہی سنت میں ۔

اگر یہ کہا جائے کہ : امامت ہر زمانے میں اہم ترین مسئلہ رہی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بھی تھے اور امام بھی اور یہ بات ہر اس آدمی کومعلوم ہے جو آپ پر ایمان لایاہے کہ آپ اس وقت کے امام تھے ۔

ہم کہتے ہیں یہ عذر پیش کرنا کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے :

پہلی وجہ :کہنے والے کایہ کہنا کہ : امامت احکام دین کے اہم ترین مطالب میں سے ہے ؛یا تو اس سے مراد بارہ امام ہوں گے ‘ یا پھر ہر زمانے میں متعین امام ہوگا۔ اس طرح سے کہ ہمارے اس زمانے میں امام غائب مہدی منتظر پر ایمان رکھنا ضروری ہوگا۔ جب کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے پر ایمان رکھنا ضروری رہا ہوگا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اہم آپ کی امامت پر ایمان رکھناہوگا۔ یا پھر اس سے مطلق امامت پر ایمان ہوگا‘اس سے کوئی متعین شخص مراد نہیں ہوگا۔یا پھر اس سے کوئی چوتھا معنی مراد ہوگا۔

پہلا معنی: یہ بات اضطراری طور پر سب کومعلوم ہے کہ یہ مسئلہ نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مشہور و معروف تھا اور نہ ہی تابعین کرام کے درمیان۔بلکہ شیعہ خود کہتے ہیں : ’’ ان[ائمہ ] میں سے ہر ایک اپنے سے پہلے امام کے متعین کرنے سے امام بنتا ہے۔ پس یہ بات باطل ہوگئی کہ یہ مسئلہ دین کے اہم ترین امور میں سے ہے۔

دوسرا معنی: اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو اس سے مراد یہ ہوگی کہ ہر زمانے میں اس زمانے کے امام پر ایمان رکھا جائے۔ تو اس لحاظ سے سن ۲۶۰ ہجری سے لیکر آج تک امام مہدی منتظر محمد بن حسن عسکری ہوگا۔ اور امامت پر ایمان رکھنا ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ کے اقرار؛ اللہ تعالیٰ ‘فرشتوں ‘ کتابوں اور رسولوں پر آخرت کے دن پر ایمان سے ؛اور نماز ‘ زکوٰۃ ‘روزہ ‘ حج اور دیگر ارکان اسلام پر ایمان اور دیگر تمام واجبات سے بڑھ کر اہم ہوگا۔ 

یہ بات سبھی کومعلوم ہے کہ مسلمانوں کے دین میں اس طرح کی باتیں کرنا بالکل فاسد ہیں ۔یہ امامیہ کا قول [مذہب ]بھی نہیں ۔اس لیے کہ ان کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی امامت کااہتمام مہدی منتظر کی امامت کے اہتمام سے بہت بڑھ کر ہے ۔ جیسا کہ اس کتاب کے مصنف نے اور اس جیسے دیگر شیعہ مشائخ نے نقل کیا ہے۔ امامیہ فرقہ کے پاس دین سے صرف یہ متاع باقی رہ گئی ہے کہ انہوں نے امام معدوم کو امام معصوم قرار دیا ہے؛ جو کہ نہ انہیں دین میں کوئی فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں ۔پس انہیں اس امام کی امامت پر ایمان رکھنے سے نہ ہی کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہوا اور نہ ہی کوئی دینی [یا اخروی]فائدہ ۔

تیسرا معنی: اگر یہ کہیں کہ : ’’ اس سے مراد یہ ہے کہ مطلق طور پرامامت دین کے اہم ترین مطالب میں سے ہے ۔تو یہ کہنا بھی باطل ہے ۔اس لیے کہ یہ بات سبھی لازمی طور پر جانتے ہیں کہ دین کے دوسرے امور اس سے بڑھ کر اہم ہیں ۔اوراگر اس سے مقصود کوئی چوتھا معنی ہے توشیعہ مصنف کوچاہیے کہ اس کی وضاحت کرے ؛ تاکہ ہم اس پر بحث کرسکیں ۔

دوسری وجہ : یہ کہا جائے گا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امام ہونے کی وجہ سے آپ کی اطاعت لوگوں پر فرض نہ تھی ؛ بلکہ لوگوں کی طرف آپ کے رسول ہونے کی وجہ سے اطاعت فرض تھی۔یہ بات آپ کے لیے زندگی میں اور وفات کے بعد ہر حال میں ثابت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں آنے والے لوگوں پر بھی آپ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح آپ کے زمانے کے لوگوں پر فرض تھی۔ آپ کے اہل زمانہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو آپ کے پاس موجود ہوا کرتے تھے ‘ اور آپ کے امرو نہی کوسماعت کیا کرتے تھے ۔اورکچھ دوسرے لوگ تھے ‘جو آپ کی مجلس سے غائب ہوتے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کرنے والے لوگ ان تک شرعی احکام پہنچاتے۔تو ان پر بھی اطاعت کرنا واجب ہوتی۔ ایسے ہی بعد میں آنے والے لوگوں کا معاملہ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے؛ اور ان تمام لوگوں کوشامل ہے چاہیے وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوں یا اس سے غائب ہوں ۔آپ کی زندگی میں اور اس کے بعد [جس تک بھی فرمان نبوت پہنچے ‘اس پر اس کا ماننا واجب ہو جاتاہے]۔ یہ خصوصیت امامت کو حاصل نہیں ۔یہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خاص متعین لوگوں کو کچھ احکام دیے ؛ اور کچھ متعین لوگوں کے لیے چند امور بیان کیے ؛ مگر اس کے باوجود یہ احکام صرف ان لوگوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہوں گے؛ بلکہ ان جیسے دوسرے لوگوں کے لیے بھی یہ احکام ہوں گے۔جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کو یہ حکم دینا کہ :

’’رکوع اور سجدہ میں مجھ پر سبقت نہ لے جاؤ ۔‘‘[مسلم ۱؍۳۲۰۔ ابن ماجۃ ۱؍۳۰۸۔]

یہ حکم ہر مقتدی کے لیے ہے جو بھی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہوکہ رکوع اور سجدہ میں امام سے آگے نہ بڑھے۔

ایسے ہی [حج میں ]رمی سے پہلے سر منڈوانے والے کیلئے آپ نے فرمایا تھا : ’’اب رمی کرلو‘ اس میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘

جس انسان نے حلق[سر منڈوانے] سے پہلے قربانی کردی تھی ‘ اس سے فرمایا:

’’ اب سر منڈوالو ‘ کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ [البخاری ۲؍۱۷۳۔ مسلم ۲؍۹۴۷]

جن لوگوں کے ساتھ اس کے بعد بھی اس طرح کا معاملہ پیش آجائے ان کے لیے یہی حکم ہے ۔

ایسے ہی جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ماہواری شروع ہوگئی توآپ نے حکم دیا تھا :

’’ ایسے ہی کرتی جاؤ جیسے باقی حاجی کررہے ہیں ‘صرف بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ۔‘‘[البخاري ۲؍۱۵۹۔]

اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ بخلاف امام کے؛ جب اس کی اطاعت کی جائے۔

اور اس کے بعد اس کے خلفاء کا معاملہ بھی امر و نہی کی تنفیذ میں کچھ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے اس امام کی زندگی میں ہوتا ہے۔ پس ہر حکم دینے والا جب کسی ایسی بات کا حکم دیتا ہے جس میں اس کی اطاعت کرنی واجب ہو‘ تو حقیقت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نافذ کررہا ہوتا ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوتمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا اوران پر آپ کی اطاعت فرض کردی۔ اس وجہ سے نہیں کہ آپ حکمران ہیں اور آپ کے انصار و مدد گارہیں ۔ اور نہ ہی یہ وجہ ہے کہ کسی دوسرے نے آپ کی امامت کا عہد لیا ہے ؛ اس طرح کی دیگر کوئی بات بھی نہیں ۔اور آپ کی اطاعت ان امور پر بھی موقوف نہیں جن پر خلیفہ معہود کی اطاعت موقوف ہوتی ہے۔بلکہ اگر آپ کے ساتھ ایک آدمی بھی نہ ہو؛ اور تمام لوگ آپ کوجھٹلاتے رہیں ‘ تب بھی آپ کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے[اس لیے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ]۔مکہ میں ہجرت سے قبل جب آپ کے اعوان و انصار نہیں تھے ‘تب بھی آپ کی اطاعت واجب تھی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ ﴾ [آل عمران]

’’اور نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول، بیشک آپ سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر آپ فوت ہو جائیں ، یا قتل کر دیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے اور جو اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا ہے کہ [اگر بالفرض ] آپ کو قتل کردیا جائے ‘یا طبعی وفات ہوجائے ؛ تب بھی اس سے رسالت کے حکم میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔جس طرح ائمہ کی موت سے یا قتل کردیے جانے سے امامت کی اطاعت ختم ہوجاتی ہے۔اورنبی ہونے کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے کہ نبی ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے اور اس پر کبھی موت نہ آئے۔اس لیے کہ آپ رب نہیں ہیں ‘بلکہ بیشک آپ رسول ہیں ‘اورآپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کا حق ادا کیا‘ اللہ تعالیٰ کی امانت لوگوں تک پہنچا دی ؛ اور امت کے لیے خیر خواہی کی؛ اور اللہ کی راہ میں ایسے جہاد کیا جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔اورپھر اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے رہے یہاں تک کہ موت آگئی۔پس آپ کی اطاعت جیسے آپ کی زندگی میں واجب تھی ‘ایسے ہی موت کے بعد بھی واجب ہے ‘بلکہ زیادہ تاکیدی ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ دین مکمل ہوگیا‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت سے احکام شریعت میں استقرار و ٹھہراؤ آگیا ۔اب اس میں کسی چیز کے منسوخ [یاتبدیل ] ہونے کا امکان باقی نہیں رہا ۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد قرآن مجید جمع کیا گیا ۔

جب کوئی اعتراض کرنے والا یہ بات کہے کہ: ’’ بیشک آپ اپنی حیات مبارکہ میں خود امام تھے‘اور آپ کے بعد دوسرے لوگ امام بن گئے۔اگر ایسا کہنے سے مقصود یہ ہو کہ یہ امام بھی ایسے ہی واجب الاطاعت ہے جیسے رسول کی اطاعت کی جاتی ہے ؛ تو ایسا کہنا سراسر باطل ہے۔اگر اس سے مقصود یہ ہے کہ امام آپ کے بعد خلیفہ بنا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کونافذ کرے ؛ تو ایسا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ہوتا رہا ہے ۔ اس لیے کہ جب بھی آپ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو اپنے پیچھے کسی کونگران چھوڑ کر جاتے ۔

اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اپنی زندگی کے برعکس موت کے بعد حکم دے کر کسی کو متعین نہیں کیا تھا۔

تو اس سے کہا جائے گا کہ :’’ امیر کے واجب الاطاعت ہونے کے لیے اس کا نام لے کر متعین کیا جانا ضروری نہیں ۔ بلکہ جس تک کہ اس کے اوامر و نواہی پہنچیں ان پر اطاعت لازمی ہوتی ہے۔ جیسا کہ جو انسان خود کلام سماعت کررہا ہو‘ اس پراطاعت واجب ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

’’ حاضرین کو چاہیے کہ وہ غائب لوگوں تک بات پہنچادیں ۔ بیشتر اوقات جس تک بات پہنچائی جاتی ہے ‘ وہ بات پہنچانے والے سے بڑھ کر یاد رکھنے والا ہوتا ہے ۔‘‘[رواہ البخاری۲؍۱۷۶۔]

اگر یہ کہا جائے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارک میں متعین معاملات میں فیصلے کیا کرتے تھے‘ جیسا کہ کسی شخص کو کچھ عطاء کرنا ‘کسی خاص شخص پر حد لگانا ؛ خاص لشکر کو روانہ کرنا۔

تو اس سے کہا جائے گا کہ : یہ بالکل درست ہے ۔اور اس طرح کے مسائل میں آپ کی اطاعت قیامت تک کے لیے واجب ہے؛ برخلاف ائمہ کے۔لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسے مسائل پر استدلال مخفی رہتا ہے۔ جیسا کہ آپ کی مجلس سے غائبین پر علم مخفی رہتاہے ۔ پس جو انسان آپ کی مجلس میں موجود ہو ‘وہ غائب کی بہ نسبت آپ کے قول کو زیادہ جانتا اور سمجھتا ہے۔ اگرچہ غائبین میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو براہ راست سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں ۔لوگوں میں ایسا فرق آپ کے امر و نہی کو سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اس پران کی اطاعت کے واجب ہونے میں کوئی فرق نہیں ۔

آپ کے بعد بھی ولی امر کی اطاعت ایسے ہی واجب ہے جیسے آپ کی حیات مبارک میں آپ کے متعین کردہ اولیاء الامر کی اطاعت واجب تھی۔آپ کی اطاعت تمام لوگوں کو یکساں طور پر شامل ہے۔ اگرچہ ان کے سننے ‘ سمجھنے اور فہم کے مراتب میں فرق ہے۔بعض لوگوں تک وہ احکام پہنچتے ہیں جو دوسروں تک نہیں پہنچے ہوتے اور کچھ لوگ آپ کی مجلس میں شرف سماعت سے باریاب ہوتے ہیں جو کہ کسی دوسرے انسان کو نہیں مل پاتااور کچھ لوگ اس حدیث کو ایسے سمجھ لیتے ہیں جیسے دوسرے نہیں سمجھ سکتے ۔

پس جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق حکم جاری کرے تو اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔حقیقت میں یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے ‘اس انسان کی نہیں ۔جب لوگوں پر کوئی ایسا حکمران ہو ‘ جو صاحب شان وشوکت ہو‘اور احکام نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو‘ اوروہ [احکام شریعت کے مطابق] حکم یا آرڈر جاری کرے ؛ تو اس کے ساتھ مل جانا چاہیے ؛ اور پھر جائز نہیں ہوتا کہ اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو حاکم بنایا جائے۔ پھر یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی انسان اس جیسا اورنہ ہو۔بلکہ کوئی ایسا انسان ہوسکتا ہے جو دوسرے کی بہ نسبت آپ کے زیادہ قریب ہو۔

خلافت نبوت کا سب سے زیادہ حق دار وہ انسان ہے جو آپ کے اوامر و نواہی کوجاری کرنے کے زیادہ قریب تر ہو۔ اورلوگ حکام کی اطاعت غالب طورپر اس وقت تک نہیں کرتے جب تک کوئی قوت والا حکمران ان پر بات ماننے کو واجب نہ کردے۔جیسا کہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں بہت سارے لوگوں نے ظاہری طور پر آپ کی اطاعت اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ آپ کو انصار و مدد گار میسر نہیں آگئے؛ جو آپ کی بات منوانے کے لیے جنگ و قتال تک کرتے تھے۔دین سارے کاسارا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی دین ہے۔پس جو کوئی رسول کی اطاعت کرتا ہے گویاکہ اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدبھی مسلمانوں کا دین اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔اور حاکم وقت کی ایسے امور میں اطاعت کرنا جن کاحکم شریعت میں موجود ہو‘حقیقت میں یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ [ایسے میں ]حاکم وقت کا حکم در اصل اللہ کا حکم ہوتا ہے ؛ جس کا اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں میں یہ حکم جاری کرے۔حکمران کا حکم ماننا [جب وہ احکام شریعت کے مطابق ہوتو]حقیقت میں اللہ کا حکم ماننا ہے۔ائمہ اور امت کے وہ اعمال جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور جن کے کرنے پر وہ راضی ہوتا ہے ‘حقیقت میں وہ تما م اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے کام ہیں ۔اسی لیے دین کی اصل بنیاد ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘کی گواہی کا اقرار ہے۔

اگریہ کہا جائے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے ‘اور آپ کی امامت رسالت سے خارج چیز تھی۔ یا آپ کی امامت میں کچھ ایسی شرائط تھیں جو رسالت میں نہیں تھیں ؛ یاآپ کی امامت ایسی تھی جس میں رسالت سے ہٹ کر اطاعت واجب تھی۔ یہ تمام باتیں باطل [اور دروغ گوئی ]ہیں ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر قابل اطاعت بات آپ کی رسالت میں شامل ہے۔ہر وہ بات جس میں آپ کی اطاعت کی جاتی ہے ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ واجب الاطاعت رسول ہیں ۔اور اگر یہ بات مان لی جائے کہ بالفرض آپ صرف امام ہیں ؛ تو آپ کی اطاعت اس وقت تک نہ کی جاسکتی جب تک آپ کی اطاعت کسی دوسرے رسول کی اطاعت کے زمرے میں نہ آتی۔اس لیے کہ اطاعت حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول کی ہے ‘اور پھر ان لوگوں کی جن کی اطاعت کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی امامت کی وجہ سے آپ کی اطاعت کی گئی ؛ اور یہ اطاعت مسئلہ رسالت میں شامل تھی۔ تو پھر اس بات کی کوئی تاثیر باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ صرف رسالت کا ہونا آپ کی اطاعت کے واجب ہونے کے لیے کافی ہے برعکس امام کے ۔ بیشک امام اس وقت امام بنتا ہے جب اس کے اعوان و انصارو مددگار ہوں جو اس کے حکم کو نافذ کریں ۔اگر ایسا نہ ہو تو وہ بھی کسی عام اہل علم اور اہل دین انسان کی طرح ہوگا۔

اگر یہ کہا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں انصار و مدد گار میسر آگئے تو آپ رسالت کے ساتھ ساتھ عادل امام بھی بن گئے۔

تو اس کے جواب میں کہا جائے گا : بلکہ آپ ایسے رسول ہوگئے جنہیں مددگار و انصار میسر آئے جو آپ کے احکام کو نافذ کرتے ‘ اور آپ کے مخالفین سے جہاد کرتے ۔ اور[یہ عہد کیا کہ] جب تک ایک بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والا انسان رؤئے زمین پر موجود ہے ‘ وہ ایسا کرتے رہیں گے ‘ آپ کے احکام کو نافذ کرتے رہیں گے‘ اور اس کی مخالفت کرنے والوں سے جہاد کرتے رہیں گے۔ اس میں کوئی حاکمیت یا امامت والی ایسی بات نہیں تھی جس کے ہونے سے رسالت کے باب میں کوئی خاص فائدہ ہو۔ اس لیے کہ یہ تمام امور خود رسالت میں شامل ہیں ۔لیکن ان انصار کی وجہ سے آپ کوکمال قدرت حاصل ہوگئی۔ اور آپ پر اوامر نازل ہوئے ‘ جہاد واجب ہوا جو کہ اس قدرت سے پہلے واجب نہیں تھا۔ پس یہ احکام علم اور عدم علم ؛ قدرت اور عاجزی میں اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں ؛جیسا کہ محتاج اور مالدار ‘ مریض اور صحت مند ہونے کی بنا پر مختلف ہوتے ہیں ۔مؤمن ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہوتا ہے؛ اور تمام امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اطاعت گزار ہوتا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘ آپ جس بات کا حکم دیتے ہیں ‘اور جس بات سے منع کرتے ہیں ‘ان تمام باتوں میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہوتے ہیں ۔

[شبہ]:اگر امامیہ فرقہ کے لوگ کہیں کہ: رسالت کے برعکس امامت از روئے عقل واجب ہوتی ہے ۔اس لیے یہ اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔ 

[جواب]:وجوب عقلی میں نزاع ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے ۔ اگر عقلی وجوب کو مان لیا جائے ؛ تو اس سے امامت کا وجوب باقی عقلی واجبات کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔ جب کہ دوسرے عقلی واجبات امامت سے  بڑھ کر اوجب الواجابت ہیں جیسے : توحید ؛ صداقت ؛ اور عدل اور دوسرے عقلی واجبات ۔اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اس واجب سے انسان کوملنے والا پیغام رسالت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔رسولوں پر ایمان لانے سے امامت کا مقصود حاصل ہوجاتا ہے؛آپ کی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی؛ بخلاف امامت کے۔پس جس انسان کے ہاں یہ ثابت ہوگیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؛ اور آپ کی اطاعت اس پر واجب ہے ؛ اور اس نے حسب استطاعت اتباع و اطاعت کی کوشش بھی کی ۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی وجہ سے وہ انسان جنت میں چلا گیا؛ تو پھر یہ انسان امامت سے بے نیاز ہوگیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوگا تو اس نے ایک ایسی بات کہی جو کہ قرآن و سنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر ان لوگوں کے لیے جنت کو واجب کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا:

﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النساء۶۹]

’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ [النساء۱۳]

’’یہ اللہ کی حدود ہیں ۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔‘‘

[صاحب زمان کی حقیقت]

نیز صاحب الزمان جس کی طرف یہ لوگ بلاتے ہیں ؛ لوگوں کے پاس اس کی معرفت حاصل کرنے کی کوئی راہ نہیں اور نہ ہی انہیں یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ انہیں کس بات کا حکم دیتا ہے اور کس چیز سے منع کرتا ہے ؛ اور انہیں کس بات کی خبر دے رہا ہے۔اگر کوئی انسان امام کی اطاعت کے بغیر خوش بخت نہیں ہوسکتا ؛ تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ کوئی بھی انسان جہاں میں نیک و خوش بخت نہ ہو؛ اور نہ ہی کوئی ایک نجات پاسکے؛ اور نہ ہی کسی ایک کے لیے اطاعت الٰہی کی کوئی راہ ہوتی۔ اور یہ انسان کی طاقت سے بڑھ کر مکلف ٹھہرائے جانے کی سب سے بڑی مثال ہوتی۔حالانکہ لوگ اس کے سب سے زیادہ محتاج تھے۔

[شبہ]: اگر یہ کہا جائے کہ : ’’ امام غائب اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس پر امامیہ فرقہ کے لوگ چل رہے ہیں ۔‘‘ 

[جواب]: تو ان سے کہا جائے گا کہ تو پھر اس امام کے وجود یا شہود کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ اس لیے کہ اگر اس امام منتظر کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کے لیے آنے والے احکام معلوم ہورہے ہیں تو پھر اس امام کی چنداں ضرورت نہیں خواہ یہ امام زندہ ہو یا مردہ ‘حاضر ہو یا غائب۔نہ ہی اس کی کوئی حاجت باقی رہتی ہے ‘اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نجات کا دارو مدار یا کسی ایک کی سعادت و شقاوت اس امام کی اطاعت پر منحصر ہے ۔اس صورت حال میں ایسے امام کی امامت کا کہنا ممتنع ہوجاتا ہے۔ چہ جائے کہ اس امام کی اطاعت کو واجب قرار دیا جائے۔ یہ بات ہر اس انسان پر واضح ہے جو معمولی سا بھی غور وفکر کرلے ۔ 

لیکن رافضی لوگوں میں سب سے بڑھ کر جاہل ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقلی اور شرعی واجبات کو بجالانااور عقلی و شرعی قبیحات کو ترک کرنا یا تو اس معرفت پر منحصر ہوگا کہ کوئی انہیں اس امام کی طرف سے یہ احکام پہنچائے؛ یا اس پر موقوف نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس معرفت پر موقوف ہے ‘ تواس سے انسان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف لازم آتی ہے ۔ اس لیے کہ واجبات کا بجالانا اور محرمات سے اجتناب کرنا ایسی شرط پر موقوف کر دیا ہے جس پر عام لوگ قدرت نہیں رکھتے۔بلکہ کوئی انسان اس پر قادر ہی نہیں ۔کیونکہ جہاں میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جو صداقت کے ساتھ یہ دعوی کرسکے کہ اس نے امام منتظر کو دیکھا ہے یا اس کا کوئی کلام سنا ہے ۔

اگر ایسا نہ ہو کہ عقلی و شرعی واجبات کا بجالانا اور عقلی و شرعی منکرات کا ترک کرنا[اس امام کی معرفت پر موقوف نہ ہو] امام منتظر کے بغیر بھی ممکن ہو ؛ تو پھر اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی اس امام کے وجوب یا شہودکی ضرورت ہوتی ہے ۔

ان رافضہ نے مخلوق کی نجات ‘ان کی سعادت اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو ایسی ممتنع شرط کے ساتھ معلق کردیا ہے جس پر لوگ قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی رافضیوں میں سے کوئی ایک اس پر قدرت رکھتا ہے ۔

اور لوگوں سے کہتے ہیں : اس کے بغیر کوئی ایک اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہیں حاصل کرسکتا ۔ اور نہ ہی کوئی اس کے بغیر خوش بخت ہوسکتا ہے۔ اورنہ ہی کوئی اس کے بغیر ایماندار ہوسکتا ہے۔ پس ان پر دو باتوں میں سے ایک لازم آتی ہے:

۱۔ یا تو ان کا یہ قول سرے سے ہی باطل ہوگا۔

۲۔ یا پھر یہ کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوچکے ہوں‘اور اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کے لیے عذاب واجب کردیا ہو‘ جس میں مسلمان اور دوسرے لوگ سب شامل ہیں ۔ پس اس تقدیر کی بنا پر یہ سب سے پہلے عذاب پانے والے بد بخت ہوں گے۔اس لیے کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی اس امام کے احکام اوامر و نواہی اور اخبار کی معرفت حاصل کرنے کی کوئی راہ ہی نہیں جس کے بارے میں ان [شیعہ حضرات] کا عقیدہ ہے کہ امام غائب ہے مگر موجود ہے۔

بلکہ رافضی مشائخ کے ہاں کچھ ایسے اقوال پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں ان کے ائمہ متقدمین کہتے ہیں کہ یہ اقوال امام منتظر سے منقول ہیں ۔ حالانکہ امام غائب سے کچھ بھی منقول نہیں ہے ۔ اورجو کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم نے امام غائب سے کچھ اقوال نقل کیے ہیں ‘ تووہ اپنے اس دعوی میں حد درجہ کاجھوٹا ہے ۔

روافض سے کہا جائے گا کہ جو شریعت تمہارے پاس موجود ہے اگر دینی ضرورت کے لیے کافی ہے تو امام منتظر کی ضرورت نہیں ، اور اگر ناکافی ہے توتم نے خودہی اپنے معذب اور بد بخت ہونے کا اقرار کرلیا اور اپنے دین کے ناقص ہونے کا اعتراف کر لیا اور یہ تسلیم کر لیا کہ تمہاری سعادت آنے والے امام کے حکم کے تابع ہے اور یہ معلوم نہیں کہ وہ کیا حکم صادر کرے گا۔میں نے رافضہ کے مشائخ کی ایک جماعت کو دیکھا ہے ‘ جیسا کہ ابن العود الحلی؛اس کا قول ہے:

’’جب امامیہ کے کسی مسئلہ میں دو قول میں اختلاف ہو؛ ایک قول کا قائل معلوم ہو اور دوسرے کا نامعلوم ۔تو جس قول کا قائل معلوم نہیں وہی حق ہے،جس کی اتباع کرنا واجب ہے ؛ اس لیے کہ امام معصوم جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اسی گروہ میں شامل ہے۔‘‘

یہ ان لوگوں کی جہالت اور گمراہی کی انتہاء ہے۔اس لیے کہ اگر امام منتظر کے وجود کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس نے یہ بات کہی ہے یا نہیں ۔اس لیے کہ کسی ایک نے امام سے یہ قول نقل نہیں کیا ۔ اورنہ ہی امام سے نقل کرنے والوں سے کسی نے روایت کیا ہے۔تو پھر یقینی طور پر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس امام کاہی قول ہے ۔پھر دوسرے قول کے لیے کیسے یہ جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ اس امام غائب کا قول ہو؟اس لیے کہ امام کے لیے اس کی غیبت اور ظالموں کے خوف کی وجہ سے اپنے قول کا اظہار کرنا تو نا ممکن ہے ؟ جیسا کہ ان لوگوں کا دعوی ہے ۔

خلاصہ کلام ! شیعہ کا دین مجہول و معدوم پر مبنی ہے۔معلوم اور موجود پر مبنی نہیں ۔ان کا گمان ہے کہ ان کا امام موجود اور معصوم ہے۔درحقیقت امام مفقود اور معدوم ہے۔اور[بالفرض ]اگر وہ موجود اور معصوم بھی ہو؛ تو پھر بھی یہ لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ امام کے اوامر و نواہی جاننے پر ایسے قادر نہیں ہیں جیسے اس امام کے باپ دادا کے اوامر و نواہی جاننے پر قادر تھے۔

امام سے مقصود یہ ہے کہ اسکے اوامر و احکام کی اطاعت کی جائے ۔جب اس کے احکام معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ؛تواس امام کی اطاعت واجب نہیں ہوتی[بلکہ ممنوع ٹھہرتی ہے]۔جب امامت کا مقصود ہی ممتنع ہے؛ تو عقل و نقل کے اعتبار سے اس کی امامت بے کار ہے۔اور اس وسیلہ کے اثبات میں درحقیقت کوئی بھی فائدہ نہیں ۔بلکہ ایسے وسیلہ کو ثابت کرنا جس سے مقصود حاصل نہ ہوتا ہو ؛بے کار ‘ بے فائدہ ‘ جہالت اور حماقت و عذاب پر مبنی ہے ؛ اس پرنہ صرف تمام اہل شریعت کابلکہ تمام عقلاء کا اتفاق ہے ۔ اس لیے کہ جب اہل عقل کسی قبیح چیز کی تفسیرکسی نقصان دہ امر سے کرتے ہیں توان کا اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ اس نقصان و ضرر کوعقل سے معلوم کیا جاسکتا ہے ۔ اس امام غائب پر ایمان رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں ۔بلکہ مال و بدن ‘نفس اور عقل ہر لحاظ سے مضر اور عقلاً و شرعاً قبیح ہے ۔

اسی لیے اس امام کے پیروکار دین و دنیا کی مصلحتوں سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے ہیں ۔ ان کو دین و دنیا کی کوئی بھی مصلحت نہیں مل پاتی۔ جب تک کہ وہ کسی دوسرے کی اطاعت میں داخل نہ ہوجائیں [یا پھر اپنے اس امام کی اطاعت کو کلی یا جزوی طور پر ترک نہ کردیں ]۔ جیسا کہ یہودیوں کا حال ہے وہ اس وقت تک کوئی مصلحت حاصل نہیں کرسکتے جب تک وہ ان دوسرے لوگوں کا سہارا نہ لے لیں جوان کے دین سے باہر کے افراد ہیں ۔

شیعہ امام منتظر کے وجود کو از بس ضروری قرار دیتے ہیں ، اور اس کی عصمت کے قائل ہیں ۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دین و دنیا کی مصلحتیں وجود امام سے وابستہ ہیں ۔شیعہ کا یہ خیال اس لئے درست نہیں کہ امام منتظر کے عقیدہ سے انہیں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل نہیں ہوا، اور جو لوگ اس کے قائل نہیں ، ان کو کوئی دینی و دنیوی نقصان نہیں پہنچا۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔

بلکہ دوسرے لوگ اس امام کے متبعین سے بڑھ کر دین و دنیا کی مصلحتوں کے پانے والے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ امامت کے عقیدہ سے سوائے رسوائی اورندامت کے کوئی چیز نہیں مل سکی۔اور اس عقیدہ میں کوئی عزت اور کرامت والی بات ہر گز نہیں پائی جاتی۔اگر امام کی اطاعت کا واجب ہونا دین کے اہم ترین مطالب میں سے ہے تو رافضہ لوگوں میں سب سے بڑھ کر دین کے بڑے اہم ترین مطالب سے دور رہنے والے ہیں اور اگر ایسا نہیں تو ان لوگوں کے جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے ‘ اور ان کے دعوی کا باطل ہونا ثابت ہوجاتا ہے ۔پس ہر دو لحاظ سے شیعہ کاقول باطل ہے ۔

روافض کا منتظر پر ایمان صوفیاء کے غیبی افراد پر ایمان جیسا نہیں :

[اشکال]:اگر شیعہ کہیں کہ ہم امام منتظر پر اسی طرح ایمان رکھتے ہیں جیسے بہت سے عابد و زاہد حضرت الیاس، حضرت خضر اور غوث و قطب بزرگوں اور دوسرے غائبین پر ایمان رکھتے ہیں ، حالانکہ نہ ان کے وجود کا کچھ پتہ ہے اور نہ ان کے اوامر نواہی کا۔ پھر جو لوگ ان [صوفیاء] کی موافقت کرتے ہیں ؛ان کیلئے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے دعوی پر رد کرے ؟

[جواب ]: اس سے کہا جائے گا کہ : اس بات کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : 

پہلی بات : ہم کہتے ہیں کہ:’’ مسلمانوں کے کسی معروف عالم یا کسی معروف جماعت کے نزدیک ان پر ایمان لانا ضروری نہیں ؛ اور کوئی ایسا بھی نہیں جو ان پر ایمان لانے کو واجب قرار دیتا ہو۔اگرچہ بعض غالی فرقے اپنے اصحاب کے لیے اس چیز پر ایمان رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :کوئی مؤمن اس وقت تک اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا جب تک ان لوگوں کے اس زمانے میں موجود ہونے پر ایمان نہ لائے۔ [ مگر جمہور مسلمین کے ہاں اس کلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ] ان کا قول اسی طرح مردود ہے جیسے شیعہ کا قول۔

دوسری بات :لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ ان لوگوں کے وجود پر ایمان رکھنے سے انسان کا ایمان ؛ خیر و بھلائی اور اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتے ہیں ۔ زہاد زیادہ سے زیادہ یہ بات کہتے ہیں کہ:’’ ان کی تصدیق کرنے والاان کے منکر سے زیادہ افضل و اشرف اور کامل ہے۔یہ قول ہر لحاظ سے رافضیوں کے قول کے مشابہ نہیں ہے۔ بلکہ بعض وجوہات کی بنا پر یہ اقوال آپس میں مشابہت رکھتے ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے کمال ِدین کو اس تصدیق پر موقوف کردیا ہے۔ پس اس وقت کہا جائے گا کہ مسلمان علماء اور ان کے ائمہ کا اس قول کے باطل ہونے پر اتفاق ہے۔اس لیے کہ واجبات اور مستحبات کا علم ‘ اور واجبات و مستحبات کا بجا لانا ان کی تصدیق پر موقوف نہیں ہے۔ بعض اہل زہد و عابدین اور عوام الناس کا یہ خیال کرنا کہ دین کی کوئی بھی چیز واجب یا مستحب ان لوگوں کی تصدیق پر موقوف ہے ؛ تو یہ ان لوگوں کی جہالت اور گمراہی پر مبنی قول ہے ‘ اس پرکتاب و سنت کے جاننے والے اہل علم کا اتفاق ہے ۔ اور دین میں یہ بات اضطراری طور پر معلوم اور ایک بد یہی امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق کو مشروع قرار نہیں دیا، اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء اسلام میں سے کوئی ایک اس تصدیق کو امور دین میں سے سمجھتا تھا۔اور ایسے ہی : غوث ؛ قطب ؛ اوتاد ؛ نجباء وغیرہ کے یہ تمام الفاظ کسی ایک نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معروف سند کے ساتھ نقل نہیں کیے؛ اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ اپنی زبان مبارک پر لائے ہیں ؛ اور نہ ہی صحابہ کرام نے۔ لیکن لفظ ابدال بعض سلف سے منقول ہے۔اور اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ضعیف روایت نقل کی گئی ہے ؛ جس پر ہم کئی ایک جگہ پر تفصیلی کلام کر چکے ہیں ۔ [یہ حدیث مسند أحمد میں وارد ہوئی ہے: ۲؍۱۷۱؛ تحقیق أحمد شاکر۔سلطان العلماء العز بن عبدالسلام السلمی المتوفی (۵۷۷۔ ۶۶۰) لکھتے ہیں کہ ابدال، غوث، قطب اور نجباء کے ناموں کی دین میں کوئی اصل نہیں اور یہ کسی حدیث صحیح و ضعیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ۔]

بعض صوفیاء کا شرک فی ربوبیت :

تیسری بات: یہ بات کہنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں ‘ جن کا کسی بشر کی طرف منسوب کرنا ہر گزجائز نہیں ۔ مثلاً: بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ قطب و غوث ہدایت و نصرت اور رزق میں اہل زمین کی امداد کرتے ہیں اور یہ چیزیں انکے توسط کے بغیر کسی کو حاصل نہیں ہوتیں ۔یہ دعوی باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ اورایساکہنے والا شخص گمراہ ہے اور اس کا قول اس باب میں نصاریٰ کے قول سے ملتا جلتا ہے۔جیسے کہ ان میں سے بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان اولیاء میں سے کوئی ایک اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کو جانتا ہے ‘ جو موجود ہے یا جو ولی ہونے والاہے؛ اس ولی کے نام ‘ اس کے باپ کے نام اور اللہ کے ہاں اس کے مقام و مرتبہ سے بھی واقف کار ہے ۔اوراس طرح کی دیگر کئی باطل باتیں ایسے لوگوں کے عقیدہ میں شامل ہیں ۔جو اس امر کو متضمن ہیں کہ بعض بشر بعض خصائص میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں ۔ مثال کے طور اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا جاننے والا ہے۔ اور ہر ایک چیز پر قادر ہے ۔ اس طرح کا دعوی بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے شیوخ کے بارے میں کرتے ہیں کہ ان کا علم اللہکے علم و قدرت پر حاوی ہے اور وہ اسی قسم کے علم و قدرت سے بہرہ ور ہیں جیسے ذات الٰہی۔پس وہ ہر اس چیز کو جانتے ہیں جسے اللہ جانتا ہے ‘اور ہر اس چیز پر قدرت رکھتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے ۔ اس طرح کے عقائد و اقوال بالکل نصاری اور غالی شیعہ کے اقوال کی جنس سے ہیں ۔ اور ان عقائد و اقوال کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔

اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جوایسی کرامات ‘ مکاشفات اور اجابت دعاء کے قصے اور ان کی طرف ایسی چیزیں منسوب کرتے ہیں جن کا کسی نبی یا نیک مسلمان کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ۔ یہ لوگ ایسی باتیں کسی معدوم کی طرف منسوب کرنے میں اگرچہ خطاء کار ہیں ؛ لیکن ان کی خطاء اس شخص کی غلطی کی طرح ہے جو یہ گمان رکھتا ہو کہ فلاں شہر میں اولیاء اللہ ہیں ‘ حالانکہ وہاں کوئی بھی نہ ہو۔ یا پھر وہ انسان جو کہ بعض لوگوں کے متعلق گمان رکھتا ہوکہ وہ اولیاء اللہ ہیں ‘ مگر وہ اولیاء اللہ نہ ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے اعتقادات و خیالات گمراہی ؛ جہالت اور خطا ہیں جن میں بہت سارے لوگ مبتلا ہیں ۔ لیکن امامیہ کی خطاء اور گمراہی ان سب سے بڑھ کر اور قبیح ہے۔

الیاس اور خضر کی وفات:

چوتھی بات:محققین علماء کرام رحمہم اللہ کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ حضرت خضر و الیاس علیہماالسلام فوت ہو چکے ہیں ۔[سنت اﷲ یہی چلی آتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام یا غیر انبیاء سب وقت مقرر پر فوت ہوجاتے ہیں ، جو شخص دین اسلام کی طرف ایسی نص منسوب کرے جو اس کے خلاف ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے منظر عام پر لائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح حدیث میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے۔]

نیز یہ کہ اللہ عزو جل اور مخلوق کے پیدا کرنے ‘ان کو روزی اور ہدایت دینے اور ان کی نصرت کرنے میں کسی مخلوق کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔مرسلین کا واسطہ فقط تبلیغ رسالت کا ہے۔ اور کسی انسان کو مرسلین کی اطاعت کے بغیر کبھی کوئی سعادت حاصل نہیں ہوسکتی۔جب کہ مخلوق کے لیے رزق رسانی ؛ ہدایت ‘ نصرت اور پیدائش پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو کوئی قدرت حاصل نہیں ۔ یہ امور انبیاء کرام کی حیات و موت پر منحصر نہیں ۔ بلکہ مخلوق کی پیدائش اور ان کے لیے رزق رسانی حقیقت میں رسولوں کے وجود پر بھی منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کبھی ملائکہ کے واسطہ سے کچھ پیدا کرتے ہیں ‘اور کبھی اس میں کوئی انسان سبب بنتا ہے ۔جیساکہ مخلوق میں یہ اسباب عوام الناس میں معروف ہیں ۔

اب یہ کہنا کہ یہ امور بشری واسطہ کے بغیرحاصل نہیں ہوسکتے۔یا بشر میں سے کوئی ایک ان تمام امور پر قادر ہے ؛ یا اس طرح کی دیگر باتیں ۔ یہ سب چیزیں باطل ہیں ۔تو پھر رافضیوں سے کہا جائے گا کہ : جب [آپ لوگ]گمراہی پر کسی گمراہی و ضلالت سے استدلال کرتے ہیں تو پھر [اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنے کے قابل ہے کہ]:

﴿وَلَنْ یَّنفَعَکُمُ الْیَوْمَ اِِذْ ظَلَمْتُمْ اَنَّکُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ﴾ [الزخرف ۳۹]

’’اور آج یہ بات تمھیں ہر گز نفع نہ دے گی، جب کہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم (سب) عذاب میں شریک ہو ۔‘‘

مزید برآں یہ بات بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں کے اشرف ترین مسائل اور اہم ترین مطالب کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے مسائل کی بہ نسبت ان کاذکر قرآن مجید میں موجود ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی دوسرے مسائل کی بہ نسبت ان مسائل کا بیان کرنا زیادہ ضروری تھا۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی توحید ‘ اس کے اسماء و صفات ؛ ملائکہ ‘ کتب اور مرسلین ؛ یوم آخرت ‘ قصص ‘ أمر و نہی ؛ حدود وفرائض کے احکام سے بھرا ہوا ہے؛ بخلاف امامت کے۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن میں اہم اور اشرف ترین مسائل کا بیان نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سعادت کوایسے مسئلہ کے ساتھ معلق کردیا ہے جس میں امامت کا ذکر تک نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النساء ۶۹]

’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ٭وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾[النساء ۱۳۔۱۴] 

’’ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریگا (تو)اللہ اس کو ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے کہ جوکوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا ‘وہ آخرت میں خوش بخت ٹھہرے گا۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے ‘ اور ان کی مقررکردہ حدود سے تجاوز کرے ‘ تو اسے عذاب دیا جائے گا۔سعادت مندوں اور اہل شقاوت کے درمیان یہ فرق ہے۔مگر امامت کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے۔

اگر کوئی انسان یہ بات کہے کہ : ’’ امامت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہے ۔‘‘

تو اس سے کہا جائے گا کہ : اس کی انتہاء یہ ہوسکتی ہے دوسرے بعض واجبات کی طرح ہو ‘ جیسے : نماز ‘ روزہ ‘ زکاۃ ‘ حج اور دوسرے واجبات ؛جو کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہیں ۔توپھر صرف امامت کیوں کر دین کے اشرف ترین مسائل اور اہم ترین مطالب میں سے ہوسکتی ہے ؟

امامت اور رسالت برابر نہیں ہے:

[اشکال]:اگر کوئی یہ کہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت امام کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں ؛ اس لیے کہ امام ہی وہ ہستی ہے جو شریعت کی معرفت رکھتی ہے ۔‘‘ 

[جواب]:تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ’’ تمہارے مذہب کا یہی دعوی ہے ؛جس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ امامت کے مسئلہ پر قرآن میں کہیں بھی کوئی دلیل ایسے نہیں پائی جاتی جیسے باقی تمام اصول دین کے متعلق دلائل موجود ہیں ۔ اس سے پہلے ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ جس امام کے دعویدار یہ لوگ ہیں ‘اس امام سے کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اور مزید بیان آگے آئے گا کہ جو پیغام رسول لے کر آئے ہیں ‘ اس کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کسی امام کی کوئی ضرورت نہیں ۔

امامیہ کے ہاں اصول دین:

امامیہ کے ہاں چار اصول ہیں : ۱۔ توحید ۲۔ عدل ۳۔ نبوت ۴۔ امامت۔

امامت آخری مرتبہ ہے ‘ جب کہ توحید ‘ عدل اورنبوت کا درجہ اس سے پہلے کا ہے۔ یہ لوگ توحید میں صفات الٰہیہ کی نفی کو داخل کرتے ہیں ۔اور یہ کہ قرآن مخلوق ہے ۔اور یہ کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوگا۔اور عدل میں قدر کی تکذیب کو شمار کرتے ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت سے نواز دے۔ اور نہ ہی کسی کو گمراہ کرنے پر قادر ہے۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ ایسی چیز کو چاہتے ہیں جو نہیں ہوسکتی۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر بھی نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسے ہے کہ جوکچھ اللہ تعالیٰ چاہے وہ ہوجائے۔ اور جو نہ چاہے وہ نہ ہو۔لیکن اس کے باوجود توحید ‘ عدل اور نبوت امامت پر مقدم ہیں ۔ تو پھر امامت کیسے اشرف ترین اور اہم ترین مسائل میں سے ہوسکتی ہے ؟

مزید برآں کہ امامت کو اس وجہ سے واجب قرار دیتے ہیں کہ اس سے واجبات کی ادائیگی میں مہربانی اور لطف ہوتا ہے۔ پس امامت ایسے ہی واجب ہوگی جیسے باقی وسائل واجب ہوتے ہیں ۔تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وسیلہ مقصود سے بڑھ کر اہم ترین اور اشرف ترین ہو؟

مسئلہ امامت میں رافضی تناقض:

تیسری وجہ : ان سے کہا جائے گا کہ: اگرامامت اہم ترین مطالب دین اور اشرف ترین مسائل مسلمین میں سے ہے توپھر ان اہم مطالب اور اشرف مسائل سے لوگوں میں سب سے زیادہ دورخود رافضی ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے امامت کے مسئلہ میں ایسے حقیر اور گھٹیا قول گھڑلیے ہیں جو کہ عقل اور دین ہر لحاظ سے فاسد ہیں ۔ اس کا بیان ان شاء اللہ آگے آئے گاجب ہم ان کے دلائل پر رد کریں گے۔ بس یہاں پر اتنا سمجھ لیناکافی ہوگا کہ امامت سے ان کا مقصود یہ ہے کہ ان کابڑا معصوم ہو۔ اور ان کے دین و دنیا کے مسائل میں لطف و مہربانی[نرمی] ہو۔ اس لیے یہ ایک ایسے مجہول و معدوم کے لیے حیلے گھڑتے ہیں نہ جس کی ذات کا کوئی اتا پتا ہے ‘اورنہ ہی جس کاکوئی نام و نشان دیکھنے میں آیا ہے؛ نہ ہی اس کی کوئی خبر سنی گئی ہے ‘اورنہ ہی کوئی حس محسوس ہوئی ہے۔ تو اس بنا پر انہیں مقصود امامت میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔اور اگر کوئی ایسا نفع بخش امام بنالیاجائے جس سے بعض دنیاوی اور دینی مصلحتیں حاصل ہوجائیں ؛ وہ اس امام سے بہت بہتر اور بڑھ کر ہے جس سے امامت کی کوئی مصلحت حاصل نہ ہو۔ 

اسی لیے آپ امامیہ فرقہ کے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ امامت کی مصلحتیں فوت ہوجانے کے سبب اپنے مقاصد کی بار آوری کے لیے کبھی کسی کافر کی اطاعت اختیار کرتے ہیں او رکبھی کسی ظالم کی۔ حالانکہ دوسری طرف وہ لوگوں کو امام معصوم کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے ہیں ؛ او رخود کفار اور ظالمین کی اطاعت اختیار کرتے ہیں ۔پس کیاان لوگوں سے بڑھ کر کوئی مقصود امامت اور خیرو کرامت سے دور ہوسکتا ہے جو اس مسلک ندامت پر چلنے والے ہوں ؟

اجمالی طور پر اللہ تعالیٰ نے بعض دینی اور دنیاوی مسائل کو حکمرانوں کے ساتھ معلق کردیا ہے؛ خواہ امامت اہم ترین امور میں سے ہو یا نہ ہو۔ جب کہ رافضی ان مصلحتوں کے حصول سے بہت دور ہیں ۔ ان سے ان کے قول کے مطابق بہت سے اہم ترین مطالب اور مسلمانوں کے اشرف ترین مسائل فوت ہوئے ہیں ۔

[شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ایک شیعہ کا مناظرہ]:

بعض اکابر فضلاء شیعہ نے مجھ سے تنہائی میں ملاقات کی اور دینی مسائل پر گفتگو کا تقاضا کیا۔میں نے شیعہ کے نظریات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہاکہ: اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیا اور منہیات سے روکا، لہٰذا ضروری تھا کہ وہ بندوں پر مہربان ہوتا؛ جس کی وجہ سے لوگ فعل واجب اور ترک قبیح کے قریب تر ہوتے۔اس لیے کہ جو کوئی کسی شخص کو کھانے کی دعوت دے ‘ اگر اس کی مراد کھانا کھلانا ہو تو وہ اسباب برؤئے کار لائے گا جو کھانے کے لیے ضروری ہیں ۔جیسے خندہ جبین سے استقبال کرنا ‘مناسب جگہ پر بٹھانا ؛ اور اس طرح کے دیگر امور ۔ اگر اس کا مقصود کھانا کھلانا نہ ہو تو اس کے چہرہ پر سلوٹیں پڑ جائیں گی ‘ اور وہ دروازہ بند کردے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

انہوں نے یہ باتیں معتزلہ سے لی ہیں ۔ ان کے پرانے شیوخ کے اصولوں میں یہ باتیں شامل نہیں ہیں ۔

پھر کہا: ’’ امام بھی لوگوں پر عنایت الٰہی کی ایک علامت ہے۔ اس لیے کہ امام و اجبات کا حکم دے گا اور برے اعمال سے روکے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ شرعی اوامرو اعمال کی اطاعت کریں گئے۔ لہٰذا امام کا وجود از بس ناگزیر ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ امام معصوم ہوتا کہ مقصد حاصل ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معصوم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے[کسی اور کے لیے یہ دعوی نہیں کیا گیا]۔ لہٰذا آپ کا امام ہونا متعین ہوا اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی معصوم نہیں ۔[اور اس باب میں بڑی تفصیلی گفتگو کی]۔پھر کہتے ہیں : حضرت علی نے حسن رضی اللہ عنہ کو معصوم قرار دیا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یہاں تک کہ نوبت امام منتظر محمد بن حسن صاحب غار تک پہنچی۔ شیعہ نے تقریر سن کر اعتراف کیا کہ ان کے مذہب کے بیان کے مطابق یہ بڑی اچھی تقریر ہے۔

[شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں ] : جب میں نے شیعہ[شیخ الاسلام نے شیعہ کے طرز استدلال کو اس لیے واضح کیا تاکہ اسے مناظرہ کی اساس قرار دیا جا سکے، یہ غلط ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کے معصوم ہونے کی صراحت کر دی تھی۔ امام احمد اپنی مسند میں عبداﷲ بن سمع سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا وہ اپنی شہادت کا ذکر کر رہے تھے لوگوں نے کہا: ’’ہم پر خلیفہ مقرر کر دیجئے ‘‘ فرمایا :نہیں ، میں تمہیں اسی طرح چھوڑ جاؤں گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں چھوڑا تھا، لوگوں نے کہا آپ اﷲ کے دربار میں حاضر ہو کر اسے کیا جواب دیں گے؟ فرمایا میں عرض کروں گا کہ بار خدایا تو نے جب تک چاہا مجھے زندہ رکھا پھر فوت کر لیا اور تو ان میں موجود تھا اگر تو چاہتا تو ان کی اصلاح کرتا اور اگر چاہتا بگاڑ دیتا۔‘‘مسند احمد(۱؍۱۳۰) طبقات ابن سعد(۳؍۲۴) مجمع الزوائد(۹؍۱۳۷) امام احمد نے اسی قسم کی روایت بطریق اسود بن عامر نقل کی ہے، دونوں روایات کی سند صحیح ہے، (العواصم من القواصم: ۱۹۹)]کے طرز استدلال کو بیان کیا اور شیعہ نے اسے سراہا تو میں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: میں اور آپ علم و حق اور ہدایت کے طالب ہیں ۔ شیعہ کا قول ہے کہ جو امام منتظر پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔ بتائیے ! کیا آپ نے کبھی اسے دیکھا یا ایسے شخص کو دیکھا جس نے امام کو دیکھا ہو؟ یا اس کی کوئی خبر سنی یا اس کی گفتگو کا کچھ علم ہوا؟ یا جس چیز کا اس نے حکم دیا ہے‘ اور جس چیز سے منع کیا ہے وہ اس سے ایسے ہی ماخوذ ہے جیسے دوسرے ائمہ کا کلام ان سے ماخوذ ہے؟ شیعہ نے کہا: ’’ نہیں ۔‘‘

میں نے کہا :’’پھر ایسے ایمان کا کیا فائدہ اور اس کے ذریعہ ہم پر اللہ کی کون سی مہربانی ہوئی؟ مزید برآں اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے شخص کی اطاعت کا مکلف کیوں کر کرتا ہے جس کے امرو نہی سے ہم ناواقف ہیں ، اور اس کی پہچان کا کوئی طریقہ ممکن نہیں ۔ حالانکہ شیعہ تکلیف مالا یطاق کا شدید انکار کرتے ہیں ، کیا اس سے زیادہ تکلیف مالا یطاق بھی کوئی ہو سکتی ہے؟

شیعہ: اس امر کا اثبات تو انہی مقدمات پر مبنی ہے جو آپ نے ذکر کیے ہیں ۔

شیخ الاسلام: مگر مقصود چیز تو وہی ہے جو ہم سے متعلق ہو؛ اگر امر و نہی ہم سے وابستہ نہ ہو تو ہمیں اس سے کیا سروکار ہے؟ جب ان مقدمات کا تذکرہ کسی فائدہ سے خالی ہے؛اس سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا‘ اور نہ ہی کوئی مہربانی حاصل ہوئی سوائے تکلیف مالا یطاق کے۔ تو معلوم ہوا کہ امام منتظر پر ایمان لانا جہالت کی کرشمہ سازی ہے، اور اس کا لطف و عنایت ایزدی اور مصلحت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر وہ بات درست اور موجب سعادت ہے جو امامیہ اپنے اکابر سے نقل کرتے چلے آئے ہیں ، تو امام منتظر کی کوئی ضرورت نہیں ۔اور اگر یہ نقل باطل ہے تو شیعہ بھی اپنے اس امام منتظر سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کرسکے۔ نہ ہی انہیں حق کے اثبات میں اس امام منتظر سے کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی باطل کی نفی کرنے میں ؛ نہ ہی امر بالمعروف اور نہ ہی نہی عن المنکر میں ۔ اور نہ ہی امامیہ میں سے کسی ایک کے لیے امامت سے مطلوب ومقصود مصلحت ؛ لطف اور منفعت حاصل ہوسکے۔

وہ جاہل لوگ جو اپنے معاملات کو مجہولات سے معلق کررکھتے ہیں ‘جیسا کہ غائب لوگ ؛جیسے قطب ‘ ابدال ‘ غوث اور خضر وغیرہ اس طرح کے دیگر لوگ۔ یہ لوگ بھی اپنی جہالت و گمراہی کے باوجود ایسی باتیں ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن سے نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی ‘ نہ کوئی مہربانی؛ اورنہ ہی کوئی دین یا دنیا کا فائدہ ۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ جہالت و گمراہی میں رافضیوں سے کم تر ہیں ۔

حضرت خضر موجود تھے۔ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ ان کے قصے میں بڑی عبرتیں اوردرس اور فوائدہیں ۔ کبھی ان میں سے کوئی کسی نیک انسان کو دیکھتا ہے تو وہ گمان کرتا ہے کہ یہ خضر ہیں ۔ پس اب ان کو دیکھنے سے اور ان کے وعظ سے اسے کوئی فائدہ ہوگا۔ اگرچہ یہ اپنے اس عقیدہ میں غلط ہے۔

حقیقت میں اس نے جنات میں سے کسی جن کو دیکھا ہوتا ہے؛ اوروہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ خضر تھے۔اورجن انسان سے ایسی ہی باتیں بھی کرلیتا ہے جس کے متعلق اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس کی یہ باتیں مان لے گا ۔اور بعض دفعہ وہ انسان اپنے وہم و خیال سے باتیں گھڑ لیتا ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہر زمانے میں ایک خضر ہوتا ہے اور بعض لوگ ہر ولی کو خضر کہتے ہیں ۔ یہود و نصاری نے بعض جگہیں مقرر کرر کھی ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پر خضر کو دیکھتے ہیں ۔خضر کومختلف صورتوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔کبھی اس کی صورت خوفناک بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ یہ جو دعوی کرتا ہے کہ وہ خضر ہے [یا پھر وہ شیطان ہوتا ہے۔ وہ جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سامنے آجاتاہے]۔ اس بارے میں قصے بہت زیادہ ہیں جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔ بہر حال یہ لوگ شیعہ کی جملہ اقسام سے درجہا بہتر ہیں ‘ اس لیے کہ شیعہ ایسے امام کا انتظار کررہے ہیں جس کے بارے میں ان کے پاس کوئی مستند نقل ہی موجود نہیں ۔

[ان کی روایات کے مطابق ] جب یہ امام غار میں داخل ہوا تو اس وقت وہ ابھی سن ِ بلوغ کو نہیں پہنچا تھا۔پس رافضی ان لوگوں سے کئی گنا بڑھ کر جھوٹی روایات کو قبول کرتے ہیں مگر کتاب و سنت سے منہ موڑتے ہیں [ان پر عمل نہیں کرتے]۔ رافضی بہترین مسلمانوں پر قدح کرتے ہیں ‘ اور ان سے دشمنی رکھتے ہیں ۔رافضی امامت کی مصلحت کے متعلق لوگوں میں سب سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ ان کے اس عقیدہ کی وجہ سے ان سے بہت سارے دین کے اہم ترین اور اشرف ترین مقاصد فوت ہوچکے ہیں ۔

عمل صالح اور معرفت امام ....؟:

چوتھی وجہ :ان سے کہا جائے گا کہ : تمہارا یہ کہنا کہ ’’ اسی [عقیدہ امامت کی]وجہ سے کرامت کے مراتب کا حصول ممکن ہے ۔یہ محض باطل کلام ہے ۔ صرف امام وقت کو پہچاننے یا دیکھنے سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی جب تک اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت نہ کی جائے ۔ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے امام کی معرفت بڑھ کر نہیں ہے۔ پس جو کوئی جانتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘ مگر وہ آپ پر ایمان نہ لائے ‘ اور آپ کے احکام کی پیروی نہ کرے ‘ اسے کوئی کرامت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اور جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ‘ مگر آپ کی نافرمانی کرے ؛ فرائض کو ضائع کرتا، ظلم و تعدی کا ارتکاب کرتا اور حدود شرعیہ سے تجاوز کرتا ہو؛ توایسا انسان سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ اس پر امامیہ اور دیگر تمام مسلمان گروہوں کا اتفاق ہے۔ توپھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جو کوئی امام کی معرفت حاصل کرے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کا ضائع کرنے والا ‘ اور حدود الٰہی کا پامال کرنے والا ہو [تو اسے کوئی کرامت یا بزرگی کیسے حاصل ہوسکتی ہے ؟]۔

بہت سارے شیعہ کا قول ہے :

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایک ایسی نیکی ہے[دیکھئے: اختصار تحفہ اثنا عشریہ : ۲۰۴۔] جس کی موجودگی میں بدی سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔‘‘

اگر حب علی رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے گناہوں سے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا تو امام معصوم کی قطعاً ضرورت نہیں ۔اس لیے کہ تکلیف میں یہ مہربانی ہے۔ اگرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ہی تمام گناہوں کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے تو پھر کسی اور چیز کی کوئی ضرورت نہیں ‘خواہ امام موجود ہو یا نہ ہو۔

امامت ارکان ایمان میں شامل نہیں :

پانچویں وجہ :.... شیعہ کا یہ قول کہ امامت ارکان ایمان میں سے ہے؛ جس کی بنیاد پرجنت میں رہنے کا استحقاق حاصل ہوسکتا ہے۔‘‘

[جواب]:.... تو ان سے کہا جائے گا کہ:امامت کو ارکان ایمان میں شمار کرنا اہل جہالت و بہتان تراشوں کاکام ہے۔ہم اس بارے میں ان شاء اللہ آگے اپنے موقع پر تفصیل سے بیان کریں گے۔ 

اللہ تعالیٰ نے مؤمنین اور ان کے احوال بیان فرمائے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تفسیر کی؛ اور اس کی شاخیں بیان کیں ‘مگر امامت کا کہیں ذکر تک نہیں فرمایا۔صحیح روایات میں حضرت جبریل علیہ السلام والی حدیث بھی ہے ؛ جب آپ ایک اعرابی کی صورت میں آئے اور اسلام ؛ ایمان اور احسان کے بارے میں سوال کیا ‘ تو آپ نے فرمایا:

’’اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ اداکرو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو ۔‘‘

اور فرمایا: ’’ اور ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر پورا ایمان رکھو؛ اس کے فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان رکھو اور اللہ تعالی کی ملاقات کا یقین رکھو؛ قیامت اور حشر کو پورے طور پر مانو اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی جانب سے ہونے پر ایمان رکھو‘‘ ۔

اس میں امامت کا ذکر تک نہیں فرمایا:

[ اس کے بعد پھر پوچھا کہ احسان کسے کہتے ہیں ؟] توآپ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو اتنا ہی یقین رکھے کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ [رواہ مسلم ۱؍۳۶؛ البخاری ۱؍۱۵۔]

اس حدیث کے صحیح ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے ۔ اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہے ۔اہل علم کا اس کی صحتِ نقل پر اجماع ہے۔ امام بخاری و مسلم نے کئی اسناد کے ساتھ اسے روایت کیا ہے ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر ان کا اتفاق ہے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت صرف صحیح مسلم میں ہے۔ اگر چہ شیعہ ان احادیث کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے ‘[تو یہ ان کی پرانی روش ہے۔ منہاج الندامہ کے] مصنف نے اپنی کتاب میں ایسی احادیث بطور دلیل پیش کی ہیں جن کے موضوع [من گھڑت ] ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ [اور صحیح احادیث کوچھوڑ دیا ہے]۔

پھر یاتودونوں فرقوں [اہل سنت اور شیعہ ] کو چاہیے کہ ایسی دلیل کو بطور حجت پیش کیا جائے جس کی صحت ثابت ہو۔ یا پھر ایسی روایات کو بالکل ہی نہ پیش کیاجائے ۔ اگروہ [شیعہ] کسی روایت کو بالکل سرے سے ہی ترک کررہے ہیں تو پھر ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں ۔ اور اگر وہ ایسی روایات نقل کریں گے‘ تو پھر روایت کے مقابلہ میں روایت لانا ضروری ہوجاتا ہے۔[ لیکن فرق یہ ہے شیعہ بے سرو پا روایت سے استدلال کرتے ہیں اور ہم ] ایسی روایت سے استدلال کرتے ہیں جن کی صحت ثابت ہو‘ اور روایت قابل حجت ہو۔

ہم ان باطل روایات پر جن کے ذریعہ شیعہ اہل سنت پر رد کرتے ہیں ‘ تفصیلی اور مدلل کلام اپنے مناسب موقع پر کریں گے ‘ اور ان روایات کا بھی ذکر کریں گے جنہیں اہل علم محدثین نے صحیح کہا ہے۔

اگربالفرض [بطور مناظرہ ]تسلیم کیاجائے کہ ہم [صحیح ]احادیث سے استدلال نہیں کرتے تو تب بھی قرآن کی آیات اس بارے میں کافی ہیں ۔ قرآن کریم میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ، بلکہ ارشاد باری ہے:

﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ٭الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ٭ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ﴾ (الانفال:۲۔۴)

’’(اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انھیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پرہی بھروسا رکھتے ہیں ۔وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور اس رزق میں سے جو ہم نے انھیں دیاہے، خرچ کرتے ہیں ۔یہی لوگ سچے مومن ہیں ، انھی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور با عزت رزق ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے امامت کاذکر کیے بغیر ان لوگوں کے لیے ایمان کی گواہی دی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ْثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ (الحجرات:۱۵)

’’مومن تو وہ ہیں جو اللہ و رسول پر ایمان لائے پھر شک نہ کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا یہی لوگ اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے امامت کا ذکر کئے بغیر ان لوگوں کو سچا قراردیا ہے۔ نیز ارشاد ہوتا ہے:

﴿لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ ( البقرہ ۱۷۷)

’’ نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اور اللہ سے محبت کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ، سوال کرنے والوں کو اور غلامی سے نجات دلانے کے لیے دے۔ نماز قائم کرے اور زکو اۃدا کرے۔ نیز ( نیک لوگ وہ ہیں کہ)جب عہد کریں تو اسے پورا کریں اور بدحالی ، مصیبت اور جنگ کے دوران صبر کریں ۔ ایسے ہی لوگ راست باز ہیں اور یہی لوگ سچے متقی ہیں ۔‘‘

یہاں پر بھی کہیں امامت کا کوئی ذکر تک نہیں کیا گیا ۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿الٓمّٓoذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَoالَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ oوَ الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ [البقرۃ]

’’الٓمٓ۔ اس کتاب کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں ؛اور ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیااور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت یافتہ اور کامیاب قرار دیا ہے ؛مگر امامت کا ذکر تک نہیں کیا ۔ [مذکورہ بالا آیات کے علاوہ متعدد آیات اس ضمن میں وارد ہوئی ہیں مگر کسی میں بھی امامت کے رکن ایمان ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا۔]

اور ہم یہ بھی یقینی طور پر جانتے ہیں کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جب لوگ مسلمان ہوجاتے ہیں تو ان کے ایمان کو امامت کی معرفت پر موقوف نہیں رکھا جاتا ۔ اور نہ ہی امامت کے بارے میں کچھ ذکر تک فرمایا۔اور جو چیز ارکان ایمان میں سے تھی اس کا بیان کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لازمی تھا تاکہ اہل ایمان کا ایمان درست ہو۔ جب یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کے لیے کوئی ایسی شرط نہیں رکھتے تھے ‘ تو یہ بات بھی پتہ چل گئی کہ ایمان کے لیے امامت کی شرط رکھنا اہل بہتان [جھوٹے لوگوں ] کا قول ہے ۔

اگر یہ کہا جائے کہ: مسئلہ امامت اس نص کے عموم میں داخل ہے ‘ یا اس کا تعلق ایسے مسائل سے ہے جن کے بغیریہ واجب پورا نہیں ہوتا۔یا پھر کسی دوسری نص سے یہ ثابت ہے ۔

تو اس سے کہا جائے گا : ’’اگر ان تمام مسائل کی صحت ثابت بھی ہوجائے تو اس کی زیادہ سے زیادہ اہمیت یہ ہوگی کہ ان کا شمار دین کے فروعی مسائل میں ہوگا۔ اس کا شمار ارکان ایمان میں نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ ایمان کا رکن تو وہ ہوگا جس کے بغیر ایمان مکمل نہ ہوتا ہو‘ جیسے کہ شہادتین کا اقرار۔ کوئی انسان اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تو وہ اس بات کی گواہی نہ دیدے کہ : ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ‘ اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ 

فرض کرلیجیے کہ امامت ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن تھی ؛ جس کے بغیر کسی انسان کا ایمان پورا نہیں ہوسکتا؛ تو اس سے واجب ہوتاتھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت سے عذر کو ختم کرنے کے لیے اس کو کھول کر بیان کرتے ؛ جیسا کہ شہادتین کو ‘ اور ایمان بالملائکہ ‘ کتابوں پر ایمان ‘ رسولوں پر ایمان اور آخرت کے دن پر ایمان کو بیان کیا ہے ۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے ؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک کیساتھ بھی ایمان کے لیے امامت کی شرط نہیں لگائی ‘ نہ ہی مطلق طور پر اور نہ ہی مقید طور پر ۔

چھٹی وجہ:شیعہ مصنف نے یہ روایت پیش کی ہے:وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مَنْ مَّاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ إمام زمانہ مات میتۃ الجاہلیۃ‘‘ .... ’’ جس کی موت اس حالت میں آئی کہ وہ امام زمانہ کو نہ پہچانتا ہو‘ تو جاہلیت کی موت مرے گا ۔‘‘

جواب: ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ یہ روایت کس نے بیان کی ؟ اس کی اسناد کہاں ہے؟ اور پھر یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ ایسی حدیث سے استدلال کیا جائے جس کی سندہی ثابت نہ ہو۔ یہ تو اس وقت ہوتا ہے جب حدیث کی روایت میں کوئی مجہول الحال راوی نہ ہو۔ تو پھر اس وقت کیا کہہ سکتے ہیں جب وہ حدیث ان الفاظ سے کسی طرح بھی معروف ہی نہ ہو۔ اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ یوں نہیں فرمائے ۔

البتہ مشہور و معروف حدیث صحیح مسلم میں حضرت نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ واقعہ حرہ کے زمانہ میں یزید بن معاویہ کے دور میں عبداللہ[عبداﷲ بن مطیع مدینہ منورہ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا داعی اور یزید کے برخلاف بغاوت کا اولیں محرک تھا، یہ پہلا شخص تھا، جس نے حاکم وقت یزید بن معاویہ کے خلاف جھوٹ کا طوفان کھڑا کیا، عوام بھی ان اکاذیب کی تصدیق کرنے لگے اور اس طرح مدینہ میں فتنہ پروری کا آغاز ہوا، محمد بن علی بن ابی طالب نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میں یزید کی صحبت میں رہا ہوں ، میں نے اسے نماز کا پابند نیکی کا پابند اور متبع سنت پایا لوگ اس سے فقہی مسائل دریافت کرتے تھے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ: ۸؍ ۲۳۳، نیز العواصم من القواصم: ۲۲۳) ] بن مطیع کے یہاں آئے تو انہوں نے خدام سے تکیہ لانے کے لیے کہا ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں آپ کے یہاں بیٹھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک حدیث سنانے کے لیے آیا ہوں جوکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: 

’’جس نے اطاعت ِامام سے ہاتھ کھینچ لیا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی، اور جس کی موت اس حال میں آئے کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح: ۱۸۵۱) ]

ترک بیعت:

مذکورہ بالا حدیث حضرت عبداللہبن عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت عبد اللہ بن مطیع سے بیان کی جب لوگوں نے امیر وقت یزید بن معاویہ کی بیعت توڑدی تھی؛حالانکہ وہ ظالم تھا،اور پھر ان کی آپس میں جنگ بھی ہوئی۔اور یزید نے اہل حرہ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ حدیث ہذا سے وہی مسئلہ مستفاد ہوتا ہے جو اس طرح کی دیگر تمام احادیث سے مستفاد ہوتا ہے۔کہ جو شخص حکام وقت کا مطیع نہ ہو یا شمشیر بکف ان کے خلاف نبرد آزما ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔شیعہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے، وہ جبرو اکراہ کے بغیر ہمیشہ امراء کی اطاعت سے منحرف رہتے ہیں ؛[شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ سلاطین اسلام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی سلطان اچھا نہیں گزرا، جب آپ کے عہد خلافت کا تقابل بعد میں آنے والے سلاطین کے ادوار سے کیا جائے تو یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہیکہ ر عایا کو جو امن و عافیت آپ کے زمانہ میں نصیب ہوئی وہ کسی بادشاہ کے دور میں حاصل نہ ہوسکی، اور جب خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے مقابلہ کیا جائے تو خلافت راشدہ کی فضیلت نمایاں ہوتی ہے، عباسی خلافت کے زمانہ میں لوگ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد خلافت کو مثالی عدل کا دور کہا کرتے تھے، مشہور محدث سلیمان بن مہران اعمش ان سے کہا کرتے تھے اگر تم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت پا لیتے تو پھر کیا ہوتا؟ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بہتر تھا، لوگوں نے کہا کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے حلیم وبر دبار تھے؟ فرمایا: ’’ نہیں اﷲ کی قسم!وہ عدل میں بھی بے نظیر تھے ‘‘ یزید کا عہد خلافت بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے چنداں مختلف نہ تھا، اراکین سلطنت وہی تھے، جوحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھے، البتہ ہر حکومت کی ضروریات کا اندازہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، عبداﷲ بن مطیع نے محمد بن حنفیہ کے عین برعکس افتراء پردازی سے کام لیکر یزید کے خلاف جو اتہامات باندھے تھے ان کا نتیجہ اس فتنہ سامانی کی صورت میں ظہرو پذیر ہوا جس سے ڈرانے کیلئے حضرت ]اور حکمرانوں کی سب سے زیادہ مخالفت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ہم ان لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں اس حدیث کی اگر ایک آدمی سے بھی نقل منقول ہو تو اس کی صحت ثابت کرو ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایمان کا رکن اس جیسی حدیث سے ثابت کیا جائے جس کے نقل کرنے والے کو کوئی نہ جانتا ہو۔ اوراگر اس کا ناقل معلوم بھی ہوجائے تو پھر بھی اس سے غلطی اور جھوٹ کا امکان رہتا ہے ۔ کیا کسی معقول علمی طریقہ کے بغیر بھی ایمان کا کوئی رکن ثابت ہوسکتا ہے ۔

اس حدیث میں امامت پر دلیل نہیں :

ساتویں وجہ : ان سے کہا جائے گا : اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مبنی ہے ۔ تو پھر بھی ان لوگوں کے لیے اس حدیث میں کوئی حجت نہیں ہے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے امور کے متعلق یہ جملہ ارشاد فرمایاہے :’’من مات میتۃ الجاہلیۃ‘‘ ’’ تووہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔‘‘ یہ ایسے امور کے متعلق ہے جو ایمان کا رکن نہیں اور جن کے ترک کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ صحیح مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’من قتِل تحت رایۃ عِمِیّۃ یدعو عصبِیۃ، أو ینصر عصبِیۃ، فقِتلتہ جاہِلِیۃ۔‘‘[عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبد اﷲ بن مطیع کے پاس آئے تھے، عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ عبداﷲ بن مطیع نقض بیعت کا جو اقدام کر رہا ہے وہ ظلم ہے جس کا مرتکب جاہلیت کی موت مرتا ہے، ابن مطیع کے ظلم کا نتیجہ یہ ہوا کہ یزید بھی اسی قسم کے ظلم پر اتر آیا، اہل عرب کے نزدیک ظلم کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز کو اسکی اصلی جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے۔ سیدھی راہ سے بھٹک جانے کو بھی ظلم کہتے ہیں ۔ ابن مطیع اور اس کے رفقاء کار کا ظلم وہ فتنہ سامانی ہے جس کا بیڑا انہوں نے واقعہ حرہ سے قبل اٹھایا اور یزید کا ظلم وہ افسوسناک نتائج ہیں جو اس سے رونما ہوئے۔ (منہاج السنۃ: ۳؍۱۸۵)۔ ٭ الحدِیث فِی: مسلِم3؍1478کتاب الِإمارۃِ، باب وجوبِ ملازمۃِ جماعۃِ(....وفِیہِ: فقِتلۃ جاہِلِیۃ. ورایۃ عِمِّیۃ: قال النووِی (شرح صحیح مسلم 12؍238))ہِی بِضمِ العینِ وکسرِہا لغتانِ مشہورتانِ. والمِیم مکسورۃ ومشددۃ والیاء مشددۃ أیضا. قالوا: ہِی الأمر الأعمی لا یستبِین وجہہ۔ کذا قالہ أحمد بن حنبل والجمہور. قال إِسحاق بن راہویہِ: ہذا کتقاتلِ القومِ لِلعصبِیۃِ]

یہ کلام تعصب کی بنا پر لڑنے والوں کو بھی شامل ہے ۔اور شیعہ بنا بر تعصب لڑنے والوں میں سر فہرست ہیں ۔البتہ طرف داری کے نقطہ خیال سے لڑنے والے مسلمانوں کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ جیسا کہ کتاب و سنت اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ تو پھر جس انسان کا جرم اس سے کم تر ہو ‘ اسے کیسے کافر قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اگر وہ اطاعت امام سے نکل جائے اور جاہلیت کی موت مرے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔[حضرت جندب بجلی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’جو شخص عصبیت کی دعوت دیتا یا اس کا معاون ہو کر اندھا دھند لڑ رہا ہو اور وہ مارا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘‘مسلم کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح: ۱۸۵۰)۔] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’جو شخص اطاعت امام سے خروج اختیار کرے اور جماعت کو ترک کر کے مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (حدیث: ۱۸۴۸)۔]

شیعہ عرصہ دراز سے اطاعت امام سے نکل چکے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کی جماعت کو ترک کر دیا ہے۔

بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص اپنے امیر کی کوئی ایسی بات دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو اس پر صبر کرے، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوتا ہے، اور اسی حالت میں مرجاتا ہے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔ ‘‘[صحیح بخاری کتاب الفتن ۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ سترون بعدی اموراً تنکرونھا‘‘ (ح:۷۰۵۴) صحیح مسلم ۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین(ح:۱۸۴۹)۔]

وفِی لفظِ: من رأی مِن أمِیرِہِ شیئا یکرہہ، فلیصبِر علیہِ فِإن من خرج مِن السلطانِ شِبرا مات مِیتۃ جاہِلِیۃ۔[الحدِیث بِرِوایتیہِ ۔ مع اختِلاف یسِیر فِی الألفاظِ۔عنِ ابنِ عباس فِی: البخاری 9؍47 ِکتاب الفِتنِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سترون بعدِی أمورا تنکِرونہا؛ مسلِم 3؍1477 ۔ الکِتاب والباب السابِقان؛سنن الدارِمِیِ 2؍241۔کتاب السِیرِ، باب فِی لزومِ الطاعۃِ والجماعۃ؛ المسند ط. المعارِفِ 4؍164۔]

مالک ہے؛ مگر جب تک اس کو خاص متعین انسان کے مالک ہونے کا علم نہ ہو‘ تو وہ اس وقت تک اس کے مالک کو پہچاننے والا نہیں ہوسکتا ۔بلکہ یہی انسان اس کا عارف ہے ‘ کیونکہ اس پر احکام نسب و ملکیت مرتب ہوتے ہیں ۔

جب کہ امام منتظر کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اس کے کسی ایسے حال کی معرفت نہیں ہوسکی جس سے امامت میں فائدہ ہوتا۔ بیشک امام کی معرفت جس سے انسان جہالت سے معرفت کی طرف نکلتاہے ‘اور اس کے نتیجہ میں جماعت کی شیرازہ بندی اور اطاعت ممکن ہوتی ہے۔بخلاف اس چیز کے جس پر اہل جاہلیت تھے۔ اس لیے کہ ان کا کوئی امام نہیں تھا جس کے جھنڈے کے نیچے یہ لوگ جمع ہوتے۔اورنہ ہی ان کی شیرازہ بندی کے لیے کوئی جماعت تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ‘اور آپ کے ذریعہ سے ان لوگوں کو اطاعت گزاری اور جماعت بندی کی طرف ہدایت دی ۔جب کہ اس منتظر کی معرفت سے نہ ہی اطاعت گزاری حاصل ہوئی اور نہ ہی جماعت بندی۔ اور ایسی کوئی معرفت حاصل نہ ہوسکی جس سے لوگ جاہلیت سے معرفت کی طرف نکلتے۔ بلکہ اس امام کی طرف منسوب لوگ باقی تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر جاہل اور اہل جاہلیت سے زیادہ مشابہت رکھنے والے ہیں ۔

حکمران کی اطاعت نیکی کے امور میں :

نویں وجہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صرف ان ائمہ وسلاطین کی اطاعت کا حکم دیاہے جو موجود ہوں ، حکومت و سلطنت سے بہرہ ور ہوں اور لوگ انہیں عام طور سے جانتے ہوں ۔ مزید برآں ان کی اطاعت صرف معروف میں ضروری ہے منکر میں نہیں ۔ہمیں کسی مجہول اور معدوم کی اطاعت کا حکم ہر گز نہیں دیااور نہ ہی کسی ایسے کی اطاعت کا حکم دیا جس کا نہ کوئی بس چلتا ہو اور نہ ہی اسے اصل میں کوئی حکومت یا قدرت حاصل ہو۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آپس میں محبت کرنے اور اجتماعیت قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور تفرقہ بازی اور اختلاف سے منع کیا ہے۔ائمہ کی اطاعت کا حکم مطلق طور پر نہیں دیا ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے نافرمانی میں نہیں ۔ 

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کی اطاعت میں جن ائمہ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ‘ وہ معصوم نہیں ہیں ۔ صحیح مسلم میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ؛ فرماتے ہیں : میں نے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:

’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور جو تمہیں چاہتے ہوں تم ان کے حق میں دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں دعا کرتے ہوں ۔ تمہارے بد ترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اوروہ تم سے بغض رکھتے ہوں ، جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہوں ۔‘‘ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان کی بیعت توڑ نہ ڈالیں ؟ فرمایا: ’’جب تک وہ نماز کی پابندی کریں تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ آپ نے دو مرتبہ یہ الفاظ دہرائے:’’ جس پر کسی شخص کو حاکم بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے کوئی برا کام کرتے دیکھے تو اسے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھے مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ باب خیار الائمۃ و شرارھم(حدیث:۱۸۵۵]

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جن کے خلاف شریعت اعمال کو تم پہچان لوگے اور بعض اعمال نہ پہچان سکو گے۔ پس جس نے ان کے اعمال بد کو پہچان لیا وہ بری ہوگیا جو نہ پہچان سکا وہ محفوظ رہا لیکن جو ان امور پر خوش ہوا اور تابعداری کی وہ ہلاک ہوگیا ۔صحابہ نے عرض کیا:’’ ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ نہیں جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ۔‘‘[شیعہ کے گیارہ امام خود غیر معصوم ہونے کے معترف تھے، لوگوں نے ائمہ سے سن کر وہ دعائیں ذکر کی ہیں جن میں بارگاہ ایزدی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کیا کرتے تھے اگر وہ معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتے تو مغفرت طلب کرنے کی ضرورت لاحق نہ ہوتی، بارہواں امام بقول شیعہ نو عمری ہی میں تہ خانہ میں داخل ہو گیا نہ انہیں کسی نے دیکھا اور نہ ان سے کوئی دعا سن کر یاد رکھی، عصر حاضر تک کسی شخص نے ان کی آواز تک نہیں سنی۔ ]

یہ بات واضح ہے کہ ائمہ سے مراد امراء اورحکمران ہیں ۔ان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کئی ایک بری اور مکروہ باتیں بھی ہوتی ہیں ۔لیکن کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ان کی اطاعت سے دست کیش ہوجائے ۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرے۔ اور یہ کہ ان حکمرانوں میں اچھے بھی لوگ ہوتے ہیں اور برے بھی ۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے لوگ محبت رکھتے ہیں ‘ اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں ؛ اور وہ لوگوں سے محبت رکھتے اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ حاکم ایسے بھی ہوتے ہیں ‘جو لوگوں سے بغض رکھتے اور ان کے لیے بد دعا کرتے ہیں ‘ اور لوگ بھی ان سے بغض رکھتے ہیں ‘ اور ان پر بد دعا کرتے ہیں ۔

صحیحین میں ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء علیہم السلام کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔‘‘

صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت کرلو اسے پورا کرو اور حکام کا حق ان کو ادا کروبے شک اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔‘‘[صحیح مسلم امارت اور خلافت کا بیان : (ح:271)؛پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں ۔]

آپ نے خبر دی ہے کہ آپ کے بعد حکمران ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں گے۔اور پھر یہ حکم بھی دیا کہ ان کی بیعت کے ساتھ اول در اول کی بنیاد پر وفاداری برتی جائے۔اور ان کے حقوق ادا کئے جائیں ۔

صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کر دو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہو۔‘‘ [نفس الکتاب والباب في صحیح مسلم]

وفِی لفظِ:(( ستکون إثرۃ، وأمور تنکِرونہا۔قالوا: یا رسول اللہِ! فما تأمرنا؟ قال: تؤدُّون الحق الذِی علیکم، وتسلون اللہ الذِی لکم۔))

’’ عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے اورنا پسندیدہ امور پیش آئیں گے۔

عرض کیا: یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟

فرمایا:’’ تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کر دو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہو۔‘‘[صحیح مسلم؛امارت اور خلافت کا بیان : ح:271غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کا وجوب.... کے بیان میں ]

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے؛اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔‘‘[صحیح مسلم؛امارت اور خلافت کا بیان : ح:271غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کا وجوب۔ ]

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مسلمان مرد پر حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ہو سوائے اس کے کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے؛ پس اگر اسے معصیت ونا فرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ اس کی بات سننا لازم ہے اور نہ اطاعت۔‘‘

[اس ضمن میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ ائمہ معصوم نہیں ]۔

اگر وہ یہ کہے کہ: ’’دین کے اہم ترین مطالب اور اشرف ترین مسائل ‘‘ کہنے سے میری مراد وہ مسائل تھے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت کا اختلاف واقع ہواہے۔ان میں سے ایک یہ مسئلہ مسئلہ امامت ہے۔ تو اس سے کہا جائے گا یہ نہ ہی الفاظ فصیح ہیں ‘ اور نہ ہی معنی صحیح ہے۔اس لیے کہ جو کچھ تم نے ذکر کیا ہے ‘ وہ اس معنی پر دلالت نہیں کرتا۔ بلکہ الفاظ کے مفہوم کا تقاضا ہے کہ یہ مسئلہ مطلق طور پر دین کے اہم ترین مطالب اور مسلمانوں کے اشرف ترین مسائل میں سے ہے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ فرض کریں :تمہاری کی مرادیہی تھی ؛ تو اس لحاظ سے بھی اس کا معنی باطل ہوا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس سے اشرف اور اہم ترین مسائل میں مسلمانوں کا اختلاف واقع ہوا ہے۔اگر مان لیا جائے کہ یہی مطلب اشرف مطالب میں سے ہے؛ تو پھر جو کچھ تم نے پہلے بیان کیا ہے ‘ وہ باطل ترین مذاہب اور فاسد تر مطالب میں سے ہے۔اس لیے کہ مسئلہ امامت میں اختلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور سے پہلے پیش نہیں آیا۔

خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں یہ اختلاف پیدا نہیں ہوا تھا۔سوائے جو کچھ سقیفہ کے دن سامنے آیا۔اس دن لوگ اس وقت تک وہاں سے اٹھے نہیں جب تک ان کا اس مسئلہ پر آپس میں اتفاق نہیں ہوگیا۔ ایسی باتوں کو نزاع شمار نہیں کیا جاتا۔ اور اگر مان لیا جائے کہ اس مسئلہ میں نزاع و اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوگیا تھا؛ تو ہر وہ مسئلہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد اختلاف پیدا ہوگیا ہو‘ وہ ان دیگر مسائل سے افضل و اہم تر نہیں ہوسکتا جن میں اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے لمبے زمانے کے بعد پیدا ہوا ہو۔

اگر ایسا ہوتا تو یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ توحید و صفات کے مسائل ‘ اثبات و تنزیہ ‘ قدر و تعدیل ‘اسماء و تجویز ؛ تحسین‘ تقبیح کے مسائل امامت کے مسائل سے بڑھ کر اہم تراو راشرف تر ہیں ۔ ایسے ہی مسائل احکام و اسماء ؛ وعد و وعید ؛ شفاعت اور خلود فی النار کے مسائل امامت کے مسائل سے زیادہ اہم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عقائد کے بارے میں جتنے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں انہوں نے مسئلہ امامت کو آخر میں ذکر کیا ہے ۔ یہاں تک کہ خود امامیہ فرقہ کے لوگ مسئلہ امامت سے پہلے توحید ‘ عدل اور نبوت کے مسائل ذکر کرتے ہیں ۔ ایسے ہی معتزلہ کے ہاں پانچ اصول ہیں : توحید ؛ عدل ؛ منزلہ بین منزلتین ؛ وعید کا انفاذ اور پانچواں مسئلہ ہے : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ؛ امامت کے مسائل اسی مسئلہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔

یہی وجہ تھی کہ جمہور امت نے مسئلہ امامت کے بغیر بھی اس مقصود امامت کی بہت بڑی خیر حاصل کی تھی جس کا پرچار رافضی کررہے ہیں ۔اس لیے کہ امامیہ ایسے صاحب زمان امام کا عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ مفقود ہے؛ اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور وہ تقریباً دو سو ساٹھ ہجری میں سرداب سامراء میں داخل ہوگیا تھا۔اور اب تک چار سو پچاس [ہمارے دور میں بارہ سو] سال سے غائب ہے۔اس اتنی لمبی مدت کے دوران اس امام کی امامت سے شیعہ کو دین ودنیا کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔بلکہ وہ کہتے ہیں کہ : ’’ ہمارے پاس اس امام کے علاوہ دوسرے لوگوں سے منقول علم ہے ۔‘‘

اگر یہ مسئلہ دین کے اہم ترین مسائل میں سے تھا اور وہ لوگ اس سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہ کرسکے؛ تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ان سے دین کا اہم ترین اور اشرف ترین حصہ چھوٹ گیا۔ تو اس صورت میں باقی مسائل عقیدہ توحید اور عدل بھی ان کے کچھ کام نہ آسکے۔اس لیے کہ بہ نسبت مقصود ِامامت کے ان میں نقص پایا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس وجہ سے وہ عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔

شیعہ امامیہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ امامت کی ضرورت صرف شریعت کی فروعات میں ہوتی ہے اصول میں نہیں ۔ جب کہ اصول عقلیہ میں امام کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ دینی اصول و قواعد اہم و اشرف ہوتے ہیں ۔اس تمام کلام کے بعد امامت کے متعلق تمہارا عقیدہ راہ حق سے سب سے زیادہ دور ہے ۔اگر اس میں سوائے اس کے اور کچھ بھی نہ ہوتا کہ تم نے امامت کودین ودنیا میں مخلوق کی مصلحت کے لیے واجب قراردیا ہے۔اور تمہارے اس امام زمانہ کے ذریعہ ابھی تک کوئی مصلحت حاصل نہیں ہوئی؛ نہ ہی دین میں اور نہ ہی دنیا میں ۔ اب بتائیے اس شخص کی جد و جہد سے زیادہ بیکار کوشش کس کی ہوگی جو اطاعت ائمہ میں بڑی زحمت اٹھاتا، اکثر قیل و قال سے کام لیتا، مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوتا، سابقین اولین [صحابہ و تابعین ]پر لعنت بھیجتا اور کفار و منافقین کا دست راست بنا رہتا ہے۔ بایں ہمہ وہ حیلہ گری سے بھی نہیں چوکتا، دشوار گزار راستوں پر گامزن ہوتا، جھوٹی شہادت سے تقویت حاصل کرتا اور اپنے پیروکاروں کو فریب دہی سے پھانستا رہتا ہے۔اور ایسی ایسی حرکات کا ارتکاب کرتا ہے جن کا یہاں پر ذکر کرنا طوالت اختیار کرجائے گا۔ [ردّشیعہ کا سلسلہ جاری ہے، یہ رد بلا دلیل نہیں بلکہ ان کے تاریخی دلائل وہ شواہد موجود ہیں ، علاوہ ازیں خود شیعہ کی تصنیفات میں ایسے حقائق کی کمی نہیں اگر عمر و وقت میں گنجائش ہو تو شیعی تصنیفات میں سے مواد لے کر ضخیم مجلدات تحریر کی جا سکتی ہیں ۔]اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ایک امام کا وجود از بس ضروری ہے جو احکام الٰہی سے آگاہ کرتا رہے۔اور وہ چیزیں بیان کرے جن سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی ہو۔ 

پھر جب اس امام کے نام و نسب کا علم ہوگیا تو اس سے کوئی بھی مطلب کی بات حاصل نہ ہوسکی۔ اور نہ ہی اس کی تعلیمات اور رہنمائی کی باتوں میں سے کوئی بات اس کے ماننے والوں تک پہنچ سکی۔اور نہ ہی اس کے اوامر و نواہی کا پتہ چل سکا۔ اور نہ ہی امام سے کوئی مصلحت و منفعت حاصل ہوئی؛ بجز جان و مال کے نقصان کے۔اوراس کے کہ وہ انسان حسرت و ندامت کا شکار ہو، خطا کا مرتکب ہو ، دور دراز سفر میں مبتلا رہ کر دن رات امام غائب کا منتظر رہے۔ اور تہ خانہ میں داخل ہونے والے ایک امام کی وجہ سے امت محمدی سے بغض و عداوت کا سلوک روا رکھے۔ حالانکہ اس امام نے نہ کوئی کام کیا اور نہ اسکی زبان سے ایک لفظ صادر ہوا۔ مزید برآں اگر امام مذکور کا وجود یقینی ہوتا تو بھی شیعہ کو ان سے کوئی فائدہ نہ پہنچتا۔ امت کے دانش مند لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ شیعہ کے یہاں افلاس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مزید برآں حسن بن علی عسکری کے یہاں سرے سے کوئی اولاد ہی نہ تھی اورنہ اس نے اپنے پیچھے کوئی وارث چھوڑا ہے ۔ جیسا کہ مورخ ابن جریر طبری اور عبدالباقی بن قانع وغیرہ اہل علم نسب دانوں نے ذکر کیا ہے۔

امام غائب کے عقیدہ کا ابطال:

شیعہ کہتے ہیں : امام زمان اپنے والد کی وفات کے بعد اس سرداب میں داخل ہوگیا تھا‘ اس وقت اس کی عمر دو سال یا پھر تین سال یا پھر پانچ سال تھی۔ [شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام منتظر دویا تین یا پانچ سال کی عمر میں تہ خانہ میں داخل ہوا] نظر بریں [اس وقت وہ امام بنص قرآنی ] یتیم ہو گا ؛جس کی تربیت اور مال کی حفاظت نص قرآنی کی بنا پر ضروری ہے یہاں تک کہ اس پر عقل مندی کے آثار نظر آنے لگیں ۔اور اس کا کوئی مستحق قرابت دار اسے گود پالے گا [اورتربیت و پرورش کا اہتمام کریگا]۔ جب اس کی عمر سات سال کی ہوجائے تو اسے طہارت اور نماز کی ادائیگی کا حکم دیا جائے گا۔ غور فرمائیے! جس نے ہنوز نہ وضوء کیا نہ نماز ادا کی؛ اور اگر وہ شاہداور موجود بھی ہوتا تو از روئے نص قرآنی وہ خود اور اس کا مال و اسباب اس کے کسی ولی کی نگہداشت میں ہوتے۔ (اور ولی کی اجازت کے بغیر اسے تصرفات کی اجازت نہ ہوتی) تو پھر ایسے شخص کا اہل ایمان کا امام ہونا کیوں کر جائز ہو سکے گا؟

[یہ تو اس صورت میں ہوتا جب امام موجود ہوتا ] اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگیا جب امام اتنی لمبی مدت سے مفقود یا معدوم ہو۔ جب کسی عورت کا ولی زیادہ مدت کے لیے غائب ہوجائے تو قاضی یا موجود ولی اس کی شادی کراسکتا ہے تاکہ اس عورت کے معلوم اورموجود ولی کے لمبا عرصہ تک غائب رہنے کی وجہ سے مصلحت فوت نہ ہو۔ توپھر امامت کی مصلحت کیسے حاصل ہوسکتی ہے جب کہ امام اتنے لمبے عرصہ سے غائب اور مفقود ہو؟

[اتنی طویل مدت میں کوئی امام کیوں نہ مقرر کیا گیا اور امامت کی مصلحت کو کیوں کر پیش نظر نہ رکھا گیا؟][مورخ ابن جریر طبری ۲۰۲ھ کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسب و نسب کا ایک جھوٹا دعویٰ دار حیلہ جوئی کر کے خلیفہ المقتدر عباسی کے دربار میں حاضر ہوا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ محمد بن حسن بن علی بن موسیٰ بن جعفر ہے، خلیفہ نے بنی ہاشم کے مشائخ کو بلایا؛ان کا سردار ان دنوں احمد بن عبدالصمد تھا جو ابن طومار کے نام سے مشہور تھا۔ ابن طومار نے کہا کہ حسن کی کوئی اولاد نہ تھی، پھر تم محمد بن حسن کیسے ہوگئے؟ بنی ہاشم چلا چلا کر کہنے لگے کہ اسے سخت سزا دے کر لوگوں میں اس کی تشہیر کی جائے۔ چنانچہ اسے ایک اونٹ پر سوار کر کے ذوالحجہ کی آٹھویں اور نویں تاریخ کو شہر کی دونوں جانب میں پھرا کر مغربی جانب ایک قید خانہ میں قید کر دیا گیا۔ طبری کے ذکر کردہ واقعہ میں قابل غور بات ابن طومار کا یہ قول ہے کہ حسن عسکری نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ یہ قول ان لوگوں کے قول سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ حسن عسکری کی لونڈی نرگس کے یہاں آپ کی زندگی میں یا بعد از موت ایک بچہ پیدا ہوا تھا۔ حسن عسکری کا بھائی جعفر بن علی بن موسیٰ باقی لوگوں کی نسبت آپ کا نہایت قریبی تعلق دار تھا۔ حسن عسکری کی وفات کے بعد اس نے سب ترکہ خود لے لیا تھا۔ اس لیے کہ دوسرا کوئی شخص ان کا وارث نہ تھا، جعفر بن علی نے ان کی لونڈی کو بھی روکے رکھا تھا اور اس وقت اجازت دی جب پتہ چل گیا کہ ان میں سے کوئی بھی حاملہ نہیں ۔ تاریخ کے اوراق ایسی شخصیت سے آشنا نہیں جسے حسن عسکری کی اولاد کہا جا سکے۔ گر وہی تعصب کی بنا پر یہ دعویٰ کرنا الگ بات ہے کہ وہ تاحال بقید حیات ہے۔کچھ بعید نہیں کہ اس (افسانے) کے آغاز کا حقیقت سے اتنا ہی تعلق ہو جتنا اس کے انجام کا ہے۔ ’’سبحانک یا واھب العقول‘‘]