شیعہ علماء کے اعتقاد کے مطابق بنیادی اعمال کی بنیاد کیا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ علماء کے اعتقاد کے مطابق بنیادی اعمال کی بنیاد کیا ہے؟
جواب: اعمال کی قبولیت کی شرط ائمہ کی امامت پر ایمان لانا ہے۔
(بحار الانوار: جلد، 27 صفحہ، 166 باب انه لا تقبل الاعمال الا بالولایة)
فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ ۞(سورۃ الأعراف آیت، 190)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان کی شرکیہ باتوں سے بہت ہی زیادہ بلند و برتر ہے۔
یہ جھوٹی روایت پیش کرتے ہیں کہ جو شخص امیر المومنین کی ولایت کا اقرار نہ کرے اس کے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔(تفسیر القمی: صفحہ، 334 سورۃ ابراھیم تفسیر نور الثقلین: جلد، 2 صفحہ، 533 حدیث نمبر، 46 بحار الانوار: جلد، 27 صفحہ، 166)
یہ بھی افتراء کرتے ہیں کہ: بے شک اللہ عزوجل نے سیدنا علیؓ کو اپنے درمیان اور اپنی مخلوق کے درمیان بطور علم (علامت) نصب کیا ہے تو جس نے اسے پہچان لیا وہ مومن ہے اور جس نے اسے نہ پہچانا وہ کافر ہے اور جو اس سے جاہل رہا وہ گمراہ ہے اور جس نے اس کے ساتھ کسی اور چیز کو نصب کیا وہ مشرک ہے اور جو اس کی ولایت لے کر آیا وہ جنت میں داخل ہوا۔
(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 331 کتاب الحج: حدیث نمبر، 7 باب فیه نتف جوامع من الروایة فی الولایة)
افتراء کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں: جس شخص نے ہماری ولایت کا اقرار کر لیا پھر اسی حالت پر مر گیا تو اس سے اس کی نماز اس کا روزہ اس کی زکوٰۃ اس کا حج قبول کر لیا گیا اور اگر کسی شخص نے ہماری ولایت کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اقرار نہ کیا تو اللہ عزوجل اس کے اعمال میں سے کچھ بھی قبول نہ فرمائے گا۔
(الامالی: صفحہ، 328 حدیث نمبر، 11 المجلس، 44 بحار الانوار :جلد، 27 صفحہ، 167 حدیث نمبر، 2 باب انه لا تقبل الاعمال الا بالولایة)
انہوں نے اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی گھڑ لی ہے کہتے ہیں: اگر کسی انسان کو اللہ تعالیٰ ایک ہزار سال کی عمر دے اور وہ مقامِ ابراہیم علیہ السلام اور حجرِ اسود کے درمیان یا قبرِ نبیﷺ اور منبر شریف کے درمیان کھڑے ہو کر عبادت کرتا رہے اور پھر اپنے بستر پر ایسے مظلومیت کے ساتھ ذبح کر دیا جائے جیسے قربانی کے مینڈھے کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر وہ ہماری ولایت پر ایمان لانے کے بغیر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ وہ اسے ناک کے بل جہنم کی آگ میں ڈال دے۔
(ثواب الاعمال: صفحہ، 251 حدیث نمبر ،16 بحار الانوار: جلد، 27 صفحہ، 180 باب ان لا تقبل الاعمال الا بالولایة)
ان کے امام اکبر خمینی یوں گل افشانی کرتے ہیں:
اھل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ولایت و معرفت قبولِ اعمال کے لیے بنیادی شرط اور مسلمہ امور میں سے ہے۔ بلکہ شیعہ کے مذہب مقدس کی ضروریات میں سے ہے۔ اس موضوع میں اس مضمون کی روایت بہت زیادہ ہیں۔
(اھل البیت فی فکر الامام الخمینی: صفحہ، 38 الولایۃ و قبول الاعمال)
تعارض: شیعہ علماء اپنی معتبر کتب میں پائی جانے والی اس روایت کا کیا جواب دیں گے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰى (سورۃ الشورىٰ: آیت، 23)
ترجمہ: کہہ دیجیے کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی۔
تو میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جبرائیل علیہ السلام نے کہا: یا محمدﷺ! بلاشبہ ہر دین کی ایک بنیاد اور ایک ستون ہوتا ہے اور ایک فرع (شاخ) اور ایک عمارت ہوتی ہے بلاشبہ دین کی بنیاد اور ستون تو لا الہ الا اللہ کا عقیدہ و اقرار ہے اور اس کی عمارت تمہارے اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت اور ان باتوں میں تمہاری موالات جو حق کے موافق ہیں اور جن کی طرف حق نے دعوت دی ہے۔
(تفسیر فرات: 397 حدیث نمبر، 528 بحار الانوار: جلد، 23 صفحہ، 247 باب ان مودتھم أجر الرسالة)
بلاشبہ یہ نص "شہادہ التوحید" دین کی بنیاد قرار دے رہی ہے نہ کہ ولایت کو اور محبت اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دین کی فرع شمار کر رہی ہے اور مزید اسے مشروط ٹھہرا رہی ہے ان چیزوں کے ساتھ جو حق سے موافقت رکھیں اور جن کی طرف حق نے دعوت دی ہو۔
اور ایک بات یہ بھی غور طلب ہے ان لوگوں کا کیا گناہ ہے جو سابقہ اُمت میں اس حال میں فوت ہو چکے ہیں کہ انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق کچھ بھی علم نہیں تھا؟