Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سقیفہ بنی ساعدہ

  علی محمد الصلابی

سقیفہ بنی ساعدہ

جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہﷺ کی وفات کا علم ہو گیا تو انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے، یہ دو شنبہ 12 ربیع الاوّل 11 ہجری تھا، جس روز نبی کریمﷺ کی وفات ہوئی۔ اس اجتماع میں مسئلہ خلافت پر گفتگو ہوئی۔

(التاریخ الاسلامی: جلد، 9 صفحہ، 21)

انصار، قبیلہ خزرج کے رہنما سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہو گئے، انصار کے اس اجتماع کی خبر مہاجرین کو پہنچی، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ خلافت پر غور و خوض کرنے کے لیے جمع تھے کہ کون اس منصب کو سنبھالے۔

(عصر الخلافۃ الراشدۃ للعمری: صفحہ، 40)

مہاجرین نے آپس میں کہا آؤ اپنے انصار برادران کے پاس چلتے ہیں اس حق میں ان کا بھی حصہ ہے۔

(عصر الخلافۃ الراشدۃ للعمری: صفحہ، 40)

 سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں ہم انصار کی طرف چل پڑے، جب ہم ان سے قریب پہنچے، ان میں سے دو صالح آدمیوں (عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی) سے ملاقات ہوئی۔ ان دونوں نے انصار کے عزائم سے ان کو مطلع کیا، پھر سوال کیا:

آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟

ہم نے کہا ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔

ان دونوں نے کہا ان کے پاس جانا ضروری نہیں۔ آپ لوگ خود معاملہ طے کر لیں۔

میں نے کہا واللہ ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے۔

ہم چلے یہاں تک کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس پہنچے۔ دیکھا ایک شخص کمبل میں لپٹا ہوا ہے۔

میں نے کہا یہ کون ہیں؟

لوگوں نے جواب دیا یہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔

میں نے کہا ان کو کیا ہو گیا ہے؟

لوگوں نے بتایا ان کو بخار آرہا ہے۔

ہم وہاں تھوڑی دیر بیٹھے، اتنے میں ان کے خطیب نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا

اما بعد! ہم اللہ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں، اے مہاجرین! تم ایک مختصر سی جماعت ہو، تم میں سے کچھ لوگ اٹھے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خلافت سے بے دخل کر دیں۔

وہ شخص خاموش ہو گیا تو میں نے گفتگو کرنا چاہی۔ میں نے اپنی بات اچھے انداز میں تیار کر لی تھی، جسے میں سیدنا ابوبکرؓ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ ایک حد تک میں نے مسئلہ کا احاطہ کر لیا تھا۔ لیکن جب نے میں بولنا چاہا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھہرو۔ میں نے آپؓ کو ناراض کرنا پسند نہ کیا۔ پھر سيدنا ابوبکرؓ نے گفتگو شروع کی تو وہ مجھ سے زیادہ بردبار اور باوقار تھے۔ واللہ انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی جو مجھے پسند تھی اور جو میں نے اپنے جی میں تیار کر رکھی تھی۔ انہوں نے فی البدیہ اس جیسی یا اس سے بہتر بات کہی۔ آپؓ نے اپنی بات ختم کی، پھر فرمایا

میں نے آپ لوگوں سے متعلق جو باتیں کہی ہیں اس کے آپ لوگ مستحق ہیں، لیکن خلافت و امارت قریش ہی کے لیے موزوں و معروف ہے۔ حسب و نسب اور گھرانے کے اعتبار سے وہ عرب میں افضل ہیں۔ میں تمہارے لیے ان دونوں میں سے ایک کو پسند کرتا ہوں جس کو چاہو منتخب کر کے بیعت کر لو۔

پھر میرا اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کا ہاتھ پکڑا اور آپؓ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے صرف یہ بات ناپسند آئی، واللہ میری گردن مار دی جاتی، یہ اس سے بہتر و محبوب ہے کہ میں ایسے لوگوں کا امیر بنوں جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگ ہوں۔ اِلا یہ کہ موت کے وقت کوئی ایسی بات میرے جی میں آئے جو اس وقت نہیں پائی جا رہی ہے۔

انصار میں سے ایک شخص نے کہا میری بات کافی و شافی اور قابل اعتماد ہے، ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے۔

پھر شور و شغب زیادہ ہوا، آوازیں بلند ہوئیں، مجھے اختلاف رونما ہونے کا خوف دامن گیر ہو گیا۔

میں نے کہا سیدنا ابوبکرؓ ہاتھ بڑھائیے۔

میں نے آپؓ سے بیعت کی، پھر مہاجرین اور پھر انصار نے آپؓ سے بیعت کی۔

(البخاری: الحدود 6830)

مسند احمد کی روایت میں ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو فرمائی، انصار سے متعلق جو کچھ قرآن میں نازل ہوا ہے اور جو کچھ رسول اللہﷺ نے ان کی شان میں بیان کیا ہے سب کچھ ذکر کیا، اور فرمایا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا

اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی کو اختیار کریں تو میں اس وادی میں چلوں گا جہاں انصار چلیں گے۔

اے سيدنا سعدؓ! تمہیں معلوم ہے، تم بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہﷺ فرما رہے تھے

قریش ہی خلافت و امارت کے حقدار ہیں۔ نیک لوگ ان کے نیک لوگوں کے تابع اور برے لوگ ان کے برے لوگوں کے تابع ہیں۔

یہ سن کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا آپﷺ نے سچ فرمایا۔ ہم وزراء ہیں آپ لوگ امراء ہیں۔

(مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 5 الخلافۃ والخلفاء البہنساوی: ۵۰ صفحہ، 50)

اہم دروس و عبر اور فوائد:

1: سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور نفوس قدسیہ کے ساتھ آپؓ کا تعامل اور لوگوں کو مطمئن اور قائل کرنے کی قدرت:

مسند احمد کی روایت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کس طرح انصار کے نفوس پر اثر انداز ہوئے اور ان کو مطمئن کر دیا کہ جو وہ سمجھے ہیں وہی حق ہے، اور مسلمانوں کو فتنے سے بچا لیا۔ انصار سے متعلق کتاب و سنت میں جو کچھ وارد ہوا ہے اس کو بیان کر کے ان کی تعریف کی۔ مخالف کی تعریف اسلامی منہج و طریق ہے۔ اس سے مقصود مخالف کے ساتھ انصاف کرنا اور اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنا، اس کے اندر سے انانیت اور غرور کے عوامل و اسباب کو نکالنا ہے تا کہ وہ حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد اپنے آپ کو حق قبول کرنے کے لیے تیار پائے۔ رسول اللہﷺ کی سنت میں اس پر دلالت کرنے والی بہت سی مثالیں ہیں۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس ذریعہ سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ انصار کے فضائل اگرچہ بہت زیادہ ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خلافت کے بھی زیادہ حقدار ہیں، کیونکہ نبی کریمﷺ نے اس بات کی تنصیص فرما دی ہے کہ مہاجرین قریش اس امر میں مقدم ہیں۔

(التاریخ الاسلامی: جلد، 9 صفحہ، 24)

امام ابنِ العربی مالکیؒ نے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے قریش کے مستحق خلافت ہونے پر رسول اللہﷺ کی اس وصیت سے استدلال لیا جو انصار کے ساتھ خیر کا برتاؤ کرنے اور ان کے نیکو کار کو قبول کرنے اور خطا کار سے درگذر کرنے سے متعلق کی تھی۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انصار پر اس طرح حجت قائم کی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صادقین کہا اور تمہیں مفلحین کا نام دیا۔ آپؓ کا اشارہ اس ارشاد ربانی کی طرف تھا:

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔

(سورۃ الحشر: آیت نمبر، 8/9)

ترجمہ: (مال فے) ان مہاجرین مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی راست باز لوگ ہیں۔ اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں، گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو، (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انصار سے کہا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ ہمارے ساتھ رہو، ہم جہاں بھی ہوں۔ ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ.

(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 119)

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔

اس طرح دیگر درخشاں اقوال اور قوی دلائل کو پیش کیا جس سے انصار نے عبرت حاصل کی اور آپؓ کی اطاعت کو قبول کیا۔

(العواصم من القواصم: صفحہ، 10)

حضرت ابوبکرؓ نے اپنے خطاب میں یہ واضح فرمایا کہ خلافت کے لیے وہی لوگ پیش کیے جا سکتے ہیں کہ عرب جن کی سیادت و قیادت کو قبول کریں اور جن سے استقرار پیدا ہو، اور فتنے رونما نہ ہوں۔ اور اس حقیقت کو واشگاف کیا کہ عرب صرف قریشی مسلمانوں کی قیادت کو تسلیم کر سکتے ہیں، کیونکہ رسول اللہﷺ انھی میں سے ہیں اور پھر ان کے ذہن و دماغ میں قریش کی تعظیم و احترام پہلے سے جاگزیں ہے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ان روشن کلمات کے ذریعہ سے انصار مطمئن ہو گئے کہ وہ مہاجرین قریش کے معاون و وزراء اور مخلص سپاہی بن کر رہیں گے جس طرح وہ رسول اللہﷺ کے دور میں تھے۔ اس طرح مسلمان متحد ہو گئے اور ان کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچ گیا۔

(التاریخ الاسلامی: جلد، 9 صفحہ، 24)

2: سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت سے بے نیازی اور سب کے پیش نظر وحدت امت:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جب اپنی بات مکمل کر چکے تو عمر اور حضرت ابو عبیدہؓ کو خلافت کے لیے پیش کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات ناپسند آئی اور بعد میں اس کا اظہار بھی کیا، فرماتے ہیں

مجھے سیدنا ابوبکرؓ کی صرف یہ بات ناپسند آئی، واللہ میری گردن مار دی جائے یہ اس سے بہتر و محبوب ہے کہ میں ایسے لوگوں پر امیر بنوں جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگ ہوں۔

(البخاری: الحدود صفحہ، 683)

چونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سب سے زیادہ مستحق خلافت ہونے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو قناعت و اطمینان حاصل تھا، اس لیے انہوں نے ان سے کہا سیدناابوبکرؓ! ہاتھ بڑھائیں۔ انہوں نے ہاتھ بڑھایا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے آپؓ سے بیعت کی، پھر مہاجرین نے بیعت کی اور پھر انصار نے بیعت کی۔

اور ایک روایت میں ہے حضرت عمرؓ نے کہا اے انصار! کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمایا ہے، تو بتاؤ تم میں سے کون یہ پسند کرے گا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے آگے بڑھے؟

انصار نے کہا ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں۔

(مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 21 شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ جلد، 1 صفحہ، 213 رقم: 133)

یہ انتہائی اہم اور قابل غور بات ہے جس کی اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو توفیق بخشی۔ رسول اللہﷺ نے مرض الموت میں اس کا اہتمام فرمایا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت پر مصر رہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت حضرت ابوبکرؓ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا کلام غایت درجہ ادب و احترام پر مشتمل اور نفسانی خواہشات سے بالکل پاک ہے اور سیدنا ابوبکرؓ کا خلافت سے زہد اور بے نیازی آپؓ کے اس خطبہ سے نمایاں ہے جس میں قبول خلافت کا عذر و سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا واللہ کبھی میں خلافت کا شوقین و حریص نہ تھا اور نہ کبھی اس کی رغبت مجھے پیدا ہوئی اور نہ کبھی ظاہر یا باطن میں اللہ سے اس کا سوال کیا تھا۔ لیکن مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر اسے قبول نہ کیا تو امت فتنہ میں مبتلا ہو جائے گی۔ میرے لیے اس امارت میں راحت و سکون نہیں، لیکن میں نے بہت بڑی ذمہ داری اٹھا لی ہے جس کی مجھ میں طاقت وقوت نہیں۔ اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ قوت عطا فرمائے۔ میری تمنا ہے کہ میری جگہ کوئی طاقت ور شخص ہوتا۔

(المستدرک: جلد، 3 صفحہ، 66 امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبیؒ نے اس سے موافقت کی ہے)

اور آپؓ کا یہ قول بھی ثابت ہے کہ میری خواہش و تمنا ہے کہ کاش میں خلافت ان دونوں سیدنا ابو عبیدہؓ اور سیدنا عمرؓ میں سے کسی ایک کی گردن پر ڈال دیتا اور میں اس کا وزیر ہوتا۔

(الانصار فی العصر الراشدی، حامد محمد الخلیفہ صفحہ، 108 تاریخ الخلفاء للسیوطی: صفحہ، 91)

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے متعدد مرتبہ اپنے خطاب میں خلافت سے اعتذار اور اس سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔

فرمایا لوگو! یہ تمہارا معاملہ تمہارے حوالے ہے، تم جس کو چاہو خلافت سونپ دو، میں تم میں سے ایک فرد کی طرح رہوں گا۔

لوگوں نے جواباً عرض کیا سیدنا ابوبکرؓ! خلافت آپؓ کے حصے میں آئی، اس سے ہم خوش ہیں۔ آپؓ تو ثانی اثنین اور رسول اللہﷺ کے یار غار ہیں.

(الخلافۃ الراشدۃ للعمری: صفحہ، 13)

آپؓ نے مسلمانوں کے نفوس کو اپنی خلافت سے متعلق ہر اختلاف اور معارضہ سے پاک کیا اور انہیں قسم دلاتے ہوئے فرمایا لوگو! میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، جو شخص بھی میری بیعت پر نادم ہو وہ اپنے پیروں پر نہ کھڑا ہو۔

اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے، ان کے ہاتھ میں تلوار تھی، آپؓ سے قریب ہوئے، ایک پیر منبر کے زینے پر رکھا اور دوسرا نیچے سنگریزے پر ،اور فرمایا واللہ نہ ہم آپﷺ کو بر طرف کر سکتے ہیں اور نہ برطرفی کا مطالبہ کر سکتے ہیں، جب آپؓ کو رسول اللہﷺ نے آگے بڑھا دیا ہے تو بھلا آپﷺ کو کون پیچھے کر سکتا ہے۔

(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 108)

صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی خلافت و ذمہ داری سے بے نیاز نہ تھے بلکہ اس دور کا یہ عام مزاج تھا، کوئی اس کا خوگر اور طلب کرنے والا نہ تھا۔

مذکورہ بالا نصوص کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ اس روح سے خالی نہ تھی۔ بلکہ یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ انصار اسلامی دعوت کے تابناک مستقبل کے انتہائی حریص تھے، اسی لیے ان کو اس وقت تک چین نہ آیا جب تک انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ سے جلدی سے بیعت نہ کر لی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھی اسباب کے پیش نظر بیعت کو قبول کیا۔ ورنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نقطہ نظر ان بہت سے لوگوں کے نقطہ نظر کے برعکس ہے جنہوں نے علمی منہج اور موضوعی فکر کی مخالفت کی ہے بلکہ ان کی تحقیق اس دور کے مزاج و روح اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آرزوؤں اور تمناؤں کے خلاف ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع سے مہاجرین و انصار کے درمیان اختلاف ہو گیا

(دیکھیے الاسلام واصول الحکم: محمد عمارہ صفحہ، 71/74)

تو پھر انصار نے قوت و طاقت کے مالک اور مدینہ کے باسی ہونے کے باوجود اس اجتماع کے نتیجہ کو کیسے قبول کر لیا اور کیسے خلافت صدیقی کے تابع ہو کر لشکرِ خلافت میں شمولیت اختیار کی اور پھر خلافت کے استحکام کے لیے علم جہاد لے کر مشرق و مغرب میں اٹھ کھڑے ہوئے؟

(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 109)

خلافتِ صدیقی کے اوامر کو نافذ کرنے اور مرتدین سے مقابلہ کے لیے انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حرص اور شوق و جذبہ سے حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ دوسرے مسلمانوں کے علاؤہ انصار میں سے بھی کوئی فرد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے نہ رہا۔ مہاجرین و انصار کے مابین اخوت ان لوگوں کے تخیلات سے بلند تر ہے جو اپنی من گھڑت روایات کے ذریعہ سے ان کے درمیان اختلاف دکھانا چاہتے ہیں۔

(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 109)