Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور خلافت صدیقی سے متعلق ان کا مؤقف

  علی محمد الصلابی

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور خلافتِ صدیقی سے متعلق ان کا مؤقف

سیدنا سعد بن عبادہؓ سقیفہ بنی ساعدہ میں ہونے والی گفتگو اور بحث و مباحثہ کے بعد ہی اپنے دعویٰ امارت سے دست بردار ہو گئے اور خلافتِ صدیقی کو قبول کرتے ہوئے بیعت کی۔ آپؓ کے چچا زاد بھائی حضرت بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ اس اجتماع میں انصار میں سب سے پہلے بیعت کرنے والے تھے۔ صحیح روایات میں کہیں اس بات کا تذکرہ نہیں ملتا کہ وہاں کسی طرح کی مشکلات رونما ہوئی ہوں اور خلافت کے لیے جتھا بندی عمل میں آئی ہو، جیسا کہ بعض تاریخ نگاروں کا زعم ہے اسلامی اخوت ان کے مابین برابر قائم رہی بلکہ اس کے اندر اور تقویت پیدا ہوئی جیسا کہ نقل صحیح سے یہ ثابت ہوتا ہے۔ اور نقل صحیح سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ خلافت و حکومت کو اپنے قبضہ میں رکھنے کے لیے سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر اور حضرت ابوعبیدہؓ کے مابین وفات نبویﷺ کے بعد کوئی سازش اور منصوبہ بندی عمل میں آئی ہو۔

(استخلاف ابی بکر، جمال عبدالہادی، صفحہ، 51/52/53)

کیونکہ یہ نفوس اللہ تعالیٰ سے انتہائی ڈرنے والے اور تقویٰ شعار تھے اور اس طرح کی خسیس حرکتوں سے بالا تر تھے۔

بعض خواہش پرست اور بدعتی تاریخ نگاروں نے اس بات کی ناپاک کوشش کی ہے کہ وہ سیدنا سعد بن عبادہؓ کو مہاجرین کے مخالف اور مدِ مقابل کی حیثیت سے پیش کریں، کہ وہ خلافت کے دعویدار اور خواہش مند تھے اور اس کے لیے وہ سازشیں کر رہے تھے، اور منصوبہ بندی میں لگ کر اس کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا ہر اسلوب اختیار کر رہے تھے۔ حالانکہ جب اس شخص کی تاریخ کو دیکھتے ہیں اور ان کے منہج وطریق کار کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی خدمات سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آشکارا ہو جاتی ہے کہ یہ ان چند لوگوں میں سے تھے جن کا مقصود دنیا نہ تھا، بلکہ وہ دنیا پرستی سے پاک تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں یہ نقباء میں سے تھے، اس موقع پر قریش نے ان کا تعاقب کیا اور قیدی بنا کر ان کے دونوں ہاتھوں کو گلے سے باندھ کر مکہ لے آئے، جبیر بن مطعم کو جب پتہ چلا تو اس نے ان کو قید سے رہائی دلائی کیونکہ وہ مدینہ میں جب جاتا تو انھی کے یہاں رہتا تھا۔

سیدنا سعد بن عبادہؓ ان نفوسِ قدسیہ میں سے ہیں جنہوں نے بدر میں شرکت کی.

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: جلد، 2 صفحہ، 594)

اور اللہ کے نزدیک بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ حاصل کیا۔ ان کا گھرانہ جو دو سخا میں معروف تھا، رسول اللہﷺ نے اس کی شہادت دی ہے، رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے بعد ان پر اور حضرت سعد بن معاذؓ پر اعتماد کرتے تھے، جیسا کہ غزوۂ خندق کے واقعہ سے واضح ہوتا ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے ان دونوں سے سیدنا عیینہ بن حصن فزاریؓ کو مدینہ کی پیداوار کا ایک تہائی دینے کے سلسلہ میں مشورہ لیا تھا اور اس وقت ان دونوں نے جو جواب دیا تھا وہ ان کے ایمان کی گہرائی اور کمال فدائیت و قربانی پر واضح دلیل ہے۔

(الخلافۃ والخلفاء الراشدون، سالم بھنساوی: صفحہ، 48 ان دونوں نے بیک زبان عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اگر اللہ نے آپﷺ کو اس کا حکم دیا ہے تب تو بلا چون و چرا تسلیم ہے اور اگر محض آپﷺ ہماری خاطر ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں، جب ہم لوگ اور یہ لوگ دونوں شرک و بت پرستی پر تھے تب تو یہ لوگ میزبانی اور خرید و فروخت کے سوا کسی اور صورت سے ایک دانے کی طمع نہیں کر سکتے تھے، بھلا اب جبکہ اللہ نے ہمیں ہدایت اسلام سے سرفراز فرمایا ہے اور آپﷺ کے ذریعے سے عزت بخشی ہے ہم انہیں اپنا مال دیں گے؟ واللہ ہم تو انہیں اپنی تلواریں دیں گے۔ الرحیق المختوم: صفحہ، 421) (مترجم)

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کا مؤقف بالکل مشہور و معروف ہے۔ ایسے صحابیؓ جن کا ماضی اسلام کی خدمت میں تابناک رہا ہو، جنہیں رسول اللہﷺ کی سچی محبت حاصل ہو، ان کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا ہے کہ وہ سقیفہ کی میٹنگ میں جاہلی عصبیت کو اس لیے ذندہ کریں کہ وہ اس اختلاف و انتشار کے نتیجہ میں منصب خلافت سے سرفراز ہوں۔ اسی طرح وہ بات بھی صحیح نہیں جو بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے بعد نہ تو مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے اور نہ حج ہی میں ان کے ساتھ مزدلفہ سے کوچ کرتے تھے۔

(الخلفاء الراشدون: سالم البہنساوی: صفحہ، 49)

گویا کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو چکے تھے۔

(الخلفاء الراشدون: سالم البہنساوی: صفحہ، 49)

یہ جھوٹ اور محض افتراء پردازی ہے۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضرت سعدؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ چنانچہ سقیفہ کے دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی تقریر میں انصار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں یا دوسری راہ پر، تو میں انصار کی وادی یا ان کی راہ پر چلوں گا۔

(البخاری: کتاب التمنّی: صفحہ، 72440)

پھر سیدنا سعد بن عبادہؓ کو ناقابلِ تردید دلیل اور قول فیصل یاد دلاتے ہوئے فرمایا اے سیدنا سعدؓ! تمہیں معلوم ہے کہ جب تم بیٹھے تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا قریش کے لوگ ہی ولی امر ہوں گے۔ ان کے نیک، نیک لوگوں کے تابع اور برے لوگ ان کے برے لوگوں کے تابع ہیں۔ یہ سن کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فوراً فرمایا آپؓ سچ کہہ رہے ہیں، ہم وزراء ہیں اور آپ لوگ امراء ہیں۔

(مسند الامام احمد: صفحہ، 18 صحیح لغیرہ)

 اس کے بعد لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے اور حضرت سعدؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

(الانصار فی العصر الراشدی صفحہ، 102)

اس سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بیعت ثابت ہوتی ہے اور اس طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار کا اجماع متحقق ہو گیا، ایسی صورت میں باطل و من گھڑت روایات کی ترویج کے کوئی معنیٰ باقی نہ رہے۔ بلکہ یہ حقیقت کے منافی اور خطرناک اتہام ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار کا بیج بو رہے تھے اور ان کی ان تمام خدمات کا انکار ہے جو انہوں نے نصرت اسلام اور جہاد و مہاجرین کے لیے ایثار کی شکل میں پیش کی ہیں اور ان کے اسلام پر طعنہ زنی ہے کہ ان کی طرف یہ بات منسوب کی جائے کہ انہوں نے کہا میں تم سے اس وقت تک بیعت نہ کروں گا جب تک اپنے ترکش میں موجود تیر تم پر برسا نہ لوں اور اپنے نیزے کو خون آلود نہ کر لوں اور اپنی تلوار سے مار نہ لوں۔ اس کے بعد نہ وہ ان کے ساتھ نماز پڑھتے، نہ ان کی محفلوں میں شریک ہوتے، نہ ان کے فیصلہ کو تسلیم کرتے اور نہ حج میں ان کا ساتھ دیتے۔

(تاریخ الطبری: جلد، 4 صفحہ، 42)

یہ روایت جسے مہاجرین و انصار کی وحدت و اتحاد اور ان کی اخوت کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، سراسر باطل روایت ہے۔ کیونکہ اس کا راوی صاحب بدعت اور خواہش پرست ہے، ناقابلِ اعتماد گیا گذرا اخباری ہے،[1]

(میزان الاعتدال فی نقد الرجال الذہبی: جلد، 3 صفحہ، 2992 اس کا راوی لوط بن یحییٰ ابو مخنف متروک ہے، اس کی روایت کا اعتبار اور اس پر اعتماد شیعہ کے علاؤہ کوئی نہیں کرتا۔ ابن قمی کے قول کے مطابق یہ شیعوں کا بہت بڑا مؤرخ ہے۔ دیکھیے مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری، للدکتور یحییٰ الیحیی: صفحہ، 45/46)

اور خاص کر اختلافی مسائل میں۔

امام ذہبیؒ اس روایت سے متعلق فرماتے ہیں اس کی سند جیسی ہے آپؓ دیکھ رہے ہیں،

(سیر اعلام النبلاء: جلد، 1 صفحہ، 277)

یعنی انتہائی درجہ کی ضعیف ہے اور اس کا متن سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے بالکل خلاف ہے۔ سمع و اطاعت کی جو بیعت کی تھی اور ان کے سلسلہ میں جو فضائل مروی ہیں اس کے منافی ہے۔(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 102/103)