سیدنا عمر اور حباب بن منذر رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف کی حقیقت
علی محمد الصلابیسیدنا عمر اور حباب بن منذر رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف کی حقیقت
سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع میں حضرت عمرؓ اور حضرت حباب بن منذرؓ کے مابین اختلاف کی روایت کے سلسلہ میں راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کے زمانہ ہی سے کبھی حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو ناراض نہیں کیا۔ سیدنا عمرؓ کا بیان ہے کہ سیدنا حباب بن منذرؓ خود میری باتوں کا جواب دیتے تھے، میری ان کے ساتھ کوئی ایسی (اختلاف و ناراضی کی) بات نہیں ہوئی۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ میں ایک مرتبہ میری ان سے کچھ باتیں ہو گئی تھیں جس سے رسول اللہﷺ نے مجھے منع فرما دیا تھا۔ اسی وقت میں نے قسم کھا لی تھی کہ اب میں انھیں کوئی ایسی بات کبھی نہ کہوں گا جس سے ان کو تکلیف ہو۔
(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 100)
اسی طرح حضرت حباب بن منذر سے متعلق جو باتیں اس روایت میں بیان کی گئی ہیں وہ آپؓ کی حکمت اور حسن رائے کے خلاف ہیں، جس میں کہ آپؓ معروف تھے۔ آپ کا لقب ہی رسول اللہﷺ کے دور میں ذوالرای (اچھی رائے والے) تھا۔
(الاستیعاب: جلد، 1 صفحہ، 316)
کیونکہ رسول اللہﷺ نے بدر و خیبر میں ان کی رائے کو قبول کیا تھا۔
(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 100 بدر میں حضرت حباب رضی اللہ عنہ سے متعلق جو روایت مشہور ہے، امام ذہبیؒ نے اس کو منکر قرار دیا ہے، دیکھیے تلخیص مستدرک: جلد، 3 صفحہ، 126/127) (مترجم)
سیدنا حباب رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہم میں سے ایک امیر اور آپؓ لوگوں میں سے ایک امیر ہو تو اس کی وضاحت خود انہوں نے فرمائی کہ اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ وہ امارت و قیادت کو چاہتے ہیں، فرماتے ہیں واللہ مسئلہ خلافت میں ہم آپؓ سے مقابلہ نہیں کرتے لیکن ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں وہ لوگ اس پر فائز نہ ہوں، جن کے آباء و اخوان کو ہم نے قتل کیا ہے۔
(الانصار فی العصر الراشدی: صفحہ، 100)
مہاجرین نے ان کے قول کو قبول کیا، ان کے عذر کو صحیح جانا اور خود یہ لوگ بھی مشرکین کے خون میں شریک تھے۔