انبیاء اور ائمہ کی عصمت پر تبصرہ:
امام ابنِ تیمیہؒاس مسئلہ میں روافض منفرد ہیں ؛ کوئی دوسرا ان کا شریک و سہیم نہیں ؛ نہ ہی زیدیہ شیعہ اور نہ ہی مسلمانوں کا کوئی دوسرا فرقہ ۔ صرف وہی لوگ اس ضمن میں ان کے سہیم و شریک ہیں جو ان سے بھی گئے گزرے ہیں ، مثلاً اسماعیلیہ جو محمد بن اسماعیل بن جعفر کی جانب منسوب ہیں جو کہ بنی عبید کو معصوم قرار دیتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جعفر کے بعد امامت محمد بن اسماعیل کا حق تھی نہ کہ موسی بن جعفر کا۔ یہ لوگ منافقین اورملحد ہیں ۔[1][1] شیعہ عالم مجلسی لکھتا ہے:’’ جان لو! شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے کہ ان کے ائمہ ہر چھوٹے بڑے گناہ سے محفوظ ہیں ۔ ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ نہ عمداً نہ بھول کر، نہ کسی تاویل میں غلطی سے اور نہ ان کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلانے سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے۔‘‘ علامہ مجلسی کہتا ہے :’’بیشک ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کہ انبیاء اور ائمہ صلوات اﷲ علیہم ہر چھوٹے بڑے ، عمداً اور سہواً گناہ سے معصوم ہیں ، نبوت اور امامت ملنے سے قبل بھی اور بعد میں بھی۔بلکہ وہ اپنی ولادت سے لے کر اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ملاقات کرنے تک معصوم ہیں ۔ اس مسئلے میں صرف صدوق محمد بن بابویہ اور اس کے استاد ابن الولید قدس اﷲ روحہماکا اختلاف ہے۔ انہوں نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ اﷲ کسی نبی یا امام کو کوئی بات بھلا دے۔ وہ سہو جو شیطان کی وجہ سے ہوتا ہے اس کو جائز قرار نہیں دیا۔ اور شائد کہ ان کا اختلاف اجماع کے لئے مضر نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی معروف حسب و نسب والے شیعہ ہیں ۔‘‘ بحار الأنوار: ۱۷؍۱۰۸ (باب سہوہ و نومہ عن الصلاۃ)۔ شیعہ عالم عبداللہ الشبر لکھتا ہے : ’’یہ واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اورمخلوق کے درمیان کوئی واسطہ ضرور ہو؛ خواہ یہ واسطہ نبی کا ہو یا امام کا۔بس انہیں معصوم ہونا چاہیے۔ اس مسئلہ میں امامیہ شیعہ باقی تمام فرقوں سے متفر د ہیں ۔‘‘ [حق الیقین في معرفۃ أصول الدین ۱؍۱۳۵۔ ] خمینی کہتا ہے :’’ائمہ سے سہو کا فقط تصور بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘ [ الحکومۃ الاسلامیۃ: ۹۱۔] ابن بابویہ نے اپنا عقیدہ امامت یوں بیان کیا : ’’بیشک ائمہ معصوم ہیں ، ہر قسم کی غلاظت سے پاک ہیں ، بلا شبہ وہ کوئی چھوٹا بڑا گناہ نہیں کرتے اور نہ اﷲتعالیٰ کے اوامر میں اس کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ اور انہیں جو حکم دیا جاتا اس پر عمل کرتے ہیں ۔ جس شخص نے ان کی کسی بھی حالت میں عصمت کی نفی کی تو اس نے انہیں جاہل قرار دیا اور جس نے انہیں جاہل قرار دیا تو وہ کافر ہے۔ ہمارا ان کے متعلق عقیدہ یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں ۔ انہیں عصمت میں کمال حاصل ہے۔ انہیں ابتداء سے لے کر انتہا تک کامل علم اور مکمل عصمت امامیہ اثنی عشریہ ان سے بہت زیادہ بہتر ہیں ۔ بلاشک و شبہ امامیہ میں اپنی انتہائی جہالت اور گمراہی کے باوجودایسے لوگ موجود ہیں جو ظاہری اور باطنی طور پر مسلمان ہیں ۔وہ زندیق اور منافق نہیں ہیں ۔ لیکن وہ جہالت کی وجہ سے گمراہی میں جا پڑے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگے۔ جبکہ اسماعیلیہ کے بڑے ائمہ جوکہ اس دعوت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں ؛ وہ باطنی زندیق اور منافق ہیں ۔ اور ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کے کچھ عوام جنہیں ان کے باطن کی حقیقت کا علم نہ ہو؛ وہ چند لوگ مسلمان ہوسکتے ہیں ۔
جہاں تک سابقہ ذکر کردہ مسائل کا تعلق ہے تو ان میں سے کچھ مسائل میں امامیہ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی شریک ہیں ؛ سوائے انبیاء کرام کی شان میں غلو کے مسئلہ میں ؛ اس میں کوئی ایک بھی ان کا ہمنوا نہیں ہے ۔کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول نہیں ہوسکتی۔ہمارے علم کی حدتک کوئی ایک بھی اس مسئلہ میں ان کا ہمنوا نہیں ۔ ہاں ؛ اگر کوئی جاہل صوفی ایسی بات کہتا ہو؛ تو [یہ اور بات ہے؛ کیونکہ]ان کے اورروافض کے مابین غلو اور جہالت اور بلاصحت بات کے سامنے سرتسلیم خم ہونے کی مشترکہ اقدار پائی جاتی ہیں ۔یہ دونوں گروہ اس مسئلہ میں نصاری سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ اور کبھی کبھار کوئی غالی مصنف مسئلہ عصمت میں فقہ میں کوئی ایسی بات لکھ دیتا ہے ۔اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ائمہ پر ایمان لانا فرض کیا ہے؛ اوریہ کہ دین صرف ان سے سیکھا جائے دوسروں سے نہیں ؛ پھر ان کی بابت معصوم عن خطا ہونے کا عقیدہ ؛ بلاشک و شبہ یہ دونوں ایسی باتیں ہیں جو کوئی انتہائی جاہل اور خواہشات نفس میں ڈوبا ہوا انسان ہی کہہ سکتا ہے۔ جسے دین اسلام کی معرفت ہو؛ اور ان لوگوں کے احوال بھی جانتا ہو؛ تو وہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اضطراری طور پران لوگوں کے عقیدہ کا باطل ہونا جانتاہے۔ لیکن جہالت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس نے اس مسئلہ پر یہاں کوئی دلیل ذکر نہیں کوئی ؛ سوائے اپنے مذہب کی حکایت بیان کرنے کے؛ تو ہم نے بھی اس کے رد کو مؤخر کردیا۔[1][1] حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنے کسی فعل میں نقص، نافرمانی اور جہالت سے موصوف نہیں ہیں ۔‘‘ [الاعتقادات: ۱۰۸۔ باب الاعتقاد في العصمۃ۔] شیخ مفید نے اس عقیدہ کی وضاحت میں کہا ہے :’’ عصمت اﷲتعالیٰ کی خاص مہربانی ہے جو مکلف پر اس طرح ہوتی ہے کہ اس سے معصیت کا وقوع ناممکن ہوجاتا ہے اور اطاعت کا ترک کرنا ممتنع ہو جاتا ہے، حالانکہ امام معصیت و اطاعت دونوں کی قدرت رکھتا ہے۔[النکت الاعتقادیۃ: ۳۷۔ الفصل الثالث في النبوۃ۔] مجلسی نے اس عقیدے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالا تو کہا :’’یقیناً ہمارے اصحاب شیعہ امامیہ کا انبیاء اور ائمہ صلوات اﷲ علیہم کی عصمت پر اجماع ہے۔ ان سے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ، عمداً یا غلطی اور بھول سے سرزد نہیں ہوتا۔ انہیں یہ عصمت، نبوت اور امامت کے حصول سے پہلے اور بعد میں بھی حاصل رہتی ہے۔ بلکہ ولادت سے لے کر اﷲتعالیٰ سے ملاقات کے وقت تک وہ معصوم ہیں ۔ بحار الأنوار: ۲۵؍۳۵۰۔۳۵۱ ؍ باب نفی السہو عنہم علیہم السلام۔