Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

یہود کی تاریخ

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

یہود کی تاریخ:

حضرت یعقوب علیہ السلام کو قرآن عظیم کی اصطلاح میں اسرائیل کہا گیا ہے آپ کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے حضرت عزیر علیہ السلام کے پیروکار اپنے آپ کو بنی اسرائیل یا حضرت یعقوب علیہ السلام کے بڑے بیٹے یہودا کی اولاد کی طرف نسبت کر کے قوم یہود کہلاتی ہے اس قوم کی پہیم نافرمانیوں اور بے پناہ ستم کاریوں سے ہر دور کے انبیاء ان کی تیشہ زنی کے کا شکار رہے

یہود کی فطرت و سرشت معصیت و کفران اور شرارت و خباثت کے اس خمیر سے گوندھی گئی جو روزِ ازل سے ان کی طبائع میں ودیعت کی گئی تھی، قرآنِ عظیم کا بیان ہے:

وَيَقۡتُلُوۡنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ‌ (سورة البقرہ: آیت، 61)

ترجمہ: اور پیغمبروں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔

تاریخ طبری کے مطابق 40 ہزار انبیاء قتل کیے گئے،

 ان تمام کو یہود ہی کی جفا کاریوں کا نشانہ بننا پڑا، انبیاء کے انداز و ترہیب پر یہود کہتے:

وَقَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدَةً (سورة البقرة: آیت، 80)

ترجمہ: اور یہودیوں نے کہا ہے کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہرگز نہیں چھوئے گی۔ 

یہود کا یہ زعمِ باطل قرآن عظیم میں دوسری جگہ بیان کیا ہے:

نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّآؤُهٗ‌ (سورة المائدہ: آیت، 18)

ترجمہ: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ 

خود موسیٰ علیہ السلام کو اس قوم نے دھوکہ دیا: فَاذۡهَبۡ اَنۡتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قَٰعِدُوْنَ (سورة المائدہ: آیت، 24)

ترجمہ: تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ، اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔

 ہزاروں نہیں تو سینکڑوں قرآنی آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ دنیا کی پوری تاریخ میں یہود سے زیادہ فتنہ ساماں، دھوکہ باز، شریر اور فسادی قوم پیدا نہیں ہوئی، قرآن کریم کی چند شہادتیں میں ملاحظہ ہوں:

1) فَبِمَا نَقۡضِهِمۡ مِّيۡثَاقَهُمۡ لَعَنّٰهُمۡ (سورة المائدہ:آیت، 13)

ترجمہ: پھر یہ ان کی عہد شکنی ہی تو تھی جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا۔

2) مِنَ الَّذِيۡنَ هَادُوۡا يُحَرِّفُوۡنَ الۡـكَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِهٖ (سورة النساء:آیت، 46)

ترجمہ: یہودیوں میں سے کچھ وہ ہیں جو (تورات) کے الفاظ کو ان کے موقع محل سے ہٹا ڈالتے ہیں۔

3) وَقَدۡ كَانَ فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ يَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوۡنَهٗ (سورة البقرة: آیت، 75) 

ترجمہ: حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے، پھر اس میں تحریف کر ڈالتے تھے۔

حاصلِ كلام یہ نکلا کہ کلام اللہ میں تحریف و تبدیلی یہود کی عادت اور شرارت تھی جسں کی نسبت قرآن کو متعدد مقامات پر نہایت صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کرنا پڑا، یہود نے کذب و افترا اور بہتان باندھنے تک سے گریز نہ کیا، فتنہ پردازی اور شرانگیزی میں اس قوم کا کوئی ثانی نہیں، آنحضرتﷺ کے عہد سے قبل کی تاریخ یہود کے بعد آپ کے مبارک عہد کی کیفیت ملاحظہ ہو۔

قرآن عظیم کا بیان ہے:

1) لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الۡيَهُوۡدَ وَالَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا‌۔ (سوةالمائدہ: آیت، 82)

ترجمہ: تم یہ بات ضرور محسوس کر لو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔

2) آنحضرتﷺ جب ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو اس وقت مدینہ کی تجارت یہودیوں کے ہاتھ میں تھی، زیادہ تر آبادی اوس و خزرج کے دو قبائل پر مشتمل تھی، ان کی آخری خون ریز جنگ نے انصار کا زور توڑ دیا تھا، نتیجتاً یہود کا زور پہلے کی نسبت زیادہ ہو گیا مدینہ کے اطراف میں بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تین بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے، ان کے بڑے مضبوط اور مستحکم قلعے تھے یہ لوگ مدینہ کے کاروبار پر چھائے ہوئے تھے (تاریخ ابنِ ہشام: صفحہ391، جلد1) بحوالہ کشف الحقائق: صفحہ11 سید نور الحسن شاه) معاہدہ کے امور درج ذیل تھے:

  1.  بوقت جنگ یہود کو جان و مال سے مسلمانوں کا ساتھ دینا ہو گا۔ 
  2.  مدینہ پر اگر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو یہود پر آنحضرتﷺ کی مدد لازمی ہوگی، (سیرت ابنِ ہشام: صفحہ 78، جلد1) لیکن بعد میں مشہور یہودی ابو رافع کو جو اسلام کا سخت ترین دشمن تھا،آنحضرتﷺ کو تکلیف دینے اور ہجوم میں اشعار کہنے کے جرم میں عبد اللہ بن ابی عقیق نے قتل کیا(طبقات ابنِ سعد: صفحہ57،جلد 2)
  3. بنو قریظہ نے بھی بنو نضیر کی طرح عہد شکنی کی، آنحضرتﷺ ایک معاہدہ کے سلسلہ میں ان کے یہاں تشریف لے گئے، انہوں نے آپ کے قتل کی سازش کی ایک شخص عمرو بن ود کو مکان کی چھت سے آپﷺ پر پتھر گرا کر شہید کرنے کے لیے مقرر کیا، آپﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع ہو گئی آپﷺ واپس تشریف لے گئے(زرقانی:صفحہ93، جلد2)
  4. یہود مدینہ نے دوسری مرتبہ آپﷺ کو دعوت دی اور پیغام بھیجا کہ آپ بھی تین آدمی لے کر آئیں، ہم بھی تین عالم لے کر آتے ہیں تا کہ باہمی گفتگو کے بعد اسلام لائیں، آپﷺ کو ایک صحیح ذریعہ سے معلوم ہوا کہ یہودیوں نے آپﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، آپﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ان پر حملہ کا حکم دیا، محاصره 15 روز تک جاری رہا آخر وہ ترکِ وطن پر آمادہ ہو گئے، قرآن کریم میں بنو نضیر کی جلا وطنی کا ذکر سورۃ الحشر میں موجود ہے۔
  5. بنو نضیر جلا وطنی کے بعد خاموش نہیں بیٹھے، ان کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ پہنچے اور مشرکینِ مکہ کے بڑے بڑے سرداروں کو ساتھ لے کر ایک ایک بستی میں پہنچے اور تمام عرب کا دورہ کر کے کئی ہزار کی تعداد میں لشکروں کو جمع کر کے جنگ پر آمادہ کیا۔

آنحضرتﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری سے یہود کا علمی اور مالی تفوق غارت ہونے لگا، بلاشبہ آنحضرتﷺ کی روز افزوں ترقی سے ان کی آتش حسد و عناد بھڑک اٹھی، دیکھتے ہی دیکھتے جب مشرکین مکہ کے ساتھ صحابہ کرامؓ بدر کے مقام پر نبرد آزما ہوئے اور فتح و نصرت نے آنحضرتﷺ اور آپ کی جماعت کے قدم چوم لیے، مورتوں کے پجاری ہار گئے اور شرک کے خواہ بھی غارت گر جہنم ہو کر شکست و ریخت سے دو چار ہوئے تو یہود مدینہ آتش زیرو پا ہو گئے۔

سب سے پہلے بنو نضیر نے عہد شکنی کی، بدر کی لڑائی کے موقع پر اس قبیلہ کی بے وفائی نے آنحضرتﷺ کی ذات پر گہرا اثر ڈالا، آپﷺ نے شوال میں ان پر حملہ کر کے دس دن تک محاصرہ کیے رکھا، بالآخر یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے، آپﷺ نے سب کو جلا وطن کر دیا۔

 یہود کی اسلام دشمنی کے چند واقعات:

1: کعب بن اشرف یہود عرب کا سردار تھا، بہت بڑا شاعر تھا، اسلام دشمنی میں اپنی مثال آپ تھا، حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ سے دلی بغض و عداوت رکھتا تھا، اپنے اشعار میں حضورﷺ کی دشمنی اور بد گوئی اس کا مشن تھا، غزوۂ بدر میں مشرکین مکہ کے سرداروں کی ہلاکت پر اس کو اس قدر قلق اور صدمہ ہوا کہ دانت پیس کر رہ گیا، چالیس آدمی لے کر مکہ گیا، اپنے اشعار کے ذریعے مشرکین مکہ کو انتقام پر برانگیختہ کیا(طبقات ابنِ سعد: صفحہ32، جلد3)

اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک مرتبہ اس نے آنحضرتﷺ کو شہید کرنے کی سازش کی، بالآخر آپﷺ کے حکم سے محمد بن مسلمہ نے اسے ربیع الاول 3ھ میں قتل کر دیا۔(سیرت النبیﷺ: صفحہ 373،جلد1)

2: ابو رافع بن ابی الحقیق بھی یہود کا سردار تھا، کعب بن اشرف اس کا نواسہ تھا۔

3: یہودی عورتوں کی اسلام دشمنی ملاحظہ ہو کہ ایک موقع پر ایک یہودیہ ظالمہ نے مکان کی چھت سے پتھر گرا کر آنحضرتﷺ کے ایک انتہائی محبوب صحابیؓ کو شہید کر دیا، اسے قصاص میں قتل کیا گیا احادیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے یہ عورت جب قصاص میں قتل کی گئی تو اسے اپنے کیے پر کچھ پشیمانی نہ تھی(بحوالہ کشف الحقائق: صفحہ19)

4: حیی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق ، کنانہ بن ربیع ( سرداران یہود) نے کئی مرتبہ مدینہ پر حملے کرنے کے منصوبے بنائے (سیرۃ النبی: صفحہ439،جلد1)

5: یہود خیبر، بنو عطفان، بنو فزارہ وغیرہ کے حملے کی پیش بندی کے لیے آنحضرتﷺ نے 14 سو صحابہؓ کے ہمراہ بیسں ہزار یہودیوں کا مقابلہ کر کے خیبر کے دس قلعے فتح کیے۔

فتح خیبر کے بعد آنحضرتﷺ کا احسانِ عظیم:

فتح خیبر کے بعد آپ یہود کو قتل یا جلا وطن کر سکتے تھے، مگر آپ نے خیبر کی زمین علاقہ کی وفاداری کی یقین دہانی پر عطا کر دی ان کی زمینوں اور باغات کو برقرار رکھا، فتح و غلبہ کے بعد قتل نہیں کیا، لیکن اس کے بعد ایک یہودی عورت نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا، آپ نے ایک لقمہ تناول فرما کر کھانا چھوڑ دیا، حضرت شراء بن براء نے زیادہ کھا لیا۔ وہ شہید ہو گئے، چنانچہ یہودیہ عورت کو قصاص میں قتل کیا گیا۔

صحیح بخاری میں حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ یہودیوں نے حضورﷺ کے خلاف ایک لشکر تیار کیا، اس طرح مشرکین مکہ اور تمام عرب قبائل کا لشکر ذی قعدہ 5ھ میں مدینہ منورہ چڑھ آیا

مشہور تو یہ ہے کہ اس لشکر کی تعداد دس ہزار تھی مگر بخاری کی شرح فتح الباری میں تصریح کی گئی ہے کہ ان کی کل تعداد چوبیس ہزار سے زائد تھی، اسی لشکر کے مقابلہ کے لیے آپ نے مدینہ منورہ کے اطراف میں خندق کھودنے کا حکم دیا، اسی وجہ سے اس لڑائی کو خندق کی لڑائی کہا جاتا ہے اس موقع پر صحابہ کرامؓ نے اپنی عورتوں اور بچوں کو قلعہ بند کر لیا، چاہیے تو یہ تھا کہ سابقہ معاہدہ کی رو سے بنو قریظہ مشرکین کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیتے مگر انہوں نے عورتوں کو نہتا سمجھ کر ان کو زک پہنچانا چاہی، یہ قلعہ یہود کے قبیلہ سے متصل تھا، انہوں نے رات کے وقت قلعہ پر حملہ کر دیا، ایک یہودی قلعہ کے دروازے تک پہنچ گیا حضرت صفیہ ( آنحضرتﷺ کی پھوپھی) نے خیمہ کی ایک چوب اکھاڑ لی اور یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ سر پھٹ گیا، اس کا سر کاٹ کر قلعہ کے نیچے پھینک دیا، یہودیوں کو یقین ہو گیا کہ قلعہ میں فوج کا ایک دستہ بھی متعین ہے اس خیال سے پھر انہوں نے حملہ کی جرات نہ کی۔

23 ذی قعدہ 5ھ کو آپﷺ جنگ خندق سے واپس آئے تو اللہ کے حکم سے اس وقت بنو قریظہ پر چڑھائی کا حکم ملا، بالآخر بنو قریظہ کو عہد شکنی کی عبرت ناک سزادی گئی(زرقانی: صفحہ129،جلد2)

شیعہ کا تاریخی پس منظر:

آنحضرتﷺ کے واضح ارشادات کے بعد یہودیت کا مستقبل سر زمینِ عرب میں تاریک ہو گیا، ایک طویل عرصہ تک یہودیوں کی ستم کاریوں، عہد شکنیوں اور تیشہ زنیوں سے اسلام کا سینہ چھلنی ہوتا رہا، آنحضرتﷺ زندگی میں یہودیت کی جفا کاریوں کا شکار رہے، آپﷺ کو مشرکینِ مکہ کی واضح دشمنی اور کھلے عام عداوت سے وہ دکھ نہ پہنچا جو یہود کی محلاتی سازشوں، من گھڑت قسم کی پھیلائی ہوئی افواہوں اور آئے دن کے بغض و عناد سے آلودہ چالبازیوں سے آپ کو ذہنی کوفت، قلبی صدمہ، پریشانیوں کی ٹھیس اٹھانا پڑی۔

آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد فتنوں کا آغاز ہوا کئی قبائل زکوٰۃ سے منحرف ہو گئے یہود کی ایک آبادی جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی پیرو کار بن گئی، اگر نظر غائر سے ان تمام بستیوں اور قبیلوں کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر ان کے در پردہ یہود کی کارستانی ہی نظر آئے گی۔

آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد قریب تھا کہ گلشنِ رسالت خزاں آلود ہوتا، مگر ساقی بزمِ افروز کی مے وحدت اور باد بہاری نے سیدنا صدیق اکبرؓ ایسا اولو العزم مدبر ورثہ میں چھوڑ دیا تھا جس کی نادرہ روزگار کاوش اور بے مثال استقلال نے اسلام کے جہاز کو کلفتوں عداوتوں، سازشوں اور ابر سیاہ بن کر اٹھنے والی مخالف ہواؤں کے تھپیڑوں سے ساحل مراد پر پہنچا دیا یہودیت دم بخود ہو کر رہ گئی۔

عہدِ فاروقی میں اسلام کی شوکت و حشمت چار دانگ عالم میں پھیلی تو یہود و مجوس دانت پیس کر رہ گئے، اسلام کا نیر اقبال اوج ثریا کی بلندی پر پہنچ گیا۔ تو یہود نے دسیسہ کاریوں، زیرِ زمین سازشوں اور خفیہ سرگرمیوں کے ذریعے اسلام کو زک پہنچانے کا منصوبہ بنایا۔حضورﷺ مرضِ وفات میں فرماتے تھے عائشہ میں نے خیبر میں جو کھانا کھایا تھا میں اس کا اثر برابر محسوس کرتا رہا، اس زہر کے اثر سے میں اپنی رگ کٹتی دیکھتا ہوں(صحیح بخاری: باب مرض النبیﷺ)

آنحضرتﷺ کے مبارک عہد میں سیدہ عائشہؓ پر تہمت کے پس پردہ انہی یہودیوں کی سازش کار فرما تھی،

ایک بدوی سردار کنانہ بن ربیع نے دھوکے سے حضرت محمود بن مسلم کو شہید کیا(سیرت ابنِ ہشام: صفحہ، 85 جلد، 2)

وادی القراء میں حضرت محمدﷺ کی موجودگی میں ایک تیر سے آپﷺ کے خادم خاص حضرت مدعم شہید ہوئے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو السلام علیکم کی بجائے اسام علیکم (تم پر ہلاکت ہو) یہودیوں نے کہنا شروع کر دیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ایک دن پہلے صیفونہ یہودی اور فیروز ابولولو مجوسی کو ایک ساتھ مدینہ منورہ دیکھا گیا۔

 حضورﷺ کی آخری وصیت:*

حضورﷺ کی آخری وصیتوں میں ایک وصیت یہ تھی!

اخرجو اليهود من جزيرۃ العرب

ترجمہ: یہود کو جزیر عرب سے نکال دو(صحیح بخاری: کتاب الجہاد)

آنحضرتﷺ کے ان واضح اور غیر مبہم ارشادات پر عمل کرنے کا فخر و اعزاز سیدنا عمر فاروقؓ کو حاصل ہوا، چنانچہ حضرت عمرؓ نے خیبر، فدک، وادی قراء وغیرہ سے تمام یہود کو عرب سے شام کی طرف جلا وطن کر دیا۔

 شیعہ مذہب کا بانی:

جزيرة العرب کے جنوب میں یمن ایک ملک ہے، صنعا اس کا مشہور دار الحکومت ہے، یہاں یہودیوں کی کثیر آبادی تھی، عبداللہ بن سباء اس خاندان کا ایک فرد تھا، نہایت شاطرانہ ذہنیت اور عیارانہ فطرت کا مالک تھا، اس کا دل اسلام کے خلاف جوش و خروش اور غیظ و غضب سے لبریز تھا، اس کا دماغ سازش و منصوبہ بندی، جوڑ توڑ اور پروپیگنڈے میں اپنی مثال آپ تھا،

چھوٹے سے قد کا یہ یمنی یہودی اپنی فطرت اور صلاحیت کے بل بوتے پر بڑی سے بڑی قوم میں باہمی نزاع، اختلاف، اشتقاق، عداوت و شقاوت پیدا کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتا تھا، اسلام کے خلاف بڑی بڑی جنگوں سے جب نقصان نہ پہنچایا جا سکا تو یہ شخص فریب کاری اور فتنہ سامانی کے اسلحہ سے لیس ہو کر ازخود مدینہ منورہ چلا آیا، اس نے اسلام کی تخریب کا یہ پروگرام مرتب کیا کہ مسلمان بن کر اسلام میں افتراق اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا کر کے اندر ہی اندر اسلام کی جڑیں کھودی جائیں اور اسلام سے یہود نے جو چرکے کھائے ہیں ان کا انتقام لیا جائے۔

عبداللہ بن سبا کی ابتدائی کارگزاری:

ابن سبا کی اسلام دشمن تحریک کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے دینِ اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں میں تفریق کا بیج بونے کے لیے دو محاذ منتخب کیے ایک سیاسی اور دوسرا مذہبی، پاکستان کے مشہور مؤرخ اور سکالر علامہ سید نور الحسن بخاریؒ جنوری 1984ء میں ملتان میں جن کا انتقال ہوا ہے۔) انہوں نے اپنی بلند پایہ تصنیف کشف الحقائق میں ابن سباء کے دونوں محاذوں کا تجزیہ درج ذیل الفاظ میں کیا ہے:

"سیاسی محاذ اس طرح قائم کیا کہ امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے امراؤ عمال (گورنروں) کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کر کے عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات اس حد تک مشتعل کیے کہ انہیں معزول کر دیا جائے، نظام مملکت کے اس اضمحلال کے بعد اسلامی سلطنت کمزور ہو جائے گی مسلمانوں میں باہمی انتشار و تفرقہ پیدا ہو گا"

مذہبی محاذ اس طرح قائم کیا کہ سیدھے سادھے دین فطرت کے صاف اور واضح عقیدوں میں تبدیلی پیدا کی جائے، توحید و رسالت پر حملہ کیا جائے اسلام کے بنیادی حقائق کو مسخ کر کے عوام کو گمراہ کیا جائے، اس طرح مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے اور ان میں اعتقادی تفرقہ ڈال کر فرقہ بندی کا بیج بویا جائے تاکہ یہ علیحدہ علیحدہ فرقوں اور گروہوں میں بٹ جائیں (کشف الحقائق:27)

نامور مؤرخ ابنِ جریر طبری (متوفی:310ھ) کے الفاظ میں ابن سبا کا مختصر تعارف اور اس کی مکارانہ ذہنیت کے چند شاہکار ملاحظہ ہوں:

عبداللہ بن سباء صنعا (یمن) کا رہنے والا ایک یہودی تھا، اس کی ماں حبشن تھی وہ حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں بظاہر اسلام لایا پھر مسلمانوں کے شہروں میں گھوم پھر کر ان کو گمراہ کرنے لگا،

اس نے اپنی مہم کا آغاز حجاز سے کیا پہلے بصرہ، کوفہ اور پھر شام آیا، اہلِ شام میں سے کوئی شخص بھی ان کے جھانسے میں نہ آیا بلکہ انہوں نے اسے شام سے نکال دیا، پھر وہ مصر آیا یہاں اس نے کافی عمر گزاری وہاں کے لوگوں سے کہنے لگا اس شخص پر تعجب آتا ہے جو کہتا ہے یا گمان رکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ واپس آئیں گے لیکن حضرت محمدﷺ کے واپس آنے کا انکار کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّ الَّذِىۡ فَرَضَ عَلَيۡكَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ‌ (سورۃالقصص: آیت، 85)

ترجمہ: (اے پیغمبر) جس ذات نے تم پر اس قرآن کی ذمہ داری ڈالی ہے، وہ تمہیں دوبارہ اس جگہ پر لا کر رہے گا جو (تمہارے لیے) انسیت کی جگہ ہے۔

 پس حضرت محمدﷺ حضرت عیسیٰ کی نسبت اس دنیا میں دوبارہ آنے کے زیادہ مستحق ہیں۔

اس نے رجعت کا عقیدہ وضع کیا، جسے بعض لوگوں نے مان لیا پھر اس نے کہا ہزار نبی ہو گزرے ہیں ہر نبی کا وصی( جسے وصیتیں کی جائیں اور خفیہ ہدایات دی جائیں) ہوتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت محمدﷺ کے خاتم الاوصیاء ہیں، اس کے بعد کہنے لگا جو شخص رسول اللہﷺ کی وصیت کو نہ مانے اور سیدنا علیؓ وصی رسول پر غالب آ کر امت کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لے لے اس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا؟

اس کے بعد ان سے کہنے لگا، حضرت عثمانؓ نے خلافت بغیر حق کے لی ہے اور حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کے وصی ہیں تم اس معاملے میں اقدام کرو اور حضرت عثمانؓ کو اس منصب خلافت سے ہٹا دو اور اس مہم کا آغاز اپنے حکام اور گورنروں پر طعن و اعتراضات سے کرو، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرو پس اس نے تمام ممالک میں اپنے داعی اور ایجنٹ پھیلا دیے۔

(طبری: صفحہ378،جلد3)

 ایران کے مجوسی اور سبائیوں کا گٹھ جوڑ:

ان لوگوں کے دلوں میں کینہ کی پہلی چنگاری اس روز بھڑکی جب نبی کریمﷺ نے 6ھ میں باقی بادشاہوں کو دعوت نامہ ہائے مبارک لکھتے وقت پرویز شاہ ایران کو بھی نامہ لکھا پرویز لعین نے بغیر پڑھے اسے چاک کر کے اپنے گورنر کو جو یمن کا عامل تھا لکھا کہ محمدﷺ کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کرے مگر جب بازان کے فرستادہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ آج شب تمہارے بادشاہ پرویز کو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ہے اور پرویز کے نامہ چاک کرنے پر آپ نے پہلے فرما دیا تھا کہ پرویز نے میرا نامہ (رقعہ) مبارک نہیں چاک کیا بلکہ اپنی سلطنت کو چاک کیا ہے۔

 مشہور شیعہ مؤرخ حسین کاظم زادہ کی زبان سے سنیں:

جس دن سعد بن ابی وقاصؓ نے خلیفہ دوئم کی جانب سے ایران کو فتح کیا، ایرانی اپنے دلوں کے اندر کینہ و انتقام کا جذبہ پالتے رہے، یہاں تک کہ شیعہ فرقہ کی بنیاد پڑ جانے سے پورے طور پر اس کا اظہار کرنے لگے صاحبان واقفیت و اطلاع اس بات کو بخوبی جانتے اور مانتے ہیں کہ شیعیت کی بنیاد ابتداء میں اعتقادی مسائل، نظری و نقلی اختلافات کے علاوہ ایک سیاسی مسئلہ بھی تھا،آگے چل کر اس سیاسی مسئلہ کو یہی مصنف واضح کر کے لکھتا ہے کہ ایرانی ہرگز اس بات کو کبھی نہ بھول سکتے تھے نہ معاف کر سکتے تھے اور نہ قبول کر سکتے تھے کہ مٹی پر ننگے پاؤں پھرنے والے عربوں نے جو جنگل و صحرا کے رہنے والے تھے ان کی مملکت پر تسلط کر لیا ہے ان کے قدیم خزانوں کو لوٹ کر غارت کر دیا ہے اور ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیا ہے، آگے چل کر یہی مصنف لکھتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے مدائن اور اس کے مفتوح ہزاروں ایرانی قیدیوں کو آزاد کر دیا، اس طرح تمام قیدی آزاد ہو گئے۔

ایرانیوں کی نفرت کا ایک اور واقعہ بھی اس حسین کاظم زادہ صاحب کی زبانی سنیے:

ہرمزان ایرانی کو جو خوزستان کا سابق والی اور دو یکے از بزرگ زادگان و صاحب افسران تھا، معہ ایک اور شخص کے قتل کر دیا کیونکہ ابو لولو اکثر ہرمزان کے پاس جاتا رہتا تھا،سیدنا عثمانؓ نے سیاست کو عدالت پر ترجیح دے کر خون بہا اپنے پاس سے دے کر عبیداللہ کو آزاد کر دیا، حالانکہ حضرت علیؓ نے عبید اللہ کو قصاص میں قتل کر دینے کا مشورہ دیا تھا

مصنف یہ واقعہ لکھنے کے بعد اس پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے لکھتا ہے،اس معاملے نے ایرانیوں کے دلوں میں سیدنا عمر و سیدنا عثمان رضی اللہ عنھما کے خلاف غصہ اور کینہ کو بھڑکا دیا اور حضرت علیؓ کے ساتھ ان کی محبت کو اور زیادہ کر دیا، ایرانی جو اپنے بادشاہ اور سرپرست سے محروم ہو گئے تھے، اس دن سے حضرت علیؓ کو اپنا حامی اور مہربان سمجھنے لگے، ان کے اور ان کی اولاد کے حق میں اپنے اخلاص و محبت کا اظہار کرنے لگے، حالانکہ یہ سب جھوٹ اور فریب ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ کو ہرمزان کے بیٹے قبازان کے حوالے کیا تھا، ہرمزان بظاہر مسلمان تھا مگر در پردہ پکا اسلام کا دشمن مجوسی تھا اور اس کا بیٹا قبا اذان پکا مسلمان تھا اور اپنے باپ کی سازش سے بھی واقف تھا اس عبیداللہ کو

"فترکہ اللہ" یعنی اللہ کے واسطے چھوڑ دیا تھا۔

طبری اس واقعہ پر الگ عنوان قائم کر کے تبصرہ کرتا ہے (طبری: صفحہ23، جلد5) 

"حضرت عثمانؓ نے اپنے پلے سے کوئی خون بہا نہیں ادا کیا تھا، یہ صرف عجمی سازش کی سحر کاری ہے اور لطف یہ کہ بڑے بڑے محققین اور مؤرخین نے اسے دوست تسلیم کر لیا"

اس طرح لونڈی اور غلام بنانے والا پہلا واقعہ بھی سراسر غلط ہے، صرف اہواز کے مقام پر بغاوت ہوئی تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے بغاوت کچل کر وہاں کے لوگوں کو گرفتار کیا مگر حضرت عمرؓ کے حکم سے سب چھوڑ دیے گئے، مدائن کی فتح کے وقت بھی سب نے جزیہ دینا قبول کیا اور ذمی بن کر رہنا قبول و منظور کیا اور وہ بدستور اپنی جائیدادوں اور املاک پر قابض رہے صرف جلولا کی جنگ میں مال غنیمت کے علاوہ غلام اور لونڈیاں مسلمانوں لشکریوں کے ہاتھ میں آئیں، ان میں اعلیٰ خاندان کی لڑکیاں بھی تھیں حضرت عمرؓ سبایا الجلوت سے پناہ مانگا کرتے تھے، ایک دفعہ عبداللہ بن سباء نے حضرت ابوالدرداء کے سامنے بھی بڑے محتاط انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ تم مجھے یہودی معلوم ہوتے ہو(حقیقت مذہبِ شیعہ:صفحہ23) 

عبادہ بن صامتؓ سے اس قسم کی گفتگو کی تو انہوں نے پکڑ کر دمشق میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا انہوں نے اس کو شام سے نکال دیا ۔

 تاریخ شیعیت پر اجمالی نظر:

بلا شبہ شیعہ مذہب کا بانی ٹھگنے قد اور کالے رنگ والا یمنی یہودی عبداللہ بن سبا تھا، تاہم اس مذہب کی ابتدائی کارگزاری سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہود و مجوس اور عیسائیت کی اسلام دشمنی اور غیظ و غضب نے شقاوت کی جو آخری شکل اختیار کی اور تین غیر مسلم طاقتوں کی ستم کاریوں سے جو مرکب اور ملغوبہ تیار ہوا، اس کا نام شیعیت یا سبائیت ہے بعض لوگوں نے انہیں کو رافضیت کا نام دیا، اس وقت دنیا میں تقریباً 70 سے زائد مختلف الخیال اور مختلف العقائد گروہ اپنے آپ کو سچا شیعہ کہلانے کے مدعی ہیں، چنانچہ مشہور مستشرق ہنر لامن اپنی مشہور تالیف( اسلام معتقدات و آئین) میں لکھتا ہے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جاہ طلب اور کثیر التعداد اوصاف نے تھوڑے ہی دنوں میں شیعہ جماعت کو بہت سے ایسے فرقوں میں منقسم کر دیا جو برابر ایک دوسرے پر سب و شتم کرتے تھے، یہ لوگ سیاسی فہم و فراست سے عاری رشک و حسد میں مبتلا اور منصب امامت کے بارے میں آپس ہی میں جو شدت کے ساتھ لڑتے جھگڑتے تھے وہ حکومت کے خلاف حزب مخالف کی صفت رکھتے تھے ان لوگوں کی سازشوں اور ایسے لوگوں کی بغاوتوں کے حالات سے جو ناقص طور سے منظم کی گئیں، پہلی دو صدی کے واقعات ان سے بھرے پڑے ہیں"(ترجمہ:سرڈینس ڈائریکٹر شعبہ السنہ شرقیہ لنڈن یونیورسٹی:صفحہ143) لندن کی مشہور لیوزک کمیٹی نے سلسلہ مذاہب مشرق کی چھٹی کتاب مذہب تشیع کے نام سے 1933ء میں شائع کی اس کے مؤلف ڈوائٹ ایم ڈونالڈسن میں یہ صاحب 16 سولہ برس مشہد (ایران) میں رہے، موصوف اپنی کتاب کے صفحہ نمبر پر 41رقم طراز ہیں:

 "خلافت کے متعلق حضرت علیؓ کے دعاوی کو ان کے دوست محض سیاسی نصب العین نہیں بلکہ قضا و قدر کی طرف سے ان کا مقرر کردہ حق تصور کرتے تھے"

حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ایک پر جوش واعظ عبداللہ بن سباء نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے ساری مملکت میں سیاحت کی تھی۔