منصوبہ بندی اور اسباب کو اختیار کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فقاہت
علی محمد الصلابیمنصوبہ بندی اور اسباب کو اختیار کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فقاہت
جو بھی واقعہ ہجرت میں غور کرے گا اس کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ سفر ہجرت میں ابتدا سے لے کر اختتام تک بڑی دقیق منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اسباب کو اختیار کرنے میں بڑی دقت نظر سے کام لیا گیا تھا اور وحی کی روشنی میں منصوبہ بندی و تخطیط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قائم تھی اور یہ سنت نبوی اور تکلیف الہٰی کا ایک جز ہے، جس کا مسلمان مکلف ہے اور وہ لوگ بڑی غلطی کا شکار ہیں جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ منصوبہ بندی اور تخطیط سنت نبوی نہیں، ایسے لوگ امت اور اپنے لیے وبال جان ہیں۔
(الأساس فی السنۃ: سعید حوی، 3578)
ہجرت نبوی کے وقت:
ہجرت نبوی کے وقت ہم تنفیذ سے متعلق مندرجہ ذیل امور ملاحظہ کرتے ہیں:
ہجرت کے لیے انتہائی منظم منصوبہ بندی کی گئی۔ تمام صعوبتوں اور رکاوٹوں کے باوجود یہ سفر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ ہجرت کے ہر پہلو پر مکمل غور وفکر اور تیاری کی گئی۔ مثلاً
1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت دھوپ اور گرمی کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے، جس وقت عام طور سے لوگ گھروں سے نہیں نکلتے تاکہ کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے۔
2. صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لاتے ہوئے چہرہ مبارک پر کپڑا لٹکا لیا تاکہ لوگ پہچان نہ سکیں کہ کون جا رہا ہے۔
(السیرۃ النبویۃ قراء ۃ لجوانب الحذر والحیطۃ: 141، البخاری: مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلي الله عليه وسلم 3906)
3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ یہاں ہر موجود لوگوں کو دور کر دیں اور جب گفتگو فرمائی تو صرف ہجرت کی بات کی، مکان وجہت کی تعیین نہیں فرمائی۔
4. نکلنے کے لیے رات کے وقت کا انتخاب کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کے پچھواڑے سے نکلے۔ (معین السیرۃ للشامی: 147)
5. احتیاط کی انتہا ہو گئی، بایں طور کہ غیر معروف راستہ اختیار کیا گیا اور صحرائی راستوں کے ماہر کی خدمات حاصل کی گئی۔ اگرچہ یہ شخص مشرک تھا لیکن قابل اعتماد اور اچھے اخلاق کا مالک تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے تھے، کسے باشد۔ (الہجرۃ فی القرآن الکریم: 361)
شیخ عبدالکریم زیدان نے بیان کیا ہے کہ اصل قاعدہ واصول یہ ہے کہ امور عام میں غیر مسلم سے مدد نہ لی جائے لیکن اس اصول میں کچھ استثناء ات متعین شروط کے ساتھ حاصل ہیں، وہ یہ کہ:
1. اس استعانت سے مصلحت متحقق یا راجح ہو۔
2. اس استعانت سے دعوت اسلامی اور اس کے معانی کو نقصان نہ پہنچے۔
3. جس سے مدد لی جا رہی ہے اس پر کامل اعتماد ہو۔
4. مسلمانوں کے اندر اس سے کوئی شبہ نہ پیدا ہو۔
5. اس استعانت کی حقیقی معنی میں ضرورت ہو۔
اگر یہ شرائط نہ پائی جائیں تو غیر مسلم سے استعانت جائز نہیں۔
(المستفاد من قصص القرآن: جلد، 2 صفحہ، 144 اور 145)
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی اور اللہ کے فضل وکرم سے اس سلسلہ میں آپ کو بڑی کامیابی ملی اور اپنے خاندان کو اسلام کی خدمت اور ہجرت کو کامیاب بنانے میں لگا دیا۔ چنانچہ ہجرت کے منصوبہ کی عملی تنفیذ کے لیے اپنی اولاد کے درمیان مختلف اہم ڈیوٹیاں تقسیم کیں۔