کوفہ کے واقعات کے بارے میں یزید کا موقف
ابو شاہینکوفہ کے واقعات کے بارے میں یزید کا موقف
جب یزید کو یقین ہو گیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے پرعزم ہیں تو اس نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا کہ مشرق سے کچھ لوگوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر انہیں خلافت کا لالچ دیا ہے۔ اگر وہ ان کی باتوں میں آ گئے ہیں، تو انہوں نے قرابت داری کی رسیوں کو منقطع کر دیا ہے۔ آپ اپنے گھرانے کے بڑے فرد اور منظورِ نظر ہیں۔ لہٰذا انہیں تفرقہ بازی کی کوششوں سے روکیں۔
(تہذیب الکمال: جلد، 6 صفحہ، 619 مواقف المعارضۃ: صفحہ، 263)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یزید کے خط کے جواب میں لکھا:
مجھے امید ہے کہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا خروج کسی غیر پسندیدہ مقصد کے تحت نہیں ہو گا۔ میں ہر اس چیز کو بروئے کار لانے کی پوری پوری کوشش کروں گا، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ باہمی الفت کو قائم رکھے اور شورش کی آگ کو ٹھنڈا کر دے۔
( سیر اعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ، 306) مواقف المعارضۃ: صفحہ، 366)
اس کے بعد واقعات بڑی سرعت کے ساتھ تبدیل ہونے لگے، اہل کوفہ مسلم بن عقیلؒ کے پاس آنے اور بڑی کثرت کے ساتھ ان سے بیعت کرنے لگے۔ جب والی کوفہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے صورتِ حال کی خطرناکی کو محسوس کیا، تو انہوں نے حق تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور فتنہ و فساد کی طرف نہ دوڑو۔ اس میں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں، خوں ریزی ہوتی ہے اور مال و اسباب چھن جاتے ہیں۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ بڑے بردبار اور زاہد شخص تھے۔ انہوں نے کہا: جو شخص مجھ سے جنگ و جدال نہیں کرے گا میں بھی اس سے جنگ آزمائی نہیں کروں گا، جو مجھ پر حملہ آور نہیں ہو گا میں بھی اس پر حملہ نہیں کروں گا، میں نہ گالی گلوچ کروں گا نہ کسی پر سختی کروں گا، افتراء، بدگمانی اور تہمت پر گرفت نہیں کروں گا، لیکن اگر تم نے روگردانی کرتے ہوئے نقض عہد کیا اوربیعت کو توڑا، اپنے امام کی مخالفت کی، تو قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جب تک میرے ہاتھ میں تلوار رہے گی میں تم پر وار کرتا چلا جاؤں گا، تم میں سے کوئی شخص میرا شریک اور مددگار ہو یا نہ ہو۔ البتہ مجھے امید ہے کہ تم لوگوں میں حق کے طرف دار ان لوگوں سے زیادہ ہوں گے جنہیں باطل نے تباہ کر رکھا ہے۔
( تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 77)
یہ سن کر عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی جو بنو امیہ کا وفادار اور حلیف تھا اٹھا اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا کہ تمہارا یہ طریقہ کمزور لوگوں کا طریقہ ہے، جو کچھ تم دیکھ رہے ہو اس کی اصلاح سخت گیری کے بغیر ممکن نہیں۔ جو لوگ کوفہ کے امن و امان کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے درپے ہیں، ان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے اس کا جو جواب دیا، اس سے یہ واضح تھا کہ وہ اپنی سیاست میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے کے حامی تھے۔ (ایضا)
یزید کو حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کی یہ سیاست پسند نہ آئی چنانچہ اس نے انہیں کوفہ کی ولایت سے معزول کر کے ان کی جگہ عبیداللہ بن زیاد کو والی کوفہ متعین کر دیا اور اس کی طرف یہ خط لکھا کہ میرے وفادار اہل کوفہ نے مجھے خبر دی ہے کہ مسلم بن عقیلؒ کوفہ میں آ کر مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کر رہے ہیں، میرا یہ خط پڑھتے ہی کوفہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور وہاں ابن عقیلؒ کو اس طرح تلاش کرو جس طرح کوئی نگینہ کو تلاش کرتا ہے، انہیں گرفتار کر لو، یا قتل کر دو، یا شہر سے نکال باہر کرو۔ (ایضا: جلد، 6 صفحہ، 287)
دوسرے دن ابن زیاد نے اپنے بھائی عثمان بن زیاد کو بصرہ پر اپنا جانشین بنایا ( ایضا: جلد, 6 صفحہ، 279) اور مسلم بن عمرو باہلی، شریک بن اعور حارثی اور اپنے حشم و خدم اور اہل و عیال کے ہمراہ بصرہ سے کوفہ روانہ ہو گیا۔ (ایضا)
جب ابن زیاد کوفہ پہنچا تو اس وقت اس نے سر پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا، ادھر لوگوں کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی آمد کی بھی خبر ہو چکی تھی اور وہ ان کی شہر میں تشریف آوری کا انتظار کر رہے تھے، جب عبیداللہ ادھر آیا تو لوگوں نے سمجھا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما تشریف لے آئے ہیں لہٰذا وہ جہاں سے بھی گزرتے لوگ انہیں سلام کرتے ہوئے خوش آمدید کہتے اور جب اس کے پاس لوگوں کا ہجوم ہو گیا تو مسلم بن عمرو چلا کر کہنے لگا: پیچھے ہٹ جاؤ ، یہ امیر عبیداللہ بن زیاد ہیں۔ جب وہ محل میں اترا تو ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ کی آواز دی گئی، جب لوگ جمع ہو گئے تو وہ ان کے پاس آیا اور انہیں خطبہ دیتے ہوئے اطاعت گزاروں سے خیر کا وعدہ کیا اور فتنہ کھڑا کرنے کے لیے کوشاں مخالفین کو شر اور برائی کی دھمکی دی۔
( تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 77)