Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صلح حدیبیہ میں

  علی محمد الصلابی

صلح حدیبیہ میں

ذوالقعدہ 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکلے، اپنے ساتھ ہدی کے جانور لیے اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ جنگ کی خاطر نہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو خزاعہ میں سے اپنا جاسوس حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ فرمایا، اس نے آکر خبر دی کہ مکہ والے آپ کو کعبہ سے روکنے کے لیے جمع ہو گئے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: لوگو ہمیں مشورہ دو ،کیا کریں؟

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکلے ہیں کسی کو قتل کرنا یا جنگ کرنا مقصود نہیں ہے لہٰذا آپ زیارت کے لیے آگے بڑھیں جو ہمیں اس سے روکے گا ہم اس سے قتال کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان جاری کر دیا: اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو۔

قریش کے لوگ غضبناک ہو گئے اور قسم کھا لی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ پھر اہل مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین گفتگو اس سلسلہ میں شروع ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ اہل مکہ صلہ رحمی سے متعلق جس چیز کا مطالبہ کریں گے اس کو قبول کروں گا۔

(تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: صفحہ، 136)

الف. مصالحانہ گفتگو:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحانہ گفتگو کی خاطر قریش کے وفود کی آمد شروع ہو گئی، سب سے پہلے بنو خزاعہ میں سے بدیل بن ورقاء آیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقاصد کا اس کو علم ہوا تو وہ قریش کے پاس واپس ہو گیا پھر مکرز بن حفص، پھر حلیس بن علقمہ، پھر عروہ بن مسعود ثقفی آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عروہ بن مسعود ثقفی کے مابین گفتگو کا آغاز ہوا، اس گفتگو میں ابوبکر اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی شرکت کی۔

(تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: صفحہ، 137)

عروہ نے کہا: اے محمد! ان اوباش لوگوں کو لے کر آئے ہو تاکہ اپنے خاندان کا خاتمہ کر دو؟ یاد رکھو قریش کے لوگ مرد و خواتین، چھوٹے بڑے سب نکل چکے ہیں، انہوں نے چیتے کے چمڑے پہن رکھے ہیں اور اللہ سے عہد کر رکھا ہے کہ تمہیں مکہ داخل نہ ہونے دیں گے اور اللہ کی قسم یہ لوگ یعنی صحابہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ برداشت نہ کر سکے، فرمایا: امصص بظر اللات (لات ثقیف کے بت کا نام تھا۔) ’’لات کی بر(پیشاب گاہ) چاٹ‘‘ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟[البخاری، 2732 الشروط فی الجہاد، جلد، 3 صفحہ، 337] عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ جواب ملا: ابوبکر ہیں۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم میری جان جس کے ہاتھ میں ہے اگر تمہارا حسان مجھ پر نہ ہوتا تو میں ضرور تمہارا جواب دیتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ماضی میں اس پر احسان کیا تھا اس کی رعایت میں اس نے جواب نہ دیا۔ یہاں بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ ضرورت ومصلحت کے پیش نظر شرمگاہ کو صریح لفظ میں ادا کرنا جائز ہے اور یہ ممنوع فحش کلامی میں داخل نہیں ہے۔

(ابوبکر صدیق: محمد مال اللہ، صفحہ، 350)

عروہ بن مسعود نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ صحابہ کرام کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دے تاکہ وہ معنوی اعتبار سے شکست خوردہ ہو جائیں، اسی لیے اس نے قریش کی عسکری قوت کو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے بیان کیا اور قریش کے موقف کی ایسی تصویر کشی کی جس سے یہ نمایاں ہوتا تھا کہ وہ ضرور فتح یاب ہوں گے اور مسلمانوں کی صفوں میں فتنہ پیدا کرنا چاہا، جبکہ اس نے قائد اور لشکر کے درمیان اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ اوباش لوگ آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تردید اور برملا جواب بڑا مؤثر ثابت ہوا اور عروہ کی نفسیات پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ موقف انتہائی عزیمت ایمانی کا مظہر تھا، جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾ (سورۃ آل عمران: آیت، 139)

’’تم نہ سستی کرو نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان دار ہو۔‘‘

ب۔ صلح سے متعلق صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مؤقف:

سہیل بن عمرو کی قیادت میں جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصالحت پر اتفاق کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے جن مطالبات سے اتفاق کر لیا، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بلا چون وچرا قبول و تسلیم کر لیا اگرچہ بظاہر اس صلح کی دفعات مسلمانوں کے خلاف نظر آرہی تھیں لیکن چونکہ آپ کو یہ یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں اپنی خواہش سے نہیں بلکہ وحی الٰہی کی بنیاد پر کہتے ہیں، اور آپ نے جو ان دفعات کو قبول کیا تو ضرور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے اسرار و نتائج سے مطلع کیا ہو گا، اس لیے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کیا۔

(تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: صفحہ، 138)

مؤرخین نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کو ان دفعات پر تشویش تھی چنانچہ وہ اپنا اعتراض لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کیا:

کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟

آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، میں اللہ کا رسول ہوں۔

عرض کیا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟

آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، ضرور مسلمان ہیں۔

عرض کیا: کیا وہ مشرک نہیں؟

آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، ضرور وہ مشرک ہیں۔

عرض کیا: پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 3 صفحہ، 346)

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 3 صفحہ، 346 تاریخ الطبری: جلد، 2 صفحہ، 364)

عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں بیان کیا تھا کہ ہم خانہ کعبہ جائیں گے، اس کا طواف کریں گے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال یہ ہوگا؟

میں نے عرض کیا: نہیں۔

آپ نے فرمایا: تو ضرور وہاں جائے گا اور طواف کرے گا۔

پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں؟

ابوبکر نے کہا: کیوں نہیں، آپ اللہ کے رسول ہیں۔

میں نے کہا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟

ابوبکر نے کہا: کیوں نہیں۔

میں نے کہا: کیا وہ مشرک نہیں ہیں؟

ابوبکر نے کہا: کیوں نہیں۔

میں نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کیوں دباؤ قبول کریں؟

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اعتراض کا طریقہ ترک کر کے آپ کی اطاعت کو لازم پکڑ لیں۔ فرمایا: میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور حق وہی ہے جس کا آپ نے حکم فرمایا ہے، آپ اللہ کی مخالفت نہیں کر سکتے اور آپ کو اللہ ہرگز ضائع نہ کرے گا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 3 صفحہ، 346)

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہو بہو وہی جواب دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا حالانکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب نہیں سنا تھا لہٰذا ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ موافقت کرنے والے تھے، باوجود یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ محدث (ملہم) تھے لہٰذا صدیق کا مقام محدث کے مقام سے بلند تر ہے کیونکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام قول و فعل سیکھتے تھے۔

(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: جلد، 11 صفحہ، 117)

حدیبیہ میں جو فتح عظیم حاصل ہوئی اس کو بیان کرتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اسلام میں فتح حدیبیہ سے بڑھ کر کوئی عظیم فتح نہیں لیکن اس دن لوگوں سے اس حقیقت کو سمجھنے میں کوتاہی ہوئی جو اللہ رب العالمین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان طے ہوا تھا۔ بندے ہمیشہ جلد بازی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ جلد بازی نہیں کرتا۔ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر سہیل بن عمرو کو دیکھا، وہ قربان گاہ کے پاس کھڑا ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کو قریب کر رہا تھا، اور آپ نحر (اونٹ ذبح کرنا) فرما رہے تھے۔ اس کے بعد آپ نے حجام کو بلایا اور اپنے سر کا حلق کرایا، میں سہیل کو دیکھ رہا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو اٹھا اٹھا کر اپنی آنکھوں پر رکھ رہا تھا حالانکہ یہی شخص حدیبیہ کے موقع پر ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ لکھنے پر معترض تھا، اس کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ میں نے اس وقت اللہ کی حمد و ثنا کی اور شکر ادا کیا جس نے اس کو اسلام کی ہدایت سے نوازا۔(کنزالعمال: 30136 بحوالہ خطب ابی بکر الصدیق، محمد احمد عاشور: 117) ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے بڑھ کر درست رائے اور کامل عقل کے مالک تھے۔

(تاریخ الخلفاء للسیوطی: صفحہ، 61)