خاک کربلا مصنفہ صاحبزادہ فتخار الحسن صاحب
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبخاکِ کربلا مصنفہ صاحبزادہ فتخار الحسن صاحب
صاحبزادہ افتخار الحسن صاحب کا طریقہ اور ان کی عادت یہ تھی کہ امام عالی مقام اور ان کے اہلُ و عیال کا ذکر اس انداز سے کیا جائے کہ لوگ خوب روئیں اور جی بھر کے شہداء کربلا کی شہادت پر نوحہ کریں اس مقصد کی خاطر وہ اکثر غلط واقعات اور وہ بھی ایسے درد ناک لہجے اور پر سوز انداز میں بیان کرتے کہ حاضرین کی چیخیں نکل جاتیں اسی طرح انہوں نے اپنی تصنیف خاکِ کربلا میں بھی یہی انداز تحریر اپنایا یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے شیعہ لوگ جو گستاخ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں وہ ایسی کتابوں سے حوالہ پیش کر کے کہتے ہیں کہ اہلِ سنت کے فلاں محدث اور محقق نے یہ بات اپنی فلاں تصنیف میں لکھی ہے قارئین کرام ! آپ اس بات کے گواہ ہوں گے محرم الحرام کے دوران ہمارے کچھ سنی واعظین شہادت کے موضوع پر ایسا دردناک سماں باندھتے ہیں کہ شیعہ ذاکرین کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ان وعظین نے عوام کو اپنے ایسے پُر درد واعظوں سے یہ تاثر دیا ہے کہ جو علماء اہلِ سنت اس رنگ ڈھنگ سے وعظ و تقر نہیں کرسکتے وہ دل میں محبت و عشق اہلِ بیت نہیں رکھتے اس طرح ان غیر محتاط واعظین نے مسلک اہلِ سنت کی حقانیت کو سخت نقصان پہنچایا واقعات جو جھوٹے اور اہلِ بیت کے مقام و منصب کے خلاف لکھے گئے ان کی فہرست طویل ہے لیکن اس جگہ ہم خاکِ کربلا کے چند اِقتباسات پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں جن سے آپ اندازہ لگا لیں گے کہ ہم نے جو کچھ کہا وہ ٹھیک ہی کہا ہے
- مجھے تو اس بات میں کوئی تعجب اور حیرانی نظر نہیں آتی کہ سیدہ فاطمہؓ کے لال کو روکنے والے تمام اسی دنیا کے روکنے والے تھے اور اسی زمین پر بسنے والے تھے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگر آپؓ کو آسمان سے جبرئیلؑ بھی روکتا تو نہ رُکتے اور آپ کو رکنا بھی نہ چاہیے تھا میری ذاتی رائے میں اللہ کے اس شیر کو روکنے والے خود ہی غلطی پر تھے (خاکِ کر بلاصفحہ 210)
- عمرو ابنِ سعد جب اپنے لشکر کو اتار چکا اور خیمے لگالیے تو اس نے مظلوم کربلا سیدنا حسینؓ سے ملاقات کے لیے قاصد بھیجا آپ نے منظور فرمالیا اور پھر علیحدہ خیمے میں شرافت و وحشت کا ملاپ ہوا اور نیکی اور بدی کی ملاقات ہوئی امام عالی نے فرمایا کہ میری یہ تین درخواستیں ابنِ زیاد تک پہنچا دو۔
- میں واپس لوٹ جاتا ہوں
- مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچا دیا جائے
- میں دمشق جا کر یزید سے خود معاملہ طے کرلوں گا۔
(خاک کربلا صفحہ 213)
ان دونوں اِقتباسات کو بار بار پڑھیں سب سے پہلی بات یہ جان لیں کہ سیدنا عالی مقامؓ نے واپس لوٹنے کا ارادہ کوئی تقیہ کے طور پر نہ کیا تھا جبکہ اس کے پیچھے ایک تاریخی حقیقت ہے وہ یہ کہ جب ملعون کوفی شیعوں نےغداری کرتے ہوئے سیدنا عالی مقامؓ کی بیعت توڑ کر یزید پلید کی بیت کرلی اور دشمن سیدنا عالی مقامؓ بن گئے تو ایسے میں آپ نے ارشاد فرمایا "قَدْ خَذَلتنا شیعتنا" ہمیں ہمارے ہی شیعوں نے ذلیل ورسوا کیا ہے یہ بات سنی شیعہ دونوں کی بہت سی کتب میں مرقوم ہے حوالہ کے لیے البدایہ والنہایہ اور مقتل ابی مخنف دیکھا جاسکتا ہے لہٰذا وقت کی نزاکت کے پیش نظر آپ نے مدینہ منورہ واپس آنے کی درخواست کی یعنی اگر ابنِ زیاد میری درخواست مان لیتا ہے لہٰذا میں واپس لوٹ جاتا ہوں افتخار الحسن صاحب مرحوم کی پہلی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حامل وحی سید الملائکہ جبرئیل امینؑ بھی اگر سیدنا عالی مقامؓ کو روکتے تو وہ نہ رکھتے اس میں سب سے پہلے سوچنے کا یہ مقام ہے کہ کیا جبرئیل امینؑ نے سیدہ مریمؑ کے علاوہ کسی غیر نبی کو اللہ کا پیغام پہنچایا ہے جب سلسلہ وحی حضورﷺ کے وصال شریف پر ختم ہوگیا تو جبرئیلؑ ان کو روکنے کے لیے کیوں آتے؟ اور اگر بالفرض وہ آتے تواللہ تعالیٰ کے حکم سے آتے اور سیدنا حسینؓ اللہ تعالیٰ کا حکم سن کر بھی نہ رکتے ؟ اگر ایسا ہوتا تو سیدنا حسینؓ خدا کے حکم کے نافرمان ہوتے یہ بات انہوں نے محض واعظانہ رنگ اور قصہ خوانی انداز میں لکھ دی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایمان کے لیے خطرہ ہے اگر بالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ سیدنا عالی مقامؓ کو کربلا میں شہید ہونے کا حکم دیا جا چکا ہے جس کو پورا کرنے کے لیے وہ کسی کی بھی سننے کو تیار نہ تھے حتیٰ کہ جبرئیلؑ کے روکنے پر بھی آپؓ رکنے پر نہ تھے تو پھر آپ خود ہی درخواست کر رہے ہیں کہ مجھے مدینہ منورہ جائے دو ان دونوں باتوں میں باہم کیا تعلق ہے بلکہ آپ کی ان تین درخواستوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس ارادہ سے نہیں آئے تھے کیونکہ مدینہ منورہ واپسی ہو جاتی تب بھی معاملہ ختم ہو جاتا اور اگرمسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچا دیا جاتا تب بھی لڑائی ختم اور اگر یزید کے پاس لے جایا جاتا تو گفتگو سے معاملہ ٹل جاتا یہ صرف دو عبارات کا تقابل ذکر ہوا اسی طرح اس کتاب میں بہت سے واقعات اور بہت سی واعظانہ بات میں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں کیونکہ دروغ گورا حافظہ نباشد جھوٹے کی یاداشت نہیں ہوتی اگر تحقیق مقصود ہوتی تو پھر اس موضوع پر کتب کا مطالعہ کرکے پھر کوئی نتیجہ نکال کر اسے تحریر کیا جاتا واعظانہ رنگ نہ دیا جاتا اب میں آپ کو ان واقعات میں سے صرف ایک واقعہ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جو صاحبزادہ صاحب نے اس درد ناک انداز سے لکھا ہے کہ شیعہ ذاکر بھی اسے پڑھ کر آنسو بہانہ شروع کر دیں اور اس کا ہر قاری پڑھتے پڑھتے آنسو بہانے سے نہیں رُک سکے گا اور پھر کہا جائے گا کہ یہ واقعہ قرآن وحدیث کی طرح بالکل حقیقت ہے حالانکہ بالکل بے سروپا اور افسانہ ہے اور اس پر مزید یہ کہ کوئی سنی جب اس کو پڑھے پڑھائے گا اور یہ دیکھے گا کہ اس کا لکھنے والا بہت بڑا سنی عالم ہے تو اس کی مخالفت کرنے والے کو فوراً شیعہ کہہ دے گا اور سیدنا عالی مقامؓ سے محبت و عشق سے خالی ہونے کا فتویٰ جڑ دے گا یہ علماء اہلِ سنت کے لیے اتنی بڑی بلاء ہے کہ جس سے جان چھوڑانی مشکل اگر اس قسم کے قصہ جات کی تردید کرتے ہیں تو ان پر خارجی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اگر تردید نہیں کرتے تو حق کا دامن بھی ہاتھ سے جاتا ہے اور شیعہ لوگوں کے مسلک کی تائید بھی ہوتی ہے جو اہلِ حق کےلیے زہر قاتل ہے اور اس لیے ہی عوام نہیں سمجھ سکے کہ شیعوں کا مسلک صحیح ہے یا غلط کیونکہ واقعہ کربلا کے بیان کرنے میں سنی واعظین اور شیعہ ذاکرین دونوں کا مقصد واحد رولانا پٹانا ہے یہ واقعہ سیدہ صغریٰؓ کا واقعہ ہے جسے "سیدہ صغریٰؓ کا قصہ" عنوان دے کر گیارہ (11) صفحات پر پھیلا کر بیان کیا گیا ہے خاکِ کربلا صفحہ207 تا صفحہ 209 ، اور صفحہ 293 تا صفحہ 300 کی فوٹو کاپی ہم ساتھ لگا رہے ہیں۔ تاکہ آپ اصل عبارت کو پڑھ کر ہماری بات کی تصدیق کریں کہ واقعہ میں جو کچھ ہم نے کھا ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارے سنی واعظین نے لکھا ہے لہٰذا درج ذیل فوٹو کا بیاں ملاحظہ فرمائیں۔
سیدہ صُغریٰ مدینے میں
یہ کون رو رہی ہے کہ کائنات کا سینہ شق ہوا جاتا ہے یہ کس کی گریہ و زاری سے آسمان کا کلیجہ پھٹ رہا ہے یہ کس کی آہ وبکا سے عرش الٰہی کانپ رہا ہے یہ کس دُکھی کی فریاد سے فرش زمین لرز رہا ہے یہ کس کی پُر درد آہ و فغاں سے مدینے کے در و دیوار رُو رہے ہیں یہ کس کے پر سوز نالوں سے شربت زہرہ جنبش میں ہے یہ کس کی دردناک گریہ زاری نے میرے دل کو تڑپا دیا ہے اور یہ کس کی پر سوز آہ و بکا نے میرے سینے کو جلا دیا ہے؟ یہ سیدہ صُغراؓ ہے سیدنا حسینؓ کی بیمار بیٹی سیدہ صُغراؓ اب جسے سیدنا عالی مقامؓ مدینہ میں چھوڑ آئے تھے جسے باپ نے کہا تھا کہ ایک مہینے کے بعد میں سیدنا علی اکبرؓ کو بھیجوں گا تو تمہیں ساتھ لے آئے گا مگر دن گزرے راتیں گزریں صبحیں ہوئیں اور شامیں گئیں اور پھر تین مہینے گزر گئے ہیں مگر نہ سیدنا علی اکبرؓ ہی آیا ہے اور نہ ہی باپ ! نہ عابد کا کوئی پتہ ہے اور نہ سیدنا اصغرؓ کا نہ پھوپھی کی کوئی اطلاع آئی نہ ماں کی صبح ہوتی تو وہ دروازے پر بیٹھ جاتی اور جو بھی پاس سے گذرتا اس کا دامن پکڑ کر فریاد کرتی اور پوچھتی کہ اے خدا کے بندے تو نے میرے باپ کو کہیں دیکھا ہے تو بتاؤ میری بہن کو کہیں دیکھا ہے تو اس کا حال سناؤ اور میرے ویروں کا کچھ پتہ ہے تو بتاؤ مگر وہ سیدہ صُغراؓ کو دیوانی سمجھ کر دامن چھڑا کر آگے نکل جاتا شام ہوتی تو ان پرندوں کو دیکھتی جو اپنے رزق کی تلاش میں دور دور نکل جاتے ہیں مگر شام ہوتے ہی اپنے اپنے گھونسلوں میں آجاتے ہیں تو اور بھی بے چین ہو جاتی اور اس کا کلیجہ اس خیال سے پھٹ جاتا کہ میرے بھائی بھی دور گئے تھے میرا باپ بھی پردیس گیا تھا اور میرے سنگ والے بھی سفر پر گئے تھے مگر یا اللہ یہ پرندے تو صبح جاتے ہیں اور اسی شام کو واپس آجاتے ہیں مگر میرے گھر والوں کو تو تین مہینے گزرے گئے وہ ابھی تک کیوں نہیں آئے رات ہوتی تو بھوکی پیاسی ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر لیٹ جاتی دروازہ ہوا سے بھی ہلتا تو اس امید پر اٹھی اور دروازہ کھولتی کہ شاید میرا ویر سیدنا علی اکبرؓ آگیا ہے وہ مدینے سے باہر نکل جاتی اور ہر آنے والے مسافر کے پاؤں پکڑ کر گریہ وزاری کرتی اور پوچھتی ہے اللہ کے نیک بندے تو کوفہ سے آیا ہے مجھے بتا کہ میرے باپ کا کیا حال ہے میرا بھائی سیدنا علی اکبرؓ مجھے لینے کے لئے کیوں نہیں آیا میرا ویر سیدنا اصغرؓ تو اب باتیں کرتا ہوگا اور میری بہن بھی مجھے یاد کرتی ہوگی نواسہ رسول کی یہ بیمار بیٹی سیدہ صُغراؓ اپنے باپ کے فراق میں اپنی ماں کی جدائی میں اور اپنے بہن بھائیوں کے غم میں شب و روز روتی تھی کوئی تسلی دینے والا نہیں تھا نہ کوئی ہمدرد و خیر خواہ تھا اور نہ کوئی غم خوار و مدد گار ایک دن وہ اپنے معمول کے مطابق مدینے کے چوراہے میں بیٹھی ہر گزرنے والے سے اپنے گھر والوں کا پتہ پوچھ رہی تھی کہ ایک شُتر سوار اپنے اونٹ کو تیزی سے دوڑاتا ہوا پاس سے گزر گیا سیدہ بی بی صُغراؓ اُس کے پیچھے دوڑی آوازیں دیں اور چیخی چلائی شُتر سوار نے اس بچی کی آہ و فُغاں سنی تو ٹہر گیا اونٹ سے نیچے اُترا اور پوچھا بی بی تو کون ہے؟ اور یہاں کیوں بیٹھی ہے ؟ اور کس کے فراق میں روتی ہے سیدہ بی بی صُغراؓ نے کہا بابا؟ آج تین مہینے گزر گئے ہیں میرے گھر والے مجھے اکیلی چھوڑ کر چلے گئے ہوئے ہیں اُن کے انتظار میں بیٹھی ہوں اور اُن کے فراق میں تڑہتی ہوں معلوم ہوتا ہے کہ تو کوفہ سے آیا ہے مجھے میرے باپ کا پتہ بتا میرے بھائی کا حال سنا کیا تو نے اُن کو دیکھا ہے خ؟ شُتر سوار کی آنکھوں آنسو جاری ہو گئے وہ حیران تھا کہ اس بچی کو کیا ہوگیا ہے اور اس کو کیا جواب دوں سوار نے جواب دیا بچی میں تو یمن سے آیا ہوں مجھے تمہارے گھر والوں کا کوئی پتہ نہیں سیدہ بی بی پاک صُغراؓ ہر مسافر سے پوچھتی ہیں کہ تو کہاں سے سے آیا ہے؟ کوئی کہتا میں مِصر سے آیا ہوں کوئی کہتا میں رُوم سے آیا ہوں مگر یہ کوئی بھی یہ نہ کہتا کہ میں عراق سے آیا ہوں کوفہ سے آیا ہوں اور کربلا سے آیا ہوں سیدہ صُغراؓ نے ایک پر سوز آہ بھری اور فریاد کی
سب پردیسی وطنیں آئے توں وی اکبر موڑ مہاراں
وعدہ کر کے امڑی جایا میریاں لین نہ آیوں ساراں
راتیں وچہ فِراق تیرے میں رو رو کراں پکاراں
دن چڑھے تے لبھدی پھر دی تینوں وچہ آجاڑاں
(نوٹ) یہ پہلا مضمون 207 تا 209 تک ہےاس میں جو اول تا آخر جھوٹی داستان مرثیہ خوانی اور نوحہ خوانی پر زور دیا گیا ہے وہ آپ نے پڑھ لیا اب جو باقی کسر رہ گئی تھی وہ دوسرے مضمون صفحہ 293 تا 300 تک میں نکال رہے ہیں، فوٹو کاپی
بیٹی سیدہ صُغرا کا قاصد
ایک کوفی سوار مدینے پاک کی گلیوں میں سے گزرتا ہوا ایک تنگ سی گلی ہیں پہنچا اُس نے دیکھا کہ ایک ٹوٹے ہوئے مکان کے دروازے میں زمین پر ایک معصوم سی بچی یا حسینؓ یا حسینؓ کے نعرے لگا رہی ہے اس معصوم بچی کے یہ درد ناک نعرے سن کر وہ سوار اس کے پاس گیا اور پوچھا اے پاک بی بی تو کون ہے ؟ سوار کے اس سوال سے صُغراؓ کو کچھ حوصلہ ہوا اور فرمایا بابا میں سیدنا حسینؓ ان کی بچھڑی ہوئی بیٹی ہوں اور میرا نام سیدہ صُغراؓ ہے وہ مجھ کو تنہا اور بیمار چھوڑ کر کوفہ چلے گئے ہیں میں بیمار ہوں دوا دینے والا کوئی نہیں دکھی ہوں تسلی دینے والا کوئی نہیں میرے ابا جان نے کہا تھا کہ ایک مہینے کے بعد سیدنا علی اصغرؓ آکر تمہیں لے جائے گا مگر تین مہینے ہو گئے ہیں ان کا کوئی پتہ نہیں آیا صبح سے لے کر شام تک دروازے میں بیٹھی اُن کا انتظار کرتی ہوں اور ہر آنے جانے والے سے اپنے باپ کا پتہ پوچھتی ہوں مگر کوئی بھی ان کا پتہ نہیں دیتا یہ میرے نانے کی اةمت صبح سے شام تک میرے سامنے آتی بھی ہے اور جاتی بھی مگر مجھ غریبنی کو کوئی پوچھتا ہی نہیں اے اللہ کے نیک بندے ! اگر تو کوفہ کی طرف جا رہا ہے تو خدا کے لئے مجھے بھی ساتھ کے چل اور اگر کوفے تک نہیں جاتا تو نہ سہی جہانتک تو لے جا سکتا ہے مجھے لے چل آگے کا مجھے راستہ بتا دینا میں گرتی پڑتی اُٹھتی بیٹھی اور ہانپتی کانپتی کوفے پہنچ جاؤں گی اور اگر تو اُونٹنی پر نہیں بٹھا سکتا تو نہ سہی نہیں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو ملنے کی خوشی میں تیرے ہونٹ کے آگے آگے دوڑتی جاؤں گی میں اپنی بھوک اور پیاس کی بھی شکایت نہیں کروں گی میں راستے میں تجھے کوئی تکلیف نہیں دوں گی مجھے بیمار سمجھ کر نہ چھوڑنا اگرچہ میں بیمار ہوں مگر ماں باپ کی ملاقات کی خوشی میں میری بیماری جاتی رہے گی اور بہن بھائیوں کے ملنے کے شوق میں مجھ میں ہمت آجائے گی سوار نے عرض کی اسے سیدہ پاکؓ اگر میں نے تیرا خط تیرے باپ کو پہنچا دیا تو مجھے تو کیا انعام دے گی؟ سوار نے سمجھا کہ آج سیدنا حسینؓ کی اس اس بچی کی خدمت کر کے میری عاقبت سنور جائے گی میرا دین کامل ہو جائے گا پُل صراط سے گزرنا آسان ہوجائے گا اور میدان حشر کی گرمی میں رسول پاکﷺ کی کالی کملی کا سایہ ملے گا اور سیدنا علیؓ سے حوض کوثر کا پیالہ نصیب ہوگا بیمار سیدہ صُغراؓ نے فرمایا اے قاصد میرے پاس سونے اور چاندی کے خزانے نہیں ہیں لعل و جواہرات کے ڈھیر نہیں ہیں ریشمی چادریں اور شاہی محل نہیں ہیں پر پھر بھی
آے لے کپڑیاں دے نی دو جوڑے تینوں ہو روی کُجھ عطا کرساں
بڑے سخی دے سخی دی میں ہاں بچی اہلِ بیت ہاں ہور دعا کرساں
جے کر پہنچ گئی میں کربلا اندر تیرے دُکھاں دی آپ دوا کرساں
روز حشر دے میریا قاصدا او تینوں کوثر دا جام عطا کرساں
اے خدا کے نیک بندے اپنے بچوں کا صدقہ مجھ پر رحم کر مجھے ترس کھا اور میری فریاد کو قبول کر میں دیکھی ہوں میرا سہارا بن میں تیار ہوں مجھے دوا دے خدا تیرے بچوں کی عمر دراز میں مفلس ہوں میرے پاس اور تو کچھ نہیں ہے یہ دو جوڑے کپڑوں کے ہیں یہ لے تیرے بچوں کے کام آئیں گے اور اگر میں کوگے پہنچ گئی تو تجھے اور بھی بہت کچھ عطا کروں گی تیرے بچوں کے حق میں دعا کروں گی اور قیامت کے دن حوض کوثر سے سیراب کروں گی اتنا کہہ کر وہ بچی پھر یا حسینؓ پکارتی ہوئی بیہوش ہو گئی قاصد نے آگے ہو کر اس بچی کے سر پر ہاتھ رکھا تو پتہ چلا کہ بچی بخار میں جھلس رہی ہے اور اتنی کمزور ہے کہ اُٹھے نہیں سکتی قاصد نے بچی کے منہ پرٹھنڈا پانی چھیڑکا وہ ہوش میں آئی تو پوچھنے لگی کیا میرے ابا جان آگئے ہیں کیا سیدنا علی اکبرؓ مجھے لینے کے لئے آگیا ہے کیا میرا ننھا سا بھائی سیدنا اصغرؓ بھی ساتھ ہے قاصد نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا بیٹی میں بھی خاندان نبوت کا گدا گرہوں اور اہلِ بیت کے گھرانے کا خادم ہوں گھیراؤ نہیں میں تمہیں ضرور لے چلتا مگر یہ دیکھ لو میرے اُونٹ پر کجاوہ نہیں ہے اور تم بیمارا اور کمزور ہو ہاں میں تمہارا خط تمہارے باپ تک ضرور پہنچا دوں گا اور اگرچہ میرے بچے بیمار ہیں اورمیں اُن کی دوا کے لئے ہی مدینے آیا مگر اب جب تک تمہارا خط تمہارے باپ کو نہ پہنچاؤں اُس وقت تک اپنے بچوں کو دیکھنا حرام ہے بنتِ حسینؓ قاصد سے یہ سُن کر بول اٹھی بابا جی خدا کے لئے ایسا نہ کرو اور جاؤ اپنے بچوں کو دوا پلاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کا صبر مجھ پڑے قاصد نے کہا بیٹی نہیں ! اب یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اب اپنے بیجوں کی خاطر تیری اس خدمت گزاری میں دیر کر کے خدا اور رسولﷺ کی ناراضگی اپنے سرلُوں اور یہ لو اپنے کپڑے میں اس خدمت گذاری کا صلہ تم سے نہیں تمہارے نانے مصطفیٰﷺ سے قیامت میں لُوں گا اور پھر اپنے ماں باپ بہن بھائیوں سے بچھڑی ہوئی بیمار سیدہ صغراؓ نے ایک درد بھرا خط لکھ کر سوار کے حوالے کیا سوار نے اپنے اونٹ کا منہ کوفے کی طرف موڑا اور یہ دعا کرتا ہوا روانہ ہوگیا۔
یا اللہ میں منزل مقصود پر پہنچ جاؤں۔
اُدھر سیدہ صُغراؓ کے قاصد نے دعا کی اُدھر خدا نے فرمایا جبرئیلؑ میرے پیارے سیدنا حسینؓ کی پیاری بیٹی سیدہ صغریٰؓ کا خط لے کر یہ قاصد کربلا کو جا رہا ہے زمین کی طنابیں کھینچ لو ننھی سی لاش کو کربلا کی تپتی ہوئی ریت میں دفن کرنے کے بعد سیدنا حسینؓ خیموں کی طرف واپس آ رہے تھے مدینے کی طرف نگاہ اٹھائی تو دور سے غبار اُڑتا ہوا نظر آیا سمجھے کہ شاید کہیں سے کوئی مدد آ رہی ہے آپ ٹھہر گئے غبار تیزی سے قریب آتا گیا اور پھر اسی غبار سے ایک سانڈنی سوار نمودار ہوا وہ قریب آیا اس نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور سیدنا حسینؓ مظلوم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا سر جھکایا اور قدموں کو بوسہ دیا اور عرض کی یا سیدنا حسینؓ آپ یہاں ہیں؟ وہ سامنے لشکر کس کا ہے؟ اور ان خیموں میں کون ہے؟ آپ تو کوفے گئے تھے اور سنا تھا کہ کوفہ والے آپ کے ساتھ ہیں سیدہؓ کے لال نے جواب دیا کوفہ والوں نے دھوکہ دیا ہے وہ لشکر یزید کا ہے اور ان خیموں میں ناموس رسالت چھپی ہوئی ہے اور پھر پوچھا ! تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو اور تمہیں کس نے بھیجا ہے؟ سوار نے عرض کی میں سیدہ صغراؓ دا قاصد حضرت شہر مدینیوں آیا
جس بچی نوں چھڈ آیا میں اسدا خط لیایا
آقا میں مدینے پاک سے آیا ہوں اور آپ کی بیٹی سیدہ صُغراؓ کا قاصد ہوں مظلوم کربلا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور فرمایا میرے قریب آؤ تم میری بیٹی سیدہ صغراؓ کے قاصد ہو میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہارے قدم چوم لوں بھائی ! تم نے میرے لئے بہت تکلیف اٹھائی اور مجھ پر احسان کیا اور احسان کا بدلہ میں قیامت کے دن ادا کروں گا بتاؤ میری بیٹی کیسی ہے؟ قاصد نے اپنی جیب سے سیدہ صغراؓ کا خط نکال کر سیدنا حسینؓ کے ہاتھوں میں دے دیا سیدنا عرش مقامؓ نے بیٹی کے خط کو سینے سے لگایا اور پھر چوما اور پھر کھول کر پڑھا لکھا تھا ! ابا جان! آپ کی بچھڑی ہوئی بیٹی سلام عرض کرتی ہے ابا جان! آپ تو کہہ گئے تھے کہ ایک مہینے کے بعد سیدنا علی اکبرؓ آئے گا اور تمہیں لے جائے گا مگر تین مہینے گزر گئے ہیں پر نہ سیدنا اکبرؓ نہ سیدنا اصغرؓ آیا تے نہ آئی بہین سیدہ سکینہؓ
باہجھ بھراواں سُنجا لگدا مینوں شہر مدینہ
اور لکھا تھا کہ میں ساری ساری رات آپ کے انتظار میں سوتی نہیں ہوں صبح سے آپ کی راہ تکتی رہتی ہوں اور ہر آنے جانے والے سے آپ کا پتہ پوچھتی ہوں مگر کوئی آپ کا پتہ نہیں دیتا اب میں اچھی ہوں خدا کے لئے اب مجھے اپنے پاس بلالو بھائی سیدنا اکبرؓ کو بھیجو مجھے آکر لے جائے اور آپ تو بچوں کے ساتھ دل بہلاتے ہوں گے گھر میں تنہا اور اکیلی اُداس رہتی ہوں اماں جان بھی اور پھوپھی جان بھی جا کر مجھے بھول گئی ہیں بھولیں کیوں نہ ان کے پاس سیدنا اکبرؓ سیدنا اصغرؓ ہیں اور سیدنا عونؓ و سیدنا محمدؓ ہیں اور ان کے ساتھ اپنا جی بہلاتی ہوں گی مگر مجھ دُکھیاری کا کسی نے پتہ تک نہیں کیا اچھا میں آؤں گی تو شکایت کرونگی اور بھائی سیدنا علی اکبرؓ سے کہنا کہ بھائی اپنی بہنوں کے ساتھ ایسے ہی وعدے کیا کرتے ہیں تم نے تو کہا تھا کہ میں خود ایک مہینے کے بعد آکر تمہیں لے جاؤں گا مگر تمہارا راستہ دیکھتے دیکھتے تین مہینے ہو گئے ہیں اور لکھا تھا اباجی میں نے بھیا دیدنا اصغرؓ کے لئے کپڑے سیئے ہیں اور کھلونے خریدے ہیں جب آؤں گی تو اپنے ہاتھوں سے اس کو پہناؤں گی اب تو وہ چلتا ہوگا۔ اور باتیں بھی کرتا ہوگا سیدنا حسینؓ نے بیٹی کا خط پڑھا تو کلیجہ پھٹ گیا اور فرمایا بھائی ! خدا تمہارا بھلا کرے اور تیرے بچوں کی عمر دراز کرے جس بچی کا تو خط لے کر آیا ہے وہ میری بیٹی سیدہ صُغریٰؓ ہے اب میں تمہاری اس خدمت گذاری اور تکلیف اٹھانے کا کیسے شکریہ ادا کروں اور تمہاری کیا خدمت کروں گرمی کا موسم ہے تم دور سے آئے ہو تمہیں پیاس تو ضرور ہوگی مگر افسوس کہ میں تمہیں پانی بھی نہیں پلاسکتا اس لئے کہ عمر و سعد نے آج تین دن سے اہلِ بیت پر پانی بند کر دیا ہوا ہے اور آج عین اس وقت جبکہ سیدنا عونؓ و سیدنا محمدؓ دین کی آبر پر قربان ہوچکے جب سیدنا قاسمؓ و سیدنا عباسؓ اسلام کی عظمت پر نثار ہوچکے ہیں جب سیدنا علی اکبرؓ شریعت مصطفیٰﷺ کی آن پر شہید ہو چکا ہےجب معصوم سیدنا اصغرؓ حق و صداقت کی سربلندی کی خاطر میری جھولی میں دم توڑ چکا ہے اور جب سیدنا حسینؓ اپنے عزیزوں کو شدت پیاس سے تڑپتا دیکھ چکا ہے ! اور جب سیدنا حسینؓ اپنے ساتھیوں کی لاشیں اپنے کناروں پراٹھا اٹھا کر تھک چکا ہے اور جب سیدنا حسینؓ کو خود بھی خلافت اسلامیہ اور امانتِ
الہٰیہ کی حفاظت کی خاطر اپنا سر بھی کٹوانے کو تیار کھڑا ہے اس وقت اگر سیدنا حسینؓ کی کوئی آخری خواہش تھی تو یہ تھی کہ آخری وقت میں اپنی بیمار بیٹی سیدہ صغراؓ کو دیکھطلوں اس لئے اے خدا کے نیک بندے تو نے مجھ غریب پر بڑا احسان کیا ہے کہ میری بیٹی کا خط لے کر اس خُونیں میدان میں آگیا آج تو نہیں کل اس احسان کا بدلہ حوض کوثر کے جام پلاکر ادا کروں گا اب ایک نیکی اور بھی کرو کہ میرا پیغام بھی میری بیٹی تک پہنچا دو اور جو کچھ تم نے دیکھا ہے اس کو جا کر بتا دو اور کہنا کہ سیدنا عونؓ و سیدنا محمدؓ شہیدہو چکے ہیں سیدنا قاسمؓ و سیدنا عباسؓ دفن ہو چکے ہیں سیدنا علی اکبرؓ شہید ہو چکا ہے اور جس سیدنا اصغرؓ کے لئے تم نے کپڑے سیئے ہیں اور کھلونے خریدے ہیں وہ دم توڑ چکا ہے اور جن کو تو یاد کرتی ہے وہ سب ختم ہوچکے ہیں اور تیرا باپ سیدنا حسینؓ بھی چند ساعتوں کا مہمان ہے مگر یہ گواہی دینا کہ تمہارے باپ نے تمہارے خط کو پہلے سینے سے لگایا تھا اور چوم کر کھولا تھا اے میری بیٹی کے قاصد ! اب تو یہاں سے جلدی نکل جاکہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن تجھے بھی قتل کر دیں اور میرا پیغام میری بیٹی تک نہ پہنچ سکے بیٹی کے قاصد کو وداع کر کے سیدنا حسینؓ نے سیدنا علی اکبرؓ کی لاش پرگئے اور کہا
لے اکبر ایہہ خط صغراؓ دا تینوں یاد کربندی
اوہ اجے بھی اس ملن دی رکھ دی تیرا پتہ پوچھیندی
دیہہ جواب صُغراؓ دیا ویرا حضرت آکھ سُنایا
تڑفی لاش علی اکبرؓ دی ایہہ آوازہ آیا
صُغراؓ معاف کریں اکبرؓ نوں نہیں اس وعدہ پورا کیتا
ہے افسوس بن ملیاں تینوں میں جام شہا دت پیتا
پھر بیٹی سیدہ صغراؓ کا خط لے کر خیموں میں گئے اور تمام کو پڑھ کر سنایا خط کو سن کر تمام اہلِ بیت رونے لگے ایک کہرام مچ گیا اور ایک حشر برپا ہو گیا ہر ایک نے اپنی بچھڑی ہوئی سیدہ صغراؓ کے خط کو سینے سے لگایا اور چوما
قارئین کرام ! آپ نے صاحبزادہ افتخار الحسن صاحب کا گیارہ صفحات پرمشتمل مضمون پڑھا جس میں انہوں نے اسے پُر اثر بنانے کے لیے جتنے بھی ادیبانہ الفاظ لا سکتے تھے لانے میں پوری کوشش کی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ کو جس صاحبزادہ صاحب نے تحریر کیا ہے بشرطیکہ کوئی ثقہ عالم نہ ہو تو بغیر ماتم کیئے نہیں رہ سکتا حالانکہ سیدہ فاطمہ صغریٰ بنتِ حسینؓ کے اس من گھڑت واقعہ میں رائی بھر بھی حقیقت نہیں پائی جاتی۔ بلکہ اول تا آخر اپنے من گھڑت تخیلات کا پلندہ ہے کہ جس کا حکم اعلیٰ حضرت عظیم البرکتؓ نے اپنے فتاویٰ میں گناہوں کے درجات کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
فاعتبروا يا ولى الابصار