شامِ کربلا مصنفہ مولوی محمد شفیع اوکاڑوی
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبشامِ کربلا مصنفہ مولوی محمد شفیع اوکاڑوی
سیدنا مسلمؓ کے بچوں کا واقعہ
سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے صاحبزادوں کا واقعہ بھی من جملہ اُن واقعات من گھڑت میں سے ہے جسے رُلانے اور لوگوں کو دھاڑے مار مار کر آنسو بہانے کے لیے واعظین اپنے واعظوں میں ذاکرین اپنے خطاب میں اور غیر محتاط مصنف اپنی تصنیفات میں ذکر کرتے ہیں ان واعظین میں سے مولوی محمد شفیع اوکاڑوی بھی ہیں اگرچہ ان کی عادت ایسی نہ تھی لیکن انہوں نے بھی اس بے اصل واقعہ کو بڑی رنگیلاپنی سے ذکر کیا ہے جس کی فوٹو کاپیاں درج ذیل لف کی جاتی ہیں ۔
سیدنا مسلمؓ نے دار الامارات کے محاصرہ کے وقت اور بقول بعض طوعہ کے گھر میں قیام کے وقت اپنے دونوں فرزندوں کو قاضی شریح کے یہاں بھیج دیا تھا اور ان کو کہلوا دیا تھا کہ ان کو کسی طرح بحفاظت مدینة النبی ﷺ پہنچا دینا جب سیدنا مسلمؓ شہید ہو گئے قاضی صاحب نے آپ کے دونوں صاحبزادوں کو بُلا کر پیار کیا اور بادیدہ پُر نم ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا یہ دیکھ کر انہوں نے کہا چچا جان آپ کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور آپ یوں ہمارے سروں پر ہاتھ پھیر رہے ہیں کہیں ہم یتیم تو نہیں ہو گئے؟ قاضی صاحب کی ہچکیاں بندھ گئیں فرمایا ہاں پیارے بچو تمھارے ابا جان کو شہید کر دیا گیا ہے؟ یہ سنتے ہی دونوں شہزادوں پر کوہِ الم ٹوٹ پڑا وا ابتاه واغربیا کہہ کر دونوں ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے اور تڑپنے لگے قاضی شریح نے بچوں سے کہا مجھے ابنِ زیاد بد نہاد سے تمہارے بارے میں کوئی اچھی امید نہیں اور تمہارا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں میں چاہتا ہوں کہ کسی طرح تمہاری جان بچ جائے اور تم بحفاظت مدینہ منورہ پہنچ جاؤ۔
عالم غربت میں تقسیم ہو جانے والے نونہالوں پر بے کسی کی انتہا ہوگئی ایک طرف باپ کی جدائی کا غم اور دوسری طرف اپنی جانوں کا خوف چمن رسالت کے یہ پھول کملا گئے۔
بدر د دل زلب شروع ناله می شنویم
زسوز جان جگر دیں کباب می بینیم
اب قاضی صاحب کے پیشِ نظر ان دونوں بچوں کی جانوں کا مسئلہ تھا چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے اسد کو بلا کر کہا "میں نے سنا ہے کہ آج باب العراقین سے ایک کارواں مدینہ منورہ جانے والا ہے ان دونوں بچوں کو وہاں لے سے جاؤ اور کسی ہم درد اور محب اہلِ بیت کے سپرد کرکے اس کو حالات سے آگاہ کر دینا اور تاکید کر دینا کہ ان کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچا دے اسد دونوں صاحب زادوں کو ساتھ لے کر باب العراقین آیا اور معلوم کیا تو پتہ چلا کہ کارواں کچھ دیر پہلے جا چکا ہے وہ دونوں بچوں کے ساتھ اسی راہ پہ چلا کچھ دور گئے تو گرد کارواں نظر آئی وہ کہنے لگا کہ دیکھو یہ گرد کارواں ہے اور زیادہ دور نہیں اب تم جلدی سے جاکر اس کارواں میں مل جاؤ اور دیکھو اپنے بارے میں کسی کو بتانا نہیں اور قافلے سے جدا نہ ہونا میں اب واپس جاتا ہوں یہ کہہ کر اسد واپس آگیا اور بچے تیزی سے چلنے لگے کچھ دیر کے بعد وہ گرد بھی غائب ہوگئی اور کارواں بھی نہ ملا۔
یہ پھول سے یتیم بچے عالم تنہائی میں انتہائی پریشانی کا شکار ہو کر پھر ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے لگے اور نازوں سے پالنے والے ماں باپ کا نام لے کر جان کھونے لگے ۔
پارہ پارہ نہ ہوں کیوں دیکھ کے دونوں کے جگر
عمر میں دیکھا تھا کب آنکھ سے ایسا منظر
ایسا صدمہ نہیں گزرا کبھی ننھے دل پر
خاک و خوں میں تڑپتا ہے پدر پیش نظر
سرمگیں آنکھوں سے تھے خون کے آنسو جاری
کیا بیاں ہو سکے ان بچوں کی آہ وزاری
ادھر ابنِ زیاد کو معلوم ہوا کہ سیدنا مسلمؓ کے ساتھ ان کے دو فرزند سیدنا محمدؓ و سیدنا ابراہیمؓ بھی آئے تھے اور وہ بھی کوفے میں کسی گھر میں ہیں چنانچہ اس بد نہاد نے اعلان کرایا کہ جو سیدنا مسلمؓ کے دونوں بچوں کو ہمارے پاس لائے گا وہ انعام پائے گا اور جو انہیں چھپائے گا یا ان کو یہاں سے نکالنے میں ان کی مدد کرے گا وہ سخت سزا کا مستحق ہوگا اس اعلان سے مال زر کی ہوس رکھنے والے چند سپاہی قسمت آزمائی کے لیے نکلے اور انہوں نے تھوڑی سی محنت کے بعد سراغ لگا کر بچوں کو پالیا اور پکڑ لائے اور کوتوال (افسر پولیس) کے حوالے کر دیا کوتوال ان بچوں کو ابنِ زیاد کے پاس سے گیا ابنِ زیاد نے حکم دیا کہ ان کو اس وقت تک جیل میں رکھا جائے جب تک ان کے متعلق میں یزید سے نہ پوچھ لوں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔
داردوغہ حوالات سپرنٹنڈنٹ ہمشکور نامی ایک پرہیزگار شخص اور محب اہلِ بیت تھا اس نے جب ان یتیموں کی مظلومی اور بے کسی کا حال دیکھا تو اس کو بہت ترس آیا اور اس کے جذبه ایمانی میں ایک تلاطم پیدا ہوا اس نے عزم صمیم کرلیا کہ ان بچوں کی جان بچانی ہے خواہ اپنی جان چلی جائے چنانچہ اس نے رات کے اندھیرے میں گلشن سیدنا عقیلؓ کے ان بھولوں کو جیل سے نکالا اور اپنے گھر میں لاکے کھانا کھلایا اور پھر شہر کے باہر قادسیہ کی راہ پر لاکر اپنی انگوٹھی بہ طور نشانی دی اور کہا کہ یہ سیدها راستہ قادسیہ کو جاتا ہے اس راہ پر چلے جاؤ وہاں پہنچ کر کوتوال کا پتہ پوچھنا وہ میرا بھائی ہے اس کو مل کر میری یہ انگوٹھی دکھانا اور اپنا حال سنانا اور کہنا کہ ہمیں مدینہ طیبہ پہنچا دے وہ تمہیں بحفاظت تام مدینہ پہنچا دے گا۔
مصیبت کے مارے دونوں بھائی چل پڑے لیکن تضاد قدر کے احکام جو نافذ ہوچکے ہوتے ہیں ان کو بندوں کی تدابیر نہیں بدل سكتى لا رَادَّ لِقَضَائِهِ وَلَا مُعَقبَ لِحکمه
رات بھر چلتے رہے مگر قادسیہ نہ آیا جب صبح کی روشنی ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ اسی قادسیہ کی راہ پر تھے قریب ہی ایک کھوکھلا سا درخت نظر آیا اس کے پاس ایک کنواں بھی تھا وہ اس درخت کی آڑ میں آکر بیٹھ گئے سخت خوف لاحق تھا کہ کہیں پھر نہ کوئی پکڑ کر ابنِ زیاد کے پاس لے جائے اتنے میں ایک کنیز پانی بھرنے آئی جب اس نے ان کو اس طرح چھے بیٹھے دیکھا تو قریب آئی اور ان کا حسن و جمال اور شان شہزادگی دیکھ کر کہا اے شہزادو تم کون ہو اور یہاں کیوں چھپے بیٹے ہو؟ انہوں نے کہا تجھے کیا بتائیں کہ ہم کون ہیں ہم یتیم و بےکس اور ستم رسیدہ گم کردہ راہ مسافر ہیں کنیز نے کہا تم کس کے بچے ہو تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟ باپ کا لفظ سنتے ہی ان کی آنکھیں پرنم ہوگئیں کنیز نے کہا میں گمان کرتی ہوں کہ تم سیدنا مسلم بن عقیلؓ کے فرزند ہو باپ کا نام سنتے ہی دونوں بچے ہچکیاں بھرنے لگے کنیز نے کہا صاحب زادو غم نہ کرو میں اس خاتون کی کنیز ہوں جو اہلِ بیت نبوت کے ساتھ سچی عقیدت و محبت رکھتی ہے بالکل فکر نہ کرو آؤ اور میرے ساتھ چلو میں تمہیں اس کے پاس لے چلوں دونوں شہزادے اس کے ساتھ ہوگئے کنیز نے ان کو اس خاتون کے سامنے پیش کیا اور سارا واقعہ سنایا اس خاتون کو بڑی خوشی ہوئی اس نے اس خوشی کے صلہ میں اپنی اس کنیز کو آزاد کر دیا اور شہزادوں کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آئی ان کے قدم چومے یتیموں کی داستان غم سن کر آنسو بہائے اور ہر طرح تسلی و تشفی دی کہ فکر نہ کرو اور کنیز سے کہا کہ یہ راز میرے شوہر حارث کو نہ بتایا ہے
گھر میں حارث کے جو وہ یوسف زندان آئے
موت بولی کہ سفر سے میرے مہماں آئے
زن حارث نے یتیموں کے قدم چوم لیے
کپڑے دیکھے جو پھٹے سوزنِ مژگاں سے سیئے
پانی بھی گرم کیا پاؤں دھلانے کے لیے
اور بچھا دیا فرش بھی ان کو سلانے کے لیے
نہر پر صبح بڑی دھوم سے مہمانی ہے
حلق ہے تیغ ہے جلاد ہے قربانی ہے
ادھر ابنِ زیاد کو اطلاع ہو گئی کہ مشکور نے دونوں بچوں کو رہا کر دیا ہے ابنِ زیاد نے بلایا اور پوچھا کہ تو نے پسران سیدنا مسلمؓ کے ساتھ کیا کیا ہے؟ مشکور نے کہا میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کو آزاد کر دیا ہے ابنِ زیاد نے کہا تو مجھ سے نہ ڈرا؟ مشکور نے کہا جو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہے وہ کسی اور سے نہیں ڈرتا ابنِ زیاد نے کہا تجھے ان کے رہا کرنے میں کیا ملا؟ مشکور نے کہا ستم گار ان بچوں کے پدر بزرگوار کو شہید کرنے میں تجھے تو کچھ نہ ملے گا مگر مجھے ان بے گناہ بچوں کو جو اپنے جگر پر یتیمی کا داغ لیے ہوئے قید و بند کی مصیبت میں مبتلا تھے رہا کرنے میں ان کے جدّ اعلیٰ سے امید شفاعت ہے کہ حضور صدر کونین و سید ثقلین جناب محمد مصطفیٰﷺ میری اس خدمت کو قبول فرمائیں گے اور میری شفاعت فرمائیں گے جب کہ تو اس دولت سے محروم رہے گا اس پر ابنِ زیاد غضبناک ہوا اور کہنے لگا میں ابھی تجھے اس کی سزا دوں گا مشکور نے کہا میری ہزار جانیں بھی ہوں تو آل نبیﷺ پر فدا ہیں۔
من در رهِ او کجا به جان دا مانم
جان چیست که بہرا و فدا نه توانم
یک جان چه بود ہزار جان بایستے
تا جمله بیک بار برو افشانم
ابنِ زیاد نے جلاد کو حکم دیا کہ اس کو اتنے کوڑے مارو کہ یہ مرجائے اور پھر سرتن سے جدا کر دو جلاد نے کوڑے مارنے شروع کر دیے پہلے کوڑے پر شکور نے کہا بسم اللہ الرحمن الرحیم دوسرے پر کہا اے اللہ مجھے صبر دے تیسرے پر کہا الٰہی مجھے بخش دے چوتھے پر کہا الٰہی مجھے فرزندان رسولﷺ کی محبت میں یہ سزا مل رہی ہے پانچویں پر کہا اللہ مجھے رسول اللہﷺ اور ان کے اہلِ بیت کے پاس پہنچا دے پھر مشکور خاموش ہوگیا اور جلاد نے اپنا کام پورا کر دیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جانش مقیم روضئہ دار السرور درباد
گلشن سرائے مرقدا و پرز نور باد
ادھر وہ نیک خاتون دن بھربہ دل و جان بچوں کی خدمت اور دل جوئی میں مشغول ہی رات کے وقت ان کو ایک علیحدہ کمرے میں سلاکر آئی تھی کہ اس کا شوہر (حارث) آ گیا نہایت تھکا ماند تھا خاتون نے پوچھا آج سارا دن تم کہاں رہے کہ اتنی دیر سے آئے؟ کہنے لگا صبح میں امیر کوفہ ابنِ زیاد کے پاس گیا تھا وہاں مجھے معلوم ہوا کہ داروغہ جیل مشکور نے پسران سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو قید سے رہا کر دیا ہے اور امیر نے اعلان کیا ہے کہ جو ان کو پکڑ کر لائے یا ان کی خبر دے اس کو گھوڑا و جوڑا اور بہت سا مال دیا جائے گا بہت سے لوگ ان کی تلاش میں نکلے ہیں میں بھی انہی کی تلاش میں اِدھر اُدھر سرگرداں رہا اور اس قدر بھاگ دوڑ کی کہ میرے گھوڑے نے دم توڑ دیا اور مجھے پیدل ان کی جستجو میں پھرنا پڑا اس لیے تھکاوٹ سے چور چور ہو گیا ہوں عورت نے کیا اے بندہ خدا اللہ سے ڈر تجھے فرزندان رسول اللہﷺ سے کیا کام ہے؟ کہنے لگا تو خاموش رہ تجھے نہیں معلوم ابنِ زیاد نے اس شخص کو گھوڑا و جوڑا اور بہت سا مال دینے کا وعدہ کیا ہے جو ان بچوں کو اس کے پاس پہنچائے یا ان کی خبر دے عورت نے کہا کس قدر بدبخت ہیں وہ لوگ جو مال دنیا کی خاطر ان یتیموں کو دشمن کے حوالے کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور دین کو دنیا کے عوض میں دے رہے ہیں حارث نے کہا تجھے ان باتوں سے کیا تعلق تو کھانا لا عورت نے کھانا لا کر دیا وہ کھا کر سو گیا ۔
جب آدھی رات ہوئی تو بڑے بھائی سیدنا محمد بن مسلمؓ نے خواب دیکھا اور بیدار ہو کر اپنے چھوٹے بھائی (سیدنا ابراہیمؓ) کو جگاتے ہوئے کہا بھائی اب سونے کا وقت نہیں رہا اٹھو اور تیار ہوجاؤ اب ہمارا وقت بھی قریب آگیا ہے میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ ہمارے ابا جان رسولﷺ اور سیدنا علیؓ و سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا حسن محبتیٰؓ کے ساتھ بہشت بریں میں ٹہل رہے ہیں کہ اچانک حضورﷺ نے ہم دونوں کی طرف دیکھ کر ہمارے ابا جان سے فرمایا سیدنا مسلمؓ تم چلے آئے ان دونوں بچوں کو ظالموں میں چھوڑ آئے ابا جان نے ہماری طرف دیکھ کر کیا یارسول اللہﷺ میرے یہ بچے بھی آنے ہی والے ہیں یہ سن کر چھوٹے نے بڑے بھائی کے منہ پر اپنا منہ رکھ کے کیا واویلاهُ وَامْسلماہ اور رونا شروع کر دیا بڑے کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک اٹھا تو دونوں نہایت درد کے ساتھ رونے اور چلانے لگے ان بچوں کے رونے چلانے کی آواز سے اس کم بخت حارث کی آنکھ کھل گئی عورت سے کہنے لگا یہ کن کے رونے کی آواز ہے میرے گھر میں یہ کون ہیں جو اس طرح رو رہے ہیں عورت بے چاری سہم گئی اور کچھ جواب نہ دیا اس ظالم نے خود اٹھ کر چراغ جلایا اور اس کمرے کی طرف چلا جس سے رونے کی آواز آرہی تھی اندر داخل ہوکر دیکھا کہ دونوں بچے گلے مل کر ابا ابا کہہ کر تڑپ رہے ہیں کہنے لگا کہ تم کون ہو؟ چونکہ ان بچوں نے یہی سمجھا تھا کہ یہ محبتوں کا گھر اور جائے پناہ ہے اور اہلِ خانہ ہمارے خیر خواہ ہیں اس لیے صاف کہہ دیا کہ ہم فرزندان سیدنا مسلم بن عقیلؓ ہیں حارث نے کہا عجیب میں تو سارا دن تمہاری تلاش میں سرگرداں رہا یہاں تک کہ میرے گھوڑے نے دم توڑ دیا اور تم میرے گھر میں موجود ہو یہ سن کر اور اس ظالم کے تیور دیکھ کر بچے سہم گئےاور تصویر حیرت بن گئے اس عورت نے اپنے شوہر کی جب یہ سنگ دلی اور بے رحمی دیکھی تو اس کے قدموں پر اپنا سر رکھ کر عاجزی آہو زاری کرتے ہوئے کہنے لگی ان غریب الوطن یتیموں بے کسوں پر ترس کھا
بے داد مسکن بریں یتیماں
لطفے یہ نمائے چوں کر میاں
این بابه فراق مبتلا اند
در شہر غریب و بے نوائد
بہ گزند سر جفائے ایشاں
پرہیز کن از دعائے ایشاں
کہنے لگا خبر دار اپنی جان کی خیر چاہتی ہے تو خاموش رہ عورت بے چاری سہم گئی اور خاموش ہو گئی حارث نے کمرے کا دروازہ مقفل کردیا تاکہ اس کی بیوی ان بچوں کو کہیں اور منتقل نہ کر سکے۔
جب صبح ہوئی تو اس سنگ دل نے تلوار ہاتھ میں لی اور ان دونوں بچوں کو ساتھ لےکر چلا عورت نے جب دیکھا تو اس سے نہ رہا گیا ننگے پیر پیچھے دوڑی اور منت و سماجت کرتی ہوئی کہہ رہی تھی اللہ سے ڈر اور ان یتیموں پر رحم کر۔
جس وقت نمودار ہوئے صبح کے آثار
پھر لے کے چلا ہائے یتیموں کو جفا کار
چلاتی چلی پیچھے ضعیفہ جگرانگار
بن باپ کے بچے ہیں یہ ظالم نہ انہیں مار
کیوں فاطمہ زہراؓ کو رلاتا ہے کفن میں
دو پھول تو رہنے دے محمدﷺ کے چمن میں
ظالم پر بیوی کی زاری کا کچھ اثر نہ ہوا بلکہ اس کو مارنے کو دوڑا بےچاری رک گئی اس ظالم کا ایک خالہ زاد و غلام جو اس کے بیٹے کا رضائی بھائی بھی تھا اس کو معلوم ہوا تو وہ پیچھے دوڑا جب حارث کے پاس پہنچا حارث نے اس کو کہا ممکن ہے کہ کوئی ان بچوں کو ہم سے چھین لے اور ہم اس انعام سے محروم رہ جائیں لہٰذا یہ تلوار لو اوران کو قتل کر دو؟ غلام نے کہا میں ان بے گناہ بچوں کو کس طرح قتل کر دوں حارث نے اس کو سختی سے کہا کہ میرے حکم کی تعمیل کر اس نے انکار کیا
بنده را باین و ما آن کار نیست
پیش خواجه قوت گفتارنیست
اور کہا مجھ میں ان کے قتل کی ہمت نہیں مجھے رسالت پناہﷺ کی روح اقدس سے شرم آتی ہے ان کے خاندان کے بےگناہ بچوں کو قتل کرکے کل قیامت کے دن کس منہ سے ان کے سامنے جاؤں گا حارث نے کہا اگر تو ان کو قتل نہیں کرے گا تو میں تجھے قتل کردوں گا غلام نے کہا قبل اس کے کہ تو مجھے قتل کرے میں تجھے قتل کر دوں گا حارث فنِ حرب میں بہت ماہر تھا اس نے اچانک آگے بڑھ کر غلام کے سر کے بال پکڑلیے غلام نے اس کی داڑھی پکڑلی اور دونوں گتھم گتھا ہوکر بری طرح لڑنے لگے آخر ظالم نے اپنے غلام کو شدید زخمی کر دیا اتنے میں اس کی بیوی اور لڑکا بھی پہنچ گئے لڑکے نے کہا اے باپ یہ غلام میرا رضائی بھائی ہے اس کو مارتے ہوئے تجھے شرم نہیں آئی ظالم نے بیٹے کو تو کوئی جواب نہ دیا اور غلام پر ایک ایسا وار کیا کہ وہ جامِ شہادت نوش کر کے جنت الفردوس پہنچ گیا بیٹے نے کہا اے باپ میں نے تجھ سے زیادہ سنگ دل اور جفا کار کوئی نہیں دیکھا حارث نے کہا او بیٹے اپنی زبان روک اور یہ تلوار لے اور ان دونوں بچوں کے سر قلم کر بیٹے نے کہا خدا کی قسم میں یہ کام ہرگز نہ کروں گا اور نہ تجھے یہ کام کرنے دوں گا حارث کی بیوی نے پھر منت و زاری کرتے ہوئے کہا کہ ان بے گناہ بچوں کے خون کا وبال اپنے سر نہ لے اگر تو ان کو نہیں چھوڑتا تو اتنی بات مان لے کہ ان کو قتل نہ کر اور ان کو زندہ ابنِ زیاد کے پاس لےجا اس سے بھی تیرا مقصود حاصل ہوجائے گا کہنے لگا مجھے اندیشہ ہے کہ جب اہلِ کوفہ ان کو دیکھیں گے تو شور و خوغا کرکے ان کو مجھ سے چھڑا لیں گے اور میری محنت ضائع ہوجائے گی۔
آخر وہ ظالم تلوار اٹھائے چمنستانِ رسالت کے ان پھولوں کو کاٹنے کے لیے ان کی طرف بڑھا۔
جب سامنے بچوں کے آیا وہ ستم گار
اور دیکھی یتیموں نے چمکتی ہوئی تلوار
دل ہل گئے ہٹ ہٹ بن کے یہ کی دونوں نے گفتار
کر رحم کہ معصوم ہیں ہم بے کس و لاچار
مظلوم ہیں حامی کوئی مشکل میں نہیں ہے
ظالم نے کہا رحم میرے دل میں نہیں ہے
بیوی دوڑ کر حائل ہوگئی اور کہنے لگی ظالم خدا کا خوف کر اور عذاب آخرت سے ڈر ظالم نے بیوی پروار کر دیا وہ زخمی ہوکر گرگئی اور تڑپنے لگی بیٹے نے ماں کو خاک و خون میں تڑپتے دیکھا آگے بڑھ کر باپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا او باپ ہوش میں آپ تجھے کیا ہوگیا ظالم نے بیٹے پر بھی وار کرکے موت کی نیند سلادیا ماں نے اپنی آنکھوں کے سامنے جب اپنے لخت جگر کو اس طرح کشتہ شمشیر جفا ہوتے دیکھا اس کا کلیجا بھی پھٹ گیا اور وہ بھی راہئ جنت ہوئی ۔
اب وہ ظالم پھر دونوں بچوں کی طرف آیا دونوں نے سراپا التجا بن کر کہا اگر تجھے یہ اندیشہ ہے کہ ہمیں زندہ لے جانے کی صورت میں لوگ شور و غوغا کرکے چھڑا لیں گے اور تو مال سے محروم رہ جائے گا تو ایسا کر کہ ہمارے گیسو کاٹ کر غلام بنا کر فروخت کر دے ظالم نے کہا اب تو میں تمہیں ہرگز نہ چھوڑوں گا جب اس نے تلوار اٹھائی تو چھوٹے نے آگے بڑھ کر کہا پہلے مجھے مارے۔
کی بڑے بھائی نے قاتل کی منت اس آن
تجھ سے اک عرض میں کرتا ہوں اگر تو لے مان
سر مرا پہلے اگر کاٹے تو بڑا ہو احسان
چھوٹے بھائی پہ میں قربان میرا سر قربان
شوق سے اور ہر اک صدمہ و ایذا دکھلا
پر نہ بھائی کا مجھے ننھا سا لاشا دکھلا
نا گاه چلی ظلم کی تلوار بڑے پر
بالائے زمین کٹ کے ستارا سا گرا سر
دریا میں ستم گار نے پھینکا تن اطہر
چلا کے چھوٹے نے کہا ہائے برادر
دیکھا جو بڑے بھائی کا سر دست عدو میں
وہ گر کے تڑپنے لگا بھائی کے لہو میں
آیا جو شقی تیغ علم کر کے دوبارا
چلانے لگا بھائی کو وہ بھائی کا پیارا
مادر کو پکارا کبھی بابا کو پکارا
جلاد نے سرتن پر سے اس کا بھی تارا
دھبا بھی نہ خوں کا لگا شمشیر عدو میں
بھائی کا لہو مل گیا بھائی کے لہو میں
دونوں لاشوں سے جدا کر دیے سر ہائے ستم
پھینک دیے نہر میں ظالم نے وہ لاشے اس دم
مل کے بہنے لگے وہ پیکر نوری باہم
لہریں پانی کی لگیں چومنے بڑھ بڑھ کے قدم
ڈوب کر نہر میں کوثر کے کنارے پہنچے
آئی مسلمؓ کی صدا پیارے ہمارے پہنچے
الغرض جب اس ظالم نے ان معصوموں کو شہید کر دیا اور سروں کو جسموں سے جدا کر کے لاشے نہر میں پھینک دیئے تو سروں کو توبرے میں ڈال کر ابنِ زیاد کی طرف چلا دوپہر کا وقت تھا قصر امارت میں داخل ہوکر رسائی حاصل کی اور توبرا ابنِ زیاد کے سامنے رکھ دیا ابنِ زیاد نے کہا اس میں کیا ہے؟ کہنے لگا یہ امید انعام و اکرام تیرے دشمنوں کے سر کاٹ کر لایا ہوں ابنِ زیاد نے کہا یہ دشمن کون ہیں؟ کہا فرزندان سیدنا مسلم بن عقیلؓ ابنِ زیاد نے غضب ناک بن ہوکر کہا تو نے کس کے حکم سے ان کو قتل کیا ہے؟ بدبخت میں نے یزید کو لکھا ہے کہ اگر حکم ہو میں تو زندہ بھیج دوں اگر س نے زندہ بھیجنے کا حکم دے دیا تو میں کیا کروں گا تو انکو میرے پاس زندہ کیوں نہیں لایا؟ کہنے لگا مجھے اندیشہ تھا کہ اہلِ شہر غوغا کر کے مجھ سے چھین لیں گے ابنِ زیاد نے کہا اگر اندیشہ تھا تو انہیں کسی محفوظ مقام پر ٹہرا کر مجھے اطلاع کر دیتا میں خود منگواتا تو نے بغیر میرے حکم کے ان کو کیوں قتل کیا؟ ابنِ زیاد نے اہلِ دربار کی طرف دیکھا اور مقاتل نامی ایک شخص سے کہا کہ اس کی گردن مار دے چنانچہ اس کی گردن مار دی گئی اور وہ خسر الدنیا والآخرة کا مصداق ہوا۔
نه خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
(روضتہ الشہداء صفحہ 150)
قارئین کرام سیدنا مسلمؓ کے بچوں کا واقعہ آپ نے شام کربلا کی فوٹو کاپیاں سے پڑھ لیا تو اس واقعہ کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے اگر کوئی پتھر دل بھی ہو تو وہ رونے لگتا ہے حالانکہ اس واقع کی تاریخی رو سے کچھ حیثیت نہیں کہ جس کا ثبوت عنقریب پیش کیا جائے گا اور پھر افسوس اس بات کا ہے کہ عوام مقررین تو در کنار فقہیہ ملت مولانا مفتی جلال الدین صاحب نے خطبات محرم میں بھی اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے لکھا ہے اب اس کے بعد آپ خود اندازہ لگالیں کہ موجودہ دور کے ان مصنفین نے اس واقعہ کو لکھنے میں کتنا بڑا تسہل سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے رونے رلانے والے واعظین کےلیے ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے مولانا مفتی جلال الدین صاحب کی کتاب خطباتِ محرم کی اصل فوٹو کاپی ملاحظہ فرمائیں۔