Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ہجرت

  علی محمد الصلابی

ہجرت

جب سیدنا عمرؓ نے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو علی الاعلان ہجرت کا عزم کیا، ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالبؓ نے مجھ سے کہا: میرے علم کے مطابق سيدنا عمر بن خطابؓ کے علاوہ تمام مہاجرین نے چھپ چھپ کر بجرت کی لیکن جب سیدنا عمرؓ نے ہجرت کا عزم کیا تو تلوار کو گردن میں لٹکایا اور ترکش کو کندھے پر رکھا ہاتھ میں تیر پکڑے اور لالھی لے کر نکل پڑے۔

(الطبقات الكبری: جلد، 3 صفحہ، 219 صفتہ الصفوة جلد، 1 صفحہ، 274)

کعبہ کی طرف گئے، قریش اس کے صحن میں بیٹھے تھے، بہت اطمینان سے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے سات چکر لگائے پھر مقامِ ابراہیم پر آۓ اور اطمینان سے نماز پڑھی پھر ایک ایک کر کے تمام حلقوں سے گزرے اور ان سے کہا: چہرے برباد ہو جائیں اللہ تعالیٰ ان کی عزت کو خاک میں ملا دے گا جس کی یہ خوابش ہو کہ اس کی ماں اسے گم پائے اس کی اولاد اس پر

ماتم کرے یا اس کی عورت بیوہ ہو جائے تو وہ اس وادی کے پیچھے مجھ سے ملاقات کرے سیدنا علیؓ کا کہنا ہے کہ آپ کے ساتھ صرف کمزوروں کی ایک جماعت ساتھ رہی، آپ نے ان کو سکھایا، ان کی رہنمائی کی اور رضائے الہٰی کے لیے آگے بڑھتے گئے۔

(نونیتہ القحطانی: صفحہ، 22)

سيدنا عمر بن خطابؓ نبیﷺ کی آمد سے پہلے مدینہ تشریف لائے، آپ کے ساتھ آپ کے خاندان اور گھر کے لوگ تھے۔ آپ کے بھائی زید بن خطاب تھے اور سراقہ بن معتمر کے دونوں لڑکے عمرو اور عبداللہ بھی تھے۔ نیز آپ کے داماد خنيس بن حذافہ سہمی اور چچا زاد بھائی سعيد بن زيد تھے۔ یہ عشرہ مبشرہ (جنت کی بشارت پانے والے دس افراد میں سے ایک ہیں۔ واقد بن عبداللہ تمیمی تھے جو ان کے حلیف تھے۔ خولی بن ابی خولی مالک بن ابی خولی جو بنو عجل اور بنوبکر کی طرف سے ان کے حلیف تھے، یہ لوگ بھی تھے اور ایاس خالد عاقل اور عامر نیز بنو سعد بن ليث کی طرف سے جو لوگ ان کے حلیف تھے وہ سب تھے۔ یہ تمام لوگ قبا میں بنو عمرو بن عوف کے قبیلہ میں رفاعہ بن عبد المنذر کے پاس اترے۔

(تاريخ الخلفاء: صفحہ، 137)

براء بن عازبؓ کہتے ہیں:

سب سے پہلے ہمارے پاس مصعب بن عمیرؓ اور ابن ام مکتومؓ آئے، وہ لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ پھر بلال سعد اور عمار بن ياسر آۓ پھر بیس (20) صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت میں سیدنا عمر بن خطابؓ آئے۔ پھر نبی کریمﷺ تشریف لائے، میں نے مدینہ والوں کو رسول اللہﷺ کی آمد پر خوش ہونے سے بڑھ کر کسی چیز پر خوش ہوتے نہیں دیکھا۔

(اخبار عمر: الطنطاويات: صفحہ، 22)

اسی طرح سيدنا عمر بن خطابؓ اپنے اقوال و افعال سے اپنے دین و عقیدہ کی خدمت میں برابر لگے رہے اللہ کے بارے میں کسی

ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرتے، مسلمانانِ مکہ میں سے جو وہاں سے ہجرت کرنا چاہتا آپ اس کے لیے مددگار اور سند اجازت ہوتے، یہاں تک کہ آپ خود اور آپ کے ساتھ اقرباء اور حلفاء وہاں سے نکل آئے آپ نے اپنے ان تمام ساتھیوں کی بھرپور مدد کی جو ہجرت کرنا چاہتے تھے۔

لیکن ان کے بارے میں دشمنوں کی طرف سے ابتلاء و آزمائش کا اندیشہ تھا۔

(صحيح التوثيق في سيرة الفاروق: صفحہ، 30 یہ خبر قابلِ اعتبار ہے۔)

آپ اس واقعہ کی تفصیل خود اس طرح بناتے ہیں:

جب میں اور عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص بن وائل سہمی نے مدین ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے وادی سرف (صحيح التوثيق فی سيرة الفاروق: صفحہ، 30 یہ خیر قابلِ اعتبار ہے) کی اونچائی پر اضاءة بنی غفار 3 (فتح الباری: جلد، 8 صفحہ، 261 بحوالہ صحيح التوثيق: صفحہ، 31) کے باغ میں ان سے ملنے کا وعدہ کیا۔ ہم نے آپس میں طے کیا کہ جو صبح صبح وہاں نہ پہنچے وہ گویا گرفتار ہو گیا۔ اس کے دونوں ساتھیوں کو چاہیے کہ آگے بڑھ جائیں۔ آپ کہتے ہیں: میں اور عیاش بن ابی ربیعہ صبح سویرے باغ پہنچ گئے اور ہشام گرفتار کر لیے گئے۔ ان پر ہر آزمانش آئی، وہ فتنے میں گرفتار ہو گئے (صحیح البخاری : 3905) جب ہم مدینہ پہنچے تو قباء میں بنو عمرو بن عوف کے ہاں ٹھہرے۔ ادھر ابوجہل بن بشام اور حارث بن ہشام عیاش بن ابی ربیعہ کی تلاش میں نکلے، وہ ان کے چچا زاد نیز ماں شریک بھائی تھے، وہ دونوں مدینہ پہنچے اور رسول اللهﷺ مکہ میں تھے۔ ان دونوں نے آپ (عیاش بن ابی ربیع) سے بات کی اور کہا: تمہاری ماں نے نذر مان لی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لیں گی سر میں کنگھی نہیں کریں گی، اور نہ دھوپ سے ہٹے گی۔ چنانچہ ماں کے لیے آپ کا دل نرم پڑ گیا۔ میں نے ان سے کہا: عیاش خبردار! بے شک اللہ کی قسم یہ لوگ تمہیں آزمائش

میں ڈال کر تمہارے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ان سے ہوشیار ہو جاؤ۔ اللہ کی قسم اگر تمہاری ماں کو جوئیں تکلیف دیں گی تو وہ کنگھی کرے گی اور اگر مکہ کی گرمی اس کو تکلیف دے گی تو سایہ میں جائے گی۔ آپ نے کہا: میں اپنی ماں کی قسم پوری کروں گا اور وہاں میرا کچھ مال بھی ہے اسے بھی لے آؤں گا۔

حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ میں نے کہا:

اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، تم میرا آدھا مال لے لو، لیکن ان دونوں کے ساتھ نہ جاؤ، لیکن انہوں نے میری بات نہ مانی اور جانے پر مصر رہے جب ان کا اصرار برقرار رہا تو میں نے کہا سنو! جب تم جو کرنا چاہتے ہو وہی کرو گے تو میری یہ اونٹنی لے لو یہ اچھی نسل کی فرماں بردار اونٹنی ہے۔ اس پر سوار ہو جاؤ اور اگر ان لوگوں کی طرف سے تم کو بد عہدی کا شک گزرے تو بھاگ نکلو، چنانچہ وہ اونٹنی پر سوار ہو کر ان دونوں کے ساتھ چل پڑے کچھ راستہ طے ہونے کے بعد ابوجہل نے کہا: اے بھائی! میری اونٹنی تھک گئی ہے، کیا تم مجھے اپنے پیچھے نہیں بٹھا لو گے؟ انہوں نے کہا: ضرور پھر آپ نے اونٹنی بٹھائی، اور اس نے بھی اپنی اونٹنی بٹھائی تاکہ وہ اس پر بیٹھ جائے۔ جب وہ زمین پر اترے تو انہوں نے آپ پر حملہ کر دیا۔ آپ کو باندھ دیا، اور مکہ لے گئے۔ پھر آپ کو آزمایا اور آپ فتنے میں گرفتار ہو گئے۔

(صحيح التوثيق فی سيرة وحياة الفاروق عمر بن الخطاب: 31)

سیدنا عمرؓ کا کہنا ہے پھر ہم کہا کرتے تھے جس نے خود کو فتنے میں ڈالا اللہ تعالیٰ اس سے فدیہ، سفارش اور توبہ قبول کرنے والا نہیں ہے۔ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو پہچانا پھر مصائب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ یہ باتیں وہ لوگ خود بھی اپنے بارے میں کہتے تھے۔ لیکن جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں اور ہماری باتوں نیز ان کی اپنی باتوں کے بارے میں کہا:

قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ‌ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا‌ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ (53) وَاَنِيۡبُوۡۤا اِلٰى رَبِّكُمۡ وَاَسۡلِمُوۡا لَهٗ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِيَكُمُ الۡعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ (54)وَاتَّبِعُوۡۤا اَحۡسَنَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِيَكُمُ الۡعَذَابُ بَغۡتَةً وَّاَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ(55)

(سورة الزمر: آیت، 53 تا 55)

ترجمہ:(میری جانب سے کہہ دو کہ) اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، يقيناً اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش والا بڑی رحمت والا ہے۔ تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آ جائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔ اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو سيدنا عمر بن خطابؓ نے کہا میں نے ان آیات کو اپنے ہاتھوں سے صحیفہ میں لکھا اور اسے ہشام بن عاص کے پاس بھیج دیا ہشام کہتے ہیں کہ جب میرے پاس وہ صحیفہ آیا تو میں اس کو "ذی طویٰ"(السيرة النبویتہ الصحيحتہ: جلد، 1 صفحہ، 205) میں پڑھنے لگا۔ اسے لے کر نیچے وادی میں جاتا اور اوپر آتا، لیکن اسے سمجھ نہیں پاتا تھا، یہاں تک کہ میں نے دعا کی: اے اللہ مجھے اس آیت کا مطلب سمجھا دے پھر اللہ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ یہ آیات ہمارے اور جو کچھ ہم خود اپنے بارے میں کہتے تھے اور جو کچھ لوگ ہمارے بارے میں کہتے تھے، اس کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ آپؓ کا کہنا ہے کہ میں اپنی سواری کی طرف پلٹا، اس پر سوار ہوا اور رسول اللہﷺ سے جا ملا اس وقت آپ مدینہ میں تھے۔

یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح سیدنا عمرؓ نے اپنے لیے اور اپنے دونوں ساتھیوں یعنی عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص بن وائل سہمى رضى اللہ عنہما کے لیے جب کہ ان میں سے ہر ایک الگ الگ قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا، ہجرت کی منصوبہ بندی کی تھی کہ جس مقام پر ان کے آپس میں ملنے کا وعدہ تھا وہ مکہ سے دور حرم سے باہر اور مدینہ کے راستہ پر تھا۔ نیز وقت اور جگہ کی اتنی منظم انداز میں تحدید کی تھی کہ اگر ان سے کوئی ایک گرفتار کر لیا جائے تو بقیہ دونوں سفر شروع کر دیں اس کا انتظار نہ کریں، کیونکہ وہ گرفتار ہو چکا ہے اور ان کے اندازے کے مطابق ایسا ہوا بھی۔ ہشام بن عاصؓ گرفتار کر لیے گئے۔ جب کہ عمر اور عباس رضی اللہ عنہما نے سفرِ ہجرت جاری رکھا اس طرح یہ منصوبہ بندی پوری طرح کامیاب ہو گئی اور وہ دونوں صحیح سالم مدینہ پہنچ گئے۔ مگر قریش نے مہاجرین کا پیچھا کرنے کی ٹھان رکھی تھی، اسی لیے انہوں نے ایک مضبوط منصوبہ تیار کیا۔ اور ابوجہل اور حارث نے جو عیاش کے ماں شریک بھائی تھے، اسے پورا کرنے کی ذمہ داری لی اس قرابت نے عیاش کو ان دونوں کی طرف سے مطمئن کر رکھا تھا۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ معاملہ ان کی ماں سے متعلق تھا، اور ابوجہل نے عیاش کی اپنی ماں کے ساتھ رحمت و شفقت کو دیکھتے ہوئے یہ سازش گھڑی تھی، اور یہ شفقت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب آپ ان کے ساتھ لوٹنے پر تیار ہو گئے۔

اسی طرح اس واقعہ سے سیدنا عمرؓ کا امن عامہ سے متعلق بلند و بالا شعور بھی کھل کر سامنے آتا ہے بایں طور کہ عیاشؓ کے اچک لیے جانے کے بارے میں آپ کی دانائی و دور اندیشی سچ ثابت ہوئی اسی طرح اخوت و بھائی چارگی کا وہ عظیم معیار بھی ظاہر ہوتا ہے جس کی اسلام نے بنیاد رکھی ہے چنانچہ سیدنا عمرؓ اپنے بھائی کے

اسلام کی حفاظت اور مکہ لوٹ جانے کے بعد مشرکین کی سخت آزمائش میں واقع ہونے کے خوف کے پیش نظر اپنی نصف جائیداد کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ لیکن عیاشؓ پر اپنی ماں کی محبت اور قسم پورا کرنے کا جذبہ غالب ہے، اسی لیے انہوں نے ٹھان لی کہ وہ مکہ جائیں گے اور اپنی ماں کی قسم پوری کریں گے اور وہاں جو ان کا مال ہے اسے لے کر واپس آئیں گے۔ ان کی پاک دامنی اس بات سے انکار کرتی تھی کہ اپنے بھائی عمر کی جائیداد کے ہیں۔ اور مکہ میں ان کا اپنا مال باقی رہے جس کو کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو۔ جب کہ سیدنا عمرؓ کی نگاہ اس سے بلند تھی۔ گویا کہ آپ اس برے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جس سے مکہ لوٹنے کے بعد عیاش دوچار ہونے والے تھے۔ اور جب آپ ان کو مطمئن کرنے سے عاجز آ گئے تو اپنی بہترین نسل والی فرماں بردار اونٹنی دے دی ۔پھر آگے چل کر عیاش کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس بے وفائی کی مشرکین کی طرف سے حضرت عمرؓ نے توقع کی تھی (مکہ کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے) مسلمانوں میں یہ بات عام ہو گئی کہ اللہ تعالی ان لوگوں سے جو آزمائے گئے اور جاہلی سماج میں زندگی گزارنی شروع کر دی ان کے بارے میں کسی سفارش اور فدیہ کو قبول نہیں کرے گا۔

اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ‌

(سورة الزمر: آیت، 53)

ترجمہ: آپ کہہ دیجے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔

جوں ہی یہ آیات نازل ہوتیں فوراً سیدنا عمر فاروقؓ نے انہیں اپنے دونوں قلبی بھائیوں یعنی عیاش اور ہشام رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ دونوں کفرستان کو چھوڑنے میں دوبارہ اپنی نئی کوشش شروع کریں۔

 کتنی عظیم خوبی تھی حضرت عمر بن خطابؓ کے اندر اپنے بھائی عیاشی کے ساتھ پوری کوشش کی اور مدینہ نہ چھوڑنے کے لیے ان کو اپنی نصف جانداد دینے کی پیش کش بھی کی، ان کو خطرہ کی حالت میں

بھاگ نکلنے کے لیے اپنی اونٹنی بھی دی۔ ان تمام چیزوں کے باوجود نہ تو اپنے بھائی سے ناراض ہوئے، نہ ان سے قطع تعلق کیا کہ انہوں نے مخالفت کی تھی، اور آپ کی نصیحت ماننے سے انکار کر دیا تھا، اور آپؓ کے مشورہ کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔ بس آپ پر صرف اپنے بھائی کے متعلق محبت اور وفاداری کا احساس غالب تھا، اسی وجہ سے جوں ہی مذکوره آیت نازل ہوئی۔ فوراً اسے مکہ میں رہنے والے اپنے دونوں بھائیوں اور دیگر کمزور مسلمانوں کے پاس بھیجنے میں جلدی تاکہ اسلامی چھاؤنی میں جلد از جلد شامل ہونے کی نئی کوشش شروع کر ديں۔

(التربیۃ القياديتہ: جلد، 2 صفحہ، 160)

اسی طرح سیدنا عمرؓ مدینہ میں پہنچے اور رسول اللہﷺ کے لیے سچائی کے وزیر بن کر رہے۔ آپﷺ نے ان کے اور عویم بن ساعدؓ کے درمیان مواخات بهائی چارگی) کا رشتہ کیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کے اور عتبان بن مالک اور ایک قول کے مطابق آپ اور معاذ بن عفراء کے درمیان مواخات قائم کی علامہ ابن عبد الہادی نے ان تمام روایتوں کو یکجا کرکے یہ تعلیق تحریر کی ہے۔

"ان حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، آپﷺ نے متعدد اوقات میں ان سب کے ساتھ آپ کی مواخات قائم کی تھیں، اور متعدد اوقات میں آپ اور ان تمام لوگوں کے درمیان مواخات قائم کرنا ناممکن ہے"