قبول اسلام اور ہجرت
علی محمد الصلابیقبولِ اسلام اور ہجرت
قبولِ اسلام
سب سے پہلے آپ کے دل پر نور کی کرنیں اس وقت پڑیں جب آپ نے دیکھا کہ قریش کی عورتیں آپ اور آپ جیسے دیگر لوگوں کی بدسلوکیوں سے تنگ آ کر اپنا ملک چھوڑ کر دور دوسرے ملک میں جا رہی ہیں۔ اس وقت آپ کا دل نرم پڑ گیا اور ضمیر نے آپ کو ملامت کی۔ آپ نے ان پر اظہار غم کیا اور ان کو ایسا بہترین کلام سنایا کہ جسے سننے کی وہ آپ سے کبھی امید نہیں رکھتی تھیں۔
(الفتاوی: جلد، 15 صفحہ، 36 فرائد الکلام للخلفاء الکرام: صفحہ، 144)
اللّٰہم أعز الاسلام بأحب الرجلین إلیک: بأبی جہل بن ہشام أو بعمر بن الخطاب۔
ترجمہ: ’’اے اللہ ابوجہل بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کر دے۔‘‘
آپﷺ کا ارشاد ہے:
اللہ کے نزدیک ان دونوں میں سے عمر زیادہ پسندیدہ تھے۔‘‘
(اخبار عمر: الطنطاویات: صفحہ، 12)
اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کے قبولِ اسلام کے لیے اسباب مہیا کیے۔ عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے: میں نے عمر کو اگر کبھی کسی چیز کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’میرے خیال میں یہ ایسے ہو گا‘‘ تو وہ ان کے خیال کے مطابق ہی ہوا۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے سامنے سے ایک خوبصورت آدمی گزرا۔ عمرؓ نے کہا: میرے گمان نے خطا کی یا یہ شخص اپنے دور جاہلیت کے دین پر اب بھی قائم ہے، یا ان کے کاہنوں میں سے رہا ہے۔ آدمی کو میرے پاس بلاؤ، اس کو بلایا گیا۔ آپ نے اس سے وہی (گمان والی) بات دہرائی۔ اس پر اس نے کہا: میں نے تو آج کے دن کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔
عمرؓ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم مجھے اپنے بارے میں ضرور بتاؤ۔
اس آدمی نے کہا: میں زمانۂ جاہلیت میں کاہن تھا۔
عمرؓ: تمہاری جنّیہ نے تمہیں کون سی تعجب خیز خبر دی؟
آدمی: ایک دن جب میں بازار میں تھا، وہ میرے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور کہا: کیا تم نے جنوں کو ، آسمان سے اوندھے منہ لوٹائے جانے کے بعد ان کی مایوسی اور خوف سے اونٹنیوں اور ان کے پالان سے چمٹ جانے کو نہیں دیکھا؟
سیدنا عمرؓ: سچ ہے، میں ان کے معبودوں کے پاس سویا ہوا تھا، ایک آدمی بچھڑا لے کر آیا اور اس کو ذبح کیا۔ اس نے زور کی چیخ ماری، ایسی چیخ کہ اس سے تیز آواز میں نے کبھی نہ سنی تھی، وہ کہہ رہا تھا: اے دشمن! معاملہ کامیابی کا ہے۔ آدمی فصیح اللسان ہے، وہ کہتا ہے: ’’ لا الٰہ الا الله ‘‘ پھر میں کھڑا ہو گیا، اور کچھ ہی لمحہ ٹھہرے تھے کہ کہا گیا : یہ نبی ہیں۔
آپ کے قبول اسلام کے بارے میں بہت سی روایتیں وارد ہیں، لیکن فن حدیث کے معیار کے مطابق ان کی اسناد کی تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر صحیح نہیں ہیں۔
(الفاروق عمر: صفحہ، 9)
تاہم سیرت وتاریخ کی کتابوں میں مذکور روایات کے مطابق آپ کے قبولِ اسلام اور اس کے اعلان کو درج ذیل عناوین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔