حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندحضرت عامر بن فہیرہؓ
یہ طفیل بن عبداللہ کے غلام تھے، حضرت عمرؓ سے پہلے ہی ایمان قبول فرمایا، ایمان قبول کرنے کی وجہ سے آپ کو بڑی اذیت دی جانے لگی، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد کر دیا۔
(الاصابہ: جلد، 2 صفحہ، 256)
سرکارِ دوعالمﷺ اور صدیقِ اکبرؓ جن دنوں غارِ ثور میں چھپے تھے، ان دنوں عامر بن فہیرہؓ اس کے ارد گرد بکریاں چراتے تھے، شام کے وقت بکریوں کو غار کے پاس لے جاتے، دونوں حضرات بکریوں کا دودھ پی لیتے تھے، جب صبح ہوتی تو صدیقِ اکبرؓ کے فرزند عبداللہؓ غار کے پاس سے بکریوں کے قدموں کے نشانات پر چل کر انہیں مٹا دیتے۔
(اسد الغابہ: جلد، 2 صفحہ، 91)
غزوہ بدر واُحد میں شریک ہوئے، اور بئرِ معونہ میں شہید ہوئے۔
(الاستیعاب: جلد، 3 صفحہ، 8)
بلاشبہ آپ کاتبانِ نبی اکرمﷺ میں سے ہیں، اس کی صراحت مزّی، ابن کثیر، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔
(حوالے کے دیکھیے: تہذیب الکمال: صفحہ، 4 البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 348، العجالة السنیہ: صفحہ، 245 عیون الاثر: جلد، 2 صفحہ، 315 وغیرہ بحوالہ ”نقوس“ جلد7 صفحہ162)
مسند احمد میں ہے کہ:
(ہجرت کے سفر میں) نبی اکرمﷺ نے سراقہ بن مالک المالکی کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا، وہ عامر بن فہیرہؓ نے آپﷺ کے حکم سے لکھا تھا، سراقہ خود کہتے ہیں:
”میں نے حضورﷺ سے امان نامہ لکھ دینے کی درخواست کی، تو آپﷺ نے عامر بن فہیرہ کو حکم فرمایا، انہوں نے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر وہ امان نامہ تحریر کردیا۔
(مسند احمد: جلد، 4 صفحہ، 176)
یہ تو مسند احمد کی روایت ہے۔
البدایہ والنہایہ میں ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ:
آپﷺ نے صدیق اکبرؓ کو لکھنے کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے ایک امان نامہ لکھا اور اس کے حوالے کردیا۔ (البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 352 اور 351 الوثائق السیاسیہ: صفحہ، 36)
ابن کثیرؒ نے ان دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ: امان نامہ کا کچھ حصہ حضرت ابوبکرؓ نے لکھا اور کچھ حصہ آپ کے غلام عامر نے لکھا واللہ اعلم بالصواب
(البدایہ النہایہ: جلد، 5 صفحہ،351 بحوالہ نقوش جلد، 7 صفحہ، 138)