طعام کا بندوبست
نقیہ کاظمیطعام کا بندوبست
صفہ کے طلبہ کرامؓ کی عام غذا کھجور تھی اسی کو کھا کر اور پانی پی کر گزر بسر کرتے تھے۔ حضرت طلحہ بن عمرو بصریؓ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم میں ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ آیا، وہاں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا، اس لیے صفہ میں ایک آدمی کے ساتھ رہنے لگا۔ ہم دونوں کو روزانہ ایک مُد کھجور ملتی تھی، ایک دن رسول اللہﷺ نماز پڑھ کر واپس ہو رہے تھے، اصحابِ صفہؓ میں سے ایک شخص نے بڑھ کر کہا یارسول اللہﷺ!
أحرق التمر بطوننا وتحرفت علینا الحرف
ترجمہ: کھجوروں نے ہمارے شکم جلا دیئے ہیں اور ہماری مشغولیتیں مشکل ہو گئی ہیں۔
اس شخص کی بات سن کر رسول اللہﷺ منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مکہ میں مجھ پر اور میرے اصحاب رضی اللہ عنہم پر دسیوں دن ایسے گزرے ہیں جن میں ہم نے صرف پیلو کے پھل پر گزر بسر کیا ہے اور جب ہم ہجرت کرکے اپنے بھائی انصار کے یہاں لے آئے تو دیکھا کہ ان کی عام غذا کھجور ہے، انہوں نے ہر طرح کی ہمدردی کی۔ پھر رسول اللہﷺ نے مستقبل میں مسلمانوں کے پاؤں تلے مال و دولت کے انبار لگنے کی خوشخبری سنائی۔
(مسند أحمد: صفحہ، 487 جلد، 3 صحیح ابن حبان رقم، 6649)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن میں بے وقت مسجد میں گیا، رسول اللہﷺ نے پوچھا، اس وقت کیسے آئے ہو؟ میں نے بھوک کی شدت بیان کی، اتنے میں اور بھی اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم آ گئے، آپﷺ نے اندر سے کھجور کا ایک طبق منگایا اور ہم میں سے ہر ایک کو دو دو کھجور دے کر فرمایا تم لوگ ان کو کھا کر پانی پی لو، آج تمہارے لیے یہی کافی ہے عموماً صدقے کا سامان اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم پر خرچ ہوتا تھا۔
رسول اللہﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اصحابِ صفہؓ پر صدقہ و خیرات کرنے کے سلسلہ میں خوب ابھارتے تھے۔
(مسند أحمد: صفحہ، 391 جلد، 6)
جب آپﷺ کے پاس صدقہ کا سامان آتا تو آپ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے پاس بھیج دیتے، خود اس میں سے کچھ بھی استعمال نہ فرماتے اور جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اصحابِ صفہؓ کو بلا بھیجتے ان کو کھلاتے اور خود بھی تناول فرماتے۔
(مسند أحمد: صفحہ، 391 جلد، 6)
خاندانِ قریش کے مالدار حضرات بطورِ خاص ان کے لیے کھانا بھیجتے تھے۔
(الحلیۃ الأولیاء: صفحہ، 378 جلد، 1)
اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے طعام کا بندوبست صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپس میں مل کر کرتے تھے وہ اس طرح کہ ایک صحابیؓ اپنے ساتھ ایک یا اس سے زائد اصحابِ صفہؓ کو اپنے گھر لے جاتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ شام کو ہم اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لاتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان طلبہ صفہؓ کو تقسیم فرما دیتے۔ ایک صحابیؓ اپنے ساتھ ایک، یا دو، یا تین اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ گھر لے جاتے، زیادہ سے زیادہ ایک صحابیؓ اپنے ساتھ دس کو لے جاتے، البتہ حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ ہر رات 80 اصحابِ صفہؓ کو اپنے ساتھ لے جاتے اور کھانا کھلاتے۔
(الحلیۃ: صفحہ، 341 جلد، 1)
نبی اکرمﷺ اکثر و بیشتر اصحابِ صفہؓ کو اپنے ساتھ گھر لے جاتے سیدنا عبدالرحمنؓ بن ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ اصحابِ صفہؓ محتاج و بے خانماں تھے۔ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرکے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ ان میں سے تیسرے شخص کو لے جائے اور جس کے یہاں چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں یا چھٹے شخص کو ساتھ لے جائے ۔ پھر نبی اکرمﷺ دس آدمی لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تین آدمی گھر پر لے آئے اور اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی وسعت کے مطابق لے گئے۔ سیدنا ابوبکرؓ اپنے مہمانوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھے، کھانا شروع کیا، کافی برکت ہوئی ان کے صاحب زادہ حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ہم جب ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بڑھ جاتا، اس طرح سارے لوگ کھا کر شکم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کھانا جوں کا توں دیکھ کر اپنی اہلیہ محترمہ سے کہا اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم کھانا جتنا پہلے تھا اس سے تین گنا زیادہ ہو گیا ہے۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 506 جلد، 1 رقم، 3581)
اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم خود بھی اپنے کھانے کا بندوبست اور انتظام کرتے تھے اور اپنے بھائیوں پر بوجھ بننا نہیں چاہتے تھے۔ بئرِ معونہ میں شہید ہونے والے 70 ستر قراء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں حضرت انسؓ فرماتے ہیں:
وکانوا بالنہار یجیئون بالماء فیضعونہ في المسجد، ویحتطبون، فیبیعونہ ویشترون بہ الطعام لأہل الصفۃ
(صحیح مسلم: صفحہ، 139 جلد، 2 الإمارۃ)
قراء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دن میں پانی لا کر مسجد میں رکھتے اور جنگلوں سے لکڑیاں چن کر لاتے اور بازاروں میں بیچتے اور ان روپے سے اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم اور فقراء کے لیے کھانے کا انتظام کرتے۔
غزوہ خیبر کے بعد اصحابِ صفہؓ کے خورد و نوش کے منتظم حضرت ابو ہریرہؓ رہے، کیونکہ یہ صفہ کے ہر ہر طالب علم کو اور اس کے علمی و عملی مقام کو خوب اچھی طرح جانتے تھے۔
(الحلیۃ: صفحہ، 376 جلد، 1)
اور ان میں میزبانی اور مہمان نوازی کا خاص سلیقہ تھا۔ حضرت طفاویؓ کا بیان ہے کہ میں چھ مہینہ تک مدینہ طیبہ میں سیدنا ابوہریرہؓ کا مہمان رہ چکا ہوں، ان کے جیسا مہمان نواز اور خاطر تواضع کرنے والا میں نے کسی کو نہیں پایا۔
(تذکرۃ الحفاظ: صفحہ، 35 جلد، 1)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں کی گزرگاہ پر ایک دن کھڑے ہو گئے، شدتِ بھوک سے حالت خراب تھی، سیدنا ابوبکر صدیقؓ گزر گئے، انہوں نے کھانے کے لیے نہیں پوچھا اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی گزر گئے، محسنِ انسانیتﷺ گزرے، آپؓ انہیں دیکھتے ہی مسکرا دئیے اور دل کی کیفیت پہچان گئے اور ان کے چہرہ سے بھانپ گئے کہ یہ بھوکے ہیں، آپﷺ نے فرمایا سیدنا ابوہریرہؓ! میرے ساتھ آؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں! یہ فرما کر گھر کے اندر مجھے لے گئے اور ایک پیالہ بھرا ہوا دودھ دیکھ کر فرمایا یہ دودھ کہاں سے آیا؟ جواب ملا فلاں نے آپﷺ کو تحفہ میں بھیجا ہے یہ سن کر آپﷺ نے سیدنا ابوہریرہؓ سے فرمایا اے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! اہلِ صفہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر لے آؤ۔ میں ان کو بلا کر لے آیا۔ آپﷺ نے مجھے دودھ کا پیالہ دیتے ہوئے فرمایا سب کو باری باری پلا دو، میں نے سب کو باری باری پلایا، سارے شکم سیر ہو کر پیئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا اے حضرت ابوہریرہؓ! اب تو بیٹھ جا اور دودھ پی، میں بیٹھ گیا اور خوب شکم سیر ہو کر دودھ پیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا اور پی، میں نے اس مرتبہ اتنا پی لیا کہ میرے پیٹ میں گنجائش ہی نہیں رہی۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 955 جلد، 2 رقم، 6452)