Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تیسرا باب شیعہ کا اپنے ائمہ کی تعلیمات اور ان کے عقائد سے انحراف

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

تیسرا باب 

شیعہ کا اپنے ائمہ کی تعلیمات اور ان کے عقائد سے انحراف

یہ بات بھی عجائباتِ عالم میں داخل ہے کہ دنیا میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جس نے اپنے مذہب کی بنیاد جن 12 ائمہ پر رکھی ہے کو ان کا طرزِ عمل نظریات اعمال و افعال کی ایک چیز بھی ان کی ان ائمہ اور پیشواؤں سے نہیں ملتی مثلاً مسلمانوں کے ہاں حضورﷺ کی مقدس شخصیت کائنات کی سب سے بزرگ اور برگزیدہ ہستی ہے آپﷺ کا کلمہ مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے اگر مسلمان بھی ایسا کلمہ پڑھیں جو آنحضرتﷺ سے منقول نہ ہو یا وہ ایسی مقدس کتاب کی تلاوت کریں جو ان کے پیغمبرﷺ پر نہ اتری ہو یا ایسے نصبُ العین پر عمل پیرا ہوں جو ان کے رسولﷺ سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھتا ہو اسے بھی عجوبہ ہی کہا جائے گا

ہر ذی عقل اسے بدترین مذاق ہی قرار دے گا یا ایسے لوگوں کو پاگلوں اور احمقوں کا گروہ قرار دے گا جو اپنے قول و فعل کے تضاد اور عقیدہ و عمل کے تفاوت میں یدِ طولیٰ رکھتے ہوں جس کی کوئی بات قابلِ اعتبار نہ ہو جو ہندوؤں کی طرح ایسا عقیدہ رکھتا ہو جس کے مطابق ان کی مقدس کتاب "وید" کو ماننے والا بھی ہندو ہو اور نہ ماننے والا بھی ہندو ہو عقائد و نظریات کے بارے میں ایسی بوقلمونی اور ایسا واضح تضاد تاریخ کے کسی گوشے میں نظر نہیں آتا شیعہ مذہب سے ناواقف انسان کبھی بھی اس کے تضادات سے شناسائی حاصل نہیں کر سکتا تاریخِ شیعہ اور عقائدِ شیعہ کا مطالعہ کرنے والا اس وقت حیرتُ و استعجاب کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے جب اس پر اس عجیب و غریب مذہب کے فریب کا پردہ چاک ہوتا ہے جب ایک انسان یہ دیکھتا ہے آنحضرتﷺ اور آپﷺ کی اولاد کے ایک درجن کے قریب صالح بزرگوں کے نام پر قائم ہونے والا مذہب کلمہ طیبہ کے دو جز لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ساتھ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ خلیفتہ بلا فصل کا اضافہ کرتا ہے اور حقائق کے مطابق آنحضرتﷺ اور ان کے ایک درجن بزرگوں کے تصور خیال میں بھی اس وقت یہ اضافہ نہ تھا اور جو کتاب حضورﷺ پر اتری اس کی آیات 6666 ہوں اور یہ گروہ 17 آیات والے قران کا دعویدار ہے اور حضورﷺ کے خلفاء اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کو خود آنحضرتﷺ نے اپنی مسند پر کھڑا کیا جس جماعت کی عظمت کے ترانے قرآن اور صاحبِ قرآن نے گاۓ جن کی عظمت و تقدس 12 بزرگوں نے سال کے ہر دن اور ہر موڑ پر آشکار کیا جن کی ثناخوانی ان 12 بزرگوں کے مکتوبات خطبات فرمودات اور قرابتداریوں میں ہر جگہ آویزاں ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفاءِ راشدینؓ کی شان میں آنے والے تمام خطبات اس شیعہ مذہب کی کئی دینی کتب میں تا حال موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہر عہد کا شیعہ عالم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدینؓ کو کافر و مرتد تحریر کرتا ہو آنحضرتﷺ کی مقدس ازواجِ مطہراتؓ یا اہلِ بیت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا جنہوں نے اپنا ایمان قرار دیا ہو ایسے فریب دینے اور کھانے والے لوگ دنیا کے کسی اور مذہبی عقیدے میں کہاں ہوں گے حقیقت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی صاحبزادیوں صاحبزادوں نواسوں نواسیوں اور آپ ان کی اولاد کے تمام بزرگ پوری امت کے نزدیک مقدس اور برتر ہستیاں ہیں آنحضرتﷺ کی اولاد و احفاد کا ہر فرد قابلِ احترام ہے۔

آنحضرتﷺ کے داماد اور چچازاد بھائی سیدنا علیؓ ان کے صاحبزادگان سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور اگلی اولاد سیدنا زین العابدینؓ سیدنا باقرؒ سیدنا جعفر صادقؒ سیدنا موسیٰ کاظمؒ سیدنا رضا کاظمؒ سیدنا تقی علیؒ سیدنا نقی علیؒ سیدنا حسن عسکریؒ یہ تمام حضرات اپنے اپنے دور کے منفرد اور یکتائے روزگار پیشوا اور مقتدا ہیں ان کا مقام و مرتبہ ہدایت و اصلاح کے باب میں فوجی سریہ تک پہنچا ہوا ہے انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان اساطینِ امت کی طرف شیعہ راویوں نے ان کی وفات کے 300 سال کے بعد جو اقوال منسوب کیے وہ ان کی تعلیمات اور افکار سے اکثر مختلف ہیں ائمہ ہدایت کی طرف مَن گھڑت باتوں اور بے بنیاد روایات کے گھڑنے میں شیعہ راویوں نے ایسا کمال دکھایا کہ پورا ایک مذہب معرض شہود میں لے آئے دفتروں کے دفتر اور دیوانوں کے دیوان لکھ مارے مَن گھڑت اور موضوع روایات پر اوراق کے اوراق سیاہ کر کے محمدی شریعت کی تصویر بدل کر رکھ دی قرآنُ و حدیث کے سچے موتیوں کے مقابلے میں کذاب اس طرح کے غلیظ چیتھڑوں سے اسلامی شریعت کا دامن آلودہ کر ڈالا ائمہ ہدایت کی وہ سچی تعلیمات جو ان کے اپنے دور سے منقول ہو کر آج تک چلی آ رہی ہیں صرف 300 سال بعد پہلی تعلیم کے بالکل برعکس ایسے ایسے مضامین گھڑ گھڑ کر ان کی طرف ایسے سلیقے سے منسوب کیا کہ سچائی کو فریب کے پردوں میں چھپا دیا گیا یہودیت کی کوکھ سے جنم لینے والی شیعیت عہدِ عثمانی میں جس صورت میں ظاہر ہوئی تھی ڈھائی 300 سال بعد رواہ کی ہوشیاری ایرانی حسن بن صباح کی مکاری اور دغا بازی سے اسلام کا شفاف چہرہ ضلالت و غوایت اور کذب و فریب سے گدلا پڑ گیا۔

ہم اپنے ان سطور کی تائید کے لیے عصرَ حاضر کے ایک عراقی شیعہ عالم ڈاکٹر موسیٰ موسوی(جو جامع مسجد نجفِ اشرف کے خطیب کے صاحبزادے ہیں) کی ان کی تصریحات کو ان کی کتابُ "الاصلاح الشیعہ" سے نقل کرتے ہیں جنہوں نے شیعہ کے اپنے مذہب سے انحراف ائمہ کی طرف غلط روایات کے منسوب کرنے کے خلاف چیخ چیخ کر واویلا کیا ہے۔

ڈاکٹر موسیٰ موسوی کی تصریحات سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ شیعہ مذہب میں 301 ھجری کے عہدِ انحراف کے بعد جو تبدیلیاں ہوئیں وہ غیر اسلامی افکار کی امیزش کا واضح نمونہ ہیں۔

منصف مزاج شیعہ عالم کی کتاب کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

 ڈاکٹر موسٰی موسوی کی طرف شیعہ مذہب کا تعارف شیعہ عالم دین کا کھلا اعتراف

 شیعہ کے ابتدائی عقائد کے بارے میں شیعہ عالم کی تحریر پر مشتمل مستقل باب:

ائمہ شیعہ عباسی خلفاء کے عہد میں مسلمانوں کے ہاں بڑی عزت و احترام سے بہرہ ور تھے ایسی ہی خلافت کے بارے میں ان کے زیادہ اور اولین حقدار ہونے کا تصور بھی بعض لوگوں میں پایا جاتا تھا سو اگر عام مسلمانوں کی رائے یہ نہ ہوتی کہ اہلِ بیت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں عباسی سیدنا علی الرضاؒ کو اپنا ولی عہد منتخب نہ کرتا یہ الگ بات ہے کہ سیدنا علی الرضاؒ مامون ہی کے زمانے میں وفات پا گئے اور خلافت بنو عباس ہی میں رہ گئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیدنا علیؓ اور ان کے اہلِ بیت کی جماعت کا رجحان جو اس وقت کی اسلامی معاشرے میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا رہا اس کے پرجوش حامی تھے۔

ان تمام مقدمات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تشیع کے افکار ہجرت کے بعد پہلی 3 صدیوں میں موجود تھے اس دور کے شیعی افکار کا خلاصہ درج ذیل چند نکات میں منحصر ہے۔

اولاً: یہ کہ سیدنا علیؓ اوروں کی نسبت خلافت کے زیادہ حقدار تھے لیکن مسلمانوں اور خود سیدنا علیؓ نے خلفائے راشدینؓ کی بیعت کر لی پھر سیدنا عثمانؓ کے بعد مسلمانوں نے سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کر لی سو سیدنا ابوبکرؓ سے لے کر سیدنا علیؓ تک تمام خلفائے راشدینؓ کی خلافت کے شرعاً درست ہونے میں اب کوئی شک و شبہ نہیں۔

ثانیاً: امویوں کے لیے اظہار عداوت جو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے سیدنا علیؓ کے بارے میں موقف حادثہِ کربلا میں سیدنا حسینؓ کے قتل زمام اقتدار خلیفہ اموی سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہاتھ آنے تک تقریباً 50 برس تک اموی خلفاء کے برسرِ ممبر سیدنا علیؓ کو برا بھلا کہنے کی وجہ سے خلیفہ سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ نے سیدنا علیؓ کے خلاف زبان درازی سے منع کر دیا تھا۔

ثالثاً: شرعی احکام اور فقہی مسائل میں اہلِ بیت کو مرجع سمجھنا۔

رابعاً: اہلِ بیت عموماً اور سیدنا حسینؓ کی اولاد میں سے ائمہ کرام خصوصاََ امویوں اور عباسیوں کی نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔

 ابتدا میں یہی چار نقطے شیعہ مذہب کی بنیاد تھے

سن 329 میں امام مہدی کی غیبت کبریٰ کے باقاعدہ اعلان کے بعد شیعی فکر میں چند عجیب و غریب امور وہ آئے جو شیعہ اور تشیع کے درمیان اختلاف کا نقطہ آغاز ثابت ہوئے دوسرے لفظوں میں ان کو عہدِ انحراف کا آغاز بھی کہا جا سکتا ہے۔

فکری انحراف کے بارے میں ان امور میں سے اولین امران آرا کا بہت اچھی چیز ظہور تھا کہ رسول اکرمﷺ کے بعد خلافت سیدنا علیؓ کا حق تھا اور یہ حق نص الٰہی کے ساتھ ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ چند کے علاوہ باقی صحابہ رسول نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ مقرر کر کے اس کی مخالفت کی جا سکے اس زمانے میں چند دیگر آراء کا ظہور ہوا جن کا منشاء تھا کہ تکمیلِ اسلام کے لیے ایمان بالامامت ضروری ہے حتیٰ کہ بعض شیعہ علماء نے تین اصول دین توحید نبوت اور معاد کے ساتھ امامت اور عدل کا اضافہ بھی کر دیا (یہیں سے شیعہ اور مسلمانوں کے اصولِ دین تبدیل ہو گئے از مؤلف) جب کہ بعض دوسرے علماء کا خیال تھا کہ یہ عقیدہ (امامت و عدل)اصولِ دین میں سے نہیں بلکہ اصولِ مذہب میں سے ہے اور کچھ ایسی روایات سامنے آئی جنہیں ائمہ شیعہ سے نقل کیا جاتا ہے اور ان میں خلفائے راشدینؓ اور بعض ازواجِ مطہراتؓ پر طعن و تشنیع ہوتی ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ غیبت کبریٰ کے بعد اچانک اسلامی معاشرے میں جو چند عجیب و غریب آراء شہرت پذیر ہوئی ان کا ہمیں سیدنا علیؓ اور اہلِ بیت کے حواریوں میں کہیں بھی پتہ نہیں چلتا ہے قتلِ سیدنا حسینؓ کے بعد جب اس کا انتقام لینے کے لیے شورشیں ظاہر ہو رہی تھی ایسے ہی ان ادوار میں جب کہ تند و تیز آندھی خلافت امویہ کی کمر توڑ کر خلافتِ عباسیہ کے لیے راہ ہموار کر رہی تھی۔

 تقیہ کا عقیدہ بعد میں گھڑا گیا

ان آراء کی نشر و اشاعت اور انہیں سادہ لوح فرزندانِ شیعہ کی عقلوں میں راسخ کرنے میں شیعہ مذہب کے بعض علماء اور رواۃ نے اپنا کردار ادا کیا اور اس زمانے میں تقیہ کا تصور عام ہوا جو شیعہ کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ جو کچھ دل میں ہو اس کے برعکس ظاہر کریں ان نوپید عقائد کو عام لوگوں میں پھیلنے نیز سخت گیر حکمرانوں کی گرفت سے محفوظ کرنے کے لیے انہیں چھپائے رکھنا ضروری تھا شیعہ روات نے ان عجیب و غریب روایات کو عموماً ائمہ شیعہ اور خصوصا سیدنا باقرؒ اور سیدنا صادقؒ کی طرف منسوب کیا تاکہ ان نامانوس آراء کے لیے دینی بنیاد مہیا ہو جائے اور ان میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کا جواز باقی نہ رہے۔

عصمتِ ائمہ کا عقیدہ بھی خود ساختہ ہے

ان روایات کی صحت ثابت کرنے ان کے مضامین پر غور کیے بغیر جوں کا توں قبول کرانے کے لیے اس زمانے میں ائمہ شیعہ کی عصمت کا نظریہ قائم ہوا تھا کہ ان انوکھی روایات میں سے کچھ کو مزید تقدس مہیا ہو جائے اور وہ ہر قسم کے بحث و جدل اور مناقشہ و اعتراض سے بالاتر قرار پائیں اور اس طرح انہیں ایک اور مضبوط بنیاد مہیا ہو جائے شیعہ مذہب کی ترتیب و تدوین کے ساتھ براہِ راست تعلق رکھنے والے ان نامانوس اور خانہ ساز آراء میں سے ہر ایک کا ذکر ہم نے مستقل فصل میں کیا ہے ان فصول میں ہم ان آراء کا تجزیہ کریں گے اب ہم بحثِ خلافت و امامت کی طرف لوٹتے ہیں تاکہ ان تبدیلیوں کا جائزہ لے سکیں جو شیعہ مذہب کے اور علماء روات نے غیبت کبریٰ کے بعد کی ہیں۔

 شیعہ راویوں کے کذب و افتراء کا اقرار

چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے دوران شیعہ علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں شیعہ راویوں کے واسطے سے آنے والی روایات میں انصاف کے ساتھ مسلسل غور کرنے والا شخص اس نہایت تکلیف دہ نتیجے تک پہنچے گا کہ بعض شیعہ راویوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے جو جدوجہد کی ہے یقیناً وہ آسمان و زمین کے برابر بوجھل ہے۔

 اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کا اقرار شیعہ ہونے کے باوجود

مجھے تو یہ خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کا مقصد ان روایات سے لوگوں کے دلوں میں شیعہ عقائد کا راسخ کرنا نہیں تھا بلکہ ان لوگوں کا مقصد اسلام اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر چیز کو بدنام کرنا تھا اور جب ہم ان روایات پر گہری نظر ڈالتے ہیں جو ان لوگوں نے ائمہ شیعہ سے روایت کی اور ان بحثوں پر جو خلافت کے موضوع پر اور تمام اصحابِ رسولﷺ پر نقطہ چینی پر انہوں نے پھیلائی اور عصرِ رسالت اور اسلامی معاشرے کو جو نبوت کے زیرِ سایہ زندگی بسر کر رہا تھا وہ بالا کرنے کے لیے پھیلائیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ سیدنا علیؓ اور ان کے اہلِ بیت خلافت کے زیادہ حقدار تھے اور یہ کہ وہ عظمتُ شان اور علو مرتبت کے حامل تھے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان راویوں نے اللہ انہیں معاف کرے سیدنا علیؓ اور ان کے اہلِ بیت کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر بدسلوکی کی ہے جو انہوں نے خلفاء اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں روایات بیان کر کے کی ہے اور اس طرح ان کی ہر چیز کو غلط انداز میں پیش کرنے کی ابتداء اہلِ بیت سے ہوئی ہے اس طرح ابتداءِ اہلِ بیت اور بالاخر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعلق کسی بھی چیز کو غلط انداز میں پیش کرنے کا اثر رسولِ اکرمﷺ کی ذات گرامی اور آپﷺ کے عہد مبارک پر جا پڑتا ہے۔

 جب اہلِ بیت کے پردے میں اسلام کی عمارت کو گرایا گیا:

اس مقام پر مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور میں حیرت میں گم ہو جاتا ہوں اور میرے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کیا ان شیعہ راویوں اور محدثین نے اہلِ بیت کی محبت کے پردے میں اسلام کی عمارت گرانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا لی ہے؟ ان روایات سے وہ کیا چاہتے ہیں جو انہوں نے ائمہ شیعہ کی طرف منسوب کی ہیں جبکہ وہ اساطینِ اسلام اور فقہاءِ اہلِ بیت تھے ائمہ کی طرف منسوب ان روایات سے کیا مقصود ہے جبکہ وہ سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیت کی سیرت کے منافی ہیں اور ان میں سے بہت روایات عقل رسا اور فطرت سلیم سے بھی متصادم ہیں۔

اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیعہ رواۃ و محدثین اور ان کے فقہا شیعہ ائمہ شیعہ کے بارے میں بد زبانی اور ان کے نام پر روایات وضع کرنے میں اس وقت وہ آگے نکل گئے جب رسمی طور پر شام کی "غیبت کبریٰ" کا اعلان کر دیا گیا امام مہدی سے ان کا قول منقول ہے:

 "من ادعی رویتی بعد الیوم فکذبوہ"۔ 

 "آج کے بعد جو شخص مجھے دیکھنے کا دعویٰ کرے اسے جھوٹا سمجھو"۔ 

اس طرح وہ تمام راستے بند کر دیئے گئے جس کے ذریعے امام سے رابطہ قائم کیا جا سکتا اور اس کی طرف نیز اس کے آباؤ اجداد میں سے آئمہ کرام کی طرف منسوب روایات کے بارے میں پوچھا جا سکتا تھا اس طرح تشریح اور اسلام دونوں کے بارے میں کسی برے وقت کا انتظار کرنے والوں کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا گیا انہوں نے لا یعنی مباحث پیدا کی اور فضول موشگافیوں میں پڑ گئے پھر ان کے قلموں نے جو کچھ ان کے جی میں آیا لکھا۔

شیعہ راویوں نے مَن گھڑت روایات کو جنم دیا

میں صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے مسئلے کی مزید وضاحت کرتا ہوں اور مسلمہ خلافت سے ابتداء کر دوں گا تا کہ ہمیں پتہ چل سکے کہ شیعہ رواۃ نے صحابہ کرام

رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفاء کے حق میں جو کچھ روایت کیا ہے وہ سیدنا علیؓ اور اہلِ بیت کی سیرت سے واضح طور پر متصادم ہے اس کے بعد ہم اس کا بھی جائزہ لیں گے کہ ان رواۃ اور بعض علماء شیعہ نے اپنی آراء کو زور دار بنانے اور سیدنا علیں اور اہلِ بیت کے صریح اور واضح موقف کو الٹنے کے لیے جو ان کی طرف منسوب روایات کے منافی ہے ان کے بعد کس طرح تحریف کر کے امام موصوف اور اہلِ بیت کے مؤقف کے برعکس کر دیا اور ایسی صورت میں جس کا ظاہر خوبصورت اور باطن گھناؤنا ہے مقصد صرف یہ تھا کہ اپنی آراء کو اپنے حسبِ منشاء ثابت کریں۔

 شیعہ عقائد میں رد و بدل کا اقرار

لیکن کیا اس سب کچھ کا یہ مطلب ہے اور یہی بات خلافت کے متعلقات اور اس مسئلہ کے تمام فروعات میں بنیادی پتھر اور مقطع کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس مسئلے میں کوئی آسمانی حکم موجود ہے جو سیدنا علیؓ کو بطورِ خلیفہ تعین کرتا ہو یا یہ صرف نبی اکرمﷺ کی ذاتی خواہش تھی؟ سیدنا علیؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ اس مسئلے میں کوئی واضح آسمانی نص موجود نہیں ہے ان کے ساتھی اور ان کے معاصرین کا بھی یہی عقیدہ تھا غیبتِ کبریٰ کے ضمانت تک یہ اعتقاد قائم رہا یہی وہ زمانہ ہے جس میں شیعہ کے عقائد میں رد و بدل شروع ہوا اور ان کو بالکل الٹ کر رکھ دیا گیا۔

ہم ایک بار پھر کہتے ہیں کہ ان دو الگ الگ عقیدوں میں بڑا فرق ہے سیدنا علیؓ خلافتِ رسولﷺ کا دوسروں کی نسبت زیادہ حق رکھتے تھے لیکن مسلمانوں نے کسی دوسرے کو منتخب کر لیا خلافت سیدنا علیؓ کا آسمانی حق تھا لیکن ان سے چھین لی گئی۔

آئیے سیدنا علیؓ کی زبانی سنیں پوری وضاحت اور کامل صراحت کے ساتھ مسئلہ پر گفتگو فرماتے ہیں اور خلفاء کے انتخاب کے شرعی ہونے پر مہر تصدیقِ ثبت فرماتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ خلافت کے مسئلے میں نص موجود نہیں ہے فرماتے ہیں:

بلاشبہ جن لوگوں نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی انہی لوگوں نے میری بیعت کی ہے اور اس شرط پر کی ہے جس پر ان کی بیعت کی تھی اس لیے کسی حاضر کو تردد کا اور کسی غائب کو انکار کا حق نہیں ہے اور بلاشبہ مشورہ مہاجرین و انصار کا حق ہے اگر وہ حضرات کسی پر اتفاق کر لیں اور اسے امام بنا دیں تو یہ اللہ کی رضا کی دلیل ہوگی اور اگر کوئی شخص ان پر طعنہ زنی کرے اور نیا راستہ اختیار کرتے ہوئے ان کے احکامات سے روگردانی کرے تو ان کا حق ہے کہ مسلمانوں کا راستہ چھوڑنے کے سبب اس سے جنگ کریں۔

 خلافت کے لیے کوئی نص موجود نہیں ہے

لہٰذا اگر خلافت اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور حکمِ آسمانی کے مطابق بھی ہو تو قطع نظر اس سے کہ کون اس کا والی بنتا ہے ہم مسلمانوں کا عام حق اور آسمانی دستور تھا۔

مسئلہ خلافت میں جو تفصیلات ہم نے بیان کی ہیں اور یہ حقیقت کہ اگر خلافت اللہ کے صریح حکم سے ہوتی تو کوئی بڑی سے بڑی شان والا بھی اس کی خلاف ورزی نہ کر سکتا نہ اس کا انکار یا اس سے تغافل برت سکتا (اگر پیش نظر رہیں تو اختلاف کی گنجائش ہی نہیں رہتی) لیکن ہمارا سامنا علماء شیعہ کے ایک بڑے گروہ سے ہے جس نے اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیا اور اسی لیے انہیں سیدنا علیؓ کی بیعت کی یہ تاویل کرنا پڑی کہ انہوں نے تقیہ کیا یا خوف زدہ ہو گئے یا انہیں ان کی خواہش و عقیدے کے بر خلاف ایک کام پر مجبور کر دیا گیا۔