Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ

  نقیہ کاظمی

سیدنا امیرِ معاویہؓ بن ابی سفیانؓ

 نام: معاویہؓ
 والد کا نام: ابوسفیانؓ بن حرب
 والدہ کا نام: ہندہؓ تھا
ظہورِ اسلام سے قبل سیدنا ابوسفیانؓ کا شمار روسائے عرب میں ہوتا تھا فتح مکہ کے بعد جب نبی کریمﷺ‎ نے عام معافی کا اعلان کیا تو سیدنا ابوسفیانؓ، سیدہ ہندہؓ اور ان کے تمام خاندان نے اسلام قبول کیا ہجرتِ مدینہ سے تقریباً 15 برس پیشتر مکہ میں آپؓ کی پیدائش ہوئی اعلانِ نبوت کے وقت آپؓ کی عمر کوئی چار برس کے قریب تھی جب اسلام لائے تو زندگی کی 25 بہاریں دیکھ چکے تھے۔
فتح مکہ کے بعد نبی اکرمﷺ‎ نے سیدنا ابوسفیانؓ کے گھر کو بیتُ الامن قرار دیا اور ان کے بیٹے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو کاتبِ وحی مقرر کیا اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کا کام بھی آپؓ کے سپرد تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے آپؓ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو سیدنا امیرِ معاویہؓ بھی ان کے ہمراہ تھے عہدِ فاروقی میں دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔ رومیوں کے خلاف جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپؓ کی قیادت میں لڑی گئی، جس میں 80 ہزار رومی قتل ہوئے تھے۔
سیدنا عثمانِ غنیؓ نے آپؓ کو دمشق، اردن اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا۔ آپؓ کا شمار عرب کے چار نامور مدبرین میں ہوتا تھا۔ آپؓ کا دورِ حکومت چوبیس سال پر محیط ہے۔ ان کا دورِ حکومت ایک کامیاب دور تھا، ان کے زمانے میں کوئی علاقہ سطلنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
خلیفہ کا پہلا کام:
مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد سیدنا امیرِ معاویہؓ نے علماء و اشراف کی مدد سے ایک مجلس شوریٰ بنائی۔ پہلی مجلس میں بغاوتوں پر تبادلہ خیال ہوا اور یہ طے پایا کہ سب سے پہلا قدم خارجیوں کے خلاف اٹھایا جائے گا کیوں کہ وہ کھلم کھلا آمادہ بغاوت تھے سیدنا مغیرہ بن شیبہؓ اور اپنے بھائی سیدنا زیاد بن ابی سفیانؓ کی مدد سے آپؓ نے ایک سال کے اندر اندر خارجیوں کا صفایا کر دیا خارجیوں سے لڑائی کے دوران سیدنا امیرِ معاویہؓ نے قاتلینِ سیدنا عثمانؓ کو بھی چن چن کر قتل کیا۔ 41ھ کے آخر میں بلخ، ہراتاور بادغین کی بغاوتیں بھی کچلی گئیں۔ 42ھ میں جب کابل میں بغاوت اٹھی تو سیدنا عبداللہ بن عامر امویؓ کو روانہ کیا گیا جنہوں نے دشمن کا قلع قمع کردیا۔
اوصاف و کمالات:
سیدنا امیرِ معاویہؓ مکارمِ اخلاق کے پیکر تھے اور کیوں نہ ہوتے جب کہ زبانِ رسالت نے ان کو مہدی کے لقب سے یاد فرمایا تھا۔ مشہور تابعی بزرگ سیدنا قتادہؒ فرماتے ہیں کہ لوگ اگر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اخلاق و افعال کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ مہدی یہی ہیں، ہادی یہی ہیں۔ آپؓ کے محاسن و اخلاق پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب نقاد ذکریا نصولی نے لکھا ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ رسول اللہﷺ‎ کے معتمد، بڑے ثقہ، ذکی اور عمدہ اخلاق والے صحابی تھے۔ اسی رتبہ عظیم کی بناء پر وہ اسلام کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے یہ بے غبار حقیقت ہے کہ تاریخِ اسلام میں آپؓ درخشاں شخصیت کے مالک تھے انہوں نے حکومتوں کو ترتیب دی، امتوں کی قیادت اور ملک کی نگہبانی کی ان تمام باتوں کے باوجود مؤرخینِ عرب نے ان کو ان کا صحیح مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔
(سیدنا امیرِ معاویہؓ، صفحہ، 64 از نصولی)
 زہد و تقویٰ:
صاحبِ اعلام الاسلام لکھتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروقؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی ایمانداری اور ان کے زہد و تقویٰ سے واقف تھے۔ اس لیے ان کی بڑی قدر کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے جب کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا ظاہر و باطن دونوں یکساں تھے۔ جیسا کہ سیدنا قصبیہ بن جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ساتھ رہا ہوں، ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا ہوں، ان سے بہتر محبوبِ رفیق کسی کو نہیں پایا اور نہ ظاہر و باطن میں یکساں کسی کو دیکھا۔ 
(موطا امام مالک: صفحہ، 181)
عبادت و ریاضت:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کی عبادت و بندگی کا حال پوچھنا ہو تو سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھو، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی برائی نہ کرو، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ راتوں کو اٹھ کر اللہ کے حضور اپنی پیشانی رگڑتے ہیں۔
(ترمذی، ابواب الزہد)
سیدنا ابو درداءؓ کہ ”میں نے کسی شخص کی نماز حضورﷺ کے مشابہ نہیں دیکھی، سوائے سیدنا امیرِ معاویہ ابنِ سفیانؓ کے۔ 
(قاموس الاصفام: جلد، 2 صفحہ، 142، المتقی: صفحہ، 289، تطہیر الجنان: صفحہ، 42)
 خشیتِ الہٰی اور خوفِ آخرت:
سیدنا امیرِ معاویہؓ خدا کے خوف اور آخرت کے ڈر سے ہر وقت لرزہ براندام رہتے تھے۔ بسا اوقات روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابو ہریرہؓ نے حشر و نشر اور روزِ آخرت کی باز پرس پر ایک حدیث سنائی۔ جس کا اثر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے دل پر ایسا ہوا کہ وہ زار و قطار رونے لگے۔ ہچکیاں بندھ گئیں، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ یہاں تک کہ سامعین بھی رو پڑے اور سب کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ کچھ دیر کے بعد جب سکون ہوا تو سیدنا امیرِ معاویہؓ نے قرآنِ پاک کی آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے: جو شخص دنیا اور اس کے ساز و سامان کو چاہتا ہے تو ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں دے دیتے ہیں اور اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن آخرت میں ان کا حصہ آگ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا اور انہوں نے جو کیا وہ برباد ہوجاتا ہے اور جو کام کیے تھے وہ بیکار ہوجاتے ہیں۔
(ترمذی: ابواب، الزہد)
 قرآن سے شغف:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کو قرآنِ پاک سے گہرا لگاﺅ تھا اور کیوں نہ ہوتا جب کہ عہدِ رسالت میں آپؓ کا زیادہ تر وقت قرآنِ حکیم کی کتابت میں صرف ہوا کرتا تھا اور نبی کریمﷺ دعا فرمایا کرتے تھے کہ خدایا! سیدنا امیرِ معاویہؓ کو قرآن کا علم عطا فرما۔
(البدایہ: جلد، 8 صفحہ، 140)
 یہ دعا بارگاہِ خداوندی میں قبول ہوئی اور سیدنا امیرِ معاویہؓ سے قرآنِ پاک کی کتابت کے لیے جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور حضورﷺ سے عرض کی کہ آپﷺ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی خدمات حاصل کریں کہ وہ قرآن کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ 
(تطہیر الجنان)
 عمل باالحدیث اور اتباعِ سنت:
سیدنا امیرِ معاویہؓ عامل بالحدیث اور پابند سنت تھے اور لوگوں کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ ایک صحابی عبدالرحمٰن بن سبیل کو اس کام پر مقرر فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو حدیث کی تعلیم دیں اور جب میرے پاس آئیں تو وہ حدیث مجھے بھی سنائیں۔
(البدایہ والنہایہ: جلد، 8 صفحہ، 144)
اسی طرح ایک بار سیدنا مغیرہ بن شیبہؓ کو لکھا کہ آپؓ نے نبی کریمﷺ کی زبان سے جو کچھ سنا ہے اس سے مجھے مطلع فرمائیں ،تو انہوں نے لکھا کہ آنحضرتﷺ نے فضول خرچی اور سوال کی کثرت سے منع فرمایا ہے یہ شغف تھا سیدنا امیرِ معاویہؓ کا حدیث کے ساتھ کہ آپؓ دوسروں سے حدیثیں پوچھتے، پھر اس پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی عمل کی تعلیم دیتے ایک بار بعض رؤساء کو دیکھا کہ وہ چیتے کی کھال پر بیٹھے ہیں تو فرمایا کہ حضورﷺ نے چیتے کی کھال پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ 
(بخاری شریف)
 حلم و بردباری:
ہمیں آپؓ کے اعمال و افعال میں حلم و کرم اور بردباری کے اوصاف نہایت ممتاز نظر آتے ہیں۔ آنحضرتﷺ خود فرماتے ہیں۔ معاویة حلم امتی۔ میری امت میں سیدنا امیرِ معاویہؓ بڑی حلیم و کریم ہیں۔ ایک موقع پر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا: سیدنا امیرِ معاویہؓ کی عیب جوئی سے مجھے باز رکھو، وہ ایسا حلیم و بردبار شخص ہے کہ غصے کے عالم میں بھی ہنستا رہتا ہے۔
(ازالة الخفاء: جلد، 2 صفحہ، 75، اعلام الاسلام: صفحہ، 229)
خود سیدنا امیرِ معاویہؓ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک غصہ پی جانے سے کوئی چیز لذیذ نہیں۔ یہ بھی فرماتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ کسی کا گناہ کا میرے وصف حلم سے بڑھ جائے۔
 سخاوت و فیاضی:
لبنان کا مؤرخ ابوعمر النصر لکھتا ہے کہ سخاوت و فیاضی میں آپؓ کا ہم پلہ کوئی نہ تھا۔ آپؓ کے خزانے کے دروازے دشمنوں اور دوستوں دونوں کے لیے یکساں طور پر کھلے رہتے۔ داد و دہش اور انعام و اکرام کے ذریعے آپؓ لوگوں کے دل جیت لیتے اور اس کے ذریعے بغاوتوں کو دور کرنے اور لوگوں کو مملکت کا فرماں بردار بنانے میں مدد لیتے۔ 
(معاویہؓ بن ابی سفیانؓ: صفحہ، 157)
 سادگی و انکساری:
شروع شروع میں سیدنا امیرِ معاویہؓ بڑی شان کے ساتھ رہتے۔ دروازے پر دربان ہوتا۔ زرق لباس پہنتے اور شاندار گھوڑے پر سواری کرتے لیکن یہ سب کچھ عزتِ نفس کے لیے نہ تھا، رومیوں کو مرعوب کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ آپؓ کی بعد کی زندگی، جب آپؓ خلیفہ ہوئے، فقیر کی تمکنت اور امیر کی مسکنت کا نمونہ نظر آتی ہے۔ آپؓ عوام کی جھڑمٹ میں بیٹھتے اور ان کی فریادیں سنتے۔ دسترخواں پر امیر غریب سب یکساں طور پر شامل ہوتے اور آپؓ ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے۔
(النحری: صفحہ، 940، مروج الذہب: جلد، 4 صفحہ، 423)
معمولی خچر پر سواری کرتے اور پھٹا ہوا کپڑا پہنتے، بازاروں میں گھومتے۔ امام اوزاعیؒ کے شیخ امام یونس بن میرہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ خچر پر سوار تھے اور ان کا غلام ان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور اس وقت ان کے جسم پر جو کرتا تھا اس کا گریبان پھٹا ہوا تھا۔
(کتاب الزہد امام ابنِ حنبلؒ)
 فہم و تدبر:
سیدنا امیرِ معاویہؓ گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ اعلیٰ درجہ کے سیاست دان اور بہترین مدبر۔ آپؓ کی ذہانت و فراست کی تعریف خود نبی کریمﷺ‎ نے کی تھی اور سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ تم لوگ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اپنے مشوروں میں شریک کرلیا کرو۔ اپنے معاملوں میں ان کو گواہ بنالیا کرو، وہ قوی امین مضبوط امانت دار ہیں اس کے بعد خود ایک معاملہ پر ان سے مشورہ لیا اور ان کی ذہانت کی تعریف کی۔ 
(ذکر ابنِ حجر وقال رجالہ ثقات مع اختلان فی البعض تاریخ الخلفاء: صفحہ، 228)
 اموی خلافت:
سیدنا عثمانِ غنیؓ کے اندوہناک واقعہ شہادت کے بعد سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت ہوئی تو سیدنا امیرِ معاویہؓ نے جو اس وقت ملک شام کے امیر تھے سیدنا علیؓ سے قاتلانِ عثمان سے قصاص لینے کامطالبہ کیا۔
اسلامی سلطنت کا اتحاد:
سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد اہلِ کوفہ نے سیدنا حسنؓ کی بیعت کر لی لیکن سیدنا حسنؓ امتِ مسلمہ کو خونریزی سے بچانے کے لیے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ آپؓ کے اعلان دست برداری کے بعد 661ء میں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا۔
استحکام سلطنت کے لیے اقدامات:
خوارج کا مقابلہ:
مخالفین بنو امیہ میں سب سے زیادہ منظم اور خطرناک گروہ خوارج کا تھا۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے تخت نشین ہونے کے فوراً بعد 661ء میں ایک خارجی فسردہ بن نوفل نے کوفہ کے قریب علم بغاوت بلند کیا۔ سرکاری افواج بھی ان سے شکست کھاگئیں۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کوفہ میں خوارج کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کو مقرر کیا۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ مسلسل ایک برس تک ان کے خلاف برسرپیکار رہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کی زبردست کوششوں کے نتیجہ کے طور پر خوارج کو دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اور ان کے راہنما مارے گئے۔ کوفہ کے بعد خوارج کا دوسرا مرکز بصرہ تھا۔ بصرہ کے خوارج کی سرکوبی کر کے تمام عراق میں امن و امان قائم کر دیا۔
 بغاوتوں کی روک تھام:
661ء میں بلخ، بخارا، ہرات اور بادغیس کے حکمرانوں نے اموی اقتدار کے خلاف بغاوت کر دی۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے انہیں اطاعت قبول کرنے پر مجبور کردیا۔ 663ء میں کابل کے حکمران نے بغاوت کر دی تو عبدالرحمٰن بن سمرہ اس بغاوت کو فرو کرنے پر مامور ہوئے۔ انہوں نے بخارا سے لے کر غزنہ اور کابل تک کے تمام علاقے کو اموی احاطہ اقتدار میں دوبارہ شامل کر لیا۔
 سندھ پر حملہ:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے زمانہ میں سندھ پر دو طرفہ حملہ کیا گیا۔ ایک مہم مہلب کی کمان میں اور دوسری بلوچستان سے منذر کی زیرِ سرکردگی روانہ کی گئی۔ مہلب کابل، قندھار، فتح کرتا ہوا سرزمین سندھ میں داخل ہوا۔ دوسری طرف منذر مکران کا علاقہ فتح کرتا ہوا قلات کی طرف آگے بڑھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایک مہمات روانہ کی گئیں، جو کامیاب ہو کر واپس لوٹیں۔
 ترکستان کی فتوحات:
اگرچہ عبیداللہ ابنِ زیاد کے زمانہ میں ترکستان کی فتح کے لیے کئی ایک کامیاب مہمات روانہ کی گئی تھیں، لیکن سعید بن عثمان کی ولایت کوفہ کے زمانہ میں ترکستان پر باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔ سعید دریا جیحوں پار کرکے اہلِ سغد کے پایہ تخت تک جا پہنچے۔ ایک لاکھ بیس ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل پڑی۔ بخارا میں دونوں افواج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور ملکہ صلح کرنے پر مجبور ہوئی۔ بخارا پر قبضہ کے بعد اسلامی لشکر نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ اہلِ سمرقند نے کچھ عرصہ تو مزاحمت کی لیکن بالآخر سات لاکھ درہم سالانہ کے وعدہ پر صلح کر لی۔ سمرقند کے بعد ترمذ کا علاقہ بھی فتح کر لیا گیا۔ اس طرح ترکستان کا بیشتر حصہ اموی سلطنت کا جزو بنا۔
 شمالی افریقہ کی فتوحات:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے زمانہ میں ان علاقائی فتوحات میں مزید توسیع کی گئی۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ شمالی افریقا کے گورنر تھے۔ آپؓ نے سیدنا عقبہ بن نافعؓ اور سیدنا معاویہ بن خدیجؓ کو شمالی افریقا کی فتح کے لیے نامزد کیا۔ 661ء میں عقبہ نے شمالی افریقا پر فوج کشی کرکے طرابلس، تونس اور الجزائر کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد بوزانہ اور زناطہ تک اپنے حلقہ اقتدار کو وسیع کیا۔ 663ء میں سوڈان پر لشکر کشی کی گئی اور اس کے کثیر حصہ پر قبضہ کر لیا گیا۔
 قسطنطنیہ پر حملہ:
رومی حملوں کی روک تھام کے لیے سیدنا امیرِ معاویہؓ نے بالآخر بازنطینی حکومت کے دارالحکومت قسطنطنیہ کی تسخیر کا باقاعدہ منصوبہ بنایا۔ آپؓ کے اس منصوبہ کی اطلاع جب مکہ و مدینہ تک پہنچی تو اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس میں شمولیت کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔ اس مہم میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ، سیدنا عبداللہ ابنِ عمرؓ اور سیدنا عبداللہ ابنِ عباسؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ جیسے مقتدر صحابی بھی شریک ہوئے۔ فوج کی کمان سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بیٹے یزید کے ہاتھ میں تھی۔ محاصرہ کے دوران شہر کی بلند فصیل سے مسلمانوں پر آگ کے گولے برسائے گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ حملہ اگرچہ ناکام رہا، لیکن رومیوں پر اس قدر خوف طاری رہا کہ آئندہ کئی برسوں تک انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی جارحانہ کاروائی نہ کی۔ اس محاصرہ کے دوران مشہور صحابی سیدنا ابوایوب انصاریؓ وفات پا گئے۔ مسلمانوں نے آپؓ کو شہر کی فصیل کے نیچے لے جاکر دفن کر دیا۔
جزائر روڈس اور ارواڈ کی فتح:
شامی علاقہ کے تحفظ کے نقطہ نظر سے جزائر روم کی فتح ضروری تھی۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر اس سے پیشتر جزیرہ قبرص فتح کیا جا چکا تھا۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اپنے زمانہ میں ایک قدم مزید آگے بڑھا کر جزیرہ روڈس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد 54ھ میں جزیرہ ارواڈ پر قبضہ ہوا۔
نظامِ حکومت اور انتظامی اصلاحات:
جہاں تک نظم و نسق کا تعلق ہے تو سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اس کی کافی حد تک اصلاح کرکے حکومت کو استحکام بخشا اور فوجی اور دیگر اصلاحات سے ملک کو بیرونی حملوں سے تحفظ دیا۔ ان کے نظام حکومت کا خاکہ درج ذیل ہے:
خلیفہ کے اختیارات میں اضافہ سیدنا امیرِ معاویہؓ
 نے اپنے انیس سالہ دورِ حکومت میں ملک سے بدامنی اور خانہ جنگی دور کر کے ایک مضبوط حکومت قائم کی، جو داخلی انتشار اور خارجی حملوں کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ اس حکومت کی بنیاد خلیفہ کے وسیع اختیارات پر تھی۔ انہوں نے مضبوط مرکزی حکومت قائم کی، جو خدا کے سوا کسی کے سامنے جوابدہ نہ تھی۔ مجلس شوریٰ کا وجود قائم تھا اور اس میں عرب کے معروف مدبّر سیدنا عمرو بن العاصؓ، سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ، سیدنا زیاد بن ابی سفیانؓ اور دیگر اکابرین امور سلطنت میں شامل تھے۔
صوبائی نظام:
ملکی تقسیم اور صوبائی حد بندی کا نظام تقریباً وہی رہا جو سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانہ میں تھا۔ ہر صوبے کے لیے الگ گورنر تھا جسے والی کہتے تھے۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے زمانہ میں صوبوں میں مکمل امن و امان قائم رہا۔
فوجی نظام:
بنو امیہ مکہ کے فوجی قائدین میں سے تھے۔ اس لیے عہدِ سیدنا امیرِ معاویہؓ میں فوج کی تنظیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ اس کا ڈھانچہ عہدِ فاروقی کے خطوط پر قائم رہا۔ فوج کے دو حصے تھے جنہیں گرمائی اور سرمائی علی الترتیب صافیہ اور شاتیہ کہتے تھے۔ فوج کی تنخواہ اور بھرتی کے نظام کی اور زیادہ اصلاح کی گئی۔ غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف ملکی دفاع کے لیے نئی نئی چھاؤنیاں اور شہر آباد کیے گئے۔ دوران جنگ تلواروں، تیروں اور دیگر رائج الوقت اسلحہ کے علاوہ، قلعہ شکن آلات کا عام استعمال ہوتا تھا۔ جس کے ذریعہ بڑے بڑے قلعوں کی فصیلوں میں شگاف کر دیا جاتا تھا۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے فوج کی تنظیم اس طرح کی کہ ڈسپلن اور استعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کی صف اول کی افواج کی ہم پلہ بن گئی۔
بحریہ کی تشکیل:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کا عظیم اور شاندار کارنامہ اسلامی بحریہ کی تشکیل ہے۔ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد آپؓ نے سب سے زیادہ توجہ بحریہ کی ترقی پر صرف کی۔ عہدِ عثمانی میں 500 جنگی بحری جہاز موجود تھے، جن کے ذریعے قبرص کا جزیرہ فتح ہوا تھا۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اس بحری بیڑے کو مزید مستحکم بنایا اور مصر و شام کے ساحلی مقامات پر جہاز سازی کے کارخانے قائم کیے گئے۔ بحری فوج کا سپہ سالار علیحدہ مقرر کیا گیا۔ جسے امیر البحر کہتے تھے۔ اس عہد میں خبادہ بن ابی امیر اور عبداللہ بن قیس اس عہدہ پر فائز رہے۔
 پولیس:
ملک کے اندرونی نظام اور امن و امان کے قیام کے لیے محکمہ پولیس کو باقاعدہ منظم کیا گیا۔ عراق میں بالخصوص پولیس کا بڑا زبردست انتظام تھا۔ شہر کوفہ میں 40 ہزار پولیس کے سپاہی موجود تھے۔ ملک کے اندر ایک سرے سے دوسرے سرے تک مکمل امن و امان تھا۔ مشتبہ لوگوں کے نام رجسٹر میں درج تھے۔
دیوان البرید:
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے خبر رسانی اور ڈاک کی ترسیل کے لیے برید کے نام سے مستقل محکمہ قائم کیا۔ اس کام کے لیے ہر منزل پر تازہ دم گھوڑے ہر وقت موجود رہتے، جو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ڈاک پہنچاتے اور اس طرح حکومت ملکی حالات سے اچھی طرح باخبر رہتی۔
دیوان الخاتم:
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے دیوانِ خاتم کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا، جس کے ذمہ تمام حکومتی محکموں کا ریکارڈ کی نقلیں رکھنا اور خطوط کو سربمہر کرکے متعلقین تک پہنچانا تھا۔
نئے شہروں کی تعمیر:
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے فوجی ضروریات کی بنا پر نئی نئی چھاؤنیاں تعمیر کیں اور برباد شدہ شہروں کو دوبارہ آباد کیا۔ واسط اور قیروان کی چھاؤنیاں بعد میں بڑے بڑے شہروں کی شکل اختیار کر گئیں۔ ارواڈ کے جزیرہ میں مسلمانوں کو آباد کیا اسی طرح انطاکیہ میں ایک مسلم نو آبادی قائم کی۔
 رفاہ عامہ کے کام:
زندگی میں کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جو سیدنا امیرِ معاویہؓ کی اصلاحات سے متاثر نہ ہوا ہو۔ خوشحالی اور زراعت کی ترقی کے لیے آبپاشی کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ مدینہ کے قرب و جوار میں متعدد نہریں کھدوائی گئیں، جن سے اناج اور پھلوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ نہر معقل جو بصرہ میں سیدنا عمرؓ کے زمانہ میں کھودی گئی تھی، کو دوبارہ کھدوا کر آبپاشی کے قابل بنایا گیا۔ نئے شہروں میں لوگوں کے دینی فرائض کی بجا آوری کے لیے مسجدیں تعمیر کی گئیں۔
 غیر مسلموں سے حسن سلوک:
سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانہ میں غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کے لیے کچھ طریقے مقرر کیے گئے تھے، سیدنا امیرِ معاویہؓ نے انہیں بدستور جاری رکھا۔ تمام وعدے جو ان سے کیے جاتے ان کو پورا کیا جاتا۔ ان کی جان و مال عزت و آبرو محفوظ تھی۔ انہیں عبادت اور اجتماع کی آزادی تھی۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکمتِ عملی:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کی شخصیت مجموعہ صفات تھی۔ عربی سوانحی اور تاریخی ادب میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جس میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کی نرمی، ضبط اور تحمل کی صفات کو خراج عقیدت پیش نہ کیا گیا ہو۔ ان کی حکمت عملی کی سب سے نمایاں خصوصیت حلم تھی۔ ان کا یہ وصف تاریخی مسلمات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ بے جا و بے وقت سختی کے قائل نہ تھے۔ مخالفین اور معترضین کی نکتہ چینی کا خندہ پیشانی سے جواب دیتے۔ اس معاملہ میں انہوں نے اپنے طرز عمل کی یوں وضاحت کی ہے:
جہاں میرا کوڑا کام کرتا ہے، وہاں میں تلوار کام میں نہیں لاتا اور جہاں زبان کام دیتی ہے، وہاں کوڑا کام میں نہیں لاتا۔ اگر میرے اور لوگوں کے درمیان بال برابر بھی رشتہ قائم ہو تو میں اس کو نہیں توڑتا۔ جب لوگ اس کو کھینچتے ہیں تو میں ڈھیل دے دیتا ہوں اور جب وہ ڈھیل دیتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں۔
انہوں نے مختلف عرب قبائل مثلاً یمنی اور عدنانیوں میں اس طرح توازن قائم رکھا کہ ان کی قبائلی عصبیتیں دبی رہیں اور انہیں دونوں قبیلوں کا عملی تعاون حاصل رہا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مدبر حکمران اور دوراندیش سیاستدان تھے۔
 سیرت و کردار:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کا شمار اپنے زمانہ کے پانچ بڑے سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے۔ ایک بار انہوں نے خود کہا کہ میں نے بہ نسبت زیاد کی تلوار کے اپنی زبان سے کہیں زیادہ ہمنوا اور حامی پیدا کیے۔ ان میں لوگوں کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ اگرچہ وہ خلفائے راشدینؓ کی خصوصیات کے حامل نہ تھے لیکن وہ ایک اعلی درجہ کے حکمران ضرور تھے۔ تدبر و رائے اور سیاست دانی میں روسائے عرب میں سے کوئی بھی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ فصاحت و بلاغت میں بھی وہ یکتا تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک بہترین خطیب بھی تھے۔ خوردونوش، رہائش، لباس اور عادات و اطوار میں شاہانہ طرز زندگی گزارتے تھے۔ درباریوں، شاعروں، دوستوں اور حاجت مندوں خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو خسروانہ عنایات سے نوازتے۔ رعایا کے کمزور سے کمزور اور غریب سے غریب آدمی کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کی شکایات سنتے اور وہیں ان کی تکالیف کا ازالہ کا حکم صادر فرماتے۔ اہل دربار پر بھی یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ لوگ جو ان تک نہیں پہنچ سکتے ان کی ضروریات کو امیر تک پہنچانا ان کا ذمہ ہے۔
ایک فوجی ماہر کی حیثیت سے ان کا مقام بہت بلند تھا۔ رومیوں کے خلاف کامیاب فتوحات ان کی اس صفت کی شاہد ہیں۔ سب سے بڑھ کر جو چیز ان کو ہمعصر حکمرانوں سے ممتاز اور نمایاں کرتی ہے وہ ان کی سیاست دانی، معاملہ فہمی اور تدبر ہے۔ آپ کی سیاست ہمیشہ کامیاب رہی ان ہی اوصاف اور کارہائے نمایاں کی بدولت انہوں نے ایک مضبوط اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔
 یزید کی جانشینی:
سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ نے 50ھ میں پہلی بار سیدنا امیرِ معاویہؓ کے سامنے یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ: سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں میں جو اختلاف اور خونریزی قائم ہوئی ہے وہ آپؓ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس لیے میری رائے میں یزید کی ولی عہدی کی بیعت لے کر اسے جانشین بنا دینا چاہیئے، تاکہ جب آپؓ کا وقت آخر آئے تو مسلمانوں کے لیے ایک سہارا اور جانشین موجود ہو اور ان میں خونریزی اور فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کی نمایاں خصوصیات:
سیدنا امیرِ معاویہؓ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتبِ وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپؓ کے لیے حضورﷺ‎ کی زبان سے کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں۔ آپؓ کی بہن سیدہ ام حبیبہؓ کو حضورﷺ‎ کی زوجہ محترمہ اور ام المومنینؓ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
آپؓ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی۔ تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپؓ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورﷺ‎ سے مل جاتا ہے۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں حضورﷺ‎ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اس طرح اٹھائیں گے کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی''کنزالاعمال'' ایک موقع پر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں حضورﷺ‎ نے فرمایا اے اللہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔ 
(جامع ترمذی)
حضورﷺ‎ نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ امیرِ معاویہؓ بن ابی سفیانؓ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔
(تطہیر الجنان)
سیدنا امیرِ معاویہؓ سروقد، لحیم وشحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت، مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورﷺ‎ نے انہیں مبارک باد دی اور ''مرحبا فرمایا۔
(البدایہ و النہایہ)
حضورﷺ‎ چونکہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لیے انہیں خا ص قرب سے نوازا۔ فتح مکہ کے بعد آپؓ حضورﷺ‎ کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورﷺ‎ کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآنِ مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ''کتابت وحی'' ہے حضورﷺ‎ نے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ '' کاتبِ وحی'' تھے ان میں سیدنا امیرِ معاویہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ حضورﷺ‎ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو کا تب وحی بنایا تھا اورآپﷺ‎ اسی کو کاتبِ وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا۔
(ازالۃ الخفاء از شاہ ولی اللہ)
سیدنا امیرِ معاویہؓ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابتِ وحی کے ساتھ ساتھ حضورﷺ‎ کے خطوط تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
علامہ اکبر نجیب آبادی ''تاریخ اسلام'' میں رقمطراز ہیں کہ حضورﷺ‎ نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضورﷺ‎ کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں آپؓ نے مانعین زکوٰة، منکرین ختمِ نبوت، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیے۔
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں سیدنا امیرِ معاویہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے۔ جنگِ یرموک میں آپؓ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے، غرضیکہ آپؓ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا عثمانِ غنیؓ کے دورِ خلافت میں سیدنا امیرِ معاویہؓ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے اور آپؓ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردیے۔ 28ھ میں آپؓ پوری شان و شوکت، تیاری و طاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے، لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لی۔ لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر سیدنا امیرِ معاویہؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ، جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔ اس لشکر کے امیر و قائد خود سیدنا امیرِ معاویہؓ تھے آپؓ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ، سیدنا ابو ذر غفاریؓ، سیدنا ابو درداءؓ، سیدنا عبادہ بن صامتؓ اور سیدنا شداد بن اوسؓ سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔ اس لڑائی میں رومیوں نے بھی بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین دنیا کے گوشہ گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا ابنِ عمرؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ، سیدنا حسین بن علیؓ اور میزبان رسولﷺ‎ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لا کر اس لشکر میں شریک ہوئے۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا دورِ حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے۔ آپؓ نے خلفائے راشدینؓ کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس میں مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔
  1. سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
  2. سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
  3.  آب پاشی اور آب نوشی کے لیے دور اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔
  4.  ڈاکخانہ کی تنظیم نوکی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
  5.  حکومتی احکام پر مہر لگانے اور ہر حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
  6.  آپؓ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے، آپؓ نے پرانے غلافوں کو اتار کر ہر بار نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
  7.  خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
  8.  انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
  9.  آپؓ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
  10.  آپؓ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے۔
  11.  سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر ان میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
  12.  سیدنا امیرِ معاویہؓ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص، علم وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہٰی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ 
سیدنا امیرِ معاویہؓ کا عہدِ خلافت اور اجماعِ امت:
ربیع الاول 41ھ، نہر دجیل کے کنارے واقع موضع مسکن میں سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
تاریخ ابنِ کثیرؒ میں ہے:
سیدنا علیؓ کا وقت رحلت قریب تھا تو آپؓ نے سیدنا حسنؓ کو وصیت کی: بیٹا سیدنا امیرِ معاویہؓ کی امارت قبول کرنے سے انکار نہ کرنا، ورنہ باہم کشت و خونریزی دیکھو گے۔
(تاریخ ابنِ کثیر: جلد، 8 صفحہ، 13، ازالة الخلفاء: صفحہ، 283، ابن الحدید شیعی: جلد، 2 صفحہ، 836)
چنانچہ سیدنا حسنؓ نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کیا۔ جب شیعانِ علی نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے لڑنے کے لیے زور دیا تو سیدنا حسنؓ نے ان سے فرمایا: میرے والد مجھ سے فرما چکے ہیں، سیدنا امیرِ معاویہؓ ایک دن خلیفہ ہو کر رہیں گے۔ خواہ ہم کتنی ہی بڑی فوج لے کر ان کے مقابلے میں نکلیں پر یہ غالب رہیں گے کیوں کہ منشاءِ خداوندی کو ٹالا نہیں جا سکتا۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ جنتی ہے:
نبی اکرمﷺ‎ نے فرمایاکہ میری قوم کا وہ طبقہ جو بحری جہاد میں حصہ لے گا اللہ اس کو جنت میں جگہ دےگا۔ اور اس امت میں سب سے پہلے بحری جہاد سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کیا ہے۔ بحری بیڑے بنا کر انہوں نے دریاؤں کے اوپر سفر کیا ہے اور نبی پاکﷺ‎ کی خاطر جہاد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی پاکﷺ‎ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابیاتؓ کی قدر کرنی کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 کونڈوں کی لعنت سے بچیں:
بس ایک مسئلہ آخر میں سمجھ لیں۔ یہ 22 رجب کو سیدنا امیرِ معاویہؓ کی وفات کا دن ہے۔ آپؓ کے علم میں ہے کہ 22 رجب کو ہمارے ہاں لوگ کونڈے پکاتے ہیں۔ سنا ہےنا؟ کونڈے یہ کونڈے پتا ہے کس وجہ سے ہے؟ عام طور پہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم کونڈے سیدنا جعفر صادقؒ کی پیدائش کی خوشی میں پکاتے ہیں یہ بالکل جھوٹ ہے۔ سیدنا جعفر صادقؒ پیدا ہوئے ہیں رمضان میں اور فوت ہوئے ہیں شوال میں۔ سیدنا جعفر صادقؒ کانہ یہ یوم وفات ہے اور نہ یوم پیدائش ہے۔ اصل میں بات یہ تھی کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ سے روافض بغض رکھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ 22 رجب کو سیدنا امیرِ معاویہؓ فوت ہوئے اور رافضیوں نے چھپ چھپ کے کونڈے بنائے رات کو خوشی منائی۔ خوشی وہ مناتے تھے اور کونڈے پکا کے لوگوں کو کھلاتے تھے۔
 کونڈے کھانا حرام ہے:
ہمارے سنی سادے لوگ ہیں انہوں نے بھی دیکھا دیکھی شروع کر دیا۔ اور جب ان سے پوچھاجائے کہ یہ کونڈے کیوں ہیں؟ کہتے جی سیدنا جعفر صادقؒ کے ہیں۔ بھائی سیدنا جعفر صادقؒ کی نہ پیدائش ہے نہ وفات ہے۔ 22 رجب کواس لیے میری ماؤوں بہنوں سے گزارش ہے کہ 22 رجب کے کونڈے خدا کیلئے نہ پکائیں اگر کوئی آپ کے گھر بھیجے اس کو کتے کے آگے پھینک دیں۔ لیکن خود کبھی نہ کھانا اس کو باہر پھینک دینا۔ جانوروں کو یہ چیزیں کھلانا خود نہ کھانا۔ یہ حرام کا کھانا ہے جو صحابی رسول کی موت کی خوشی میں پکایا جاتا ہے۔
کونڈے کھانا بھی حرام کھلانا بھی حرام:
آپ ایمان سے دیکھو اگر میرے اور آپ کے باپ کے مرنے پر کوئی خوشی کرے ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ اور جو اللہ کے نبی کے صحابی حضورﷺ‎ کے ہم زلف، حضورﷺ‎ کے سالے، کی وفات پہ خوشی کرے ہمیں کیسے اچھا لگ سکتا ہے۔ اس لیے مسئلہ خود بھی سمجھیں اور آگے عورتوں کو سمجھائیں کہ 22 رجب کے کونڈے یہ گناہ ہے۔ پکانا بھی جائز نہیں ہے حرام ہے ،کھلانا بھی جائز نہیں ہےحرام ہے اسے بالکل نہ کھائیں۔ اللہ ہم سب کوشریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وفات:
22 رجب المرجب 60ھ میں کاتبِ وحی، جلیل القدر صحابی رسولﷺ‎، فاتح شام و قبرص اور 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے سیدنا امیرِ معاویہؓ 78 سال کی عمر میں دمشق میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ آپؓ نے تجہیز و تکفین کے بارے میں وصیت کی کہ رسول اللہﷺ‎ کے کرتہ مبارک کا کفن پہنایا جائے اور آپﷺ‎ کے ناخن مبارک اور موئے مبارک کو منہ اور آنکھوں پر رکھ دیا جائے۔