محدثین کا حکم
مولانا اللہ یار خانؒمحدثین کا حکم
محدثین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تین دن کی قید جو حدیث بسرہ جہنی میں موجود ہے اس کا تعلق نکاح سے نہیں بلکہ اقامتِ مہاجرین سے ہے چونکہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے مکہ سے ہجرت کی تھی ان پر مکہ میں تین دن سے زائد قیام حرام تھا۔ لہٰذا تین دن کی قید اقامت کے متعلق ہے نہ متعہ یعنی نکاح وقتی ہے۔
عینی شرح بخاری: صفحہ 65 جلد 17:
وكانت الاقامة بمكة حراما على الذين هاجروا منها إلى رسول اللهﷺ قبل الفتح ثم ابیح لهم اذا دخلوها بحج او عمرة ان يقيموا بعد نسكهم ثلاثة ايام ولا يزيدوا عليها ان قال قال العياض هذا قول الجمهور۔
جن مہاجرین نے فتح مکہ سے پہلے مدینہ طیبہ کی طرف مکہ سے ہجرت کی تھی ان پر مکہ میں اقامت حرام تھی بعد کو مباح ہوئی اور وہ صرف تین دن کے لئے جب حج یا عمرہ کی وجہ سے مکہ میں داخل ہوں مکہ میں تو بعد پورا کرنے احکامِ حج کے اور تین دن سے زائد نہ رہ سکتے تھے اور قاضی عیاض نے فرمایا کہ یہی قول ہے جمہور کا۔
فیض الباری شرح بخاری: صفحہ 282 جلد 4:
وقدمو منى ان هذا الزيادة عندى ليست لكون المتعة رخصة لهم فی تلك المدة كما فهموه بل لان المهاجرين لم تكن له رخصة في الاقامة بمكة الا بهذا القدر فتلك الزيادة ناظرة الى الحديث لا لما فهموه وحئيتذ ياتی الحديث على ما اخترت فی المتعة ويختار الرجل بعدها بين ان يطلقها و بين ان يذهب بها الى المدينة۔
اور علامہ انور شاہ دیوبندی استاذ الکل نے فیض الباری میں فرمایا کہ اول گذر چکا ہے کہ میرے نزدیک تین دن کی زیادتی جو حدیث میں موجود ہے یہ متعہ کی رخصت کے لئے نہیں جیسا سمجھا ہے انہوں نے چونکہ مہاجر کو مکہ میں صرف تین دن کی اقامت کی اجازت تھی۔ نہ جیسا انہوں نے سمجھا اور حدیث آجاتی اس پر جو چیز میں نے اختیار کی ہے متعہ میں ان تین کے بعد جب اقامت کی معیاد ہوئی تو مہاجرین کو اجازت تھی کہ ان عورتوں کو طلاق دیں یا ساتھ مدینہ منورہ لے جائیں۔
فائدہ: بعض محدثین کے کلام سے پتہ چلا کہ حدیث "ثم رخص لنا رسول اللهﷺ ثلاثة ايام" یہ تین دن کی رخصت قیامِ مکہ کے لئے تھی نہ نکاح کے لئے نکاح تو دائمی تھا بعد تین دن کے مہاجرین کو اجازت تھی کہ ان عورتوں کو طلاق دے دیں یا ہمراہ لے جائیں معلوم ہو کہ ثلاثة ایام تین دن کی قید کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ جنہوں نے اس قید کو نکاح کی قید سمجھا، انہوں نے نکاحِ مؤقت فرما دیا کہ رسول اللہﷺ نے نکاحِ مؤقت کی اجازت صرف تین دن کے لئے عنایت فرمائی تھی بعد کو حرام فرمایا قیامت تک اور جنہوں نے اقامت مہاجرین کی قید سمجھی انہوں نے نکاحِ دائمی کا حکم دیا بعد تین دن کے مہاجر کو اجازت دی گئی کہ وہ طلاق اور ہمراہ لے جانے میں مختار ہے تو اس مذہب کے مطابق تو نکاحِ مؤقت کا ثبوت بھی محال ہے۔ باقی تنازعہ سیدنا علی المرتضیٰؓ و سیدنا ابنِ عباسؓ کا سیدنا علیؓ فرماتے تھے کہ متعہ خیبر کے دن حرام ہوگیا تھا اور حضرت علی المرتضیٰؓ کو اباحت نکاحِ مؤقت یومِ فتح مکہ کا علم نہ تھا اور سیدنا ابنِ عباسؓ کو حرمت نکاحِ مؤقت کا علم نہ تھا اور نکاحِ مؤقت بھی متعہ کے افراد سے ایک فرد تھا متعہ کی اقسام سے ایک قسم تھا۔ اس واسطے سیدنا ابنِ عباسؓ اس کو متعہ سے تعبیر فرماتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اس کو متعہ کی قسم سمجھ کراس پر متعہ کا حکم لگاتے تھے۔ مگر حضرت ابنِ عباسؓ اس نکاحِ مؤقت کو بھی مثل گوشت خنزیر و مردار و دمِ مسفوح کے سمجھتے تھے اسی وجہ سے متعہ کو گوشت خنزیر و مردار سے تشبیہ دیتے تھے جیسا گذر بھی ہے چکا ہے اور پھر آ بھی جائے گا۔
تو اب انصاف یہ ہے کہ جو شخص متعہ کی اباحت کا آج بھی اعلان کرتا ہے وہ اباحت گوشت خنزیر و مردار و دم مسفوح کا بھی اعلان کیا کرے نیز سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ جس طرح متعہ یعنی نکاحِ مؤقت کی اباحت کے قائل تھے اسی طرح گوشت گدھا کی اباحت کے بھی قائل تھے پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان کا ایک قول تسلیم کیا جائے۔ اور دوسرے کو ترک کیا جائے حالانکہ گوشت گدھا کی اباحت کا قول کتابِ استبصار میں بھی موجود ہے مگر اس کا اعلان نہیں کیا جاتا۔
و المحكمة فہ جمع على باين النهی عن الحمر والمتعة ان ابن عباسؓ كان يرخص فی الامرين معا وسيأتی النقل عنه فی الرخصة فی الحمر الأهلية فی اوائل كتاب الاطعمة فرد عليه علىؓ فی الامرين معاء۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے متعہ اور گوشت گدھا کی حرمت کو جمع کر کے کیونکر بیان کیا؟ اس کی حکمت یہ ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ان دونوں کی اباحت کی رخصت دیا کرتے تھے جیسا عنقریب کتاب الاطعمۃ میں سیدنا ابنِ عباسؓ سے رخصت گدھا کے گوشت اور متعہ کی آ جائے گی پس سیدنا علی المرتضیٰؓ ان دونوں کو رد فرماتے تھے جمع کر کے۔
باقی رہا کہ مہر قلیل تھا ثوب وغیرہ جیسا مذکر ہو چکا ہے تو جواب یہ ہے کہ وقتِ قلیل کے لئے نکاحِ مؤقت تھا لہٰذا مہر قلیل مقرر ہوا۔ ایک کپڑا وغیرہ یہ حقیقتاً مہر تھا گو مہر قلیل ہے مگر نکاحِ مؤقت بھی وقتِ قلیل کے لئے تھا۔