Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اولاد

  علی محمد الصلابی

اولاد

آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
1: عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما:
آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے تھے۔ حدیبیہ کے دن مشرف بہ اسلام ہوئے اور پھر اسلام پر ڈٹ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے شرف سے سرفراز ہوئے۔ شجاعت و بہادری میں بہت مشہور تھے۔ اسلام لانے کے بعد قابل تعریف مؤقف رہا۔ (فتنہ ارتداد کا قلع قمع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یزید کی ولی عہدی کی بیعت کے سال مکہ جاتے ہوئے راستہ میں اچانک انتقال ہو گیا اور مکہ میں مدفون ہوئے۔)
(الاصابۃ: جلد، 4 صفحہ، 274، البدایۃ والنہایۃ: جلد، 6 صفحہ، 346)
3: عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما:
ہجرت کے موقع پر ان کا اہم کردار تھا، دن بھر مکہ میں گذارتے اور مکہ والوں کی خبریں جمع کرتے اور پھر رات کے وقت چپکے سے غار میں پہنچ کر یہ خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سناتے اور جب صبح ہونے لگتی تو مکہ واپس آجاتے۔ طائف کی جنگ میں آپ کو تیر لگا جس کا زخم ٹھیک نہ ہوا، آخرکار اسی سبب سے خلافت صدیقی (شوال 11 ہجری) میں شہادت کی موت نصیب ہوئی۔
(نسبِ قریش: 275، الاصابۃ: جلد، 4 صفحہ، 24)
3: محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما:
یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ کی میقات ’’ذوالحلیفہ‘‘ میں ان کی ولادت ہوئی۔ نوجوانان قریش میں سے تھے۔ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کی گود میں ان کی پرورش ہوئی اور انہوں نے اپنے دور خلافت میں آپ کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا تھا اور وہیں قتل ہوئے۔
(نسب قریش: 277، الاستیعاب: جلد، 3 صفحہ، 1366) (فقہائے سبعہ میں سے قاسم بن محمد آپ ہی کے صاحبزادے تھے۔)
4: اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما:
یہ ’’ذات النطاقین‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ’’ذات النطاقین‘‘ کے لقب سے نوازا تھا کیونکہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد کے لیے توشہ تیار کیا اور پھر اس کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو اپنی کمر بند کو پھاڑ کر توشہ باندھ دیا۔ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے ان کی شادی ہوئی اور بحالت حمل مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں ان کے بطن سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی جو ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے سب سے پہلے بچے تھے۔ اسماء رضی اللہ عنہا کو سو (100) سال کی عمر ملی، لیکن نہ عقل میں کوئی تغیر آیا اور نہ کوئی دانت گرا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپن (56) احادیث روایت کی ہیں۔ آپ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، آپ کے بیٹے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ، عروہ بن زبیر رحمہ اللہ اور عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں۔ آپ بڑی جودو سخا کی مالک تھیں، مکہ میں 73 ہجری میں انتقال ہوا۔
(سیر اعلام النبلاء: جلد، 2 صفحہ، 287)
5: ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:
آپ صدیقہ بنت صدیق ہیں۔ آپ کی عمر جب چھ سال تھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور نو سال کی عمر میں شوال کے مہینہ میں آپ کی رخصتی ہوئی۔ خواتین میں سب سے بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ’’ام عبداللہ‘‘ کی کنیت عطا فرمائی، آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مثالی محبت تھی۔
(تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: 34)
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسروق رحمہ اللہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب حدیث روایت کرتے تو فرماتے: حدثتنی الصدیقۃ بنت الصدیق المبرأۃ حبیبۃ حبیب اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ’’مجھ سے صدیقہ بنت صدیق، اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبہ نے حدیث بیان کی جن کی براء ت اللہ نے نازل فرمائی۔‘‘
آپ کی مرویات کی تعداد دو ہزار دو سو دس (2210) ہے۔ بخاری ومسلم کی متفق علیہ روایات ایک سو چوہتر(174) ہیں، صرف بخاری میں چون (۵۴) اور صرف مسلم میں انہتر (69) احادیث مروی ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: جلد، 2 صفحہ، 139، 145)
آپ کی عمر تریسٹھ سال کچھ ماہ تھی، آپ کی وفات 57 ہجری میں ہوئی، آپ سے کوئی اولاد نہیں۔
(طبقات ابنِ سعد: جلد، 5 صفحہ، 58 المنذر: 5/4)
6: ام کلثوم بنتِ ابی بکر:
یہ حبیبہ بنت خارجہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھیں۔ وفات کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: یہ تمہارے دونوں بھائی اور دونوں بہنیں ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: یہ میری بہن اسماء ہیں، ان کو تو میں جانتی ہوں لیکن میری دوسری بہن کون ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو بنت خارجہ کے بطن میں ہے۔ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ لڑکی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، آپ کی وفات کے بعد ولادت ہوئی۔
(الطبقات: جلد، 2 صفحہ، 195)
ام کلثوم کی شادی طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ شہادت کے بعد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ام کلثوم کو اپنے ساتھ لے کر حج کیا۔
(نسب قریش: 278، الاصابۃ: جلد، 8 صفحہ، 466 تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: 35)
یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مبارک خاندان ہے، جس کو اللہ نے اسلام سے مشرف کیا اور صحابہ کے درمیان یہ خصوصیت صرف آپ کو ہی حاصل ہے۔ علماء نے اس کی صراحت کی ہے کہ آپ کے علاوہ صحابہ میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی مسلسل چار پشتیں صحابیت سے مشرف ہوں۔ یہ شرف صرف آل ابوبکر کو حاصل ہے، وہ اس طرح کہ عبداللہ بن زبیر اور ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہم یہ سب کے سب صحابی ہیں۔ نیز محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہم سب کے سب صحابیت سے مشرف ہیں۔
(ابوبکر الصدیق: محمد رشید رضا، 7)
صحابہؓ میں کوئی ایسا نہیں جس کے والدین و اولاد اور اولاد کی اولاد اسلام قبول کیے ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مشرف ہوئے ہوں، یہ شرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے خاص ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں طرف سے آپ کو یہ شرف حاصل ہے جیسا کہ بیان ہوا۔ سب کے سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ یہ ہے صدیق کا گھرانہ، سب کے سب ایمان والے، ان میں کوئی منافق نہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے علاوہ صحابہ کے کسی گھرانے میں یہ چیز نہیں پائی گئی۔
یہ بات معروف تھی کہ ایمان کے گھرانے ہوتے ہیں، اور نفاق کے گھرانے ہوتے ہیں۔ مہاجرین میں ایمان کے گھرانے میں سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا گھرانہ تھا اور انصار میں ایمان کے گھرانے میں سے بنو نجار کا گھرانہ تھا۔(ابوبکر الصدیق: جلد، 1 صفحہ، 280 محمد مال اللہ، از افادات، منہاج السنۃ لابن تیمیہ رحمہ اللہ)