Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بتیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بتیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بتیسویں دلیل یہ آیت ہے :

﴿یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ﴾ (التحریم:۸)

’’ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ۔‘‘

ابو نعیم نے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جو شخص سب سے پہلے جنتی لباس پہنے گا وہ حضرت ابراہیم ہیں کیونکہ آپ خلیل ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے کہ آپ اللہکے برگزیدہ ہیں ؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے درمیان جنت کی سیر کریں گے۔‘‘ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت تلاوت کی : ﴿یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ﴾ اور فرمایا : اس سے مراد علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ہیں ۔یہ دلیل ہے کہ آپ دوسروں سے افضل ہیں ؛ لہٰذا آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا]

[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے ہے : 

٭ پہلی بات:....ہم اس روایت کی صحت ِ نقل کا مطالبہ کرتے ہیں خصوصاً ایسی روایت کے لیے کہ جس کی کوئی اصل ہی نہیں ۔

٭ دوسری بات : یہ روایت باتفاق محدثین و علمائے کرام رحمہم اللہ جھوٹ ہے ۔

٭ تیسری بات: یہ دعوی قطعی طور پر باطل ہے ۔ اس لیے کہ اس کا تقاضا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہوں ۔ اس لیے کہ آپ وسط ہیں ؛ اور دونوں نبی دونوں جوانب ہیں ۔مخلوق میں سے افضل ہستی ابراہیم علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ جو کوئی ان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فضیلت دے ؛ وہ یہود و نصاریٰ سے بڑا کافر ہے ۔

٭ چوتھی بات : صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ بروز ِقیامت سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام لباس پہنیں گے۔‘‘[صحیح بخاری:۴؍۱۳۹؛کتاب الانبیاء؛ باب قول اللّٰہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلاً؛ مسلم ۴؍۲۱۹۴؛ کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمہا و أہلہا و باب فناء الدنیا و بیان الحشر یوم القیامۃ ؛ سنن الترمذي کتاب التفسیر۔]

اس روایت میں کہیں پر بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر تک بھی نہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہننے میں تقدیم حاصل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مطلق طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں ۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے۔ اور میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا تو میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں ۔ تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ جائیں گے یا آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے مستثنی رکھا تھا۔‘‘ [صحیح بخاری:۹؍۱۳۹ح۶۳۳؛ کتاب التوحید ؛ باب في المشئیۃ و الإرادۃ ۔]

پس پہلے ہوش میں آنے کی وجہ سے یا پھر مطلق طور پر بیہوش نہ ہونے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ موسیٰ علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں ۔

لیکن اگر تفضیل اس اعتبار سے ہو کہ مفضول کو نیچا دیکھا جائے اور اس کے حق میں کمی کی جائے تو ایسی تفضیل ممنوع ہے ۔جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت دینے کی ممانعت آئی ہے۔ ایک آدمی نے آپ سے کہا تھا: (یا خیر البرِیۃِ) اے روئے زمین کے سب سے بہترین انسان! تو آپ نے فرمایا :’’وہ توحضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔

آپ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

((أنا سیِد ولدِ آدم ولا فخر، آدم فمن دونہ تحت لِوائِي یوم القِیامۃِ ولا فخر۔))[سنن الترمذي ؛ کتاب تفسیر القرآن ؛ تفسیر سورۃ إسراء؛ کتاب المناقب باب ما جاء في فضل النبي رضی اللہ عنہم ؛ سنن ابن ماجۃ کتاب الزہد ؛ باب ذکر الشفاعۃ ؛ ۲؍۱۴۴۰۔]

’’میں اولاد آدم کا سردار ہوں ؛ اس میں فخر والی کوئی بات نہیں ۔ حضرت آدم اور ان کے بعد کے لوگ بروز قیامت میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے؛ اس میں کوئی فخر والی بات نہیں ۔‘‘

یہی بات تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفضیل کے بارے میں ہے۔ان میں سے کسی ایک کے مقام و مرتبہ میں کوئی کمی نہ کی جائے؛ اور نہ ہی کسی کو اس کے مقام و مرتبہ سے گرایا جائے۔ یا انہیں کے بارے میں اپنی خواہشات نفس یا جھوٹی باتوں کی پیروی کی جائے۔ جیسا کہ روافض اور نواصب کرتے ہیں جوکہ بعض صحابہ کرام کے حقوق میں بہت کوتاہی اور کمی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔

٭ پانچویں بات : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ بِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا اِِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ [التحریم۸]

’’ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرمااور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :

﴿یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ بُشْرٰکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ [الحدید۱۲]

’’جس دن آپ دیکھیں گے کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا نور انکے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگاآج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے۔ یہ ہے بڑی کامیابی ۔‘‘

یہ نص ان تمام مؤمنین کے بارے میں عام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے۔ سیاق کلام اس کے عموم پر دلالت کرتا ہے۔ اور اس بارے میں مروی آثار بھی اس کے عموم پر دلالت کرتے ہیں ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

’’ ہر مؤمن کو قیامت کے دن نور دیا جائے گا۔منافق کا نور بروز ِ قیامت بجھا دیا جائے گا۔ جب مؤمنین منافقین کا نور بجھتے ہوئے دیکھیں گے تو انہیں اپنے بارے میں ڈر محسوس ہوگا تووہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے :’’ یا اللہ ! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے۔‘‘

اس روایت میں عموم قطعی اور یقینی ہے۔اس لیے کہ اس سے کوئی ایک شخص مراد نہیں ہے۔ تو پھر یہ کہنا کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔اگر کوئی کہنے والا یوں کہے کہ : ’’ ہر وہ بات جسے شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے فضیلت قرار دیتے ہیں ‘ اس سے مراد ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم ہیں ؛ تو پھر ان دونوں گروہوں کے درمیان محض دعوی اور جھوٹ کے علاوہ کون سافرق ہوگا ؟

بلکہ ایسا ممکن ہے کہ جو لوگ اسے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لیے خاص کرتے ہیں ‘ ان کا شبہ رافضیوں کے شبہ سے بڑھ کر ہو جو اس کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس آیت میں ایسے ہی داخل ہوں گے جیسے پہلے تین اصحاب ۔ بلکہ وہ تینوں اس آیت کے مصداق ہونے کے زیادہ حق دار ہیں ۔ تو پھر اس آیت سے نہ ہی افضلیت ثابت ہوئی اور نہ ہی امامت ۔