Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بخاری کی حدیث میں ہے کہ میں نے تیس(30)اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی حالت میں پایا ہے کہ تمام کے تمام اس سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں ہم منافق نہ ہوں۔

  مولانا محمد حسین میمن

اعتراض
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 37 پر اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک روایت ذکر کرتا ہے کہ :
’’ادرکت ثلثین من أصحاب النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کلھم یخاف النفاق علی نفسہ‘‘( بخاری: جلد، 1 صفحہ، 79)
ترجمہ:’’کہ میں نے تیس (30)اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی حالت میں پایا ہے کہ تمام کے تمام اس سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں ہم منافق نہ ہوں۔
جواب: یہاں مصنف نے انتہائی درجہ کی علمی خیانت کی ہے اور اس نے ترجمہ کو اتنے غلط انداز میں بیان کیاہے کہ بات کہیں سے کہیں چلی گئی اس کی اصل وجہ مصنف کی عربی سے ناواقفیت ہے۔ صحیح ترجمہ میں ذیل میں بیان کر دیتا ہوں :
’’میں نے تیس صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا کہ وہ اپنے آپ میں نفاق سے ڈرتے تھے ۔‘‘
یعنی ان کو اپنے ایمان کی حفاظت کا ڈر تھا اور منافقت سے بیزاری تھی یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ جماعت ہر وقت اپنے ایمان کا جائزہ لیتی تھی اگر اپنے آپ کو منافقت سے ڈرانا غلط ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کس آیت میں ہے۔ بلکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے :
وَالَّذِيۡنَ يُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوۡبُهُمۡ وَجِلَةٌ اَنَّهُمۡ اِلٰى رَبِّهِمۡ رٰجِعُوۡنَ ۞(سورۃ المؤمنون: آیت، 60)
ترجمہ:  ’’اور وہ اللہ کی راہ میں جو بھی دیں مگر ان کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘
آیت مبارکہ پر غور فرمائیں کہ ایمان والے جب بھی خرچ کرتے ہیں تو ان کے دل دھڑکتے ہیں (کہ اللہ کے ہاں مقبول ہوگا کہ نہیں ) بتائیے دل کا دھڑکنا کیوں؟ یہ دھڑکنا صرف اور صرف تقویٰ ہے اور اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جیسا کہ بخاری میں ام حارثہ رضی اللہ عنہما کا قصہ موجود ہے: ’’کہ حارثہ رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہنے لگیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ حارثہؓ کا مجھ سے تعلق جانتے ہیں اگر وہ جنت میں ہوا تو میں صبر کرونگی اور اجر کی امید رکھوں گی اگر دوسری جگہ ہوا تو آپﷺ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں (یعنی رونا پیٹنا) فرمایا: بربادی ہو تیرے لئے (یہاں کلمۃ ویحک استعمال ہوا ہے جو عام طور پر اپنے اصل معنیٰ کے لئے نہیں بولا جاتا ) کیا تو نے بچہ گم کر دیا ہے؟ کیا وہ ایک جنت ہے؟ وہ تو کئی ساری جنتیں ہیں اور وہ (حارثہ ) جنت الفردوس میں ہے ۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ والنار رقم الحدیث، 6550)
اسی وجہ سے سیدنا اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:
’’کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں چوریاں کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: نہیں! اے صدیق کی بیٹی بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نا مقبول نہ ہو جائیں۔‘‘
(ترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ المؤمنین، 3175)
لہٰذا صحابہؓ کا نفاق سے ڈرنا یہ محض تقویٰ کی علامت ہے۔ مثلاً حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا: کیا حال ہے حنظلہ؟ میں نے کہا: حنظلہ کے دل میں نفاق آ گیا۔ (تعجب سے) فرمایا سبحان اللہ! کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں وہ جنت اور جہنم یاد دلاتے ہیں یہاں تک کہ گویا کہ ہم (جنت و جہنم کو) دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل جاتے اور گھر بار اور مال و اولاد میں گھل مل جاتے تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے پھر میں اور ابوبکر گئے حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے میں نے کہا: حنظلہ کے دل میں نفاق آ گیا یا رسول اللہﷺ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس بات پر؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں آپﷺ ہمیں جنت و جہنم یاد دلاتے ہیں گویا کہ ہم جنت و جہنم دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر جب ہم آپﷺ کے پاس سے نکل جاتے ہیں اور گھر بار اور مال و اولاد میں گھل مل جاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اسی حالت میں رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو اور ذکر میں تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ! کبھی اس طرح اور کبھی اس طرح یعنی ایک گھڑی میں آخرت کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور ایک گھڑی میں دنیاوی معاملات میں مشغول ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ تین دفعہ ارشاد فرمایا۔
(صحیح مسلم کتاب التوبۃ باب فضل دوام الذکر، 2750)
لہٰذا صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہتان اور امام بخاری رحمہ اللہ کو صحابہؓ دشمن کہنا یہ محض گمراہی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔