حکمت کی باتیں جو زبان زد ہوئیں
علی محمد الصلابیحکمت کی باتیں جو زبانِ زد ہوئیں
آپؓ نے فرمایا:
لو طھرت قلوبنا ما شبعتم من کلام ربکم۔
(جامع العلوم و الحکم: صفحہ، 363)
ترجمہ: ’’اگر ہمارے دل پاک ہوتے تو تم اپنے رب کے کلام سے آسودہ نہ ہوتے۔‘‘
آپؓ نے فرمایا:
ما اسر احد سریرۃ الا ابداھا الله تعالیٰ علی صفحات وجھہ و فلتات لسانہ۔
(فرائد الکلام للخلفاء الکرام: صفحہ، 269)
ترجمہ: ’’جب بھی کوئی شخص راز کی باتیں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے آثار اور زبان کی لغزشوں سے اس کو نمایاں کر دیتا ہے۔‘‘
آپؓ نے فرمایا:
ان الله لیزع بالسطان ما لا یزع بالقرآن۔
(الکامل فی اللغۃ والادب: جلد، 1 صفحہ، 157)
ترجمہ: ’’یقیناً اللہ تعالیٰ سلطان کے ذریعہ سے کچھ چیزوں کو مٹا دیتا ہے جو قرآن کے ذریعہ سے نہیں مٹاتا۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ دنیا کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے، چنانچہ آپؓ نے دنیا کے سلسلہ میں فرمایا:
ھم الدنیا ظلمۃ فی القلب وھم الآخرۃ نور فی القلب۔
(الاستعداد لیوم المعاد: صفحہ، 9)
ترجمہ: ’’دنیا کی فکر دل میں ظلمت و تاریکی ہے اور آخرت کی فکر دل میں نور و روشنی ہے۔‘‘
آپؓ کی بلیغ حکمت کی باتوں میں سے یہ قول ہے:
یکفیک من الحاسد انہ یغتمُّ وقت سرورک۔
(مجمع الامثال، المیدانی: جلد، 2 صفحہ، 453)
ترجمہ: ’’حاسد کے سلسلہ میں تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ جب تم خوش ہوتے ہو وہ غمگین ہوتا ہے۔‘‘
آپؓ نے فتنہ کے ایام میں فرمایا:
استغفر الله إن کنت ظلمت، و قد عفوت إن کنت ظلمت۔
(تاریخ خلیفۃ بن خیاط: صفحہ، 171)
ترجمہ: ’’میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اگر میں نے ظلم کیا ہے اور اگر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے تو میں نے معاف کر دیا۔‘‘
آپؓ کی حکمت و موعظت کی باتوں میں سے یہ ارشاد ہے:
إن لکل شیء آفۃ، و لکل نعمۃ عاھۃ، وإن آفۃ ھذا الدین و عاھۃ ھذہ النعمۃ عیَّابون صغَّانون، یرونکم ما تحبون، و یسرون ما تکرھون، طغام مثل النعام۔
(مجمع الامثال، المیدانی: جلد، 2 صفحہ، 453)
ترجمہ: ’’یقیناً ہر چیز کے لیے آفت ہے، اور ہر نعمت کے لیے زوال ہے، اور یقیناً اس دین کی آفت اور اس نعمت کا زوال عیب جو تمہاری پسندیدہ چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں اور تمہاری نا پسندیدہ چیزوں کو چھپاتے ہیں، شتر مرغ کی طرح بے وقوف ہیں۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما جب افریقہ کو فتح کر کے مدینہ پہنچے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں خطاب کرنے کا حکم فرمایا۔ جب وہ اپنے خطاب سے فارغ ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
انکحوا السناء علی آبائھن و اخوتھن، فإنی لم ارفی ولد أبی بکر الصدیق أشبہ بہ من ھذا۔
(البیان والتبیین: جلد، 2 صفحہ،95)
ترجمہ: ’’خواتین سے شادیاں ان کے آباء و اجداد اور بھائیوں کو دیکھ کر کیا کرو، میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں اس نوجوان سے زیادہ ان کے مشابہ نہیں پایا۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی والدہ سیدہ اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنہما تھیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شجاعت و بہادری اور فصاحت و بلاغت میں اپنے نانا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مشابہ تھے۔
(فرائد الکلام: صفحہ، 271)
آپؓ نے فرمایا:
ما من عامل یعمل عملا إلا کساہ الله رداء عملہ۔
(الزہد، امام احمد: صفحہ، 185)
ترجمہ: ’’عمل کرنے والا جو عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عمل کی چادر اس کو اوڑھا دیتا ہے۔‘‘
آپؓ نے فرمایا:
مومن چھ طرح کے خوف سے گھرا ہوا ہے:
- اللہ کا خوف کہ کہیں اس سے ایمان نہ چھین لے۔
- نگران فرشتوں کا خوف کہ کہیں اس کے کسی کرتوت کو نوٹ نہ کر لیں، جس سے قیامت کے دن وہ رسوا و ذلیل ہو۔
- شیطان کا خوف کہ کہیں اس کے عمل کو برباد نہ کر دے۔
- ملک الموت کا خوف کہ کہیں اچانک غفلت کی حالت میں اس کی روح نہ قبض کر لے۔
- دنیا کا خوف کہ کہیں اس سے دھوکا نہ کھا جائے اور دنیا اس کو آخرت سے غافل نہ کر دے۔
(فرائد الکلام للخلفاء الکرام: صفحہ، 278 ۔مؤلف نے چھٹا خوف ذکر نہیں کیا۔ مترجم)
آپؓ نے فرمایا:
میں نے عبادت کی لذت چار چیزوں میں پائی:
- اللہ کے فرائض کی ادائیگی میں۔
- اللہ کے محارم سے اجتناب میں۔
- ثوابِ الہٰی کے حصول کی خاطر امر بالمعروف میں۔
- غضبِ الہٰی سے بچاؤ کی خاطر نہی عن المنکر میں۔
(فرائد الکلام للخلفاء الکرام: صفحہ، 278)