Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

واقعہ تحکیم اور شرائط

  علی محمد الصلابی

واقعہ تحکیم اور شرائط

جنگ صفین کے اختتام پر فریقین میں تحکیم پر اتفاق ہوا، اس کا طریقہ کار یہ طے پایا کہ فریقین اپنی اپنی طرف سے ایک ایک آدمی کو حکم مقرر کریں گے اور پھر وہ دونوں مسلمانوں کی مصلحت پر مشتمل بالاتفاق کوئی فیصلہ کریں گے اس کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا تقرر کیا اور  اس کے لیے فریقین کے مابین باقاعدہ ایک معاہدہ تحریر کیا گیا جس کی رو سے ان کے نمائندوں کو ماہ رمضان ۳۷ھ میں دومۃ الجندل کے مقام پر اکٹھا ہونا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے بعض لوگوں کی رائے میں ان کا یہ عمل ایسا گناہ تھا جو کہ موجب کفر تھا، لہٰذا انہیں اس سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا چاہیے، مگر جب آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے آپ کے خلاف بغاوت کر دی جس کی وجہ سے انہیں خوارج کے نام سے موسوم کیا گیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا تو انہوں نے ان سے مناظرہ اور جدل و جدال کیا مگر وہ بے سود رہا۔ پھر ان سے بذاتِ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مناظرہ کیا جس کے نتیجہ میں ان سے کچھ لوگ تو واپس لوٹ آئے مگر دوسروں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ان لوگوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ایسی تباہ کن جنگیں ہوئیں جن کی وجہ سے ان کا لشکر کمزور پڑ گیا اور ان کے رفقاء کی کمر ٹوٹ گئی، خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کا تعاقب جاری رکھا یہاں تک کہ قتل کر ڈالا۔
قضیہ تحکیم تاریخ خلافت راشدہ کا اہم ترین موضوع ہے جس کی وجہ سے اکثر قلم کار سر پکڑ کر بیٹھ گئے جبکہ بعض مؤرخین نے بے بصیرتی سے کام لیتے ہوئے اسے اپنی تالیفات میں درج کر دیا اور اس کے لیے انہوں نے ان ضعیف اور موضوع روایات پر اعتماد کیا جنہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خصوصاً ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کی تنقیص و توہین کرنے کے لیے تراشا گیا جن کے بارے ان کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی سادہ لوح اور کمزور رائے کے مالک تھے اور یہ کہ وہ بہت جلد لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں کے دھوکے میں آ جاتے تھے اور یہ کہ وہ بڑی حد تک عاقبت نااندیش تھے، لہٰذا وہ قضیہ تحکیم میں عمرو بن العاص کی چال میں آ گئے، جبکہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ بڑے مکار اور دھوکہ باز قسم کے انسان تھے۔ ناقدین اسلام نے ان اوصاف ذمیمہ سے ان دو عظیم انسانوں کو متصف قرار دیا جنہیں مسلمانوں نے اپنے اندر پائے جانے والے اس بہت بڑے اختلاف کو دور کرنے کے لیے منتخب کیا جس نے ان کی بہت بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، دشمنان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے وضع کردہ ان روایات کو بہت سارے مؤرخین، محققین اور ادباء نے تاریخی حقائق کے طور سے تسلیم کیا اور عوام الناس نے بھی انہیں بلا سوچے سمجھے قبول کر لیا، پھر چونکہ ان روایات کو جذبات بھڑکانے والے دھوکہ دہی اور مکر و فریب کے حامل واقعات کا رنگ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے انہیں بڑی اہمیت دی اور مؤرخین نے انہیں مدوّن کرنے میں بڑی دلچسپی دکھائی۔آئندہ سطور میں ہم واقعہ تحکیم کی تفصیلات پر گفتگو کریں گے نہ کہ اصل واقعہ پر، اس لیے کہ وہ شک و شبہ سے بالاتر ایک تاریخی حقیقت ہے۔

[مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری، ص: ۳۷۸۔ تنزیہ لخال امیر المؤمنین معاویۃ، ص: ۳۸.] 

وثیقہ تحکیم کی نص

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

۱۔ یہ معاہدہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ، ان کے گروہ اور معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما اور ان کے گروہ کے درمیان ہے۔ انہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس معاہدہ کو خوشی سے تسلیم کیا ہے۔
۲۔ علی رضی اللہ عنہ اہل عراق کے ذمہ دار ہوں گے یہاں موجود لوگوں کے بھی اور غیر موجود لوگوں کے بھی جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اہل شام کے ذمہ دار ہوں گے یہاں موجود لوگوں کے بھی اور غیر موجود لوگوں کے بھی۔
۳۔ قرآن عزیز جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اسے صدقِ دل سے تسلیم کریں گے۔
۴۔ علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) کو جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو حکم مقرر کیا ہے۔
۵۔ علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ فیصلہ کے دوران قرآن کو اپنا امام بنائیں گے اور اس سے ہرگز تجاوز نہیں کریں گے اور اگر انہیں قرآن سے راہنمائی نہ ملے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کریں گے۔
۶۔ یہ دونوں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ فریقین کے لیے واجب التسلیم ہو گا اور انہیں اس سے انحراف کی اجازت نہیں ہو گی۔
۷۔ حَکمَین کی جان، مال، اہل و عیال اور اولاد بالکل محفوظ رہیں گے اور وہ حق سے تجاوز نہیں کریں گے، اس سے کوئی راضی ہو یا ناراض۔
۸۔ اگر فیصلہ کے اعلان سے قبل حَکمَین میں سے کوئی ایک مر جائے تو اس کے أعوان و أنصار کو اس کی جگہ کسی دوسرے ایسے شخص کو منتخب کرنے کا حق حاصل ہو گا جس کا شمار اہل عدل و صلاح میں ہوتا ہو۔
۹۔ اگر فیصلہ کے اعلان سے قبل امیرین میں سے کسی ایک امیر کا انتقال ہو جائے تو اس کی جماعت اس کی جگہ کسی دوسرے آدمی کو اپنا امیر مقرر کر سکے گی۔
۱۰۔ اس دوران فریقین میں مذاکرات ہوتے رہیں گے، ہتھیار اٹھانے پر پابندی ہو گی اور امن و امان کو برقرار رکھا جائے گا۔
۱۱۔ اس معاہدہ کی شرائط کا اطلاق امیرین، حکمین اور فریقین پر یکساں ہو گا، اور اگر حکمین اس معاہدہ کی مخالفت کریں یا اپنی حدود سے تجاوز کریں تو امت ان کے فیصلہ سے لاتعلق ہو گی اور وہ ان کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کی پابند نہیں ہو گی۔
۱۲۔ فیصلہ آنے تک لوگوں کو ان کی جان، مال، اہل و عیال اور اولاد کے حوالے سے امن و امان حاصل ہو گا، اسلحہ رکھ دیا جائے گا، راستے پرامن رہیں گے اور فریقین میں غائب شخص پر بھی وہی حکم لاگو ہو گا جو حاضر پر ہو گا۔
۱۳۔ حکمین شام اور عراق کے درمیان کسی مناسب جگہ پر ملاقات کر سکتے ہیں۔
۱۴۔ ان کے پاس صرف وہی شخص آ سکے گا جسے وہ باہم مشاورت اور رضامندی سے وہاں آنے کی اجازت دیں گے۔
۱۵۔ صلح کی یہ مدت رمضان المبارک کے اختتام تک جاری رہے گی، اگر حکمین اس سے قبل فیصلہ سنانا چاہیں تو انہیں اس کا حق ہو گا اور اگر وہ مدت کے اختتام تک اسے موخر کرنا چاہیں تو وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں۔

۱۶۔ اگر مقرر مدت میں فیصلہ نہ سنایا گیا تو فریقین کو ازسر نو جنگ شروع کرنے کا اختیار ہو گا۔
۱۷۔ امت اس عہد کی پاس داری کرے گی اور جو کوئی بھی اس معاہدہ کے حوالے سے ظلم و الحاد اور خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا۔ اُمت متحدہ قوت کے طور سے اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔
اس تحریری معاہدہ پر فریقین کے مندرجہ ذیل لوگوں کے دستخط تھے: اہل عراق کے گواہ: حسن بن علی، حسین بن علی، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب، اشعث بن قیس کندی، اشتر بن حارث، سعید بن قیس ہمدانی، حصین بن حارث بن عبدالمطلب، طفیل بن حارث بن عبدالمطلب، ابو سعید بن ربیعہ انصاری، عبداللہ بن خباب بن الارت، سہل بن حنیف، ابو بشر بن عمر انصاری، عوف بن حارث بن عبدالمطلب، یزید بن عبداللہ اسلمی، عقبہ بن عامر جہنی، رافع بن خدیج انصاری، عمر بن حمق خزاعی، نعمان بن عجلان انصاری، حجر بن عدی کندی، یزید بن حجیہ نکری ، مالک بن کعب ہمدانی، ربیعہ بن شرحبیل، حارث بن مالک، حجر بن یزید اور علبہ بن حجیہ۔
اور اہل شام کے گواہ تھے: حبیب بن مسلمہ فہری، ابو الاعور سلمی، بشر بن ارطاۃ قرشی، معاویہ بن خدیج کندی، مخارق بن حارث ذبیدی، مسلم بن عمرو سکسکی، عبداللہ بن خالد بن ولید، حمزہ بن مالک، سبیع بن یزید حضرمی، عبداللہ بن عمرو بن العاص، علقمہ بن یزید حضرمی، یزید بن ابجر عبسی، مسروق بن حبلہ عکی ، بسر بن یزید حمیری، عبداللہ بن عامر قرشی، عتبہ بن ابو سفیان، محمد بن ابو سفیان، محمد بن عمرو بن العاص، عمار بن احوص کلبی، مسعدہ بن عمرو عتبی، صباح بن جلہمہ حمیری، عبدالرحمن بن ذوالکلاع، تمامہ بن حوشب اور علقمہ بن حکم۔
یہ معاہدہ سترہ صفر ۳۷ھ کو بدھ کے دن لکھا گیا تھا۔

[ملاحظہ ہو: الوثائق السیاسیۃ، ص: ۵۳۷، ۵۳۸۔ الاخبار الطوال للدینوری، ص: ۱۹۶-۱۹۹.] 

اسم الكتاب: 
سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے