متعہ اور نکاح
مولانا اللہ یار خانؒمتعہ اور نکاح
علی نقی شیعہ نے اپنی کتاب کے صفحہ 39 پر بیان فرمایا ہے کہ متعہ اور نکاح میں کوئی فرق نہیں چونکہ ان کی شرائط و قیودات متحدہ ہیں چونکہ نکاح میں جذباتِ نفسی کا پورا کرنا مقصود ہوتا ہے نہ ہمیشہ حصولِ اولاد اور متعہ میں بھی جذباتِ نفسی کا پورا کرنا مقصود ہوتا ہے اور متعہ بھی دس بیس سال بلکہ سو پچاس سال تک کے لیے کیا جاتا ہے جس سے آگے انسان کی عمر متجاوز ہونے کی توقع ہی نہیں ہوتی۔
الجواب: اول متعہ کا مفہوم سمجھ لیا جائے تا کہ نکاح اور متعہ میں فرق معلوم ہو جائے اور علی نقی شیعہ کی دیانت داری واضح ہو جائے۔
اصل المتعه والمتاع ما ينتفع به انتفاعا غير باق بل منقضيا عن قريب ولهذا يقال الدنيا متاع ويسمى التلذذ تمتعا لا انقطاعه بسرعة وقلة لبثه۔ (کبیر: صفحہ 270 جلد 2)۔
متعہ اور متاع اصل میں وہ چیز ہوتی ہے جس کے ساتھ نفع اٹھایا جائے غیر باقی رہنے والی ہو جبکہ جلدی سے ضائع ہو جانے والی ہو اسی وجہ سے دنیا کا نام متاع رکھا گیا ہے اور تلذذ و لذت کا نام بھی تمتع رکھا جاتا ہے کہ یہ بھی جلدی منقطع ہو جاتا ہے اور تھوڑا وقت ٹھہرتا ہے۔
فائدہ: ثابت ہوا کہ متعہ بالنساء تلذذ و لذت پر بولا جاتا ہے جو جلدی زائل ہو جاتا بہر حال متعہ دیرپا چیز پر نہیں بولا جاتا، لہٰذا علی نقی شیعہ کا یہ کہنا کہ ہر سو پچاس برس تک کے لیے بھی کیا جاتا ہے غلط ہوا متعہ بھی ہو اور سو سال تک بھی۔
2: نیز متعہ نابالغہ لڑکی میں نہ کیا جائے گا، چونکہ ان میں شہوت کا مادہ ہی نہیں، تو تلذذ کہاں ہوگا؟ نیز متعہ میں گواہ شرط نہیں ہیں۔
3: نیز متعہ خود بخود زائل ہو جاتا ہے وقت گزرنے پر۔
4: نیز ہمیشہ جذباتِ نفسی کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ اولاد کے لیے ورنہ متعہ میں گواہ شرط ہوتے جیسا کہ سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ جس نکاح میں میراث اولاد کو مقصود ہوگا اس میں گواہ شرط ہوں گے۔
5: نیز متعہ میں لڑکی والوں کو سسرال سے تعبیر کسی نے نہیں کیا اور نہ ہی کیا جاتا ہے۔
اب ذرا نکاح کا معنیٰ اور مفہوم بھی سمجھ لیں اور طلاق کا بھی۔
ومعنىٰ الطلاق هو حل عقد النکاح۔(کبیر: جلد 2 صفحہ239)
طلاق کا معنیٰ ہے: کھول دینا گرہ نکاح کو نکاح کا مفہوم ہوا گرہ لگانا اور حلِ گرہ طلاق ہوئی۔
فائدہ: عقد نکاح کا معنیٰ تلذذ کا نہ ہوا۔
- تو نکاح خود بخود زائل نہ ہوگا بلکہ طلاق سے حل ہوگا۔
- نکاح میں بلوغت شرط نہیں ہے۔
- عقد نکاح میں گواہ شرط ہیں، متعہ میں نہیں۔
- نکاح کی وضع حصولِ اولاد کی وجہ سے ہے نہ کہ متعہ میں۔
- نکاح میں جانبین سسرال کہلاتے ہیں نہ کہ متعہ میں۔
اب قولِ رسولﷺ پر ذرا غور کرنا:
قال إن النبیﷺ رخص لنا ثلاثه ايام۔
حضور انورﷺ نے صرف تین دن رخصت فرمائی نکاح مؤقت کے لیے پھر حرام فرما دیا تھا قیامت تک کے لیے۔
علی نقی شیعہ سو پچاس برس کے لیے متعہ کرنا اگر جائز ہے تو قولِ رسولﷺ اور فعلِ صحابی سے پیش کریں۔ حضورﷺ تو نکاح مؤقت کی اجازت صرف تین دن کے لیے دیں اور آپ سو پچاس برس تک کریں یہ مخالفتِ رسولﷺ نہیں تو اور کیا ہے؟۔
علی نقی شیعہ کا تجویز کردہ متعہ کی اجازت ہرگز رسول اللہﷺ سے نہ فعلِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے نہ علی نقی شیعہ ثابت کر سکتے ہیں متعہ کو خیبر کے غزوہ کے دن قبل از وقوعِ رسول اللہﷺ نے حرمت کا اعلان کر دیا تھا کسی صحابی سے متعہ کا فعل ثابت نہ ہوا نہ ہو سکتا ہے جو ہوا وہ نکاح مؤقت تھا نہ کہ متعہ پھر یہ متعہ اور نکاحِ مؤقت قولِ رسولﷺ سے حرام ثابت ہیں جب حرام ثابت ہیں تو بعد حرمت کسی کا قول یا فعل قابلِ قبول نہ ہوگا نہ ہی حجت ہوگا باقی جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے قولاً یا فعلاً اباحتِ متعہ یا نکاحِ مؤقت ثابت ہوتی ہے ان کا قول یا فعل دو حالتوں سے خالی نہ ہوگا یا انہوں نے عمداً مخالفتِ رسول اکرمﷺ کی کی ہے بعد بیان حرمتِ متعہ کے یا ان کو حرمتِ متعہ کی حدیث کا علم نہیں ہوا۔ ایک مؤمن یوں ہی کہے گا کہ ان کو حرمت متعہ کا علم نہیں ہوا تھا اور جب علم ہوا تو فوری رجوع کر لیا تھا جیسا کہ آگے آ جاتا ہے اور اسی حرمتِ متعہ پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہو گیا تھا پس ثابت ہوا کہ متعہ اور نکاح دائمی ایک چیز نہیں دونوں کو ایک کہنا علی نقی شیعہ کی غلطی ہے۔
علی نقی شیعہ کو لفظ نکاح و زوجہ سے دھوکہ لگا اور غریب نے غلطی کر کے ٹھوکر کھائی ہے اس بناء پر ممتوعہ عورت کو منکوحہ و زوجہ میں داخل سمجھا علی نقی شیعہ آپ نے کس دلیل سے ممتوعہ کو زوجہ و منکوحہ میں داخل فرمایا ہے؟ وہ دلیل پیش کریں۔ آپ نے اپنی کتاب متعہ اور اسلام میں کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی قرآنِ کریم میں جس زوجہ اور منکوحہ کا ذکر ہے اس کے مقابل طلاق بھی مذکور ہے اور خلع بھی اور ظہار بھی اور ایلاء بھی اور میراث بھی مذکور ہےاور اس منکوحہ و زوجہ کے متعلق تعدادی ہدایت بھی مذکور ہے کہ چار تک نکاح میں لا سکتے ہیں۔
قال تعالىٰ: فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَةً الخ۔(سورۃ النساء:آیت 3)
ترجمہ: اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم (ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو۔
علی نقی شیعہ! آپ وہ آیت قرآنِ کریم سے پیش کریں جس میں قیودات و شرائطِ متعہ مذکور ہوں جس طرح نکاحِ صحیح کے مذکور ہیں تا کہ معلوم ہو جائے کہ ممتوعہ بھی زوجہ ہے مگر آیت ایسی پیش کریں جس میں یہ مذکور ہو کہ ایک نکاح وہ بھی ہے جس میں نہ طلاق کی ضرورت ہے نہ اس منکوحہ کو میراث ملے گی نہ اس کے لئے خلع ہے نہ ظہار ہے نہ ایلاء، اگر یہ شرائط متعہ کے لیے مذکور نہیں آپ نے قرآن کی تحریف کی ہے اور عرف میں بھی ممتوعہ کو زوجہ نہیں کہا جاتا عرف میں جب ہی زوجہ یا منکوحہ کا ذکر کیا جائے گا تو فوراً ذہن منکوحہ بنکاحِ صحیح کی طرف منتقل ہوگا، نہ کہ ممتوعہ کی طرف بلکہ اس کو عرف عام میں کوئی نکاح کہتا ہی نہیں بلکہ اس کو متعہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور استعمال قوم ہی حقیقت کی دلیل ہوتی ہے اور عرف قوم میں اور استعمال قوم میں نکاح سے نکاح صحیح ہی مراد لیا جاتا ہے چونکہ ان دونوں کے نام علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ایک کا نام نکاح دوسرے کا نام متعہ ہے۔
تفسیر روح المعانی میں زیر آیت: فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ
(سورۃ المعارج: آیت 31) لکھا ہے کہ ممتوعہ نہ باندی
ہے نہ زوجہ۔
والايت ظاهرة فی ردها (ای)، متعه لظهور ان العمارة للجماع ليست بزوجة ولا مملوكة۔
آيت ردِ متعہ میں ظاہر ہے چونکہ یہ بات کہ مستعارہ مانگی ہوئی عورت وطی کے لیے، نہ زوجہ میں داخل ہے نہ لونڈی میں۔
قال اللہ تعالىٰ: وَمَنۡ لَّمۡ يَسۡتَطِعۡ مِنۡكُمۡ طَوۡلًا اَنۡ يَّنۡكِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ مِّنۡ فَتَيٰـتِكُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ الخ۔
(سورۃ النساء: آیت 25)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ اس بات کی طاقت نہ رکھتے ہوں کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرسکیں، تو وہ ان مسلمان کنیزوں میں سے کسی سے نکاح کر سکتے ہیں جو تمہاری ملکیت میں ہوں۔
الىٰ قوله: ذٰ لِكَ لِمَنۡ خَشِىَ الۡعَنَتَ مِنۡكُمۡ وَاَنۡ تَصۡبِرُوۡا خَيۡرٌ لَّكُمۡ الخ۔
(سورۃ النساء: آیت 25)
وقال الله تعالىٰ: وَلۡيَسۡتَعۡفِفِ الَّذِيۡنَ لَايَجِدُوۡنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغۡنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ الخ۔
(سورۃ النور: آیت 33)
ترجمہ: اور جن لوگوں کو نکاح کے مواقع میسر نہ ہوں، وہ پاک دامنی کے ساتھ رہیں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں بے نیاز کردے۔
فائدہ:
اول: منکوحہ بنکاحِ صحیح کے بعد لونڈی کا ذکر کرنا متعہ کی بیخ کنی کرتا ہے ورنہ متعہ تو چار آنہ پر کیا جاسکتا تھا۔ اور لونڈی پر ہزاروں روپیہ خرچ آتا ہے۔
دوم: فرمایا لونڈی سے نکاح سے صبر کرنا اچھا ہے اگر متعہ مباح ہوتا تو صاف حکم دیا جاتا کہ لونڈی اگر نہیں کرنا چاہتے تو دو آنہ پر ایک جماع کے لیے متعہ کر لیا کریں۔
سوم: ذٰلِكَ لِمَنۡ خَشِىَ الۡعَنَتَ الخ۔ (سورۃ النساء: آیت 25)کی قید نے متعہ کی جڑ اکھاڑ دی ہے فرمایا لونڈی سے نکاح کی اجازت خوفِ زناء کی وجہ سے دی ہے اگر متعہ مباح ہوتا تو فرما دیا ہوتا لونڈی نہ کریں اگر ڈر بدکاری کا پیدا ہو جائے تو متعہ کر لیا کریں چونکہ متعہ تو ایک جماع کے لیے چار گھنٹہ چار رات کے لیے بھی کیا جا سکتا تھا دو چار آنہ پر۔