Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نکاح اور علمائے شیعہ

  مولانا اللہ یار خانؒ

نکاح اور علمائے شیعہ

تمام شیعہ عموماً اور علی نقی صاحب خصوصاً غور فرمائیں نکاحِ اختصاص اور ارتباطِ جانبین کو چاہتا ہے خاص کر کے اختصاص عورت کا مرد سے اور نکاح میں یہی امر مطلوب ہے اور مطمعِ نظر ہے کہ عورت مرد کے ساتھ خاص ہو جائے اس اختصاص کی وجہ سے دیگر مردوں کا طمع ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس اختصاص کے عملی پہلو مختلف موجود ہیں لیکن بشہادت فطرتِ سلیمہ اس سے اچھا پہلو کوئی نہیں معلوم ہوتا کہ عورت سے بلاواسطہ یا بالواسطہ اس اختصاص کا اقرار علی رؤس الاشہاد لیا جائے جس میں بہتر پہلو یہی ہے کہ عورت کے والی بھی حاضر ہوں اور اس اختصاص اقرار کو شریعت نے شرط قرار دیا ہے تاکہ باقی مردوں کا طمع و خواہش اس عورت سے کلی طور پر ختم ہو جائے اور عدمِ شہود کی وجہ سے جو نوبت جنگ و جدال پیش آتی ہے وہ ختم ہو جائے اور اس اختصاص اقرار علی رؤس الاشہاد کا نام شریعت نے نکاح رکھا ہے اور جو عورت مرد بغیر گواہوں کے ایجاب کریں گے وہ حدِ زنا میں داخل ہے نہ نکاح میں بھلا زانی زنا پر گواہ قائم کرتا ہے کیا زانی و زانیہ کو اولاد مقصود ہوتی ہے یا صرف خواہشِ نفس پوری کرنی مقصود ہوتی ہے کیا زانی کو جس کی اولاد اس زنا سے پیدا ہو جائے۔ اس کو میراث دینی مقصود ہوتی ہے ہر گز نہیں کیا زانی و زانیہ والیوں کو اطلاع دینا چاہتے ہیں ہرگز نہیں کیا جب مرد عورت نے خفیہ نکاح کر لیا ہے بغیر گواہوں کے ورثاء لڑکی کو خبر نہیں چونکہ گواہوں کی تو مذہب شیعہ میں ضرورت نہیں ہے ورثاء لڑکی نے دوسری جگہ نکاح کر دیا۔ اب اول مرد جو ناکح ہے وہ تنازعہ اٹھا دیتا ہے کہ میرا نکاح ہے والی انکار کرتے ہیں بتائیں! فیصلہ بغیر گواہوں کے کیا ہو گا؟ یا لڑکی نے چھ ماہ کے لئے متعہ یا نکاح کر لیا پھر دس دن بعد ان میں ناچاکی ہوگئی، وارثوں کو علم نہیں وہ تو رات کو چوری نکاح کر لیتے ہیں پھر لڑکی انکاری ہوگئی۔ اور دوسری جگہ نکاح کرنا چاہتی ہے اب تنازعہ کو کس طرح ختم کیا جائے گا بغیر گواہوں کے یا مرد اس نکاح و متعہ کا انکار کر دیتا ہے بعد وطی کے، اور وطی سے اولاد ہوگئی ہے اور گواہ موجود نہیں بتائیں وہ اولاد کس کھاتہ میں؟۔

واہ! نقی علی شیعہ اولاد اور میراث کے لیے تو گواہ شرط ہیں مگر نکاح اور وطی کے لیے کوئی شرط نہیں مرد عورت جہاں راضی ہو جائیں وطی حلال، خوب کسی ذی عزت کی عزت قائم نہ رہے گی بلکہ یہ متعہ اور نکاح ہر برائی و شرارت و قتال کا اعلان ہے اور ذرا یہ بھی فرمانا کہ پھر دیگر حیوانات اور انسان میں کیا فرق ہو گا؟ کیا ہر بیل، گدھا، کتا، گیدڑ پرندہ اسی طرح جوڑا جوڑا موجود نہیں ہیں؟ یقیناً جوڑا جوڑا ہیں۔ جو مادہ جس نر کو قبول کر لیتی ہے اُسی کا جوڑا بن جاتی ہے اور رضا مندی ہی ایجاب و قبول ہے اور یہی جناب کی تحقیق ہے ذرا انصاف کرنا۔

قال الرازی انه لا يبقى فرق بين الانسان وبين البهائم من غير اختصاص من الذكرون بالاناث۔

تحقیق شان یہ ہے کہ انسان اور حیوان میں (بغیر گواہوں کے) کوئی فرق نہ رہ جائے گا جب تک مردوں کا عورتوں سے اختصاص پیدا نہ ہو جائے۔

انه ليس المقصود من المرة مجرد قضاء الشهوة بل ان يتصرف شريكة الرجل فی ترتيب المنزل واعداد مهماته من المطعوم والمشروب والمبلوس وان تكون ربه البيت وحافظة للباب وان تكون قائمة بأمور الاولاد والعبيد وهذه المهمات لا تتم الا اذا كانت مقصورة الهمة علىٰ هذا الرجل الواحد ومنقطع الطمع عن سائر الرجل (تفسير كبير :جلد 5 صفحہ 394)۔

 عورت سے مجرد قضاءِ شہوت مقصود نہیں ہے بلکہ مقصودِ اصلی یہ ہے کہ عورت مرد کے ساتھ ہو ترتیب منزل میں اور باقی خانگی امور میں جیسے کھانا پکانا، پانی، لباس وغیرہ میں اور حفاظتِ گھر میں اور پرورشِ اولاد وغیرہ میں اور یہ تمام امور پورے نہیں ہوتے جب تک کہ عورت ایک مرد پر اختصاصی طریقہ سے بند نہ ہو جائے اور تمام مردوں سے منقطع الطمع نہ ہو جائے۔

(فائدہ) ثابت ہوا کہ جب تک عورت کا اختصاص علی رؤس الاشہاد ایک مرد سے نہ ہو جائے۔ اس وقت تک نہ یہ زوجہ ہے، نہ منکوحہ ہے نہ زوج زوج ہے۔

علی نقی صاحب نے اپنی کتاب متعہ اور اسلام کے صفحہ 26 پر ایک خیالی و وہمی گھوڑا دوڑایا ہے کہ کافی سے زائد انسان سفر کر رہے ہیں اور ایک مکان پر قرار بھی نہیں کرتے اور بیوی کے عقدِ دائمی کے زنجیروں میں محبوس ہونا نہیں چاہتے اور جذباتِ نفسانی بھی رکھتے ہیں اور کبھی کبھی گھر میں منکوحہ کسی شدید مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے جس سے جذباتِ نفسی پورے نہیں کیے جا سکتے تو ان صورتوں کا شریعت میں ضرور کوئی حل ہونا چاہیے اور وہ حل متعہ کی صورت میں ہے۔ راقم الحروف کہتا ہے کہ اس قسم کے احتمالات سے کام نہیں چلتا۔ 

(دیکھو فتح الباری: صفحہ 139 جلد 1، مطبوعہ مصر)۔

وقد دللنا وقلنا غير مرة ان الاحتمالات العلقيه لا مدخل لها فی الامور النقلية

ہم دلیل پیش کر چکے اور کئی بار بیان کر چکے ہیں کہ احتمالاتِ عقلیہ کو امورِ شرعی میں کوئی دخل نہیں ہے۔

و قدمنا ان التجويزات العقليه لا يليق استعمالها فی الامور النقلية۔

(فتح الباری: صفحہ 134 جلد 1، مطبوعہ مصر)۔

 اور ہم اول بیان کر آئے ہیں کہ تجویزاتِ عقلیہ کو امورِ شرعی نقلی میں کوئی دخل نہیں۔

فائدہ: علی نقی صاحب! یہ جناب کا تیر اٹکل اپنے نشانہ پر ٹھیک نہیں بیٹھتا مجتہد صاحب! توہمی گھوڑے کے لیے میدان وسیع ہے اس سے بھی آگے جا سکتا ہے یہ جناب کی تجویزاتِ عقلیہ ہیں جن کا شریعتِ اسلامی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے عقلیات سے امورِِ نقلی کبھی ثابت نہیں کیے جا سکتے۔ آپ اپنی عقل سے جذباتِ نفسی و خواہشِ نفسی کو متعہ کی اباحت کی دلیل بناتے ہیں چونکہ خواہشِ نفس موجود ہے لہٰذا متعہ حلال ہوا کیا خوب دلیل ہے۔ اور جو شخص دائمی نکاح کی قید میں بند نہیں رہنا چاہتا۔ خدا اور رسول اللہﷺ کے مقرر کردہ قانون کی پابندی اس کو پسند نہیں تو اسلام سے آزاد ہو جائے۔اسلام خواہشات کا تابع نہیں ہے، خواہشات کو اسلام کے تابع کرنا ہوگا باقی گھر میں بیوی شدید مرض میں مبتلا ہے تو چار عورتوں سے عقد کی اجازت ہے اور کر لے۔

اعلان: اپنا مروجہ متعہ جس کو آپ محبوب سمجھتے ہیں اس کا ثبوت دیں قولِ رسولﷺ سے کہ زمانۂ رسول اللہﷺ میں کسی وقت گھر میں اس کی اباحت کا حکم رسول اللہﷺ نے دیا تھا بعد گھر کا نام نہ لیں ورنہ باز آ جائیں۔ اچھا تو یہ فرمانا کہ ایک مسافر بقول جناب کے ایک مقام پر نہیں ٹھہرتا سفر کرتا رہتا ہے دس بیس سال سفر کیا اور اس سفر میں متعہ ہر مکان میں کرتا رہا، اس متعہ سے اولادیں بھی پیدا ہوئیں پھر اس مکان پر واپس نہیں آیا۔ اس اولاد کا خرچ کس کے ذمہ ہو گا؟ رات کو چوری متعہ کر کے چلا گیا پھر اولاد ہوئی لوگ اس گاؤں کے کیا کہیں گے، پھر وہی شخص پندرہ سال کے بعد اس مکان پر آیا پر غلطی سے اپنی لڑکی سے متعہ کر بیٹھا بوجہ عدمِ علم کے یا اس کا کوئی بھائی یا بیٹا اس مکان سے گزرے اس نے اس لڑکی سے متعہ کر دیا اُن سے جو اولاد ہوگی اس کو کیا کہا جائے گا یہ ہے متعہ کا کرشمہ۔